دنیا کا اختتام

کیا ہمارا اختتام آن پہنچا ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹرجویریہ سعید:
حالات سخت ہیں اور کبھی ایسا لگتا ہے کہ سخت تر ہوتے جارہے ہیں۔
مگر اللہ کریم نے جب تک نسل انسانی کو باقی رکھنا ہے ، یہ باقی رہے گی۔
اللہ کے وعدے پورے ہونے ہیں۔

ہو سکتا ہے کئی مر جائیں۔ مگر بہت سے ان شاءاللہ زندہ رہیں گے۔ اور کاروبار زندگی چلتا رہے گا۔ اسی طرح جیسے دوسری انفرادی و اجتماعی آفات کے بعد چلتا رہتا ہے۔
جانے والوں کی جدائی کی کسک رہتی ہے مگر آگے بڑھنا آجاتا ہے۔
مجھے نہیں لگتا کہ ابھی ہمارے اختتام کا وقت آپہنچا ہے۔

اذانیں ہوتی ہیں، قرآن پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے، اللہ کے نام پر جانیں لٹانے والے اور تنہائی میں اس کے سامنے آنسو بہانے والے ابھی باقی ہیں۔ اس کے نام کو بلند کرنے والے ابھی بے شمار ہیں۔ اس کے محبوب صلی اللہ وسلم سے محبت کرنے والے بے شمار ہیں۔

انسانوں کا درد محسوس کرنے والے اٹھا نہیں لیے گئے۔ ابھی بہت باقی ہیں۔
ابھی سب روحوں سے محروم زومبیز نہیں بنے۔ بے شمار ملتے ہیں جن کے وجود میں کوئی نرم اور گرم سی شے دھڑکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جو اپنی خطا یا کسی کے درد پر گرم اور نمکین سیال کی صورت آنکھوں سے بہتی نظر آتی ہے۔

مجھے نہیں لگتا کہ بساط لپیٹ دی جائے گی۔
لیکن موت آنی تو ہے۔
اور دنیا کا خاتمہ بھی ایک بڑی سچائی ہے۔

موت جس کی ای میل مجھے آچکی ہے بس ملاقات کے وقت کا تعین نہیں ہوسکا۔ آج کل ریمائنڈرز مل رہے ہیں تو دھیان بڑھ گیا ہے۔
موت جو ایک دوسری ایسی زندگی کا دروازہ ہے جو میرے کوششوں اور رب کی رحمت کے طفیل بہت حسین بھی ہوسکتی ہے۔
ابدی زندگی ، جہاں نہ موت ہوگی، نہ بیماری اور نہ خوف و حزن۔

میں روز اسپتال جاتی ہوں۔
ہر روز کوئی نہ کوئی کولیگ وائرس کے شبے میں گھر بھیجا جاتا ہے اور کچھ روز بعد واپس آجاتا ہے۔
کچھ روز ہم نے کم سے کم اسٹاف کے ساتھ کام کیا کہ اکثر گھر بھیج دیے گئے تھے۔
ہم فون اور کمپیوٹر پر میٹنگز کرتے ہیں۔ پڑھتے ہیں۔ اور ہم بالمشافہ بھی ملا کرتے ہیں
مریض دیکھتے ہیں۔

ہمارے پاس ماسکس نہیں ہیں اور ہم سوشل ڈسٹنسنگ اور ہینڈ ہائیجین کی ہدایات پر عمل کررہے ہیں۔ ہم جو دنیا کے ایک ترقی یافتہ ملک کے جدید مرکز میں کام کررہے ہیں۔
ہم ایک دوسرے کی ہمت بڑھاتے ہیں اور ایک دوسرے کو ہنساتے ہیں۔

گھر جاتی ہوں تو چھوٹے بچوں اور بزرگ والد صاحب سے ملنے سے قبل ہاتھ اور منہ اچھی طرح دھو لیتی ہوں۔
پھر ہم آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ کہانی سناتے ہیں۔
اور سو جاتے ہیں۔

میں الحمدللہ اپنے اندر خوف اور بے یقینی کی کوئی رمق محسوس نہیں کرتی۔ میرے غم کچھ اور ہیں۔
آپ بھی خوفزدہ نہ ہوں۔
ابھی اللہ کا نام، اس کی محبت ، اس کے محبوب کی محبت باقی ہے،
ابھی لوگ دوسرے انسانوں کے لیے خود کو تھکاتے ہیں،
ابھی انسانوں کا درد باقی ہے،

میں نے لوگوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ سب کے سب انسان ابھی شیطان نہیں بنے۔ ان کے سینوں میں کوئی نرم گرم سی شے دھڑکتی محسوس ہوتی ہے جو آنکھوں سے گرم سیال بن کر بہتی بھی نظر آتی ہے۔
مجھے نہیں لگتا کہ ابھی ہمارا اختتام آن پہنچا ہے۔

ہاں اس کا مجھے علم نہیں کہ میرا وقت ملاقات کیا طے ہوا ہے۔
بس زاد سفر سمیٹتے رہیں کہ ریمائنڈرز تو اچھی چیز ہوتے ہیں اور ضروری بھی۔ فرج پر لگے شاکنگ پنک نوٹ کی طرح!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں