پہلی بات تو یہ سمجھ لینی چاہیے کہ عمومی طور پر پڑھے لکھے لوگ یا آپ لوگوں کی اصطلاح میں عصری اداروں سے تعلیم یافتہ لوگ مذہبی لوگوں کو یا مولوی صاحبان کو علما نہیں سمجھتے۔
عام آدمی کا مولوی سے تعارف محلے کی مسجد کی سطح پر ہے، جہاں وہ نماز پڑھتا ہے یا اگر صرف جمعہ کی نماز پڑھتے جاتا ہے تو وہاں مولوی صاحب کی اردو تقریر سنتا ہے یا پھر نماز نہ پڑھنے والے بھی عید کی نماز تو پڑھ ہی لیتے ہیں، وہاں مولوی صاحب کی تقریر سننی پڑ جاتی ہے یا پھر سکولوں یا کالج میں اسلامیات پڑھانے والے اساتذہ سے واسطہ پڑا، عمومی طور پر یہ اساتذہ باریش اور سادہ شلوار قمیص پہننے والے یعنی مولوی کے حلیہ والے ہوتے ہیں۔
اگلا تعارف ان کا سیاسی حوالے سے پڑتا ہے جب دینی سیاسی جماعتوں کے قائدین مذہب کے نام پر ووٹ لیتے اور پھر عام روایتی سیاسی جماعتوں کی طرح پاورپالیٹیکس کرتے ، اقتدار کے لئے جوڑ توڑ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ان کا روایتی دینی حلقوں یا مولوی صاحبان سے کل تعارف ہے۔
جن لوگوں کی مذہب سے دلچسپی بڑھے وہ تفاسیر اور دینی لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں یوں ان کا واسطہ بڑے سکالرز سے پڑتا ہے جیسے مفتی شفیع صاحب۔ مولانا مودودی، مولانا ابوالحسن علی ندوی، ڈاکٹر حمیداللہ وغیرہ، مولانا آزاد کی کتابیں بھی ظاہر ہے ہر ایک کے مطالعے میں آتی ہیں، حضرت تھانوی کا لٹریچر بھی پڑھا جاتا ہے، اگرچہ ان کا آڈینس روایتی مذہبی حلقے میں زیادہ ہے، تصوف میں دلچسپی رکھنے والے چند ایک کتب کا ضرور مطالعہ کرتے ہیں کشف المحجوب وغیرہ۔
واصف علی واصف، پروفیسر احمد رفیق اختر، سرفراز شاہ صاحب وغیرہ کی کتابیں بھی اچھے خاصے حلقے میں پڑھی جاتی ہیں، مولانا وحیدالدین خان کا بھی اپنا حلقہ ہے، مولانا امین احسن اصلاحی ، جاوید احمد غامدی صاحب کی اپنی آڈینس ہے، اب چونکہ بڑی دینی کتاب بھی اکثر ترجمہ ہوچکی ہیں، اس لئے امام غزالی کی کتابیں بھی پڑھی جاتی ہیں، شاہ ولی اللہ بھی پڑھے جاتے ہیں، مگر نسبتاً کم اور سنجیدہ فکر رکھنے والوں میں۔
بریلوی مسلک کے لوگ کچھ اور علما کو پڑھتے ہیں، اسی طرح اہل تشیع کا مطالعہ ظاہر ہے مختلف ہے، ڈاکٹر علی شریعتی البتہ اہل سنت میں بھی پڑھے جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی کی آڈینس میں مولانا مودودی کے علاوہ بعض اخوانی سکالرز جیسے سید حسن البنا، سید قطب، محمد الغزالی بھی پڑھے جاتے ہیں، علامہ قرضاوی بھی ، جبکہ خرم مراد ، یوسف اصلاحی وغیرہ کی کتابیں بھی مقبول ہیں۔
یہ ایک ناکافی فہرست ہے، اس میں مزید اضافے ہوسکتے ہیں، جیسے ابھی یاد آیا کہ علامہ شبلی، سید سلیمان ندوی کے نام رہ گئے، اور بھی کئی بڑے علما ہیں۔ مفتی تقی عثمانی بھی مقبول ہیں، مولانا عبدالماجد دریابادی کا بھی اپنا حلقہ ہے وغیرہ وغیرہ۔
اس تفصیل بتانے کا مقصد یہ تھا کہ دینی رجحان رکھنے والے بھی ان چند ایک سکالرز کو علمائے دین تصور کرتے ہیں، باقی ان کے نزدیک کسی نہ کسی کیٹیگری کے مولوی ہی ہیں۔ مدارس کے اندرونی ماحول سے انہیں واقفیت نہیں، انہیں اندازہ نہیں کہ اساتذہ کس قدر کشٹ اٹھاتے ہیں، محدود تنخواہوں کے ساتھ دین کا علم پڑھا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
یہ سب باتیں عصری اداروں کے پڑھے لکھے افراد جو کہ ظاہر ہے ملینز میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہیں، ان کے ذہن میں نہیں ہوتیں۔ گلی محلے کی کسی مسجد میں نماز پڑھانے والا مولوی صاحب ہو یا کسی دینی مدرسے کا شیخ الحدیث ، عام آدمی کے نزدیک ایک جیسا دکھتا ہے، ایک ہی طرح کا ہے۔ اس کی ان سب کے بارے میں رائے بھی اسی طرح کی ہے۔ ان کے نزدیک علم وفضل رکھنے والے سکالرز یا علمائے دین کہیں اور ہوتے ہیں اور ویسے تو بیشتر وفات فرما چکے ہیں۔ یہ عمومی تاثر ہے الا یہ کہ کوئی اپنے آپ کو سکالر ثابت کر دے ۔
اسی طرح عصری اداروں کے طلبہ کی اپنے اساتذہ کے بارے میں رائے، سوچ اور رویہ بھی مختلف ہوتا ہے۔ ان میں سے صرف پانچ فیصد ایسے ہوتے ہیں جو انہیں متاثر کر پائیں اور وہ خود کو فخریہ ان کا شاگرد کہیں، ورنہ بیشتر تو ان کے نزدیک چونکہ اس خاص وقت میں اس خاص تعلیمی ادارے میں ٹیچرز ہیں، اس لئے وہ سب ان کے سٹوڈنٹ بننے پر مجبور ہیں۔
کم ویبش یہی رائے اپنے تعلیمی ادارے کے لئے ہوتی ہے۔ چند ایک بڑے خاص روایات والے اداروں جیسے گورنمنٹ کالج، ایف سی وغیرہ کو چھوڑ کر بیشتر طلبہ اسی ادارہ سے گریجوایشن کرتے ہیں جہاں داخلہ مل جائے ، ان کی مجبوری ہوتی ہے، ورنہ عین ممکن ہے ان میں سے نوے فیصد وہاں نہ پڑھتے ۔ جس جگہ چار یا چھ سال پڑھا جائے، کچھ نہ کچھ تو وابستگی ہونا فطری ہے، مگر اس کا وہ عالم نہیں جو دینی مدارس سے فارغ التحصیل افراد میں ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عصری اداروں کے پڑھے لکھے نوجوان اور دوسرے لوگ میڈیا اور سوشل میڈیا پر ان چند ایک چیزوں کو نارمل یا casual انداز میں لیتے ہیں۔ وہ چونکہ اپنے اساتذہ پر علمی تنقید بڑے سکون سے کر دیتے ہیں، اپنے تعلیمی اداروں کے عموماً دوران تعلیم ہی ناقد ہوتے ہیں، بعد میں تو کبھی ذرا سا لحاظ بھی نہیں کرتے، جبکہ ان باتوں پر دینی مدارس کے لوگ آگ بگولا ہوجاتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ ان کے اکابرین کی توہین ہوگئی اور چونکہ اکابر علما دین ہیں اس لئے یہ خود دین کی توہین ہوگئی وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب انداز فکر کا اختلاف ہے۔
عام پڑھا لکھا آدمی مولوی اور عالم دین میں واضح فرق رکھتا ہے۔ ممکن ہے بعض مولوی صاحبان کو وہ نیک، مخلص اور متقی سمجھتا ہو، مگر ضروری نہیں کہ انہیں عالم دین یا حقیقی عالم دین جیسا احترام دے۔ جیسے مولانا طارق جمیل کی بڑی آڈینس ہے، انہیں سننے والے بھی بیشتر انہیں واعظ ہی سمجتھے ہیں جبکہ بے شمار ایسے ہیں جو انہیں عالم دین تصور نہیں کرتے۔
اسی طرح یہ ذہن میں رہے کہ مولانا فضل الرحمن اور اس طرح کے دیگر دینی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو قطعی طور پر عالم دین نہیں سمجھا جاتا۔ مولانا فضل الرحمن پر تنقید ایک سیاستدان پر تنقید ہوتی ہے، ایسا سیاستدان جو نماز وغیرہ پڑھتا ہے، حلیہ اس کا مولوی والا ہے اور جو ووٹ لینے کے لئے مذہبی بیانیہ استعمال کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
قائداعظم کو”جناح صاحب” کہنے والے، دراصل کون لوگ ہیں؟
جماعت اسلامی مقبول سیاسی قوت کیوں نہ بن سکی؟
جو راستے میں ہمت ہار بیٹھے، اس تحریر میں ہرفرد کے لئے بہت سے سبق موجود ہیں
ان کے والد محترم مفتی محمود صاحب کے بارے میں البتہ رائے مختلف تھی، اسی طرح شاہ احمد نورانی صاحب اور بعض پرانے مذہبی رہنمائوں جیسے سید مودودی کے بارے میں ظاہر ہے رائے مختلف تھی، مگر قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور سراج الحق تو فطری طور پر صرف سیاستدان ہی سمجھتے جاتے ہیں۔
مفتی زرولی ، مولانا مینگل اور اس طرح کے دیگر متنازع مولوی صاحبان تو ویسے ہی فتوے باز سمجھتے جاتے ہیں۔ دینی مدارس کے حلقے چاہے ان کے عالم دین ہونے پر اصرار کریں، عصری اداروں کے تعلیم یافتہ افراد جو کہ ظاہر ہے بہت بڑی اکثریت میں ہیں، وہ اس تاثر سے قطعی اتفاق نہیں کرتے۔
ایسا صرف مولانا مینگل وغیرہ کے لئے نہیں بلکہ خادم رضوی اینڈ کمپنی کو بھی اسی کیٹیگری میں ڈالا جاتا ہے یا اس سے بدترین قسم، یہی رویہ طاہر القادری صاحب کے لئے بھی روا رکھا جاتا ہے، ان کی بعض کتابیں اچھی اور اہم ہیں، مگر ان کی سیاست اور طرز سیاست نے انہیں نہایت متنازع بنا دیا۔
اس لئے براہ کرم چھوٹی چھوٹی باتوں پر روٹھ جانے والے روایتی دینی حلقوں کے احباب ،مدارس میں زیرتعلیم یا فارغ التحصیل دوست پہلے یہ سمجھ لیں کہ ہمارا سماج روایتی مذہبی حلقوں کے لئے کیا عمومی رائے رکھتا ہے؟ خاص کر سماج کا پڑھا لکھا طبقہ جن سے عام طور پر سوشل میڈیا پر ان مذہبی حلقوں کا واسطہ پڑتا ہے، وہ کیا سوچتا ہے ؟
یہ ذہن میں رکھیں کہ بے شک ہمارے سماج کا بنیادی فیبرک مذہبی ہے، مگر پاکستانی سماج قطعی طور پر روایتی مذہبی یا مدارس والے مذہبی حلقوں کی سوچ والا نہیں۔ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ سے لوگوں کی وابستگی خاص انداز کی ہے، مگر دینی مدارس سے فارغ التحصیل افراد یا امام مسجد صاحبان یا دینی تدریس سے متعلق قابل احترام اساتذہ کرام وغیرہ کے حوالے سے رویہ اور طرز فکر مختلف ہے۔
ضروری نہیں کہ منفی ہو، مگر بہرحال انہیں تقدس قطعی طور پر حاصل نہیں۔ یہی مسئلہ بریلوی مکتب فکر کے لوگوں کے ساتھ پیش آیا ہے جب ان کے پسندیدہ کسی پیر یا مخدوم صاحب یا کسی محبوب روحانی شخصیت کو دوسرے لوگ ’’ایزی‘‘ لیتے ہیں، سکون کے ساتھ عام آدمی کی طرح ڈیل کرتے ہیں، جھک کر ہاتھ نہیں ملاتے ، واپس جاتے ہوئے پیٹھ نہ کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ دینی حلقوں کے لئے خاص کر پنجاب اور سندھ کی نفیسات مختلف ہے، کے پی کے کچھ علاقوں اور بلوچستان کی پشتون پاکٹس میں سماجی رویہ مختلف ہونے کا امکان ہے۔