ڈاکٹر میمونہ حمزہ:
وہ کسی ستارے کی مانند اپنے ہی محور کے گرد گھوم رہی تھی، اس فلک پر ستارے بھی تھے، اور سیارے بھی!! ستارے اپنے لگے بندھے راستے پر بے چون و چراں چلتے رہتے، سبک خرام اور دھیمے!! اور سیارے ، آزاد منش اور کچھ آوارہ بھی، اپنی مرضی سے اپنی منزل کا تعین کرتے اور دوڑ لگا دیتے، منزل پر پہنچ کر ہی دم لیتے۔
وہ ستاروں کے کنبے سے تعلق رکھتی تھی، جو اپنے اپنے مدار کے گرد ہی چکر لگاتے تھے، مگر اسے یہ چکر بے مقصد لگتے، وہ سیاروں کو بڑی دلچسپی سے دیکھتی، ستاروں کو بھی! اور ان میں کچھ مختلف حرکت کو تلاش بھی کرتی، اسے کتنی خواہش تھی کہ اس کا کنبہ اس لگی بندھی حیات سے ہٹ کر بھی دیکھے،
کچھ اور نہیں تو ارد گرد چلنے والے سیاروں ہی پر نظر ڈال لے، وہ جھانک جھانک کر آنکھیں پھاڑ کر فلک کے مناظر کو دیکھنا چاہتی، مگر اس کا کنبہ اور پھر اس کا معاشرہ بھی اس کی راہ میں رکاوٹ بن گیا، اسے ہر طریقے سے باز رکھنے کی کوشش کی، مگر ایک سیارے کی حیات میں اسے جو حق مل گیا تھا، اس نے اسے ایسا نور عطاکیا کہ وہ دھندلا سا ستارہ ایک آب و تاب کے وجود میں ڈھل گیا، اور پھر اس نے بھی وہی اعلان کر دیا جو کئی ہزار برس پہلے رب کی جستجو کرنے والے ایک پاکیزہ وجود نے کیا تھا،
جب اس نے تاریک رات ایک ستارہ دیکھا تو کہا:’’ ھذا ربی‘‘، لیکن جب وہ ڈوب گیا تو اس نے اس سے ہٹ کر چاند کو دیکھا، غور و فکر کیا اور ایک سوال پھر اس کے ذہن میں آیا: ’’ھذا ربی؟‘‘، اور جب وہ بھی ڈوب گیا تو وہ کہہ اٹھا: ’’لا احبّ الآفلین‘‘ (میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا)، سورج کی روشنی اور اور بڑائی بھی اس کے غروب کے منظر کے ساتھ اس کے دل میں نہ اتر سکی، اور اس نے شرک سے برأت کا اعلان کر دیا، ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کے کلمے نے اس کے دل میں روشنی کر دی، ایسی روشنی جو کبھی گُل ہونے والی نہ تھی!
’’پیگی‘‘ بھی انہیں لوگوں میں سے تھی، جنہوں نے ابراہیمؑ کے دین کو اختیار کیا تھا، جو دین ِ موسوی سے ہوتا ہوا پیگی کے خاندان تک پہنچا تھا، صدیوں کے سفر میں ابراہیمؑ کے موحد ہونے پر تو سب کا اتفاق تھا، مگر افسوس کی بات یہ تھی کہ پیگی کے خاندان کا دین توحید پر قائم رہا تھا نہ دین ِ موسوی کی کتاب تورات پر!
اس دین کے علماء و احبار نے اسے موم کی ناک بنا دیا تھا، اور اسے من پسند خرافات سے بھر دیا تھا، پھر بھی ان کا فخر اور تکبر قائم تھا، کہ وہ اللہ کی بہترین قوم ہیں، ’’نحن ابناء اللہ واحباء ہ‘‘ (ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پسندیدہ ہیں) کی مالا جپتے ہوئے وہ بے اختیار پکار اٹھتے: ’’لن تمسنا النّار الا ایاماً معدودات‘‘ (ہمیں دوزخ کی آگ ہرگز نہ چھوئے گی، مگر چند روز)۔
ان میں سے ہر ایک اپنے آپ کو روشنی کا استعارہ گمان کرتا اور انہیں گمراہیوں پر جمے ہوئے اپنے محور کے گرد چکر کاٹتا رہتا، مگر چھ پونڈ گیارہ اونس کے پیدائشی وزن والی خوبصورت سی بچی، جو زندگی کے ابتدائی دور میں کمزوری اور کئی بیماریوں کا شکار تھی، اور جسے جسمانی ورزشوں اور دھوپ لگوا کر توانائی بخشی جاتی تھی، جس کی نگہداشت کے لئے رحمدل اور ماہرجرمن آیا کی خدمات مستعار لی گئی تھیں، جو اتنی حساس تھی کہ ذرا سی اونچی آواز اسے سہما دیتی تھی، اس نے عام بچوں کے مقابلے میں دیر سے بولنا شروع کیا،
لیکن اس کی گفتگو کا آغاز ’’کیوں؟‘‘ سے ہوا، اور ہر جواب کے بعد ایک اور کیوں اس کے ذہن میں کلبلانے لگتا، شروع شروع میں یہ کیوں سب کو حیرت و استعجاب میں مبتلا کرتا، مگر پیگی کے سوالات پھیلتے رہے، اور جواب دینے والے اپنے اپنے خول میں سمٹنے لگے، اس کے ’’کیوں‘‘ پر پہرے بٹھانے کی کوشش کی گئی، اسے محفل سے نکالا گیا تو کبھی تعلیمی اداروں سے، مگر وہ سوال کرنے سے باز نہ آئی، اور آخر کار اس سوال کا جواب پا ہی لیا، اس دل کے نہاں خانے میں سنہری حرفوں سے لکھا اور پھر ساری زندگی اسی جواب کے حوالے کر دی۔
گہرے براؤن بالوں اور بڑی بڑی بھوری آنکھوں والی نرم و نازک پیگی ، جو دادی کے بنائے ہوئے گڑیا کے گھر سے پہروں کھیلتی، کنڈر گارٹن میں اس کی توجہ کا مرکز فن ِ مصوری اور موسیقی ٹھہرا، جو اس کے اندر تک سکون بھر دیتا، اور وہ ہم جماعت بچوں سے کھیلنا بھی ترک کر دیتی، جس نے بڑی سرعت سے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا، سمر کیمپ میں داخلہ لیا تو آرٹ اینڈ کرافٹ اور تیراکی سیکھ لیے،
یہیں کچھ سہیلیاں بھی بنا لیں، اگرچہ سہیلیاں بنانا اسے ہمیشہ مشکل ہی لگا۔ اس کے کان سکھائے گئے لفظوں کو بہت توجہ سے سنتے اور وہ ان سے اثر قبول کرتی، سکول میں اس کے اپنے ہم مذہب یہودیوں پر ظلم کی داستانیں سنائیں گئیں تو یہودی قوم سے رحم کا جذبہ اس کے دل میں ٹھاٹھیں مارنے لگا، اور یہی مذہب میں دلچسپی کا پیش خیمہ بن گیا، کیا کوئی سوچ بھی سکتا تھا، کہ کبھی یہی یہودی اس کے لئے ’’مغضوب علیھم‘‘ بن جائیں گے!
سیرو سیاحت اس کا شوق تھا، دنیا کے دوسرے خطوں میں آباد لوگوں کو جاننے کی جستجو ، اور بہترین کو پانے کی لگن اتنی شدید تھی کہ اس نے گیارہ برس کی عمر میں ہی سوچ لیا تھا کہ وہ دنیا کی سیر کو نکلے گی، اور پھر جہاں کے لوگ اسے پسند آئے، تمام عمر وہیں بتا دے گی۔اس مغرب کی پروردہ کو نہ صرف مشرق دیکھنے کی خواہش تھی بلکہ وہ تو عربوں کو طرف ایک مبلغ کی حیثیت سے جانا چاہتی تھی، اس چھوٹی سی عمر میں اسے شوق تھا کہ وہ دیکھے کہ مسلمان اپنے دین کے مطابق زندگی کیسے گزارتے ہیں؟ کیا وہ بھی ہم ’’یہودیوں‘‘ کی مانند ہیں، جو عیسائیوں جیسی زندگی گزارتے ہیں، یا اپنے بہتر دین پر قائم ہیں۔
ڈاکٹرمیمونہ حمزہ کی مزید کہانیاں پڑھیے:
ﷲ کے فیصلے!۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹرمیمونہ حمزہ کی نئی اردو کہانی
ماں کا ہاتھ (عربی سے اردو ترجمہ)
پھر یہی شوق اور جستجو عربوں کی زندگی کی تصویر کشی میں ڈھل گیا، اور خلاف ِ توقع پہلا پتھر اس کے شوق میں حائل ہوا، جب ماں باپ نے ان تمام تصاویر کو ناپسندیدہ قرار دے دیا، اس کے دل میں ایک موہوم سی امید جاگی، ’’شاید دادا ، دادی کو یہ پسند آ جائیں۔ یہ تصویریں تو اس کا خواب تھیں، اس کا دل چاہتا، وہ عربوں سے کہے، تم ایسے ہی رہنا، جیسا میں نے تمہیں بنایا ہے، تم یہودونصاری کی پیروی نہ کرنا، تم اتنے اچھے ہو کہ میں یروشلم (فلسطین) میں تمہارے پاس ہی رہ جاؤں گی، ہمیشہ کے لئے!
اسے جھوٹ سے نفرت تھی، بچپن میں وہ ہر بات کو دھیان سے سنتی اور اس کا یقین کر لیتی، اس کے یہودی ماں باپ کتنے شوق سے’’ ایسٹر ‘‘ کا تہوار مناتے، وہ یہی سمجھتی کہ ایسٹر کا خرگوش اس کے لئے رنگین انڈے اور چاکلیٹس لاتا ہے، مگر بڑی بہن ’’بیٹی‘‘ نے اس جھوٹ کا پول کھول دیا: ’’وہ تو ممی پا پالاتے ہیں‘‘۔
اس نے ارد گرد دیکھا تو سبھی یہودی عیسائی تہواروں میں مگن تھے، سوائے اس کی کلاس فیلو’’ جولیا‘‘ کے، جو نہ کرسمس کے گیت گاتی نہ کوئی تحفہ وصول کرتی، جو ببانگ دہل عقیدہء تثلیث کا انکار کرتی۔
اسے دادا اچھے لگتے، خاص طور پر جب وہ غریب سیاہ فاموں کا مفت علاج کرتے، لیکن وہ یہ برداشت نہ کر سکتی تھی کہ وہ کسی قصّے کہانی میں بھی سیاہ فام لوگوں کا تحقیر سے ذکر کریں۔
اس کی پیاری بہن نے نماز ادا کرتے مسلمانوں کا اپنی سہیلیوں کے ساتھ مذاق اڑایا تو وہ شرمندگی سے زمین میں گڑ گئی: ’’اوہ، بیٹی، بند کرو یہ سب، تمہیں دوسروں کے مذہب کا مذاق نہیں اڑانا چاہئے‘‘۔ اس وقت تو وہ یہ بھی نہ جانتی تھی کہ وہ یہودی ہے، مگر اسے یہودی ہونے پر کئی مرتبہ عیسائی بچوں نے گھیرا اور اسے ڈرانے کی کوشش کی، وہ پتھر لیکر اس کے پیچھے بھاگتے اور اسے ’’کرائسٹ کلر‘‘ کہہ کر آوازیں دیتے۔
وہ کیسی یہودی تھی، جو یہودی تہواروں میں بھی شریک نہیں ہوتی تھی، پکّے یہودی اس جیسے گھرانوں نے نالاں تھے، تو عیسائی اس نام کی یہودی پر بھی ناراض! اس کا خاندان قول و فعل کے تضاد کی مثال تھا، جس کا شکار وہ بھی ہو رہی تھی، اسے آرٹ پسند تھی، سکول میں وہ امریکیوں کی تصویریں بنا کر داد پاتی، لیکن گھر میں وہ صرف ’’عربوں‘‘ کی تصویریں بناتی، حالانکہ اب تک وہ کسی عرب سے بالمشافہ ملی بھی نہ تھی،
ہاں کچھ فلمیں دیکھیں تھیں اور کچھ ذکر سنا تھا ان بہادر اور درشت عربوں کا، جسے سنانے والے نے بڑی نفرت سے سنایا تھا، مگر سننے والے کے دل میں اتر گیا تھا! اور جب اس نے کینوس پر ان کی تصویروں میں رنگ بھرے تو اس کی ممّی ہی بگڑ کر بولی تھیں کہ اتنے بدہیئت اور کالے لوگوں کو تم نے کیسے تصویر کے آہنگ میں ڈھالا ہے کہ ان سے نفرت کے بجائے ہمدردی محسوس ہوتی ہے۔
اس کا دوسرا شوق موسیقی تھا، لیکن موسیقی کے استاد کو اس کی آواز پسند نہ تھی، جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ عربی موسیقی سنتی ہے، انہیں اس کی آواز بھی کرخت اور بھدی لگنے لگی تھی، وہ کہتے اس نے اپنی آواز خراب کر لی ہے، مگر وہ کیا کرے، عربی موسیقی اس کے دل میں اتر گئی تھی، اس نے اپنی کل جمع شدہ پونجی سے قرآن، عربی لوری، اور مصری گلوکارہ ام کلثوم کے ریکارڈز خرید لئے، اور یوں سکول میں موسیقی کے استاد کے ساتھ تعلقات مزید بگڑ گئے، اور گھر وہ یہ ریکارڈز لگاتی تو ممی کی جان پر بن جاتی اور وہ اصرار کرتیں کہ اپنے کمرے کی سب کھڑکیاں دروازے بند کر کے سنو۔
بچپن میں اس سے ایک جرم بھی سرزد ہو گیا، اسے جو چیز سکول میں اچھی لگتی وہ آنکھ بچا کر گھر لے آتی، وہ گڑیوں کے کپڑے چراتی ہے توپکڑی جاتی ہے اور ٹیچر کی ڈانٹ بھی پڑتی ہے، مگر وہ جانتی ہے ، اس نے غلط کیا ہے، سزا کے لئے اسے سکول سے آدھ گھنٹے پہلے بلایا جاتا ہے، اورقواعد و ضوابط سمجھانے کے بعد اس کے ڈیسک پر بھیج دیا جاتا ہے، اس کی حیرت کی انتہا نہیں رہتی جب اسے ڈیسک میں اس بھی اچھے گڑیا کے کپڑوں کا تحفہ ملتا ہے۔
جنگ ِ عظیم دوم میں یہود پر مظالم کی تصویریں دیکھ کر وہ سخت صدمے کا شکار ہوئی اور اس کی رات کی نیندیں اڑ گئیں، کھانے کا نوالہ اٹھاتی تو بھوکے لوگوں کا تصور اسے کھانا بھلا دیتا۔اسے غریبوں سے ہمدردی تھی، حتی کہ وہ کرسمس پر اپنی سہیلیوں کے ساتھ مل کر پرانی گڑیوں کو نئے کپڑے سی کر پہناتی اور اسے ان بچیوں کو تحفے میں دے دیتی جو نئے کھلونے خرید کر کرسمس نہیں منا سکتی تھیں۔
بچپن میں کھیل کھیل میں وہ عرب کردار ادا کرتی، کبھی امریکی سیاہ فام کا کردار، اس کا خیال تھا کہ سفید امریکیوں کو یہ ہتھیائی ہوئی سرزمین واپس کر دینی چاہئے، وہ مساوات ِ انسانی کی قائل تھی، اسی لئے ایک سفر میں بس کے پچھلے حصّے میں ایک سیاہ فام عورت کے ساتھ بیٹھنا بھی اسے برا نہیں لگا، جب کہ سب سیاہ فام قہقہے لگانے لگے، اور سفید فام خوفزدہ ہو گئے، لیکن بس کی اگلی نشستیں سفید فام لوگوں کا حق کیسے بن گئیں؟
وہ مطالعے کی شوقین تھی، گھر میں آنے والی مذہبی کتابوں اور بچوں کے یہودی میگزین بھی پڑھتی، تاریخ کی ایسی ہی ایک کہانی میں اس نے پڑھا کہ اندلس (سپین) میں یہودی مسلمانوں کی حکمرانی میں ان کے زیرِ نگرانی خوش و خرم رہتے تھے۔اور جب وہ جرمنی سے امریکہ ہجرت کرنے والے یہودیوں کی آئل پینٹنگز دیکھتی ہے تو ان کے اداس چہرے اسے متوجہ کر لیتے ہیں، جن پر مظالم کی کہانیاں ثبت ہیں، مظلوم یہودی! جدت پسند یہودی تو نرے منافق ہیں، خدا پر یقین سے عاری، شریعتِ موسوی کی پرواہ نہ کرنے والے، تب اس نے یہی سوچا تھا کہ میں ایک قدامت پسند یہودی بننا پسند کروں گی، کیونکہ وہ نقلی مذہب پر نہیں ہیں، بلکہ یہودیت ان کا فخر ہے!
ٹین ایج میں داخل ہوتے ہی اس کی عربوں سے دلچسپی بڑھ گئی، وہ ان کی کہانیاں شوق سے پڑھتی، عبد القادر جزائری، عبد العزیز تیونسی اور کنانا اس کے ہیرو بن گئے، جو جہاد سے محبت کرتے تھے، اور ہتھیار کو صرف اللہ کی خاطر اٹھانا جائز سمجھتے تھے، اور پھر اس نے قلم اٹھایا اور ایک عرب لڑکے ’’احمدخلیل‘‘ کی کہانی لکھی، جو فلسطین کے چھوٹے سے گاؤں میں رہتا ہے، جس کی ماں خدیجہ ہے۔
پیگی کی سمر کلاس کا تجربہ اس کے لئے تو اچھا تھا، مگر اسی سمر کیمپ سے واپسی پر اس کے والدین کو ہدایت کی گئی کہ اس انوکھی لڑکی کو سائیکاٹرس کو دکھایا جائے۔ ٹین ایج میں یہ فرق اور نمایاں ہو گیا جب پیگی نے بڑی لڑکیوں جیسا لباس پہننا شروع کر دیا، اس کی دلچسپی ڈانس، ڈیٹس، پارٹیز، اور لڑکوں میں نہ تھی، سو وہ تنہا رہنے لگی،
اسے اپنے ارد گرد نوجوان بے وقوف اور وقت اور پیسے کا زیاں کرتے محسوس ہوتے، وہ گھر یا لائبریری میں پناہ حاصل کرتی، اور عربوں کی کہانیاں پڑھتی، اسے وہ عرب بھی ایک آنکھ نہ بھاتے جنہوں نے مغرب کا رنگ اختیار کر لیا تھا۔ وہ اصلی عربوں کی پینٹنگز بنا رہی تھی، جب ممی نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا، اور ڈیڈی نے اس سے بڑھ کر اسے سنجیدگی سے کہا:
’’اسے عربوں اور مسلمانوں میں دلچسپی لینا بند کرنی ہو گی، کیونکہ وہ اس دنیا میں سب سے گندے اور پس ماندہ لوگ ہیں، عربوں کی اقدار بہت گری ہوئی ہیں، اور وہ اخلاقی طور پر یہود اور نصاری سے نیچے ہیں، وہ یہودیوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں، جنگ ِ عظیم میں انہوں نے یہودیوں کے خلاف نازیوں کا ساتھ دیا تھا‘‘،
ڈاکٹرمیمونہ حمزہ کی مزید کہانیاں :
تحفہ اور دوا
اسے کتنا شدید صدمہ پہنچا، اس نے اپنے ناول ’’احمد خلیل‘‘ کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا، اور خوب روئی، اس رات اس نے اپنے خدا سے عہد کیا کہ ’’میں اپنی بقیہ زندگی میں یہودی بن کر رہوں گی، اور ممی ڈیڈی کو خوش کرنے کے لئے عربوں کی تصویریں کبھی نہیں بناؤں گی، نہ ہی ان سے ہمدردی کے جذبات رکھوں گی، نہ ان کے بارے میں کوئی کتاب پڑھوں گی‘‘،
لیکن پھر وہ یہودیوں کے خدا سے کیا ہوا وعدہ نبھا نہ سکی، اور صرف تین دن بعد وہ تھی اور لائبریری میں عربوں سے متعلق کہانیاں! اب اس کے مطالعے میں ایک مقصد بھی آگیا تھا، جو کچھ باپ نے کہا تھا اس حقیقت کی میزان میں ڈال کر اس کا وزن کرنا تھا۔اس نے یہودیوں اور عیسائی مشنریوں کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھنا شروع کیں، وہ بھی اسی طرح تعصب سے بھری ہوئی تھیں، جیسے اس کے باپ کا یہودی دل!
وہیں لائبریری کے بچوں کے حصّے میں اسے مسلمان بچی کی کہانی مل گئی، جو مسلمان گھرانوں میں بیٹی اور عورت کے احترام اور چاہت پر تھی، اور ڈیڈی کے اس تصور کے الٹ تھی کہ مسلمان اپنی عورتوں سے غلاموں اور لونڈیوں کا سا سلوک کرتے ہیں۔
اس نے اسرائیل کی ریاست کو قائم ہوتے دیکھا، جب صیہونی تحریک کی تعریفوں کے قلابے ملائے جا رہے تھے، اور یہود خاندان کی عورتیں اور بچے بھی اس ریاست کے لئے گھر گھر چندہ جمع کرنے اٹھ کھڑے ہوئے تھے، جب کم چندہ دینا باقاعدہ شرمندگی کا باعث بن جاتا تھا، یہودیوں کو زمین پر ایک خطہء رمین مل گیا تھا، لیکن اخلاقی قدریں رو بہ زوال تھیں۔
پیگی کے ڈیڈی اپنا بزنس بڑھانے میں مگن تھے، اور پیگی بیمار ہو رہی تھی، وہ سکول بھی نہ جا سکتی، بس بستر پر لیٹے ہی اسائنمنٹس کرتی رہتی، اور بوریت دور کرنے کے لئے اپنے ناول ’’احمد خلیل‘‘ کو مکمل کرنے میں لگی رہتی، اب وہ اسے تصویری شکل بھی دے رہی تھی، اس مرحلے پر اس میں مسئلہ فلسطین بھی داخل ہو گیا تھا۔
وہ سکول کی تقریبات میں اسرائیل کی تعریفیں کرنے والے مندوب سے فلسطینیوں کے بارے میں سوال کرنا چاہتی تو ممی اسے روک دیتیں، ان کی سوچ اسرائیل سے مطابقت رکھتی تھی، جبکہ پیگی کی نظر میں یہ نئی ریاست فلسطینی سرزمین پر ڈاکؤوں کا حملہ تھا، جنہوں نے گھر میں گھس کر جائز حق داروں کی جائیداد ضبط کر کے انہیں بے گھر اور مفلوک الحال بنا دیا تھا، اور اب ان سے مطالبہ تھا کہ اس سب کو بین الاقوامی قانون سمجھ کر قبول کر لیں۔
وہ اٹھارہ برس کو پہنچتی ہے تو اسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے ملازمت کی تلاش میں نکلتی ہے، اور آخر کار ایک پلاسٹک فیکٹری میں کام کرنا پڑتا ہے، جہاں زیادہ تر غریب مزدور کام کرتے ہیں،کیونکہ آئندہ زندگی کے اخراجات اسے خود اٹھانے ہوں گے، وہ ہر ہفتہ تیس ڈالر کماتی ہے تاکہ آئندہ تعلیم کے لئے جمع کر لے، لیکن یہاں وہ اپنی سماجی حیثیت کے بارے میں کسی کو نہیں بتاتی، تاکہ کوئی دوسرا احساسِ کمتری کا شکار نہ ہو۔اور آخر کار اس کے پاس اتنی رقم جمع ہو جاتی ہے کہ وہ ’’یونیورسٹی آف روچیسٹر‘‘ میں داخلہ لے لے۔
پیگی بڑے جوش اور خوشی سے یونیورسٹی ہاسٹل میں پہنچتی ہے، لیکن ابتدا ہی سے طالب علموں کی ہاؤ ہو سے پریشان ہو جاتی ہے، طلبا رات دیر تک ہنگامے میں مگن رہتے ہیں مگر پیگی بے خوابی کا شکار ہو جاتی ہے اور اس کی کارکردگی متاثر ہونے لگتی ہے، وہ ڈاکٹر سے رجوع کرتی ہے مگر وہ درشتی سے اسے کہہ دیتی ہے کہ یہ سب تو برداشت کرنے کی عادت ڈالنا ہو گی۔ پھر اسے نفسیاتی یونٹ میں بھیج دیا جاتا ہے، اوراگلے مرحلے میں یونیورسٹی سے اخراج کر دیا جاتا ہے۔
پیگی ’’آرٹ سٹوڈنٹس لیگ‘‘ میں داخلہ لے لیتی ہے، اسی دوران وہ اپنی اصل ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہے، اور آرتھوڈکس کے یہودی گروہ میں شامل ہو جاتی ہے، وہاں اس کی ملاقات سرد مہر اور ادب سے عاری بد اخلاق لڑکیوں سے ہوتی ہے، جو عبرانی میں بات کرتے ہیں، پیگی کو کوئی خوش آمدید تک نہیں کہتا، پیگی جانتی ہے کہ اگر وہ انہیں اپنی حقیقت بتا دے کہ وہ عربوں کو کیا سمجھتی ہے تو وہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں، لہذا یہاں بھی دوبارہ نہیں آتی۔ وہ سمجھ لیتی ہے کہ متشدد، متعصب اور تنگ نظر یہودیوں سے تعلق رکھنا ممکن نہیں۔
ایک رات پیگی کا نروس بریک ڈاؤن ہو گیا، وہ بہت تھکاوٹ محسوس کر رہی تھی، ممی نے باہر جاتے ہوئے اس سے پوچھا تو اس نے لائبریری سے قرآن کا نسخہ لانے کی فرمائش کر دی، یہ خیال اسے اچانک ہی آیا تھا، لیکن جب اسے قرآن ملا تو اس نے تمام رات اس کا مطالعہ کیا، نبیوں کے قصّے پڑھے، لیکن ایک تشنگی سی تشنگی تھی، یہ ترجمہ ایک انگریز پادری ’’جارج سیل‘‘ نے کیا تھا، اور تعصب سے بھر پور تھا، ایک ہفتے بعد ہی اس نے وہ ترجمہ واپس کر دیا اور نیو روشیل پبلک لائبریری سے ’’مارما ڈوک پکتھال‘‘ کا ترجمہ حاصل کر لیا، ’’جو اول تا آخر ایک سچی وحی تھی‘‘،
اس ترجمے نے اس کی آنکھیں کھول دیں، اور قرآن اس کی زندگی کا ساتھی بن گیا، انیس برس کی عمر میں اسے زندگی کی حقیقت سمجھ آگئی، اور موت سامنے دکھائی دینے لگی، اور قرآن اس کی روح میں گہرا اتر گیا، اس نے اس کی جون ہی تبدیل کر ڈالی، اسے معلوم ہوا کہ اس کی اب تک کی تعلیم خدا کے حقیقی تصور سے خالی تھی، اور اگر اسے قرآن کی روشنی نہ ملی ہوتی تو شاید وہ دہریت اختیار کر لیتی۔
وہ سورہ البقرہ کی ابتدائی آیات، اور آیت الکرسی کو غور سے پڑھتی تو کبھی سورۃ النور پر سر دھنتی، اور کبھی مقصد ِ زندگی کے بارے میں رہنمائی کرتی آیات کو تکرار سے پڑھتی، اسے کتنے پیارے رب کا تعارف ملا تھا، ’’جو زمین پر گرنے والے پتے تک سے واقف تھا‘‘، اور ’’اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب‘‘ اسی قرآن سے اس نے ’’والعصر ‘‘میں زندگی کی قیمت بھی جانی، اور صبر اور نماز سے مدد پانے کا الوہی سبق بھی!!
اس کے گھر والے اس کے مخالف ہو گئے، اس کے معاشرے نے اسے نفسیاتی مریض قرار دیا، وہ نفسیاتی معالجوں سے ہوتی ہوئی مینٹل ہاسپٹل تک پہنچ گئی، مگر اس کا علاج نہ ہو سکا، یہاں تک کہ اسے لگا کہ مینٹل ہسپتال کی دیواروں کے اندر ہی اس کی زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا، مگر اللہ کی رحمت نے اسے ڈھانپ لیا، اس کا باپ اسے اس جگہ سے نکالنے پر تیار ہو گیا، اور آزاد فضاؤں میں آتے ہی اس نے اپنے مستقبل کا فیصلہ بھی کر لیا، اس نے دین کی تلاش اور تندہی سے شروع کی، اور آخر کارمئی 1961ء میں اس نے شیخ داؤد احمد فیصل کے ہاتھ پر دو گواہوں کی موجودگی میں اسلام قبول کر لیا، اس کا اسلامی نام ’’مریم جمیلہ ‘‘ رکھا گیا۔
صرف ایک برس بعد مریم جمیلہ نے سید ابو الاعلی مودودیؒ کی دعوت قبول کرتے ہوئے پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ اور اپنے والدین کو اس فیصلے کی خبر دے دی، اور بحری جہاز کے ذریعے چھ ماہ کا سفر کرتے ہوئے کراچی پہنچی اور پھر لاہور میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ مریم نے اپنا تمام علمی خزانہ پاکستان بھجوا دیا، تمام مغربی لباس کسی کو دے دیے اور اسلامی لباس زیب تن کر لیا،
اپنے ناول ’’احمد خلیل ‘‘ کا مسودہ بھی ان کے ہمراہ تھا اور’’ اسلام بمقابلہ مغرب‘‘ کتاب کا مسودہ بھی، البتہ اپنی پینٹنگز کو وہیں چھوڑنا پڑا کیونکہ مولانا مودودیؒ نے بتا دیا تھا کہ اسلام جانداروں کی تصاویر بنانے کی اجازت نہیں دیتا، ام کلثوم کی ریکارڈنگز بھی چھوڑنا پڑیں، لیکن ان کے دامن میں جو گراں مایہ سرمایا تھا اس کے بعد ان چیزوں کی اہمیت کیا تھی کہ انہیں چھوڑنا ناگوار ہوتا۔
یہودیت میں مذہب چھوڑنے والے انسان کو مردہ سمجھ لیا جاتا ہے، مگر پیگی مری نہیں تھی، اس نے تو مریم جمیلہ کے نام میں نئی زندگی پا لی تھی، آسمان کی وسعتوں میں دھندلاتے ہوئے ستارے کو ایک نئی جون مل گئی تھی، ایک روشنی اور تابناکی نے اس کے اندر جھماکا کر دیا تھا اور اسے درست محور مل گیا تھا اور اب تا حیات اسی محور کے گرد گھومنا تھا، اللہ، محمد اور قرآن!! الحمد للہ
٭٭٭