لاک ڈائون

لاک ڈائون یا اللہ کا سوشل بائیکاٹ؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قانتہ رابعہ:
زمانے کے ساتھ ساتھ لفظ اور اصطلاحات بدلتی رہتی ہیں۔ کہیں مفہوم بدل جاتا ہے ورنہ عام طور پر مفہوم پرانا ہوتا ہے لفظ اور اصطلاحات جدید سے جدید ۔ ان کے پس منظر میں بھی ایک لمبی داستان ہے لیکن فی الحال ہم اس سے ہٹ کے بات کرتے ہیں۔

کسی زمانے میں جس کام کے لئے بیت الخلاء اور قضائے حاجت کا لفظ استعمال ہوتا تھا اس کے بعد اسے باتھ روم اور پھر واش روم کہا جانے لگا۔ ان دنوں اس کے لئے ریسٹ روم کا لفظ بھی بولا جاتا ہے۔ اسی طرح ماضی بعید میں ریلوے اسٹیشن پر خواتین کے لئے برائے مستورات کا لفظ تھا زمانے کے ساتھ پھر یہ برائے خواتین۔اس کے کچھ عرصہ بعد لیڈیز لکھا جانے لگا۔

کہنے کا مطلب ہے کہ کہیں اسے ایک ہی معنی میں اور کہیں اس کو نئے الفاظ کا لبادہ پہنا کر مفہوم بھی بدل دیا جاتا ہے۔ مندرجہ بالا الفاظ ایک ہی معنی کے لئے تھے لیکن جہاد کا مطلب ’اسلام کے لیے ہر طرح کی کوشش‘ ہے مگر اب جہاد مہنگائی کے خلاف ڈینگی کے خلاف یا ایسی ہی کسی سرگرمی پر ہوتا ہے۔ لفظ وہی مفہوم بدل دیا گیا۔

وادی کشمیر پر ہندی سرکار کی طرف سے آئین میں ترمیم کے بعد اس پر زندگی تنگ کرنے کو لاک ڈائون کہا گیا۔اس سے پہلے اس کے لئے لفظ کرفیو بولا اور لکھا جاتا تھا۔ اگر یہ کام انفرادی طور پر کیا جائے تو اسے پہلے حقہ پانی بند کرنا اس کے بعد اسے بائیکاٹ کہا جانے لگا۔ کشمیر پر لاک ڈائون سے سوشل میڈیا پر اتنی سی ہلچل مچی جتنی ایک چھوٹی سی کنکری دریا یا سمندر میں پھینکنے پر لہریں ابھرتی ہیں، پانی کی سطح ایک دم بلند ہوتی ہے، اس کے بعد سب کچھ ویسے ہی ہوجاتا ہے جیسا پہلے تھا۔

وادی کشمیر پر لاک ڈاون سے ہماری زندگی کے سمندر میں بھی اتنی ہی ہلچل مچی تھی۔اس کے بعد کچھ ریلیاں ۔بیانات، کانفرنسوں کا انعقاد اور وزیر اعظم کی پرجوش جذباتی تقریر۔اور اس کے بعد اپنی اپنی زندگیوں کے دائرے میں گھوم رہے تھے کہ اس ’لاک ڈائون‘ کے لفظ نے ہماری زندگیوں میں ہلچل مچا دی۔ لاک ڈائون ہوجائے گا، لاک ڈاون ہورہا ہے۔ اور پھر سندھ اور پنجاب کی حکومت نے لاک ڈائون کا اعلان کردیا۔

لاک ڈائون کی خبر سن کے سب سے پہلے رد عمل یہ نہیں آیا کہ اس کے مقاصد، اہمیت۔ نفع نقصان کیا ہیں بلکہ فوری طور پر ملک اور بیرون ملک ایک ہی صدا ابھری کہ مہینے کا راشن جمع کر لو۔اشیائے ضرورت جمع کر لو۔ سوشل میڈیا پر اک طوفان تھا ایک ایک گھر میں سازوسامان کے انبار لگ گئی۔ ضروری غیر ضروری اشیاء تھوک کے حساب سے جمع کر لی گئیں۔

اپنے ملک کی عوم کا مزاج تو خیر سے سب کو ہی معلوم ہے۔ بیرونی ممالک میں رہنے والے ہم وطنوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وہاں کی مارکیٹوں اور شاپنگ مالز میں سے ٹشو پیپر، سینی ٹائزر، شیمپو جیسی اشیاء ختم ہو گئیں۔ ان لوگوں نے بے تحاشا سامان زمین سے کمروں کی چھتوں تک بھرتے ہوئے ایک مرتبہ یہ نہ سوچا کہ پانچ سال کا سامان جمع کر لیا ہے۔ اگر وہاں کی حکومت ان اوور سیز کو مختصر نوٹس پر ملک چھوڑنے کا سعودی عرب کی طرح حکم دے تو کیا صورت حال ہوگی۔

مملکت خداداد پاکستان کے باشندوں نے تو رہی سہی کسر پوری کردی کہ سب سے زیادہ کام آنے والی چیز ماسک اور ملیریا کی ادویات جتنی مقدار میں بھی ذخیرہ کر سکتے تھے کر لیں۔ ایسی بھی صورتحال رہی کہ پوری مارکیٹ گھومنے پر بھی ماسک نہ مل سکا ۔ اور ظاہر ہے ان سب کی نوبت اس لئے آئی کہ ز ندگی سب کو پیاری ہے، کوئی بھی لاک ڈائون کے غیر معینہ مدت کے عرصہ میں بے بسی کا شکار نہیں ہونا چاہتا۔

لاک ڈائون کے عرصہ میں کیا صورتحال درپیش ہو سکتی ہے اس کاسوچ کے وہ ہر اس چیز کو اہم خیال کرے گا جو عام حالات میں وہ لانے کی ہمت نہیں رکھتا ہوگا۔ یہ بات ہم نے فراموش کردی کہ وادی کشمیر پر ہندی سرکار کی طرف سے لاک ڈائون عوام پر جبر، ظلم اور دہشت ہے، ان سے آزادی چھیننے کا اعلان ہے۔ یہ لاک ڈاؤن ان کی زندگی کو ختم کرنے کے لئے جبکہ ہمارا لاک ڈائون ہماری زندگیوں کے تحفظ کے لئے ہے۔اس پر سرکار کی طرف سے خیر خواہی ہے لیکن

تاریخ کا سفر کیجئیے ساڑھے چودہ سو سال پیچھے چلے جائیے۔ دنیا کی تاریخ کا بدترین لاک ڈائون۔ سوشل بائیکاٹ، حقہ پانی بند کرنا۔ یہ سوشل بائیکاٹ کرنے والے ان کے اپنے رشتہ دار تھے، اپنے محلے دار تھے، اپنے سنگی ساتھی تھے، وقت کی طاقت تھے اور یہ سوشل بائیکاٹ جسے شعب ابی طالب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ایک دو ماہ کے لئے نہیں، ڈیڑھ دو سال کے لئے نہیں پورے تین سال جاری رہا۔

ہم لاک ڈائون پر اپنے پیاروں سے جب چاہیں فون پر رابطہ کر سکتے ہیں، وڈیو کال کے ذریعہ انھیں دیکھ سکتے ہیں، ہم جو کھانا چاہیں گھر میں پکا سکتے ہیں، ایک فون کال پر منگوا سکتے ہیں۔اس لاک ڈائون میں کوئی بھوکا رہنے کا خوف نہیں کہ مخیر افراد اور تنظیمیں یہاں تک کہ حکومت بھی معاونت کا اعلان کر رہی ہے۔

اس لاک ڈائون میں برادری کی طرف سے کوئی تنفر یا زیادتی نہیں کہ کھانا ختم ہونے پر کوئی بھیج دے تو جینا حرام کر دیا جائے۔ اس وقت کی صادق اور امین ہستی کو رائج الوقت شرک اور برائیوں سے لاتعلقی اور وحدانیت کا علم بلند کرنے پر تین سال سارے معاشرے سے کاٹ دیا گیا۔ خبر رسانی کے ذرائع پر جابروں کی طرف سے پابندی تھی۔

سونے کا چمچہ منہ میں لے کے پیدا ہونے والی خدیجہ الکبریٰ، وقت کی بہت بڑی بزنس وومن فرماتی ہیں کہ ہمیں ہر طرح کی اشیائے ضرورت خریدنے سے روکا جاتا، مکہ میں جو چیز فروخت ہونے کے لئے آتی مشرکین اسے قبضے میں لے لیتے کہیں ہم نہ خرید لیں۔ اپنا زیور بھتیجے کے ذریعہ فروخت کروا کے کھانے کے چند لقمے نصیب ہوتے، بچوں کا بلکنا بھی نہ دیکھا جاتا۔ آہستہ آہستہ سارا زیور بک گیا۔

ایک مرتبہ حکیم بن حزام ان کے لئے گیہوں لایامگر ابوجہل نےغلّہ روکنے کے لئے فساد کیا۔ غلّہ ختم ہوا، کھانے پینے کے اسباب ختم ہو گئے یہاں تک کہ عرب کی وہ خاتون جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کے دوران جبرائیل امین نے وحی روک لی اور کہا:

اللہ رب العزت نے سیدہ خدیجہ کو اپنا سلام بھیجا ہے، پھر التجا ئیہ انداز میں کہا: یا رسول اللہ انہیں میرا بھی سلام کہہ دیجئیے۔ اس کے بعد ہی ان کو جنت میں سفید ساٹھ میل اونچے، ساٹھ میل چوڑے ایک ہی موتی کو تراش کے بنائے گئے محل کی خوشخبری دی تھی۔

وہ فرماتی ہیں شعب ابی طالب میں ہم پر ایسا بھی وقت آیا کہ ہم سب محصورین کے حصے میں روزانہ ایک ایک کھجور آتی تھی جسے چوس کے سارا دن گزارتے۔ جب یہ خزانہ بھی کم پڑ گیا تو روزانہ آدھی کھجور کر لی پھر نوبت یہ آگئی کہ ہماری حصے میں صرف گھٹلیاں تھیں جن کو چوس کے اپنے اپ کو تسلی دیتے۔ایک اور روایت میں ہے کہ پتے اور چمڑے کو بھگو کے سارا دن چوستے کہ شکم پری ہو جائے۔

کیا اس بائیکاٹ کا جس میں خاندان کی غمی خوشی میں بلانا چھوڑ دیا جائے، زندگی کی بقاء کے سارے اسباب ختم کر دیے جائیں اور موجودہ لاک ڈائون میں کوئی فرق نہیں؟

صاحب! کیا پتہ خالق کائنات اس آئسولیشن اور لاک ڈائون کے ذریعے آپ کو اپنے قریب کرنا چاہتا ہو کہ بہر حال آپ اس کی مخلوق ہیں، اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں۔ وہ یہ نہ چاہتا ہو کہ آپ اس کے دشمنوں کا آلہ کار بن جائیں، وہ یہ نہ چاہتا ہو کہ آپ کا روز حشر جب اس کے محبوب سے سامنا ہو تو وہ بد مست امتیوں کی روسیاہی سے، دنیا کی حب سے شرمندہ نہ کروانا چاہتا ہو، وہ جو امتی امتی کہہ کے سجدے میں دعائیں کرتا تھا، امت کے اس غمخوار کو امت کا ہنود و یہود کے نقش قدم پر چلنے کا جو دھڑکا تھا اس سے بچانا چاہتا ہو۔

کیا خبر خالق اپنے محبوب کی زیادہ سے زیادہ امت کو نار جہنم سے بچانا چاہتا ہو تو اس نے کہا: تم بھی آئسو لیٹ ہو جائو، خدا غار حرا کی تنہائی میں ملتا ہے، توبہ کا در تنہائی میں کھولنے کا بھید کھلتا ہے۔ یہ لاک ڈائون ہمیں ساری محبوب، دلفریب دنیا سے کٹنے کا سبب اسی لئے ہو کہ تم بھی لذتوں سے کچھ عرصہ منہ موڑ کے میرے ذکر کی لذت حاصل کر لو ، اوڑھنے پہننے اور برانڈز کے چکروں میں گھن چکر بننے کی بجائے میری معرفت کا لبادہ اوڑھ لو۔ قبر میں کھایا، پیا ، پہنا، اوڑھا کام نہیں آئے گا۔

قبر میں جاتے ہی جن تین سوالوں کے جوابات دینا ہیں کہاں سے آئے؟ کیا کر رہے ہو؟ کہاں جانا ہے؟ پر غور کرنے کے لئے اس نے تمہیں از خود آئسو لیٹ کردیا ہو۔

سسئی بے خبرئیے! اگر دنیا کا سارا سازوسامان، ساری رنگینیاں، ساری دلچسپیاں اس لاک ڈائون میں بھی جوں کی توں رکھیں تو بس یہ مت بھولنا
ان بطش ربک لشدید
فعال لما یرید


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

7 پر “لاک ڈائون یا اللہ کا سوشل بائیکاٹ؟” جوابات

  1. عتیق الرحمن شاھد Avatar
    عتیق الرحمن شاھد

    قانتہ رابعہ ایک منجھی ہوی لکھاری ھییں اور موجودہ حالات پر پڑھنے والوں کو ایک بہترین تحریر دے چکی ھییں کیا ھی بہتر ہو تا اگر آخری عربی الفاظ کا ترجمہ بھی لکھ دیتیں.

    1. قانتہ رابعہ Avatar
      قانتہ رابعہ

      السلام علیکم۔۔بات تو درست ہے مگر بس خوش فہمی یہی ہے کہ امت مسلمہ کے ہر جوان کو اتنی عربی زبان کی شدھ بدھ تو ہوگی ۔۔جزاک اللہ

  2. Ayesha Riffat Avatar
    Ayesha Riffat

    👍 A fantastic message
    I appreciate you ,your work & the way you work

    1. قانتہ رابعہ Avatar
      قانتہ رابعہ

      شکریہ ۔۔اللہ ہماری کاوشوں کو قبول کر لے

  3. آمنہ محبوب الھدی گوجرہ برانچ Avatar
    آمنہ محبوب الھدی گوجرہ برانچ

    ماشاءاللہ
    بہت خوب صورت تحریر ہے
    جزاکم اللہ خیرا کثیرا

    1. قانتہ رابعہ Avatar
      قانتہ رابعہ

      جزاک اللّہ خیر ۔۔پیاری آمنہ

  4. آمنہ محبوب الھدی گوجرہ برانچ Avatar
    آمنہ محبوب الھدی گوجرہ برانچ

    ماشاءاللہ
    بہت خوب صورت تحریر ہے
    جزاکم اللہ خیرا کثیرا
    اچھی معلومات دینے کا شکریہ