نصرت یوسف:
سفید ٹائلوں کے صاف ستھرے فرش کے ساتھ لمبی کھڑکیوں کی طویل قطار سرکاری شفا خانہ کی انتظار گاہ کو خوب روشن رکھے تھی، آرام دہ کرسیوں پر چڑھا کتھی ریگزین مدہم تو نہ پڑا تھا لیکن کچھ کرسیوں کا ادھڑ چکا تھا۔ حیرت سے کریمہ نے ایک صاف ستھری کرسی پر ٹکتے غلافوں کی اس ناگفتہ بہ حالت کی وجوہات سوچیں لیکن سمجھ نہیں آسکا کہ انسانی جسم میں وہ کون سے خار ہیں جو ان کرسیوں کو ادھیڑ گئے۔ یکایک نظر سامنے پھرتے ننھے من موجی بچے پر پڑی ۔ سرخ گال کے ساتھ اس کے سرمہ بھری آنکھیں ہر فکر سے بے نیاز تھیں۔اسے مستقل ننگے پیر پھرتا دیکھنا اس کے لیے ناگوار تھا لیکن اس کے وارثین کے لیے شاید یہ عمومی بات تھی۔
وقفہ وقفہ سے مریضوں کا نام متعلقہ طبیب کے لیے پکارا جاتا اور لمحاتی ہلچل سی ہو جاتی۔ بچہ گھومتے اس کے قریب آکر چھوتا گزرا تو وہ ہنس دی لیکن پھر ناگواری سے اس نے بچے کو برابر والی کرسی کے پاس رک کر پھٹے ریگزین کو انگلیوں سے کھینچنے کے کوشش کرتے دیکھ کر خفگی بھری آواز نکالی۔ ایک چھوٹا سا دائرہ کھنچاؤ سے بڑا ہو چکا تھا، کرسی مذید بد نما دکھنے لگی ۔ چلبلا سا بچہ کریمہ کی سرزنش سے ڈر کر دور تو ہو گیا لیکن اسے کچھ دیر قبل سوچے ‘خار دار جسم’ سے متعلق سوالات کا جواب دے گیا۔
وہ یہاں کینسر علاج کے شعبے میں تعینات اپنی اسکول فرینڈ سنبل سے ملنے آئی تھی، جس کی آج سالگرہ تھی، ہاتھ میں تھامے تھیلے میں اس کے پسندیدہ کباب رول اور بوتل میں بند تازہ چکوترا جوس موجود تھا۔ دونوں نے اس بیس منٹ میں دوران ملاقات کھانا پینا تھا جو سنبل کے کام کا وقفہ تھا۔
یہ عمومی سرکاری اداروں سے بہتر حالت کی عمارت تھی جہاں رویہ اور مہارت میں نقائص کم تھے۔
سنبل کے وقفہ میں بس دس منٹ باقی تھے، سامنے نظر آتے ہرے بھرے درخت بھی اس انتظار گاہ میں منڈلاتی ان دیکھی بےچینی کا تاثر زائل نہ کر پارہے تھے، جو مریضوں سے آٹھ کر شفاخانے کے درو دیوار میں جذب ہوجاتی ہے، اور یہ ہال تو تھا ہی ان ستم رسیدہ اجسام کا جنہیں کینسر نے اپنے شکنجہ میں کس لیا ہو۔
سامنے بیٹھے جوان آدمی کا چہرہ ایسا سیاہ تھا جیسے توے کی کالک اس پر پھیری گئی ہو، اس کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ شعاؤں نے اس کی کھال جلا ڈالی ہے، کریمہ نے اس لمحے خدا کی دسترس کو دل میں پھیلتا محسوس کیا، کتنے بھی ترقی کے دعوےہوں،روشنی اور تیرگی کے لیے رجوع خالق سے ہی کرنا ہوگا۔
جو انسان کو الصمد لگتا ہے، بے نیاز، ایسا بے نیاز جس کو انسان پر تجربات کرکے خدائی جتانے کا حق ہو لیکن وہی خالق، الرحمن، الرحیم اور الودود بھی ہے، اس لیے شفا خانوں کے لیے بے لوث محنت کرنے والے کریمہ کو خدا کے بڑے خاص بندے لگتے جن میں خدا نے اپنی رحمت اور محبت کی صفات خصوصی اتاری ہوں۔
ہوا تیز چلنے لگی تھی، درخت کی ٹہنیاں اتنی شدت سے ہل رہی تھیں گویا ٹوٹ کر بکھر جائیں گی، کریمہ نے سر پر چلتے پنکھے سے سرد لہر پھیلتی محسوس کی اور مسکراتے قریب آتی سنبل کے گال سے گال ملاتے سرگوشی کی”سالگرہ مبارک منی” جواب میں منی نے جو چٹکی کاٹی تو وہ سی کر کے رہ گئی۔
کچھ فاصلے پر موجود کمرے میں جاکر دونوں نے قہقہہ لگایا اور میز کے ساتھ رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ سنبل کینسر کے مریضوں کی ریڈیو تھراپسٹ تھی، روزانہ مشکل ترین حالات سے گزرتے انسانوں دیکھ کر لگتا جیسے حساسیت سنبل میں مردہ ہو چکی ہے، جن مناظر سے کریمہ کا دل سکڑ رہا تھا وہ ان کے درمیان بے تاثر نظر آرہی تھی۔
ہلکی پھلکی گفتگو کے دوران کریمہ نے اس کے لیے لایا سامان نکالا، رول کھاتے چکوترے کے جوس کو گلاس میں ڈالتے سنبل نے گلاس کی ٹھنڈک پوروں میں سمیٹی اور عام سے لہجے میں کہا کہ” عدیل کی بایپسی ہوئی ہے،منہ کا کینسر ہے.”
گھونٹ حلق سے اتارتی کریمہ نے بمشکل اچھو لگنے پر قابو پایا مگر پھر بھی کچھ قطرے منہ سے ٹپک ہی پڑے، میز پر رکھے ڈبے سے ٹشو کھینچتے سنبل اسے کسی اضطرابی کیفیت میں نہ لگی، لگتا نہ تھا کہ وہ یہ اطلاع جس کے بارے میں دے رہی ہے وہ اس کا شوہر ہے۔
میاں بیوی ایک ہی شفا خانے کے مختلف شعبوں میں کام کرتے تھے،ان کےتعلقات میں مدت سے کھنچاؤ کی خبر کریمہ جانتی تھی لیکن اس قدر دوری آچکی ہے اس کا اندازہ نہ تھا، ملاقات دونوں دوستوں کی ایک شہر میں رہنے کے باوجود بس سنبل کی سالگرہ والے دن ہی ہوتی۔ کچھ میسجز اور دو چار فون، یہ کل رابطے کی تفصیل تھی۔
کریمہ کا پانچ بچوں کی مصروفیات سے وقت نکالنا خاصا مشکل تھا، پھر وہ نفاست پسند عورت تھی، پانچ کے ساتھ نفاست کہیں کونے میں دھرنی پڑتی ہے، جو وہ کر نہ سکی تو بیرونی سرگرمیاں محدود کردیں، خدام سے کام لینے کے لیے بھی دل و دماغ حاضر رکھنا ہوتا ہے، سو کریمہ نے گھر اور ناتوں میں سلجھاؤ رکھنے کے لیے ترجیحات متعین کر لی تھیں۔ اس فہرست میں رشتے پہلے تھے اور دوست بعد میں۔
سنبل سے بالمشافہ ملاقات اسی لیے قلیل، لیکن یادگار رہتی. اب بھی سنبل کو ملے وقفہ کے سولہ منٹ گزر چکے تھے، اور بقیہ چار منٹ میں عدیل کی خبر کی سرخی مزید لینی مشکل تھی، سرد لہر ریڑھ کی ہڈی میں کریمہ نے دوڑتی محسوس کی تو جوس کا آدھا گلاس چھوڑ دیا، چکوترا ترش سے اب تلخ لگنے لگا تھا۔ سنبل نے مبہم سی مسکراہٹ کے ساتھ اس کے بچے ہوئے گلاس کو دیکھا اور ہاتھ بڑھا کر اٹھا لیا۔
“بچا دیا!”
“تمہیں تو ایسی عادت نہ تھی”
تیزی سے گھونٹ بھر کر اس نے خالی گلاس میز کے کنارے ٹکاتے کریمہ کو جھک کر گلے لگایا “لاٹ آف تھینکس کریمہ!”
” یہ تمہارے لیے بنائی گئی پینٹنگ، اس نے سیدھا ہوتے ساتھ لایا تھیلا اس کو تھمایا.”
اس کی کسی بھی حرکت پر غم کا کوئی تار نہ دکھتا تھا۔ کریمہ کو خاموش دیکھ کر وہ اسے آنکھ مارتی مسکرائی۔
“اتنی دکھی آتما نہ بن، سال بھر تک یہ ہی شکل لاک رہے گی ذہن میں”
کریمہ کچھ نہ بولی، پرس سے ایک چھوٹا ڈبہ نکال کر اس کی جانب بڑھایا ” سالگرہ مبارک ہمیشہ عافیت میں رہو، تم بھی اور تمہارے پیارے بھی”
پیکنگ کے چکنے زرد کاغذ پر سرخ گلاب ٹہنی سمیت چپکا تھا۔
سنبل نے محبت سے اسے پھر جھپی دیتے ڈبا تھاما۔ کلائی میں پہنی گھڑی پر نظر ڈالی۔ وقفہ ختم ہو چکا تھا۔
“تمہارے پسند کے برانڈ کا لپ کلر ہے، حسینہ لگو گی” کریمہ نے شوخ بولا لیکن آواز میں ساز مفقود تھا۔
” کریمہ انسان جب حلال، حرام کمائی کو قصہ کہانیاں سمجھے تو پھر خود بھی سوختہ کہانی بن سکتا ہے .”
اس نے فلسفہ بیان کرتے کریمہ کا تاثر دیکھے بنا کمرے سے باہر قدم بڑھا دیے،
سامان سمیٹ کر کریمہ اس کے پیچھے بڑھی، ہال سے کسی کے کراہنے کی آوازیں آرہی تھیں، کونے میں لگی برتھ پر کوئی مختصر وجود پڑا تھا، کتھی کور پر کتھی ہی لباس میں. کریمہ بے اختیار ادھر بڑھ گئی، ہڈیوں کا ڈھانچہ نما بچہ، وہ سن سی کیفیت میں اس عورت اور مرد کو دیکھے گئی جن کے چہرے پر اس منحنی سے کراہتے وجود کو دیکھتے بے بسی کا جال بچھا تھا۔
نہ جانے کیا تھا اسے،اور کون سی مدد درکار تھی۔ اس کے استفسار پر وہ اسے اجنبی تاثر سے دیکھنے لگے. زبان کی اجنبیت آڑے آگئی، کریمہ نے بے اختیار پلٹ کر دیکھا جہاں سنبل گئی تھی۔ دکھ اس سے لپٹنے لگا، اس نے آیات شفا بےآواز پڑھ کر اس کراہتے جسم پر فاصلے سے پھونکا اور وہاں سے نکل آئی۔ سواری لینے سے پہلے وہ چلنا چاہتی تھی، ذہنی اور دلی گرداب کو جھٹک کر واپسی بہتر تھی۔ اچانک شعبہ حادثات پر ٹھٹھک گئی، انتظامی امور کی اہم پوسٹ پر عدیل کا نام تھا.
اکا دکا سپاہی بھی ارد گرد ٹہل رہے تھے لگتا تھا اندر کوئی ہتھکڑی بردار بغرض علاج موجود ہے.
” جانے چوہا ہاتھ لگا ہے یا ہاتھی”
کریمہ کو سوچ آئی تو مبہم سی مسکراہٹ لب پر آئی۔
” سنبل دماغ کی لسی کیوں بنارہی تھی۔” وہ سوچتے ہوئے آن لائن کیب بک کرانے لگی. مسکراہٹ سے بوجھل پن سرکنے لگا ، کیب اگلے دو منٹ بعد سامنے تھی۔
ہاتھ میں تھاما سامان سیٹ پر ترتیب دے کر بیٹھتے ہی اس نے موبائل چیک کیا، ابا کی کال آئی تھی،تین دن سے وہ چھوٹی بیٹی کے بخار میں گھری ان کی جانب جا نہیں سکی تھی. سنبل کا بھی میسج تھا۔
اس نے حیرانی سے اس غیر متوقع میسج کو دیکھا۔
“اگر مصدقہ قاتل، دہشت گرد کے فرار میں ہاتھ لگایا جائے تو مدد گار سے ہمدردی ہو سکتی ہے؟ پیاری الجھو نہیں، سمجھو بس”
کریمہ نے کئی بار یہ سوال سمجھنے کے لیے پڑھا اور جب سمجھ لیا تو عدیل کے لیے سنبل کے تاثرات سلجھ کر،روشن سی سنبل کے گرد دھبے واضح کرتے گئے۔