دعاعظیمی:
یہ سچ تھا کہ سمندر مجھے اپنی طرف کھینچتا تھا ،جیسے چکور کو چاند اور سورج مکھی کو سورج،اور مقناطیس لوہے کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔
میں نے سمندر کے لیے بے پناہ کھچاؤ محسوس کیا۔ساحل پر کھڑا ابھی میں اسے جذب کررہا تھا کہ یکایک آسمان کو چھوتی ایک لہرابھری سمندر کا سینہ چیرتی کسی طوفان کی طرح اس نے مجھے لپیٹا۔ ایک گہرا شور ابھرا لہر نے مجھےاپنی بانہوں میں بھرا اور سینے سے لگایا۔ پھر کچھ ثانیے کے لیے گویا سکوت چھا گیا۔ اندھیرا ہی اندھیرا تھا، معلوم نہیں کب
ریتلی زمین پہ کسی دوسری لہر نےمجھے پٹخا ہو گا۔
جب مجھے ہوش آیا تو سورج کی کرنیں میرے وجود کو تھپتھپا رہی تھیں۔ جب پلک جھپکی میں زندہ تھا۔ فقط زندہ۔ سانس آتی تھی تودرد کی لہر اٹھتی اور پورے بدن کو کاٹتی تھی۔ میں ہلنا چاہتا تھامگر ایسی نقاہت تھی کہ ہلنے سے بھی قاصر تھا۔ موت نے زندگی کی حفاظت کی تھی۔ میں بچ گیا تھا۔ جانے کب تک کب تک ایسے ہی پڑا رہوں گا، میں کون تھا؟ میرے ساتھ کون تھا ؟پانی اور میں ہمارا کیا رشتہ تھا ؟
ذہن پہ زور دیا تو یاد آیا کہ میں نے طاقتور سے محبت کی تھی۔ پانی اور وہ بھی سمندر کا پانی کتنا شور تھا، زور تھا اس کی ایک لہر کو چھونے کی تاب نہیں تھی اور میں محبت کا دعویٰ کرتا تھا۔ اس سے تو بہتر ہوتا اگر میں کسی ستارے کی کشش کا شکار ہوتا شاید ستارا میرے ساتھ بہتر سلوک کرتا ہو سکتا ہے وہ سیدھامیرے ماتھے پہ آبیٹھتا کیا پتہ میرا سویا بخت ہی چمک اٹھتا۔ میں دوسری محبت ستارے سے کروں گا۔
اندھیرےاجالے کے سفر میں چاروں شانے چت میں بے یارومددگار پڑا تھا جیسے ڈوبتی ہوئی
کشتی یا اس کاملاح۔ چمکتی دھوپ کی ملیح روشنی اور حرارت جمے خون کو بوسے دے رہی تھی ،پیٹ بوجھل سانس بھاری ، پانی کی آغوش میں چند لمحے جو گزرے تھے وہ اپنا خراج وصول کر رہے تھے۔ میں پھر سے اندھیرے میں تھا غنودگی جانکنی سے بہتر تھی۔
دوبارہ ہوش تب آیا جب کسی نے مجھے اوندھا کیا اور میری پیٹھ کو دبایا۔ درد کی جنبش سے پانی کا گرم فوارہ میرے منہ سے نکلا اور ریت میں جذب ہو گیا۔ دن میں تارے سے نظر آئے ہائے اب میں کسی ستارے سےمحبت کروں گا۔ خیال لہرایا محبت ایک کیفیت ہے جس کا ذائقہ بارہا چکھا، وہ مجھے کبھی راس نہیں آئی، پر اسی کے تصور سے میرے دل کےقبرستان میں نرگسی پھول کھلتے تھے۔
میں محبت نہ کرتاتو کیا کرتا کہ میراخمیر محبت سے اٹھایا گیا تھا میں نےآگ سے محبت کی، اس نے مجھے جلایا، میرا میل کچیل صاف کیا، پھر ہواپہ بھروسا کیا، اور اپنا چراغ سر شام جلا کر ہوا کی ہتھیلیوں پر رکھ دیا چاہے تو جلائے چاہے تو بجھا دے، میں نے صحرائوں کی دشت چھانی اور لالہ صحرائی کو بوسہ دیا۔
مٹی سے کھیلا،قبروں سے نہیں ڈرا بلکہ نرگس کھلنے تک قبروں کاساتھ دیا۔ مرنے والے کے ساتھ رہا، مزار سے محبت کی، روشنی اور پروانے کی پہیلی کو بوجھنے کی کوشش کی، راز سمجھ میں نہی آیا، ملاحوں کے گیتوں سے سمندر کی لہروں تک ہر شے کو چاہا اب سوچتا ہوں نئی اور دوسری محبت شام کے مغربی ستارے سے کروں گا۔
مجھے ہوش میں لانے والا ایک بوڑھا تھا جس نے میری جان بچائی، شاید کوئی مچھیرا تھااس کی جھونپڑی میں گھاس پھوس کا بچھونا اور ایک کھاٹ تھی۔ اس نے میرے لیے اپنی کھٹیا چھوڑ دی تھی۔ اس نے لکڑی کے کھرل میں کچھ کوٹا اور مجھے پلایا، میرے بدن کی چستی لوٹی۔ اس نے مجھے زندگی بخشی، وہ مسکرایا،اس کے ٹوٹے ہوئے پیلے دانتوں سے مری ہوئی مچھلی کی باس آئی جو مجھے نہیں بھائی۔ اس کے حلق سے جو آواز نکلی میں اس سے نامانوس تھا۔ اس کی بولی میرے فہم سے ماورا تھی۔ شاید نامعلوم جزیرے میں اس کا ہونا میرے لیے ہی تھا، کھلے آسمان کی بانہوں میں ستاروں کے جھرمٹ آباد تھے، مغربی ستارہ سب ستاروں سے زیادہ روشن تھا۔ میں اپنے پالنے سے اسے دیکھتا آیا تھا، آج کی شب وہ مجھ سے اتنا قریب تھا جتنا اس سے پہلےکبھی بھی نہیں۔
ہمارے بیچ قرب کی لہریں موجزن تھیں۔
اے ماہ کامل کے پہلو میں جلوہ نشیں ! تیرا روپ بے بہا ہے تو چمکتا ہے تو میرے دل کی آنکھ روشن ہوتی ہے۔
اے شہاب ثاقب کےہم نشیں، نورانی کہکشائوں کے ہم سائے! دیکھ میرے دل میں تیری محبت کے چراغ جلتے ہیں۔ کہنے لگا، میں تیری روشنی سے چمکتا ہوں تو میری روشنی سے چمکتا ہے تو ظاہر کو دیکھتا ہے میں باطن کو، میرا ظاہر چمکتا ہے اور تیرا باطن اور ہم دونوں ایک نور سے چمکتے ہیں۔
“کیا میں اس نور کو دیکھ سکتا ہوں؟” میں بہت جلدی میں تھا۔
“تم بہت جلدی میں ہو، تم کٹھن تپسیا کے بغیر اسے نہیں دیکھ سکتے ہو!!”
مجھے ابھی انتظار کے کچھ مراحل اور طے کرنے تھے۔ بوڑھے کے خراٹوں کی آواز مینڈکوں اور جھینگروں کی آوازوں سے اونچی تھی۔ سوتےمیں اس کا منہ تھوڑا اور کھل گیا تھا. اس کے دانت کی کھڑکی سے نورچھن چھن کر پورے ماحول کو نورانی بنا رہا تھا۔ وہ میرا محسن تھا۔ میری جان بچانے والا تارے کی جھلملاہٹ اس سے کم خوبصورت تھی۔ صفت انسانی میں احسان کا نور سب سے بڑا نور تھا۔
بادل کے ٹکڑے میں تارا چھپ گیا۔ کچھ دن اس مچھیرے کے ساتھ گزرے۔ ہم آفاقی زبان میں بات کرتے اس کے پاس مبہم نقشے تھے۔ وہ بھٹکے ہوئے ملاحوں کو اپنی زبان میں راستہ دکھانے کے لیے اس ویرانےمیں آباد تھا۔ شاید اس نے مجھ جیسے کئی انسانوں کی جان بچائی ہو قطبی تارے کی سیدھ پر واقع ساتوں ستارے جنہیں غور سے دیکھنے پر ریچھ کی شکل بن جاتی تھی نمایاں ہوتے جا رہے تھے۔ بوڑھا مچھیرا بھی میری طرح ان سے راستہ پوچھتا تھا،وہ اس کی کٹیا سے چمکتےنظر آتے تھے۔ کبھی دب اکبر کواور کبھی دب اصغر کو مل کر دیکھنا ایک انوکھا اور خوشگوار تجربہ تھا۔ وہ میرے ساتھ پر خوش نظر آتا وہ مجھے نقشے دکھاتا اور علاقے کی تفصیل بتاتا۔ ان دنوں مغربی تارا میرے قریب ہوا۔
جلد ہی مجھے احساس ہوا ،میری محبت کی کہکشاں زمین پر تھی کھاٹ پہ پڑے بوڑھے پر پیوند زدہ کپڑا اوڑھاتے ہوئے مجھے لگاستارے ہمیں ستارے سمجھتے ہیں۔
ہم سب ایک نور سے چمکتے ہیں نور احسان سے ، صبح سے پہلے میں اپنے دیس پہنچنا چاہتا تھا،ایک لمبی مسافت میرے انتظار میں تھی، سونے کی کوشش میں گھر بستر بیوی بچے سب یاد آرہے تھے، جانے کوئی بحری بیڑہ کب ادھر آئے گا۔لگتا تھا ستاروں سے محبت نبھانی پڑے گی۔
نورانی بوڑھا مچھلی آگ پر بھون کر میری میزبانی پہ مامور تھا،میرا د ل لکڑی کی چھال سے زیادہ سخت ہاتھوں کی محبت میں مبتلا ہوچکا تھا۔
میں جزیرے سے نکلنے کی تیاری کرچکا تھا کہ بوڑھا لکڑیوں کی تلاش میں نکلا اور واپسی پر کٹیا کے قریب ٹھوکر کھا کر گرا اور دوبارہ اٹھنے کے قابل نہ رہا۔ میں نے اس کا زخم صاف کیا۔ مجھے لگا اب وہ ذیادہ دیر تک زندہ نہیں رہے گا، میں اس کی آخری سانس تک یہیں رہوں گا، اس کے لیے مچھلی کا شکار کروں گا،اور اس کا خیال رکھوں گا۔ آخر میں اسے اس حال حال میں چھوڑ کر کیسے نکل سکتا تھا مغربی تارا میرے قریب ہوا ، اور قریب اور میں نے اس کے کان میں سرگوشی کی :
“مجھے اسی کے پاس رہناہے”، جب تک وہ زندہ رہے گا،محبت کا جواب محبت اور احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ اور کیسےہو سکتا ہے شاید سمندرکی طوفانی لہروں نے اسی کی خاطرمجھے یہاں لا ڈالا ہو ، شاید اس کو آخری گھونٹ میرے ہاتھ سے پینےتھے،اس کی آنکھیں بند کرتے ہوئے میں نے سوچامیرے ہاتھ اسی کے ہاتھ ہیں۔
ستارے جھرمٹ میں اور انسان اک دوجے کے ساتھ احساس کے نور میں جگمگاتے ہیں۔ اسے قبر میں اتارتے ہوئے میں نےسوچا۔ بوڑھے کے چہرے کی سلوٹوں میں سکون تھا اس کے جال میں سنہری مچھلی تھی۔
مجھے ہر محبت سے دست بردارہو کے اس کی قبر پہ نر گسی پھول کھلنےتک یہیں
رکنا تھا۔ کاش! میں اس کی کٹیا کو آباد کر سکتا پریہ ممکن نہیں تھا کیونکہ مجھے ابھی دوسرے ستارے کو تسخیر کرنا تھا۔