تحریک انصاف کے فکری قائد، بزرگ صحافی جناب ہارون الرشید اور پولیس افسر کا مکالمہ میرے لئےکافی تکلیف دہ تھا۔ بظاہر پولیس افسر کی غلط نہیں تھا، اس نے ہارون صاحب کے ذرائع کی اطلاع کو غلط قرار دیا تھا جبکہ ہارون صاحب کو اس کی توقع نہ تھی۔ پولیس افسر کے موقف کو سنا جانا چاہئے تھا اور اسے ایک موقف کی حیثیت ہی دی جانی چاہئے تھی لیکن ہارون صاحب کا طرزعمل بتارہا تھا کہ وہ شاید ملزموں کو بے گناہ، معصوم قرار دے کر رہاکرانا چاہتے تھے۔
جو اس مکالمے یا واقعہ سےباخبر نہیں، انھیں خبر ہو کہ ہارون الرشید صاحب نے ریحان نامی کسی پولیس افسرکو فون کیا، ان کے مابین جو مکالمہ ہوا، وہ کچھ یوں تھا:
ہارون صاحب: ریحان صاحب بول رہے ہیں؟
ریحان:ہاں جی، ریحان بول رہاہوں
ہارون صاحب:ندیم عباس نام کے کسی آدمی کو آپ نے پکڑا ہے؟
ریحان:کون صاحب بول رہے ہیں؟
ہارون صاحب:میں ہارون الرشید بول رہاہوں دنیا ٹی وی سے
ریحان:ہاں جی ، پکڑا ہے ریمانڈ جسمانی پر
ہارون صاحب:ہمارے سورسز دو باتیں کہہ رہے ہیں، ایک: آدمی بے قصور ہے، دوسرا، مارا پیٹا ہے آپ نے۔
ریحان:آپ کے سورس کہہ رہے ہوں گے، میں تو نہیں کہہ رہا۔
ہارون صاحب:ہمارے سورسز کہہ رہے ہیں، میں نے آپ سے پوچھا ہے، آپ گورنر بن کر کیوں بات کررہے ہیں۔
ریحان:آپ بھی تو گورنر بن کر بات کررہے ہیں نا
ہارون صاحب:پولیس افسر بن کر بات کریں نا
ریحان:وہی تو کہہ رہاہوں، آپ کے سورس نے کہا ہے نا، میں نے تو نہیں کہا، اس میں کون سی بات ہے، آپ ہوکے کیوں بول رہے ہیں میرے ساتھ۔؟
ہارون صاحب:اچھا ماشااللہ، اتنی تمکنت ہے، آپ کا آئی جی تو اس طرح بات نہیں کرتا۔
ریحان:نہیں، نہیں، اس طرح نہیں ہوتا نا سر، جس طرح آپ کررہے ہیں۔
ہارون صاحب:میں آپ کو تھوڑی دیر میں بتاتا ہوں، آپ کا آئی جی آپ کو فون کرتا ہے۔
ریحان:چلیں جی، اللہ پاک خوش رکھے آپ کو
ہارون صاحب:اللہ آپ کو بھی خوش رکھے گا، فکر نہ کریں۔
کوئی تمیز سیکھو گدھے کے بچے
ریحان:کیا کہا ہے جی آپ نے مجھے؟
ہارون صاحب:میں نے کہا ہے کہ گدھے کے بچے تھوڑی سی تمیز سیکھو
ریحان:ویسے شرم آنی چاہئے، پڑھے لکھے بندے کو اس طرح کی بات نہی کرنی چاہئے
ہارون صاحب:ابھی میں بتاتا ہوں
ریحان:کرلیں جی آپ کرلیں، مجھے پھانسی لگوادیں، گدھے کے بچے ہوں گے آپ، آپ نے کس کو کہا ہے گدھے کے بچے۔
ہارون صاحب:میں نے کہا ہے آپ کو۔
ریحان:ٹھیک ہے، میرے سامنے آکے بات کریں نا آپ،
ہارون صاحب:ہاں آتاہوں آپ کے سامنے فکر نہ کریں۔
ریحان:میں انتظار میں بیٹھا ہوں، واہ بھئی واہ، ایک پولیس افسرکو گدھے کا بچہ کہتے ہو آپ لوگ۔
ہارون صاحب:اور کیا کہوں؟ بات کیوں نہیں سن رہے تم؟
اس کے بعد دوں میں اس انداز میں مزید تلخی ہوئی، ہارون صاحب پولیس افسر کو دھمکیاں دیتے رہے، پولیس افسر ‘‘گدھے کا بچہ’’ قرار دئیے جانے پر احتجاج کرتا رہا۔
بزرگ صحافی نے پولیس افسر کو ‘‘گدھے کا بچہ’’ کہہ کے بھی بڑی زیادتی کی۔ وہ گھر میں اپنے بیٹے بلال الرشید کو انھی الفاظ سے مخاطب کریں تو ان کے کہے پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا لیکن گھر سے باہر کسی کو یہ الفاظ کہیں گے تو جواب وہی ملے گا جو پولیس افسر نے انھیں دیا۔
تحریک انصاف کے فکری قائد اور مربی کو ایک لمحہ ٹھہر کے ضرورسوچنا چاہئے کہ ہمارا معاشرہ، تیس چالیس برس قبل والا معاشرہ نہیں رہا کہ بزرگ جو بھی کہتے تھے، ان کے الفاظ کا احترام کیا جاتا تھا یا کم ازکم برداشت ضرور کیا جاتا تھا لیکن اس کے بعد پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے، اس قوم نے حالیہ مرحلہ انھی کی تحریک انصاف کے ساتھ طے کیا ہے جب تحریک انصاف والے ہر اختلاف کرنے والے کو نہیت غلیظ گالیاں بکتے تھے۔ اب اگرچہ تحریک انصاف برسراقتدار ہے لیکن ہارون صاحب کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ تحریک انصاف کوئی ایم کیوایم بن چکی ہے کہ لوگ اس سے اختلاف کرتے ہوئے خوف محسوس کریں۔ اب تو لوگ ایم کیوایم سے نہیں ڈرتے، تحریک انصاف والوں سے کیا ڈریں گے!
پولیس افسر سے مخاطب ہوکر ہارون صاحب نے فرمایا کہ تمہارا آئی جی میرے ساتھ اس انداز میں بات نہیں کرتا، ان کے کہنے کا مطلب شاید یہ تھا کہ آئی جی بھی ان کے کہے کو مستند سمجھتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو واقعی پولیس افسر نے ہارون صاحب کی رائے سے اختلاف کرکے غلطی کی ہے۔ اس کے بعد بزرگ نے جودھمکیاں دیں، ان کے تناظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید ان سطور کی اشاعت تک پولیس افسر کی چھٹی ہوچکی ہوگی، اگر نہیں بھی ہوئی تو وہ اب چین اور سکون سے ملازمت نہیں کرسکے گا۔ ایسا ہوا تو یہ افسوس کا مقام ہوگا، کیا اتنی چھوٹی سی بات پر پولیس افسروں کو سنگین نتائج بھگتنا پڑا کریں گے؟ یہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا؟
ایک تبصرہ برائے “قصہ ہارون الرشید اور پولیس افسرکا”
موصوف ہارون الرشید کے متعلق اگر حقیقت جاننی ہو تو اس کے لیے ان افراد کے تاثرات لے لیجیے جو موصوف کے لیے کام کرتے ہیں ،چائے وہ پروڈیوسر ہو ،کالم ٹائپ کرنے والا ہو یا پھر گھر کا ملازم۔ان کی ساری ’’بزرگی‘‘ کا پتہ چل جائے گا۔