کریم متنازعہ اشتہار

اشتہارات میں عورت کا استعمال، چند پہلو جو نظرانداز ہورہے ہیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر میمونہ حمزہ:
اشتہاری دنیا عورت کے دم قدم سے آباد ہے، زندگی میں شامل ہر ضرورت، آسانی اور آسائش کی اشیاء پر نظر ڈالیں تو عورت اس کی مارکیٹنگ کرتی دکھائی دیتی ہے، آج کی دنیا میں ماڈلنگ ، مارکیٹنگ کے شعبے سنگ سنگ چلتے ہیں، اشتہارات میں ماڈلز کے ذریعے کسی بھی پروڈکٹ کا تعارف اس انداز میں کروایا جاتا ہے کہ اس سے نا بلد اور اس کی ضرورت نہ محسوس کرنے والے کو بھی اپنی ضرورت لگنے لگے،

اسی لئے اشیاء کو خوبصورت پیکنگ میں محفوظ کرنے کے ساتھ ایسے ماڈلز سے اس کی عملی افادیت بیان کروائی جاتی ہے کہ وہ پر کشش بن جائیں، ان کا ہر کہا سو فیصد درست لگے، اور صارف مجبور ہو کر اس پراڈکٹ کو خریدے اور اس کے سوا کسی اور شے میں اطمینان محسوس نہ کرے۔

اشتہارات میں عورت کا استعمال اسی خوبصورتی کو کیش کروانے کا ایک انداز ہے، گھر کی عام ضروریات ہی کو لے لیجئے، صابن، شیمپو اور ٹوتھ پیسٹ گھر کا ہر فرد استعمال کرتا ہے، لیکن اس کے اشتہار میں بنی سنوری عورت ہی دکھائی دیتی ہے، جس کا انداز صفائی ستھرائی سے بڑھ کر مردوں کو گھائل کرنے والا دکھایا جاتا ہے، حالانکہ نوے فی صد سے زائد خواتین محض دانتوں کی صفائی اور صحت برقرار رکھنے کے لئے ٹوتھ پیسٹ استعمال کرتی ہیں۔یہی حال شیمپو ، صابن اور دیگر مصنوعات کا ہے۔

صابن کے اشتہارات عورت کے چہرے اور اس کی پر کشش جسم نیم برہنہ تصویروں کی تجارت ہیں، جس میں ہر قسم کی جلد کے لئے ایک الگ ماڈل کا انتخاب کیا جاتا ہے، اور ہر سال اس کا ایوارڈ منعقد کر کے اعلیٰ پیمانے پر عورت کے جسم کی نمائش کی جاتی ہے، سوچنے کی بات ہے کہ صابن کی اصل قیمت کیا ہوگی، جسے بیچ کر اتنا کثیر منافع کما لیا جاتا ہے۔

ڈیری پراڈکٹس کے اشتہار بھی شاندار ہیں، خوبصورت عورت جس دودھ کو کیلشم اور دیگر لوازمات سے بھرپور اور صحت اور ترقی کا ضامن بیان کرتی ہے، اس کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ اس میں دودھ کا وجود تک نہیں پایا جاتا، کجا کہ اس پر خالص و نا خالص کی بحث کی جائے۔بلکہ یہ تو محض ’’ٹی واٹنر ‘‘ ہے، یعنی چائے کو سفید بنانے والا، اور اس کا سفید رنگ ہی دودھ کا دھوکہ دیتا ہے، لیکن دھوکہ اک عورت کے حسن اور فٹ نیس سے دیا جاتا ہے، جو مسکرا کر بون سٹرانگ ہونے کا دعویٰ اور وعدہ کرتی ہے۔

موبائل فون کے ایک اشتہار میں عورت کو زمین پر لیٹا دکھایا جاتا ہے، اس انداز میں عورت اپنے گھر میں محرم مردوں کے سامنے بھی لیٹنے سے گریز کرے، اور اس بے حیائی کے منظر کا آخر موبائل فون کے مواصلاتی رابطے کی ’’سم‘‘ سے کیا تعلق ہے؟

پاکستان میں اشتہارات میں عورت کا اس کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے کہ ایک ٹریڈ مارک اپنی ساری مصنوعات پر سیل لگاتا ہے تو بڑی بڑی شاہراہیں عورتوں کے مزین چہروں اور نت نئے ملبوسات کی نمائش سے بھر جاتی ہیں، حالانکہ وہاں مردوں اور بچوں کی اشیاء بھی سیل پر دستیاب ہیں اور گھریلو استعمال کی اشیاء بھی!

برگر کے ایک اشتہار کو دیکھ کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں، جس میں سرخ لپ اسٹک لگائے خاتون دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اور پورا منہ کھول کر برگر کا سائز بیان کر رہی ہے، اور پھر زبان باہر نکال کر اس کے ذائقے کو بیان کر رہی ہے، کیا کھانا ایسی ہی اشتہا کا تقاضا کرتا ہے؟

سافٹ ڈرنک کا ایک اشتہار تو چودہ طبق روشن کر دینے والا ہے، اس میں عورت کا چہرہ تو نہیں ، ہاں ایک حاملہ عورت کے پیٹ کے اندرونی حصّے کا منظر ہے، جہاں وجود میں آنے والا بچہ ڈرنک کی بوتل پکڑے دنیا میں آنے کا منتظر ہے! کیا منافع اخلاقی اقدار اور عورت کے وجود اور اس کی تکریم کو اس قدر بھی گہنا سکتا ہے؟

پچھلے چند برس میں ذرائع آمد و رفت میں ایک نیا اسلوب متعارف کروانے والا نام ایک ایسی ’’ٹیکسی‘‘ بھی ہے، جسے آپ اپنی لوکیشن بتا کر بلا سکتے ہیں ۔اس سہولت نے تھوڑے ہی عرصے میں نہ صرف اپنی پہچان بنا لی ہے بلکہ عوام کی بہت سی مشکلات کا حل بھی دیا ہے، اتنی کامیابی کے باوجود کمپنی نے اپنی تجارت کو عورت کے کندھے پر بڑھانے کی کوشش کی، اور اشتہار میں دلہن بنی لڑکی کو شادی کے دن بھاگنے کے لئے اس ٹیکسی کو کال کرنے کا راستہ دکھایا۔

یہاں ایک ٹافی اور چاکلیٹ بھی عورت کے حسن اور اس کی سمارٹنیس کے بغیر نہیں بکتی، سردرد کی گولی بھی، جن اشیاء سے اس کا کوئی تعلق نہیں وہ بھی! حتی کہ سیگرٹ کی ڈبیا کے اشتہار میں بھی عورت نمایاں ہے۔

پاکستان کی اشتہارات کی منڈی (ایڈورٹائزنگ مارکیٹ) میں 31 فی صد مردوں کے مقابلے میں 69 فیصد خواتین ماڈلز کام کر رہی ہیں، یعنی ہر (11) گیارہ مردوں کے مقابلے میں(24) چوبیس خواتین موجود ہیں، اشتہارات میں حصّہ پانے کے لئے جہاں ان کا نسوانی حسن اہمیت رکھتا ہے، وہیں جسمانی ساخت اور جنسی کشش بھی بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔اور کتنی ہی اشیائے صرف ایسی ہیں جو محض عورت کے حسن اور لباس کی تراش خراش، نازو ادا اور نیم برہنگی کے سبب کامیاب تجارت کے ریکارڈ توڑ دیتی ہیں۔

ایڈورٹائزنگ کمپنیاں ایسی خواتین کی عکس بندی میں دلچسپی رکھتی ہیں جو دبلی پتلی، خوبصورت، جوان اور ناز و ادا میں مہارت رکھتی ہوں، اور ہر لحاظ سے مکمل نظر آئیں، اور جب ہر قابل ِ ذکر شے عورت کے اشتہار سے بیچی جائے تو ہر جانب خوبصورت عورتوں کی تصاویر، بل بورڈز اور متحرک مناظر دکھائی دیتے ہیں،

اور اس کے بد اثرات شادی شدہ مردوں پر بھی پڑتے ہیں، جب وہ غضِّ بصر کو رفتہ رفتہ چھوڑ دیتے ہیں، یا اس میں بے پرواہی برتنے لگتے ہیں، معاشرے میں حیا کا وہ لیول برقرار نہیں رہتا جو ایک مسلمان معاشرے میں لازماً قائم رہنا چاہئیے،

کہیں حسین عورتوں کے مناظر ان کے حواس پر سوار ہوتے ہیں تو کہیں ان کی یکسوئی کو متاثر کرتے ہیں، کچھ مرد اپنی بیویوں سے ایسی ہی آرائش اور جسامت کا مطالبہ کرتے ہیں، اور بلا شبہ گھر میں رہنے والی عورتوں کی اکثریت کے پاس نہ اتنا وقت ہے نہ وسائل کہ وہ ایک ماڈل کی طرح بن سکے۔ خواتین کی بڑی تعداد پہلے ہی معیاری غذا سے محروم ہے، ڈائیٹ کنٹرول کے دھوکے میں وہ اپنی صحت بھی برقرار نہیں رکھ پاتی۔

اس معاملے کا ایک اور حساس پہلو یہ ہے کہ نوجوان کنواری لڑکیوں کے لئے یہی اشتہارات ایک بہت بڑا چیلنج بن جاتے ہیں، جب اس کے رشتے کی بات چلتی ہے تو لڑکوں کی جانب سے اسی پیمانے کے حسن کا مطالبہ کیا جاتا ہے، اور یوں قبول صورت لڑکیوں کی بڑی تعداد بار بار ٹھکرائی جاتی ہے، کبھی رنگت کی بنیاد پر اور کبھی جسامت اور قد کی بنیاد پر!

پاکستان میں دو کروڑ سے زائد نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شادی کی عمر ہونے کے باوجود بے نکاح بیٹھے ہیں، اور ان کے نکاح نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لڑکیوں کو حسن کے اسی معیار پر پرکھا جاتا ہے جو ایک ماڈل کا ہے، اور اس کی دیگر خوبیاں گہنا دی جاتی ہیں، جس کی بنا پر وہ بار بار ریجیکٹ ہونے کا عذاب سہتی ہیں۔
٭٭٭


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں