قہوہ خانے میں قہوہ کا کپ اور کھجوریں

راہِ عقل پر سفر

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

افسانہ نگار/ ھنا کریم(شام)
عربی سے اردو میں ترجمہ/ مدثر محمود سالار:

وہ نہایت قابل نوجوان تھا۔ ہوسکتا ہے اس کی عقل مند ماں نے رب سے دنیا کی کوئی بھی شے طلب نہ کی ہو سوائے ایک کامیاب مطیع و فرمانبردار بیٹے کے۔

غرض تعلیم و تربیت اور اطاعت کا اعلیٰ نمونہ وہ نوجوان بلاشبہ قابلِ تحسین تھا۔ اس کے مرحوم باپ کی بھی یہی خواہش تھی کہ اس کا بیٹا لائق فائق ، اچھے اخلاق والا شخص بنے۔

وہ تعلیم میں بھی سب سے آگے تھا، ہر مضمون میں اعلیٰ نمبروں سے کامیاب ہوتا اور ہر مضمون کو گہرائی میں جاکر سمجھنے کی کوشش کرنا اس کا مشغلہ تھا۔ وہ فارغ وقت میں فطرت سے محظوظ ہوتا اور ندی کنارے جاکر بیٹھنا اور سکون حاصل کرنا اس کا پسندیدہ کام تھا۔ بعض اوقات وہ اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ سرسبز کھیتوں کی طرف جاکر تازہ ہوا سے خود بھی لطف اندوز ہوتا اور بہن کو بھی فطرت سے مانوس کرتا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد وہ صنعت و حرفت کی تعلیم و تربیت دینے والے ایک کالج میں داخل ہوگیا۔ اس کے والد اس کی والدہ اور ان دو بہن بھائیوں کے لیے کچھ زیادہ تو نہیں مگر مناسب ترکہ چھوڑ گئے تھے۔

اس کی والدہ اس وقت کے انتظار میں تھیں کہ کب وہ اپنے پائوں پر کھڑا ہوکر بہن کی تعلیم کے اخراجات اٹھانے کے قابل ہو۔ پس والدہ کا رجحان دیکھتے ہوئے اس نے کوشش کی اور ایک طالب علم ڈھونڈ لیا جسے وہ گھر جاکر تعلیم دے سکے اور اس کے بدلے کچھ معاوضہ پاسکے۔ وہ اللہ کی تقسیم پر راضی رہنے والا قناعت پسند نوجوان تھا۔ ٹیوشن پڑھانے کا مقصد بھی فقط اپنے ذاتی اخراجات کا بوجھ اپنے کندھوں پہ اٹھانا تھا۔

گو وہ عاجزی پسند سادہ طبعیت کا مالک تھا مگر جب کبھی وہ گائوں کی مرکزی شاہراہ سے گزرتے ہوئے شاہراہ کے اطراف قہوہ خانوں اور کھانے کے چھوٹے ہوٹلوں کو لوگوں سے بھرا ہوا دیکھتا تو اس کے دل کی حرکت رکنے لگتی، وہ اپنا ہاتھ جیب میں ڈالتا اور ایک بار تسلی کرتا کہ شاید اس کے پاس کچھ پیسے ہوں مگر ہمیشہ جیب خالی ہوتی، وہ اپنے کپڑے خوامخواہ ہی ٹھیک کرتے ہوئے سوچنے لگتا کہ
کیا کبھی وہ ان قہوہ خانوں میں بیٹھ سکے گا؟
صرف ایک قہوے کا پیالہ یا صرف ایک مٹھائی کا ٹکڑا ہی خرید سکے تو کیا ہی لذت ہوگی۔

وہ قہوہ یا مٹھائی کی قیمت سے بھی نابلد تھا۔ لیکن وہ ہمیشہ یہی سوچ کر آگے بڑھ جاتا کہ اس کے پاس پیسے ہوں تو بھی ان پیسوں کے کئی اہم مصارف ہیں بجائے کسی قہوہ خانے میں خرچ کرنے۔ وہ قہوہ خانوں سے خود کو دور رکھنے کے لیے دیگر مصارف کی فہرست اپنے ذہن میں ترتیب دینے لگتا۔

دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ دل کو بہلاتے ہوئے گزر جاتا مگر جب دوبارہ وہاں سے گزرتا تو دل میں دوبارہ کسک اٹھتی اور وہ پھر رک کر سوچنے لگتا کہ کاش وہ قہوہ پی سکتا۔

وہ سوچتا کہ ان قہوہ خانوں میں بیٹھنا یقیناً قابلِ فخر بات ہوگی، ایک ایسا سرور ملتا ہوگا جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا اور یہ فخر و سرور صرف ایک خاص طبقے کو ہی میسر ہے جو ان قہوہ خانوں میں جاکر مسرور ہوسکتے ہیں۔ وہ گمان کرتا کہ وہ اس اعلیٰ طبقے میں سے نہیں ہے مگر ہوسکتا ہے وہ کبھی اس اعلی طبقے میں شمار ہونے لگے۔ اور یقیناً ایک دن وہ ان میں شامل ہوگا۔

وہ جب جب وہاں سے گزرتا اس کی حسرت میں اضافہ ہوجاتا۔ حتی کہ اسے وہاں سے گزرنے میں کراہت محسوس ہونے لگی۔ وہ نوجوان جہاں اس شاہراہ پر اپنی آنکھیں چرانے لگتا وہیں اس کی بہن کو ندی کنارے جانا، باغیچے سے پھل توڑنا زیادہ اچھا لگتا تھا۔
اس کی بہن اپنی سہیلی کے ساتھ باغوں میں گھومنے جاتی جبکہ وہ اکیلا اس شاہراہ پر حسرت سے دکانوں کو تکتا رہتا۔
اسے بہن کا باغ کی طرف اکیلے جانا بھی پسند نہیں تھا اور وہ اپنی سہیلی کے ساتھ وہاں
جاتی تھی تو بھی وہ چڑ جاتا تھا۔

اس کا دل کرتا کہ وہ بھی اس پیاری سی سہیلی کے ساتھ جاسکتا، اس کی حسرت تھی کہ کاش! وہ اتنی استطاعت رکھتا کہ انہیں کسی قہوہ خانے میں لے جاسکتا۔
خصوصاً جب وہ ان قہوہ خانوں میں نوجوانوں کو اپنی دوست لڑکیوں، یا محبوبائوں یا بہنوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھتا تو اس کا چہرہ مرجھا جاتا ، اسے ان سے حسد ہوتی مگر وہ کسی پر اپنے خیالات ظاہر نہیں کرتا تھا۔

کچھ دیر بعد وہ خود کو سنبھال کر تسلی دیتا کہ اس کے پاس جتنا ہے وہی کافی ہے، وہ باآسانی مکئی کے بھٹے یا شربت یا برف کا گولہ ان کے لیے خرید سکتا ہے اور یہی کافی ہے۔

ایک دن وہ اپنی ٹیوشن سے واپس آرہا تھا اور اس کی جیب میں اس کی مہینے کی ٹیوشن فیس کے علاوہ کچھ اضافی رقم بھی تھی جو اس کے شاگرد کے باپ نے اسے بطور انعام دی تھی ، اس کے شاگرد نے اعلیٰ نمبروں سے امتحان پاس کیا تھا،اس خوشی میں اس بچے کے باپ نے بطور استاد اسے انعام دیا۔

وہ اس شاہراہ سے گزرتے ہوئے قہوہ خانوں کی طرف متوجہ ہوا، وہ ایک بار وہاں سے گزرا ، پھر پلٹا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا قہوہ خانے کو دیکھتا ہوا سوچنے لگا کہ کیا خیال ہے آج اس کی جیب قہوہ خانے میں داخل ہونے کی اجازت دیتی ہے یا نہیں؟ وہ تردد میں پڑ گیا کہ وہ آج قہوہ خانے جائے یا ایک خوبصورت قمیض خریدے جس پر دو ماہ سے اس کی نظر تھی مگر اس قمیض کی قیمت اس کی تنخواہ سے زیادہ تھی۔

قہوہ خانہ یا قمیض ، قمیض یا قہوہ خانہ یہ دو مختلف خواہشات اسے الجھا رہیں تھی۔
قمیض لینا ضروری ہے یا قہوہ کا ایک پیالہ اسے لذت و سرور بخشتا ہوا عالم ثریا میں لے جائے گا؟
اس نے اپنے کپڑوں پر غیر مرئی سلوٹیں ٹھیک کرتے ہوئے خود کو مجبور کیا اور ایک قہوہ خانے کی طرف چل پڑا، اسے ایسا لگا جیسے لوگ اسے ہی دیکھ رہے ہیں۔

خود کو سنبھالو ، وہ اندر ہی اندر بڑبڑانے لگا کہ کیا اسے فضول خرچی کرنی چاہیے؟ کیا لوگ یہ دیکھ رہے ہیں کہ میں اس ماحول میں ان کے ساتھ بیٹھنے لائق ہوں یا نہیں؟

نہیں نہیں آج میں ہرقیمت پر یہاں بیٹھ کر قہوہ پیوں گا، وہ خود کو حوصلہ دیتے ہوئے آگے بڑھا اور کھڑکی کے ساتھ والی میز منتخب کرتے ہوئے اس کی طرف بڑھ گیا۔

کیا پتا لوگوں نے اسے دیکھا ہو مگر وہ بے پروائی ظاہر کرتا ہوا کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس نے پائوں پھیلا کر آرام دہ انداز اپنانے کی اداکاری کی۔
اچانک اسے خیال آیا کہ کیا اس کا لباس اس جگہ کی مناسبت سے موزوں ہے؟

لوگ اسے اسی ایک ہی لباس میں دیکھتے رہے ہیں تو کیا یہی لباس اس شاندار قہوہ خانہ میں بیٹھنے کے لیے مناسب ہے؟
اس نے آس پاس دیکھا ، کسی نے ٹائی نہیں پہنی، کوئی اعلیٰ قیمتی لباس میں نہیں ہے، اوہ پھر تو کوئی جھجھک والی بات نہیں۔

بیرا اس کے قریب آیا۔
وہ سوچنے لگا کہ بیرے سے احترام سے بات کرنی ہے یا اکھڑ لہجے میں بڑے لوگوں کی طرح؟ وہ دیکھنے لگا کہ لوگ کیسے بات کرتے ہیں قہوہ خانے کے ملازمین سے۔
اس نے خجل ہوتے ہوئے سوچا کیا ضرورت ہے لوگوں کو دیکھ کر ان طرح بات کرنے کی۔

اس نے سینہ پھلاتے ہوئے بات کرنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ بیرا اس سے سبقت لے گیا اور بیرا بولا!
محترم! یہ میز پہلے سے کسی نے منتخب کیا ہوا ہے وہ آتے ہی ہوں گے، براہ مہربانی آپ ساتھ والی میز پر آجائیں۔

وہ کرسی سے اٹھنے سے قاصر تھا ، اس نے سوچا : اے بیرے! تمہیں یہ دوسری میز نظر نہیں آتی؟ کیا یہ میز حققیت میں کسی نے چنی ہے یا صرف مجھے ہی یہاں سے اٹھانا مقصود ہے؟ یہ میز بہت اہم ہے؟ کس نے اپنے لیے یہ میز منتخب کر رکھی ہے؟ کیا وہ مجھ سے زیادہ اعلٰیٰ شخصیت ہے؟ کوئی مجھ سے افضل ہے تو کس بنیاد پر؟ انسانی زندگی میں مال و دولت کی اہمیت نہیں بلکہ کردار، علم، ایمان اور محبت انسان کو دوسروں سے ممیز کرتے ہیں۔
پس کوئی مجھ سے زیادہ امیر ہوسکتا ہے مگر افضل نہیں۔

کیا میں یہ بات بیرے کو سمجھائوں؟ نہیں لازمی تو نہیں کہ وہ میری بات سمجھ بھی جائے، کیا معلوم میرے کچھ کہنے سے بیرے کی کم علمی سے پردہ نہ ہٹ جائے؟ شاید اس نے تعلیم حاصل کی ہو مگر حالات نے یہاں بطور بیرا کام کرنے پر مجبور کردیا ہو۔

’’جناب کیا آپ کسی کے منتظر ہیں یا میں آپ کی کچھ خدمت کرسکتا ہوں؟ ‘‘
بیرے کے الفاظ نے اسے سوچوں کے سمندر سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔
اس نے بلند آواز سے ایک پیالہ قہوے کا طلب کیا۔

میں نے اس مسکین بیرے سے چیخ کر کیوں بات کی؟ مجھے یہ احساس کیوں ہوا کہ میں اس سے افضل ہوں؟
وہ تو ہمیشہ یہی کہتا تھا کہ سب لوگ برابر ہیں، سب سے ایک جیسا سلوک کرنا چاہیے۔
لیکن اسے نجانے کیوں اپنا آپ اس مسکین سے بیرے کے سامنے زیادہ بلند اور افضل لگا۔ وہ اپنے اس خیال کو دور بھگانے لگا۔

اوہ کیا ہوگا اگر میرے پاس اس قہوہ کے پیالے کی قیمت بھی نہ ہوئی تو؟ کیا میں اتنا ذلیل ہوجائوں گا کہ پیسے نہ دے سکوں؟

وہ بیرے سے پوچھ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ قہوہ کتنے کا ہے؟ پس وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا، وہ ہر شے کا جائزہ اسی طرح لینے لگا جیسے وہ باہر سے کھڑا ہوکر ایک ایک آدمی اور شے کو گھورا کرتا تھا۔ جیسے باہر سے وہ اس کھڑکی کے پاس والی میز کو تکتا تھا کیا ویسے ہی کوئی اسے بھی دیکھ رہا یا نہیں؟

ہر شخص اپنے ہمراہی کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا، کسی نے اس کی طرف توجہ نہیں کی۔
کاش میں بہن کو ہی ساتھ لے آتا تاکہ اکیلا پن محسوس نہ ہوتا۔ کیا وجہ ہے کہ ابھی تک قہوہ نہیں آیا؟ مگر میں یہاں صرف قہوہ پینے تو نہیں آیا، میں تو ماحول سے لطف اندوز ہونے اور خود کو سکون دینے کے لیے آیا ہوں نا۔

اس نے دیکھا بیرا ایک بڑے طشت میں قہوے کے پیالے اور گرم پانی کی کیتلی رکھے آرہا ہے، اس نے خود کو منتشر خیالات سے نکالا اور سنبھل کر بیٹھ گیا۔ کیا میں پیسے ابھی دوں یا جیسے فلموں میں دیکھا ہے کہ لوگ رخصت ہوتے وقت اپنے کھانے پینے کے مصارف ادا کرتے ہیں ویسے کروں؟

آہا فلمیں دیکھنا بےسود تو نہیں ہے ، دیکھا ایک فائدہ تو مل گیا کہ قہوہ خانے کے مصارف کب ادا کرنے ہیں۔
اس نے ایک چسکی لی۔
دوسری چسکی لی۔
اسے وہ لذت محسوس نہ ہوئی جس کی توقع وہ کررہا تھا۔

کیا اس عام سے قہوہ کے بھاری بھرکم پیسے دینے فضول نہیں؟
اس نے ایک اور گھونٹ بھرا اور خود سے کہنے لگا!
اچھا تو یہ تھا وہ سب کچھ ، جو باہر سے چلتے ہوئے پرکشش لگتا تھا مگر اس میں وہ لذت اور سرور نہیں جس کی امید رکھی تھی۔ کاش میں قمیض خرید لیتا اور یہاں آنے کی حماقت نہ کرتا۔

خیر اب آخری گھونٹ تک اس کا لطف لوں گا کیونکہ پیسے تو بہرحال دینے ہی ہیں۔
اس کی قیمت؟ اس بیرے سے اس کی قیمت کیسے پوچھوں؟
اسے یاد آیا ایک اور فلم میں قہوہ کے مصارف والا ورق کیتلی کے ساتھ ہی رکھا ہوا تھا۔ اس نے پوری میز چھان ماری اسے وہ کاغذ نظر نہ آیا۔
اوہ شاید اس طشت کے اندر بچھے ہوئے تولیے کے نیچے ہو۔

اس نے ورق ڈھونڈا اور جلدی سے کھولنے لگا، دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں، نہیں نہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، قہوے کی قیمت کم نہ تھی مگر اس کی توقع سے زیادہ بھی نہ تھی۔ اس نے ہاتھ جیب میں ڈالا تاکہ پیسے نکال سکے۔ خالی جیب، کیسے؟
ابھی تو اس میں نقد پیسے تھے۔

نہیں کل ہی تو اس کی امی نے اس پتلون کی جیب کی سلائی کی تھی، کیا کسی نے میری جیب سے نکال لیے اور مجھے ہوش نہیں رہا کہ کوئی میری جیب میں ہاتھ ڈال رہا؟ ناممکن۔
میرے ساتھ ایسا نہیں ہوسکتا۔

ہائے میں تو ان لوگوں پہ ہنستا تھا جو اپنا قصہ سناتے تھے کہ ان کی جیب کٹ گئی۔
مگر میری جیب خالی ہے، پیسے کہاں گئے؟ افف یہ مقامِ ذلت۔
ہائے اب بیرا پتا نہیں کیا سلوک کرے گا مجھ سے۔ یقیناً وہ قہوہ خانے کے مالک کے پاس لے جائے گا۔
یا شاید پولیس کو بلا لے۔

امی۔۔۔۔۔ میری امی کیا سوچیں گی؟ ہائے افسوس۔۔۔۔۔۔
کاش! یہاں داخل ہوتے وقت میرے پائوں ٹوٹ گئے ہوتے۔ اب۔۔۔۔۔۔ اب کیا ہوگا؟
دفعتاً اسے یاد آیا امی نے پیسے اس کی قمیض کی جیب میں شناختی کارڈ کے ساتھ رکھے تھے۔

اوہ الحمداللہ۔! اس نے پیسے طشت میں بچھے تولیے کے نیچے رکھے اور سرعت سے باہر نکل گیا۔
حتی کہ اس نے بیرے کے لیے کوئی بخشیش بھی نہ رکھی۔ وہ کبھی دوبارہ یہاں نہیں آئے گا۔ وہ وہاں سے نکل کر دل ہی دل میں ہنسنے لگا۔ اندر ہی اندر ہنستے ہنستے اس نے مسکرانا شروع کردیا اور پھر قہقہے بلند ہونے لگے۔

کوئی بات نہیں۔ ایک سبق آموز تجربہ ہوگیا۔ لیکن خود پر ہنسنے کا موقع بھی مل گیا جب آپ چمکتی دمکتی اشیاء کو حقیقت سمجھ بیٹھتے ہیں تو ایسا ہوجاتا ہے۔
دوبارہ یہاں آنے کی غلطی نہیں کروں گا۔

افسوس جتنے پیسے میں ایک قہوہ کا پیالہ خریدا اس قیمت میں اپنی بہن اور اس کی سہیلی کے لیے چار مرتبہ مکئی کا بھٹہ خرید سکتا تھا اور یہ زیادہ بہتر تھا کہ ان کو خوش دیکھ لیتا۔
یا شاید ان کی دعوت کردیتا انہی پیسوں سے۔ مدرسہ سے فارغ ہونے کی خوشی میں دعوت کرتا۔

آہستہ آہستہ وہ پرسکون ہوتا گیا۔ جو خیال اسے مسلسل مضطرب کیے ہوئے تھا وہ آج کرچی کرچی ہوگیا۔
آئندہ وہ اس شاہراہ سے گزرتے ہوئے ان قہوہ خانوں کی کھڑکیوں کی طرف دیکھے گا بھی نہیں۔ قہوہ خانوں میں لوگ کیا کررہے اس سے اسے اب کوئی سروکار نہیں۔ بلکہ وہ بھی بہن کے ساتھ چشمے کے کنارے بیٹھ کر فطرت سے لطف اندوز ہوگا۔
وہ یقیناً اس کے باغ میں ساتھ جانے پر چونکے گی مگر وہ آج والا تجربہ اسے بتادے گا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں