ھنادی ایمان، کالم نگار، بلاگر

’’اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے‘‘

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ھنادی ایمان:
سکول و کالج کے زمانے میں کچھ مخلص اور حسّاس لوگوں نے وطن کی محبت دل میں پیدا کی تھی ۔اُن میں ایک ہماری اردو کی استاد بھی تھیں جو بہت اچھے اور دوستانہ ماحول میں پڑھایا کرتی تھیں۔ غزل پڑھاتی بھی تھیں اور سناتی بھی تھیں ، آج اپنی اردو زبان سے محبت اور توجہ کم و بیش انہی کی محنت کا ثمر ہے۔

شاعری اور تشریح میں ایک دن پڑھانے لگیں:
شاعر کہتا ہے کہ
’’اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے‘‘
اب استاد کا اپنا علم اور تجربہ تھا ، اور ہمارا اپنا محدود سا۔
طالبات سن کر حیران ، یہ انہوں نے کیا کہہ دیا ؟
آگ کا دریا اور ڈوب کے جانا ہے؟؟؟؟

سوالات شروع ہوئے پھر بحث شروع ہو گئی۔
ہم آگ میں ڈوب کر کیسے جائیں گے؟ لگتا ہے آپ نے غلط کہہ دیا۔
ہمیں لگتا ہے کہ یوں ہوگا
’’اِک آگ کا دریا ہے اور کُود کے جانا ہے‘‘

’’مس !! آپ کو غلطی ہوئی ہے اور ویسے بھی ہم تو کود کے ہی جا سکتے ہیں، بھلا آگ میں سے ڈوب کر کون جاسکتا ہے؟ ؟؟ کوئی تُک ہی نہیں اس بات کا ۔۔!!‘‘
لیکن استادِ محترم کا اصرار تھا کہ
’’نہیں !! شاعر نے ٹھیک یہی کہا ہے کہ ’’ اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے‘‘۔

اس بات کو سمجھنے میں کئی سال لگے، ہوا کچھ یوں
کافی سال گزر گئے، اپنے پیارے وطن پاک سر زمین پر رہنے کا موقع بھی مل گیا پھر۔

ایک مرتبہ اندرون لاہور سے گزر ہوا۔ ایک رشتہ دار کی عیادت کے لیےجانا پڑا۔ قریبی تعلق تھا لیکن گلیاں بہت تنگ تھیں اور بازار کھلے ہوئے تھے ، گاڑی کو راستہ کوئی نہیں دے رہا تھا ۔ لہٰذا گاڑی کوجیسے تیسے ایک کنارے چھوڑا اور رکشہ پکڑا ،اس کو بتایا کہ ’’اُچی مَسِیت‘‘ لے چل۔

رکشہ جب چلا تو کچھ نئے راستے اور نئی گلیوں سے گزرا، بھاٹی گیٹ کے اندر باجےگاجے ،گھنگرو، ڈھول، ستار اور طرح طرح کے ساز نظر آنے لگے۔
رکشے والے سے پوچھا کہ یہ کون سی نئی جگہ لے آئے ہو؟ رکشے والے نے پوچھا آپ لوگ پہلی بار آئے ہیں؟ ہم نے کہا کہ نہیں! ہم تو بچپن سے آرہے ہیں لیکن یہ گلیاں پہلی مرتبہ دیکھی ہیں۔

بولا :’’ یہ جگہ ہیرا منڈی کہلاتی ہے، یہاں بڑا کاروبار ہوتا ہے آج شام صلّی ( صلاح الدین sallee)
کا مجرا ہے، بڑے پیسے لگاتا ہے، بڑے تعلقات ہیں اس کے ۔ بہت بڑا کاروباری بندہ ہے، یہ راستہ چھوٹا ہے اور رش کم ہے اس لیے یہاں سے چلتے ہیں ‘‘۔
اُففف! کانوں سے دھنواں نکل گیا۔

اس دن استاد صاحبہ کا جملہ دوبارہ کانوں میں گونج گیا۔ ’’اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے‘‘
اس دن لگا ، بالکل ایسا ہی ہے،استاد ہی درست تھیں، وہ جہاں بھی ہیں اللہ ان کو غریقِ رحمت کرے۔
یہاں تو واقعی ’’اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جا رہے ہیں ‘‘۔۔ گلیاں اتنی تنگ تھیں گویا جہنم اور سازندے ایسے کہ جیسے آگ کے شعلے۔

بات یہاں رکی نہیں۔
واپسی پر شام ہوچکی تھی ، سواری منگوائی۔
ایک چوراہے سے گزرتے، تقریباً وہی جگہ تھی یا آس پاس کی کوئی جگہ۔
گزرتے ،گزرتے کانوں نے گھنگروؤں کی آواز کچھ دور سے آتی سنی۔ مڑ کے دیکھا تو ایک رش تھا، موٹی موٹی توندوں والے آدمی اور بڑی بڑی عالی شان چمک دار گاڑیاں۔ جن کے ساتھ ان جیسے مسلح گارڈز بھی تھے۔ اور پورے منظر نامے میں سب سے عظیم معرکہ یہ تھا کہ ان گاڑیوں پر پنجاب سرکار کی سبز نمبر پلیٹس بھی سجی ہوئی تھیں۔

واہ! بے شرمی کی حد ختم اور قوم کے ٹیکس سے لی گئی گاڑیوں اور پیٹرول کا استعمال۔
واہ کیا خوب امانت داروں نے امانت کا حق ادا کیا ۔

بات یہاں رکی نہیں پھر کچھ سال اور گزرے ۔
یہ شہرِ لاہور فلم انڈسٹری کا مرکز کہلانے والا۔
یہاں خبریں سرخیاں لگنے لگیں یہ قندیلیں، ایانیں، اور فلانیاں فلانیاں ۔۔ اور فلانا فلانا مرد ، ایکٹر، صحافی، اینکر ۔۔ پھر ان کی leak لِیک ویڈیوز کے تماشے، کسی کا ریپ، کوئی مرگ، کسی کی ہوس ، کسی کا نشہ۔ یہ سب آگ ہی تو ہے اور ہم گزر ہی تو رہے ہیں۔ کہیں زینب، کوئی فرشتہ، کوئی کائنات ، کہیں پیرزادی، کوئی سید زادی۔

مرد ہیں تو واہ واہ ۔ وہ بھی ناموں سے تو ایک سے ایک بڑھ کر مسلمانی نام۔۔ خاندان ، ذات، برادری، اونچا غرور، اکڑ۔
لیکن ایک بات طے کر لو۔ اس آگ کے دریا سے آخر کب تک گزرنا ہے؟؟؟
اور مزید کتنا ڈوب کے گزرنا ہے ؟؟ کیا مزید ڈوبنے کی گنجائش ہے ؟؟؟
یا ڈوب چکے ہم جتنا بھی ڈوبنا تھا ؟؟
کیا اب آ گئی انتہا ؟؟

سچ تو یہ ہے کہ یہ بات معاشرہ اور حاکم اپنی انتہا خود طے کریں گے اور طے کر ہی لینی چاہئیے۔
ورنہ وقت بہت ظالم بھی ہے اور رحم دل بھی ہے۔ یہ وقت خود طے کروا دے گا کہ کب تک یہ تماشہ مزید چلنے والا ہے؟ اگر حاکم بھی ملوّ ث ہے تو انجام کو لازم پہنچے۔

لیکن قوموں کی زندگی میں بات یہیں نہیں رکتی۔
یاد رکھو! تاریخ کا ایک پہلو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اس پہلو کو یہ میڈیا تم سے بیان نہیں کرے گا۔

بین الاقوامی سطح پر ایک وقت تھا جب لبنان اور فلسطین بھی مغرب پرستی کی آگ میں ڈوب گئے تھے اور لباس ، تراش خراش، عورتیں، آزادی بھر پور میسر تھی ، کلچر رواج سب میں ننگا پن اور فحاشی اتر آئی تھی ۔
پھر دیکھو کیا ہوا ؟؟ آج دیکھو ان کی آزادیاں کہاں گئیں ، کیا ہوئیں ؟

کیسے غالب آیا دشمن ان پر اور ان کی افواج پر؟؟ کہاں گئی ان کی فوج اور طاقت ؟؟
کیسے ملیا میٹ ہوئی ان قوموں کی ، عربوں کی طاقت؟؟ ہے کوئی اس سے زیادہ قریب کی اور اس سے زیادہ حقیقی مثال تمہارے پاس۔؟؟
پھر وقت نے پلٹا کھایا۔

کچھ خدا خوفی والوں نے ازسر نو صف بندی کی۔
قوم کے بکھرے شیرازے کو جہاں تک ہوسکا، اکٹھا کیا۔
پھر وہ دوبارہ اٹھے، پھر کھڑے ہوئے ۔
طاقت والے خدا کی طاقت دیکھو ، آج وہاں دین سے وابستگی کے سب سے بڑے مظہر اور مظاہرے ملتے ہیں۔ پھر وہ آ ئے ہیں نا پلٹ کر لیکن اب ان کے حالات وہ نہیں ہیں، نہ طاقت پہلے سی ہے ، اور آزمائشیں بہت بھاری ہیں۔

سوچ لو!!
۔۔ اب بھی وقت ہے تم بھی خوب سوچ لو ، یہ قندیلیں، ایانیں، اب مارویاں اور فلانیاں فلانیاں ۔۔ اور فلانا فلانا مرد باجے گا جے ، موسیقی ، ان کی لیک ہوتی آڈیوز اور ویڈیوز ، ابھی سوچنے کا موقع دے رہی ہیں ۔
پھر یہ موقع چلا جائے گا ۔
اور افواج کی طاقت ریزہ ہو جائے گی، پھر دشمن غالب ہو جائے گا۔

پھر تم اپنی آزادی اور شان و شوکت کے قصے سنایا کرو گے اپنی مظلوم ، مقہور ، بے بس نسلوں کو۔۔ جیسے اب وہ سناتے ہیں۔
اُس رب نے کس کو کتنی ڈھیل دی ہے دیکھتے جاؤ اور انتظار کرواپنے انجام کا۔

وما اللہ بغافل عما تعملون۔(البقرہ74)
اور نہیں ہے غآفل اللہ تمہارے کرتوتُوں سے ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں