جویریہ سعید:
نئی جگہ، انجان راستے، نیا موسم، نیا ماحول، تنہا تنہا۔ انسان گھبراتا ہے۔ پھر کچھ عرصے بعد بارش ہوتی ہے۔ سارا شہر دھل دھلا کر چمکنے لگتا ہے۔ بھیگی سڑکیں، سرخ تکونی چھتیں، گہرے سبز گھنے درخت اور خوش رنگ پھولوں کے تختے۔ دل کے بند کواڑوں پر دھیرے دھیرے دستک ہوتی ہے۔ سوچتی ہوں اٹھ جاؤں اور دروازہ کھول کر ٹھنڈی ہوا کے ساتھ باہر چلی جاؤں۔
واک وے پر چلتے ایک سفید توتا اچانک اڑتا ہوا آتا ہے اور ساتھ والی دیوار پر بیٹھ جاتا ہے۔ ایک پنجے میں دبی کوئی شے اٹھا کر اسے کترنے لگتا ہے۔ میں اچانک گردن موڑ کر دیکھتی ہوں۔ مجھے دیکھ کر ذرا کی ذرا رک جاتا ہے۔ میں بھی رکتی ہوں اور مسکرا کر کہتی ہوں:
’’ شکریہ ، ٹھیک ہے، مجھے بھی لگ رہا ہے کہ مجھے یہ جگہ پسند آرہی ہے۔ ‘‘
لوگ باگ، ساتھی اور کولیگز مہربان ہیں۔ آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ میرے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے ہونے لگے ہیں۔
مانوس تنگ سڑکوں پر اور تنگ گیراج میں اپنی پرانی عادت کے تحت گاڑی تیزی سے چلاتی ہوں تو کوئی دھیرے سے کندھا تھپک کر کہتا ہے:’’ لگتا ہے سیٹ ہوتی جارہی ہیں۔‘‘
نرمی سے برستی بارش میں گاڑی کے پاس کھڑے ہوکر کافی دیر تک سوچا کیے، ’’کیا اب خفگی اور اداسی کا صفحہ پلٹ دیا جائے؟ دیکھیے تو سارا ماحول کتنے پیار سے دیکھ رہا ہے۔‘‘
لیکن اگر میں کہنے لگوں کہ یہ میرا ملک ہے، میرا شہر ہے، میری جگہ ہے تو یہاں کے باسی کھلکھلا کر ہنسیں گے اور پرانے ساتھی خفا ہو جائیں گے۔ اپنوں کو لگے گا میں بے وفائی کی مرتکب ہورہی ہوں۔
مگر ایسا بھی ہے کہ اگرچہ وہاں برفانی پہاڑوں کے دامن میں اتنے برس رہنے بسنے سے دل لگ گیا تھا۔ وہاں کی فضائیں ساتھ گنگناتی تھیں، یخ بستہ موسم صبح کی چائے اور لائونج کے صوفے اور ان ڈور پودوں کی طرح میری زندگی کا ایک مانوس اور مہربان حصہ بن گیا تھا، خزاں رومان پرور تھی اور گرما شوخ و چنچل اور بارونق۔
ان چند برسوں میں دس میں سے سات آٹھ صوبوں میں دوست احباب بنالیے تھے۔ مہربان اور دل کے قریب کہ میرے چلے آنے پر بھی میرا گھر ضرورت پڑنے پر کئی روز تک ان سے بھرا رہا۔ اس کا نام میری سوشل میڈیا ویب سائٹس اور اخبارات کی نیوز فیڈ پر آتا ہے تو دل کو سمجھانا مشکل ہوجاتا یے کہ اب میرا اس سے تعلق نہیں ہے۔
تو کیا اتنے برسوں اسے گھر سمجھنے کے باجود میں کہہ سکتی ہوں کہ وہ ملک میرا تھا؟ وہ جگہ میری تھی ؟ میں کہیں جاؤں لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں۔
Where are you originally from?
پانچ دریاؤں اور سرمئی سمندر والی وہ پاک سر زمین جس کے شمالی و مغربی کناروں پر فلک شگاف پہاڑ محافظوں کی طرح سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ بلند عمارتوں، پیچیدہ راستوں اور گنجان بازاروں والا کراچی جہاں آنکھیں کھولیں۔ زندگی کے ہر پہلو میں سیکھنے سکھانے کو اور کچھ کر دکھانے کو جو میدان سر کیے، ان سب کی بنیادیں یہیں اٹھائی گئیں۔
جہاں خونی رشتے ہیں، جس کی اچھی بری ہر شے اور دست دشمن ہر شخص پر اپنے پن کی مہر نظر آتی ہے۔
کیا میں کہہ دوں کہ وہ میرا وطن ہے؟ میرا گھر، میری جگہ؟
میں ایسا کہنا چاہوں تو میرے وجود میں سے ایک پرندہ سا اڑ کر سامنے بالکنی کی دیوار پر جا بیٹھتا ہے۔ ناراض، منہ پھلایا ہوا۔
’’ کسی جگہ پڑاؤ طویل ہونے لگے ، لوگ باگ، جگہیں مانوس ہوجائیں، ماحول کاٹ کھانے کے بجائے سائبان بن جائے تو مسافر اس سے پہلے کی منزلوں کو بھول جاتا ہے کیا؟
اگر نہیں تو تم یہاں پہنچ کر رک کیوں جاتی ہو؟
سنا ہے عالم بالا میں کہیں تمہاری تخلیق ہوئی تھی۔ تمہارا خمیر اسی زمین سے کہیں کچھ مٹی لیکر اٹھایا گیا، مگر روح اس زمین اور اس کائنات سے ماورا کسی منبع سے پھونکی گئی۔
ایک لامتناہی مدت تم پر ایسی گزری جب تم کوئی قابل ذکر شے نہ تھی۔
وجود کے اس لباس میں سما جانے میں بھی تم نے کتنا وقت لیا تھا۔
ماں کے خون کے بجائے اپنے پھیپھڑوں سے سانس لینا، اپنے اعضا کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے پر آمادہ کرنا، اپنی ٹانگیں ، اپنے ہاتھ ، اپنا ذہن ، کچھ بھی آسان تھا کیا؟
کیوںکہ روح اس وجود سے آشنا نہ تھی۔
بس یہ کہ ہر جدوجہد میں کبھی کسی ایڈونچر کا لطف تھا اور مہربان لوگوں کا ساتھ اس لطف کو دو آتشہ کردیتا۔
اور کبھی مشکل چڑھائی چڑھتے تھک کر روہانسو ہوجاتے تھے۔
تو کیا یہ وجود اور پاک سر زمین کی گلیاں ہی واقعی تمہاری place of origin ہیں؟‘‘
بالکنی پر پرندے کی طرح آکر بیٹھے ہمزاد کی بات ماننی پڑتی ہے۔
کیونکہ ایک خلش سی ہے جو زندگی لادے چلتے ہوئے مسافر کے دل کا پیچھا کسی منزل ، کسی پڑاؤ پر نہیں چھوڑتی۔
بالکنی کی دیوار کے ساتھ اس سے لگ کر کھڑے ہوتے میں نے اسے کہا ہے کہ مسافر کو یاد ہے کہ اس کا سفر اس کی یادداشت میں موجود ذخیرے سے زیادہ طویل ہے۔ کچھ دیر کو دل لگانا مجبوری تو ہے مگر ایک ضرورت بھی تو ہے۔
جس نے سفر پر بھیجا ، وہ مسافر نواز ہے، یہ ہزار ہا شجر سایہ دار اسی نے راستے کی کٹھنائیوں میں سہارا دینے کو لگائے ہیں۔
تم دل میلا نہ کرو! مسافر کو اگلے پڑاؤ کا تو علم نہیں مگر اپنی Place of origin کو لوٹنے کا شوق پھانس کی طرح دل میں اٹکا ہے اور اختتام سفر پر اپنی زمین پر ہونے کی امید قندیل کی طرح وجود کو روشن رکھتی ہے۔
میں راستہ کھونے لگوں تو اپنے ’’گھر‘‘ سے آئے خط کھول کر پڑھتی ہوں۔
میرے سبز شیلف میں سرخ جلدوں والی ان کتابوں میں میرے کنٹری آف اوریجن سے آنے والے کئی خطوط محفوظ ہیں۔
مجھے بھیجنے والے نے کئی بار مجھے پیغام بھیجا ہے ،
دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور ایک تماشا ہے، حقیقت میں آخرت ہی کا گھر اُن لوگوں کے لیے بہتر ہے جو زیاں کاری سے بچنا چاہتے ہیں، پھر کیا تم لوگ عقل سے کام نہ لو گے؟”
سورہ انعام 32.
اور
’’بلکہ تم جیتی دنیا کو ترجیح دیتے ہو اور آخرت بہتر اور باقی رہنے والی بے شک یہ اگلے صحیفوں میں ہے ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں.‘‘
سورہ الاعلی ۔ 16_19
آخرت کا یہ بھلا گھر ہم ان ہی کے لیے مقرر کر دیتے ہیں جو زمین میں اونچائی بڑائی اور فخر نہیں کرتے نہ فساد کی چاہت رکھتے ہیں اور پرہیزگاروں کے لیے نہایت ہی عمده انجام ہے۔
قرآن ، سورۃ القصص ، 83