مصنف: عثمان قابلان
ترجمہ: ڈاکٹر میمونہ حمزہ
مجھے امی کی شفقت بھری آواز سنائی دی:
”اٹھ جاؤ بیٹا، ڈرو نہیں۔۔ لگتا ہے تم نے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا ہے، چلو اب اٹھ جاؤ!“۔
میری آنکھ کھلی تو امی یہی جملے بار بار دہرا رہی تھیں، انہوں نے میرا کندھا تھپتھپایا، ابو بھی ان کے ساتھ ہی کھڑے تھے، میں نے ان کی آنکھوں میں ایسی پریشانی کبھی نہ دیکھی تھی، وہ نرمی اور شفقت بھری آواز میں بولے:
”بیٹے تمہیں کس نے اس حال میں پہنچا دیا ہے، تم کیوں پریشان ہو؟ تم ہمیں اپنا خواب نہیں سناؤ گے جس سے تم خوفزدہ ہو گئے تھے؟“۔
اتنی دیر میں امی میرے لئے پانی کا گلاس لے آئی تھیں، میں نے چند گھونٹ پی کر گلاس انہیں واپس کیا تو وہ بڑی محبت سے پوچھنے لگیں: ”تم سوتے میں کیا بڑبڑا رہے تھے“۔
مجھے انہیں سب کچھ بتا دینا چاہئے، میں انہیں کیوں نہ بتا دوں کہ اس سب کا سبب تو میں خود ہوں، یہ سب میری وجہ سے ہو رہا ہے، لیکن میں بس اسی قدر کہہ سکا:
”کچھ نہیں! بلکہ مجھے تو یاد ہی نہیں کہ میں نے کوئی خواب دیکھا ہے، شاید میں خواب میں ڈر گیا تھا“۔
میں جب یہ الفاظ کہہ رہا تھا تب بھی مجھے ندامت ہو رہی تھی، کتنا اچھا ہوتا کہ میں اسی موقع سے فائدہ اٹھا لیتا، جب یہ ذکر چھڑ ہی گیا تھا تو میں حقیقت ان کو بتا دیتا، لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ حقیقت سننے کے بعد ان کا ردعمل کیا ہو گا، اسی لئے میں اسے بیان کرنے سے کترا رہا تھا، نجانے آدھی رات کو یہ سب سن کر وہ کیا کریں گے، اسی لئے میں نے مصنوعی اطمینان طاری کرتے ہوئے کہا:
”اب میں ٹھیک ہوں، اگر آپ اجازت دیں تو سونے کی کوشش کرتا ہوں“۔
امی بولیں:
”اچھا۔۔ جیسے تمہاری مرضی۔۔“۔
میرا جسم ابھی تک پسینے سے شرابور تھا، امی میرا دوسرا سونے کا لباس لے آئیں، اور ابو ابھی تک قرآنی آیات پڑھ کر مجھ پر پھونک رہے تھے۔ میں بستر پر لیٹا تو وہ دونوں میرے ماتھے پر پیار کرکے چلے گئے، اور جاتے ہوئے روشنی بھی گل کر دی۔ باہر نکلتے ہوئے امی کی آواز میرے کانوں کے پردے سے ٹکرائی، وہ ابو سے مخاطب تھیں:
”تمہارے بیٹے احمد نے اسے اس حال تک پہنچا دیا ہے، تم دیکھ نہیں رہے بیچارہ صبح شام پریشان رہتا ہے ۔۔“۔
ابو ہولے سے بولے:
”بیوی ایسے تو نہ کہو، تم جانتی ہو یہ اور احمد کتنا چاہتے ہیں ایک دوسرے کو، اس بے چارے کی تو جب سے ماں مری ہے بالکل ہی تنگ نہیں کرتا، ہر بات مانتا ہے“۔
یہ باتیں تو ہمارے گھر میں چلتی ہی رہتی تھیں، میرے بڑے بھائی کی امی اس کی پیدائش کے بعد ہی وفات پا گئی تھیں، اس واقعہ کے دو برس بعد ابو نے میری امی سے شادی کی تھی، ابو ہم دونوں بھائی میں کوئی فرق نہ کرتے تھے، مگر امی ایسی نہ تھیں، امی ہر وقت میری تعریف کرتیں کہ میں اس سے زیادہ ذہین محنتی اور لائق ہوں، ہر چیز ترتیب اور سلیقے سے رکھتا ہوں،
لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی،میں بدتمیزی بھی کر لیتااور خوب شور و غل مچاتا مگر امی اس پر بھی احمد ہی کو ڈانٹتیں کہ اس کی ذمہ داری ہے کہ میرا خیال رکھے، وہ بڑا بھائی ہے لہذا مجھے سکھانا اور حد میں رکھنا اس کی ذمہ داری ہے۔
میں نے تکیہ اپنے سر پر رکھ لیا، اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، مجھے ڈر تھا کہ کہیں میری آواز کمرے سے باہر نہ چلی جائے، اور میں نجانے کب تک روتا رہا، صبح اٹھا تو میرا سر بھاری ہو رہا تھا، میں نے ساتھ والے بستر پر دیکھا، میرا بھائی وہاں موجود نہیں تھا، اور اس کے وہاں موجود نہ ہونے کا سبب بھی تو میں ہی تھانا۔
میرے بھائی کے گھر سے جانے کا سبب چینی کا خوبصورت اور انتہائی قیمتی گلدان ہی تو تھا۔امی کو آرائشی گل دان جمع کرنے کا بہت شوق تھا، وہ ایک سے بڑھ کر ایک قیمتی سامانِ سجاوٹ خریدتیں، اور پھر بڑی حفاظت سے اسے مہمانوں کے کمرے میں سجا دیتیں، ایسا لگتا تھا کہ یہ چیزیں امی کو ہم سے بھی زیادہ پیاری ہیں،
ہمیں مہمان خانے میں ہر وقت جانے کی اجازت بھی نہ ملتی، بلکہ اکثر اوقات امی اسے بند ہی رکھتیں، انہیں خوف تھا کہ کہیں اچانک آنے والی آندھی سے آرائشی سامان گر کر ٹوٹ ہی نہ جائے، اور یہ چینی کا گلدان تو امی کے لئے کئی حوالوں سے خاص تھا، اس کے حسن اور قیمت سے بڑھ کر یہ ماموں جان کا تحفہ تھا، جو وہ مشرق بعید کے ایک ملک سے لائے تھے، جہاں وہ استاد تھے،
اس تحفے کو ہمارے گھر میں کسی عجائب گھر کے نادر نمونے کی حیثیت حاصل تھی، اور کیوں نہ ہوتی، وہ ان کے پردیسی بھائی کی نشانی تھا، جو عمدگی میں اپنی مثال آپ تھا۔یہ ہمارے گھر آنے والے مہمانوں کو خاص طور پر دکھایا جاتا، اور پھر اسے جھاڑ پونجھ کر احتیاط سے اسی جگہ دھر دیا جاتا۔
یہ سنہری گل دان اتنا بڑا تھا کہ اس میں پھول بھی نہ لگائے جا سکتے تھے، وہ تقریباً میرے قد کا تو ہو گا۔ وہ خود ہی اتنے خوبصورت رنگوں سے بنا ہوا تھا کہ نگاہیں اس کے رنگوں میں گم ہو جاتیں، اس کا بالائی حصہ مجھے ٹھیک طرح نظر بھی نہ آتا اور میں یہی سوچتا کہ جب میں بڑا ہو جاؤں گا تو اسے اوپر سے بھی دیکھوں گا، اور میں روز بروز بڑا ہوتا جا رہا تھا لیکن گل دان تو بڑا نہیں ہو رہا تھا، یوں بھی امی اسے اوپر نہ رکھتیں تو شاید میں اسے اچھی طرح دیکھ ہی لیتا۔
ایک روز میرا بھائی احمد گھر میں تھا، اور میں مہمان خانے میں چلا گیا حالانکہ وہاں ہمارا داخلہ منع تھا، میرے ہاتھ میں ٹینس بال تھا اور میں اسے زمین پر لگے بغیر فضا ہی میں اچھال کر کھیل رہا تھا، اور گنتی میں محو تھا، مجھے اندازہ ہی نہ ہوا کہ میں چینی گلدان کے بالکل قریب آ چکا ہوں، میں اچانک اس سے ٹکرایا اور اگلے ہی لمحے چینی گلدان زمین پر گر چکا تھا، اور اس کی کرچیاں پورے کمرے میں پھیل چکی تھیں، میں ڈر کر بھاگا، اور اپنے کمرے میں چھپ گیا، احمد اپنی عادت کے مطابق کتاب پڑھنے میں محو تھا، اس نے بھی اس کے گرنے کی آواز سن لی تھی، اس نے مجھ سے اس بارے میں پوچھا، مگر میں نے کندھے اچکا کر کہا: ”مجھے کیا معلوم“۔
امی تو اس آواز کو سن کر اس طرح چیخیں جیسے کسی عزیز کی وفات کی خبر سن لی ہو، انہیں گلدان کے گرنے کی آواز آئی تو وہ اس طرح مہمان خانے کی جانب بھاگیں کہ میں ان کے دھاڑنے اور پھنکارنے کی آواز اپنے کمرے میں بھی سن رہا تھا، اور میں اپنے آپ سے کہہ رہا تھا: ”ہائے میری کمبختی، آج تومیں مارا گیا“۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب کیا ہو گا، مجھ سے اس چیز کا نقصان ہو گیا تھا جو یقیناً انہیں مجھ سے بڑھ کر عزیز تھی، اور امی کسی فائر برگیڈ کی گاڑی کی ماننددواکے لئے دوڑ رہی تھیں۔
امی کے ہاتھ میں گلدان کی کچھ کرچیاں تھیں، جیسے وہ مقتولوں کی تلواریں ہوں، انہوں نے انہیں اس مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا کہ ان کے ہاتھ زخمی ہو گئے تھے، ان سے خون بہہ رہا تھا اور وہ ایک ہی سوال دسیوں مرتبہ پوچھ چکی تھیں، ان کی آنکھیں سرخ تھیں، بلکہ سارا چہرہ ہی غصے میں لال بھبھوکا ہو رہا تھا، میں پوچھتی ہوں: ”یہ کس نے توڑا ہے؟ تم دونوں میں سے کس نے جرأت کی اسے توڑنے کی؟“۔
ان کے پہلے سوال کا مخاطب میں تھا اور دوسرے کا احمد بھائی، حالانکہ وہ خوب جانتی تھیں کہ مہمان خانے میں ٹینس بال سے کھیلنے کے لئے میں ہی جاتا ہوں، لیکن وہ یہی سوچ رہی تھیں کہ وہ احمد ہے، میرے بھائی کی عادت تھی کہ امی جب بھی ہمارے کمرے میں آتیں وہ احتراماً کھڑا ہو جاتا، اور اب بھی وہ کھڑا تھا، امی نے اسے زور دار تھپڑ رسید کیا اور وہ پلنگ پر جا گرا، اسے تو معلوم بھی نہیں تھا کہ کیا نقصان ہوا ہے۔
احمد کا جواب بھی وہی تھا جو میرا تھا:
”مجھے معلوم نہیں کہ گل دان کس نے توڑا ہے“۔
امی دھاڑیں:
”تم بہت احمق ہو، اول تو بولتے نہیں اور بولو تو بس جھوٹ ہی کہتے ہو، آج تمہارے ابا آجائیں تو پھر دیکھنا میں کیا کرتی ہوں“۔
انہوں نے بھائی کا کان پکڑا اور اسے گھسیٹتی ہوئی باہر لے گئیں کہ اب اس کی کرچیاں صاف کرو۔ وہ بھائی کی مسلسل اہانت کر رہی تھیں، مجھے اپنے کمرے میں ان کی ڈانٹ ڈپٹ اور وقفے وقفے سے تھپڑوں کی آوازیں بھی آ رہی تھیں، بھائی واپس کمرے میں آیا تو اس نے مجھ سے کچھ نہ کہا، ہاں تھپڑوں سے اس کے گال سرخ ہو رہے تھے، ایک کان بھی بری طرح سرخ تھا، بلکہ دوسرے کان سے کچھ لمبا لگ رہا تھا، بھائی نگاہیں جھکائے مجھ سے کہنے لگا:
”تم پریشان نہ ہو، ایک گلدان ہی تو تھا،اس کے بدلے نیا خرید لیں گے، تم فکر نہ کرو، میں کسی کو اس بارے میں نہ بتاؤں گا“۔
وہ مجھ سے تین برس ہی تو بڑا تھا لیکن وہ میرا اس طرح خیال رکھتا جیسے مجھ سے بیس برس بڑا ہو، اور وہ میری امی کے احترام میں بھی کمی نہ کرتا تھا، اس روز بھی وہ بھاگ بھاگ کر ان کے احکامات کی بجا آوری کرتا رہا، اور امی یہی سمجھتی رہیں کہ اس نے قصور کیا ہے اس لئے فرمانبرداری کر رہا ہے۔
میں دل میں سوچ رہا تھا:
یا الہی،قصور میں نے کیا ہے، اور سب ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ اس کے حصے میں آئی ہے جو بالکل بے قصور ہے، میں کیا کروں، سزا کے خوف سے میرے منہ سے سچ بات بھی نہیں نکلی، اور اگر احمد بھائی مجھے تسلی نہ دیتا تو میں تو اس سے نظریں بھی نہیں ملا سکتا تھا، اتنی ہمدردی پانے کے بعد مجھے اس سے معذرت کرنے سے بھی شرم آ رہی ہے، مجھے معافی مانگ لینی چاہئے تھی، مگر میری زبان گنگ ہو گئی تھی۔
شام کو ابو گھر آئے تو ایک مرتبہ پھر سوال جواب شروع ہو گئے، اور جب ابو نے میری اور بھائی کی ایک ہی انداز میں گوشمالی شروع کی تو میں گھبرا گیا، اور بولا: ”یہ میں نے نہیں کیا“، امی نے میری طرف داری کی اور واقعہ کی ذمہ داری ایک مرتبہ پھر میرے بھائی پر ڈال دی گئی۔
امی کے اکسانے پر ابو نے ایک تھپڑ بھائی کو رسید کیا، شاید یہ زیادہ ہی زور دار تھا، کہ بھائی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، اس کی سسکیاں مجھے بے چین کرنے لگیں، میرا دل چاہا کہ میں اصل واقعہ سب کو بتا دوں، میرے ضمیر نے مجھے ملامت کی، اور اصرار کیا کہ کہہ دو:
”رک جائیں، سنیں، گلدان میں نے توڑا ہے۔“
خوف میرے شعور پر پھر غالب آگیا، اور میں نے چپ سادھ لی، لیکن مجھے معلوم نہ تھا کہ ایک دن میں شعور کی عدالت میں اسی سوال کا جواب لئے کھڑا ہوں گا، میں نے خاموشی اختیار کر لی، مگر میرے اندر شور بڑھ گیا، اتنا شور کہ میں رات کو سو نہ سکتا اور مجھے ڈراؤنے خواب آتے، اور میں سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ میرے بھائی احمد کی خاموشی بھی میرے ہی اندر جمع ہو جائے گی۔
میرا بھائی خاموشی سے اٹھا، اور اندر کمرے میں چلا گیا، اس واقعے کے بعد اسے چپ لگ گئی، وہ کچھ نہ بولتا، اس پر کتنا ظلم ہوا تھا، اسے برا بھلا کہا گیا، اور زندگی میں پہلی مرتبہ اس نے مار کھائی، اسے کتنا رنج ہوا ہو گا، اسے اتنی محبت کرنے والے باپ نے مارا۔
اس رات احمد نے کھانا بھی نہ کھایا، وہ اپنے کمرے میں پڑا رہا، میں نے بھی بہت بد دلی سے کھانا کھایا، محض چند نوالے! ایسا لگ رہا تھا کہ یہ نوالے میرے حلق کو جلا رہے ہیں، جیسے وہ کھانا نہیں ہے زہر ہے جو میرے پیٹ کا ایندھن بن رہا ہے، میں سر جھکائے کھاتا رہا حتی کہ میرے پیٹ میں درد ہونے لگا۔ میں وہیں بیٹھ گیا۔ اس روزکمرے میں داخل ہوتے ہوئے میری ایک ہی تمنا تھی، کاش میرا بھائی پہلے ہی سو چکا ہو۔
میرے امی ابو کھانے کے بعد بیٹھے میرے بھائی کی عادات ِ بد کا ذکر کرنے لگے، ان کا خیال تھا کہ بھائی ابو کی غیر موجودگی میں بہت آوارہ ہو گیا ہے، اور یہ کہ بھائی مجھے بھی جھوٹ کی عادت ڈال رہا ہے، اور جونہی ابو کی آمد کا پتا چلتا ہے ان کے ڈر سے کتاب ہاتھ میں پکڑ لیتا ہے۔
احمد بھائی بہت ذہین تھا، وہ ہر جماعت میں نمایاں کامیابی حاصل کرتا، بلکہ امی تو کہا کرتی تھیں:
”اس نے اپنے باپ سے ذہانت کی میراث کے سوا کوئی صفت نہیں لی“۔
یہ کہتے ہوئے امی میری جانب بھی ذرا غصے سے دیکھتی تھیں تاکہ میں کچھ نہ بولوں۔
اس واقعے کو تین ہفتے گزر گئے تھے، احمد ابھی تک خاموش تھا، البتہ وقفے وقفے سے اسے کھانسی ہوتی رہتی، جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔ اس نے اب بھی میرے ساتھ کچھ برا نہ کیا، نہ ہی اس موضوع پر دوبارہ بات کی، وہ مجھ سے بہت شفقت سے پیش آتا بلکہ ابو کے بھی آگے پیچھے پھرتا۔
ایک روز میں نے ہمت جمع کی اور بڑی شرمندگی سے اس سے معذرت کی، میرا بھائی اس وقت کتاب پڑھ رہا تھا، اس نے ہولے سے سر اٹھایا، اور مسکرا کر پھر کتاب پر جھک گیا، مجھے یقین آ گیا کہ بھائی نے مجھے معاف کر دیا ہے۔ گلدان کا ذکر ہمارے گھر میں اب تک ہوتا تھا، روزانہ کہیں نہ کہیں سے اس کا تذکرہ نکل ہی آتا، اور جب اسے جھوٹا کہا جا رہا ہوتا تو مجھے بہت دکھ ہوتا،میں شرمندہ ہو جاتا، اور اسے جو بات رنج پہنچاتی وہ یہ تھی کہ ابو کے سامنے اب تک یہ ذکر کیا جاتا ہے اور وہ خاموش سنتے رہتے ہیں۔
اب گل دان کو ٹوٹے تین ماہ گزر چکے تھے، بھائی کی کھانسی اب تک ٹھیک نہ ہوئی تھی۔ ابو اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے، ہسپتال میں اس کے کئی ٹیسٹ اور ایکسرے ہوئے، اور ہر طرح کے معائنے اور چیک اپ کا نتیجہ یہ تھا کہ بھائی کو ہسپتال ہی میں داخل کر لیا گیا۔
وہ اس روز گھر سے گیا تو پھر وہیں کا ہو رہا۔ایسا لگتا تھا اس کی خاموشی ابو میں منتقل ہو گئی ہے، جب سے وہ ہسپتال داخل ہوا تھا، ابو بالکل چپ تھے، بھائی کو ہسپتال داخل ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا، اور امی کی رائے تھی کہ وہ توجہ حاصل کر نے کے لئے بیماری کا بہانہ کر رہا ہے۔
میں ہفتہ وار چھٹی کے دن بھائی سے ملنے ہسپتال گیا، وہ پہلے سے بھی زیادہ کمزور ہو چکا تھا، اس کا رنگ زرد ہو گیا تھا، اس کے ہم جماعت ساتھی طلبہ بھی اسے ملنے آئے ہوئے تھے، انہوں نے پورے کمرے کو پھولوں سے سجا دیا تھا، لیکن بھائی نے ان سے بھی کوئی خاص بات نہ کی، البتہ مجھے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا۔
جب سب چلے گئے تو اس نے مجھے اشارے سے بلایا، اور سرگوشی میں کہنے لگا:
”تم پریشان نہ ہونا، میں تمہارا راز تمام عمر کسی کو نہ بتاؤں گا، اور کچھ ہی مدت میں سب بھول جائیں گے“۔
میں نے کسی کو بھی نہ بتایا کہ بھائی نے مجھ سے کیا کہا ہے۔ ابو نے ہمیں بات کرتے دیکھا تھا لیکن انہوں نے بھی کچھ نہ پوچھا، لیکن ان ڈرائونے خوابوں کا کیا کروں؟ جب تک یہ راز باقی ہے، میں اطمینان سے کیسے سو سکتا ہوں۔
اگلی صبح جب میں نے امی ابو کے ساتھ بیٹھ کر ناشتا کیا تو میں نے انہیں گلدان کا قصہ شروع سے آخر تک سنا دیا، اور انہیں بتایا کہ کس طرح میری غلطی کی سزا احمد کو ملی ہے، اس نے مجھے بچانے کے لئے سارا الزام اپنے سر لے لیا، اور آخر میں میں نے کہا:
”اصل قصور وار میں ہی ہوں، اس کے بعد آپ جو چاہیں سمجھیں، سچ وہی ہے جو میں نے آپ کو بتا دیا ہے“۔
ان دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا، امی کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا، اور پیشانی پر پسینہ آ گیا تھا، وہ اپنے کئے پر نادم تھیں، ابو اٹھنے لگے تو وہ بھی ان کے پیچھے لپکیں:
”سنئے، مجھے بھی ساتھ لے جائیں، میں اپنے بیٹے کو لینے خود جاؤں گی، اب اس کا علاج گھر پر ہو گا، وہ بے چارہ ہسپتال میں کیسے ٹھیک ہو گا؟“۔
ابو اس تجویز سے کتنا خوش ہوئے تھے، وہ خود بھی یہی محسوس کر رہے تھے، مگر ان کی سوچ سے صرف ان کا رب واقف تھا، اسی لئے وہ آنکھوں میں آنے والی نمی چھپانے کے لئے باہر نکل گئے،وہ جاتے ہوئے کہنے لگے:
’ہم نے بچے کو ایک گلدان کے لئے بیمار کر دیا، اور اس سے بھی بڑی بات یہ کہ وہ بے چارہ اس کا قصور وار بھی نہ تھا۔ یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ میرا بیٹا بڑی عقل اور حکمت والا ہے“۔
امی بولی:
”آپ سچ کہہ رہے ہیں ابو الحسن، یہ سب کچھ غلط فہمی کی بنا پر ہوا، اب ہم اس کی تلافی کریں گے، ہم اپنے بیٹے کی نگہداشت کریں گے“۔
ابو بولے:
”ابھی آپ گھر میں ہی رہیں، ہسپتال میں اس کا علاج ہو رہا ہے، جونہی وہ بہتر ہو گا ہم اسے گھر لے آئیں گے، ورنہ اسے کچھ ہو گیا تو ضمیر کے تازیانے ہمیں مرتے دم تک چین نہ لینے دیں گے“۔
ابو نے آخری جملہ شاید میرے لئے کہا تھا۔
اگلے ہفتے ہم بھائی کو ملنے ہسپتال گئے، امی بھی ساتھ تھیں، گزشتہ پورا ہفتہ امی ابو کو ہر رات بتاتی رہیں کہ وہ اس سے کیا کیا سلوک کرتی رہی ہیں، ان کی آنکھیں ندامت سے بہتی رہتیں۔ وہ دونوں رات دیر تک باتیں کرتے رہتے، وہ یہی سمجھتے تھے کہ میں سو رہا ہوں۔
ہسپتال میں امی کو دیکھتے ہی احمد بھائی نے کھڑے ہونے کی کوشش کی، مگر وہ اتنے کمزور تھے کہ اٹھ نہ سکے، امی نے آگے بڑھ کر انہیں چوم لیا، اور سہارا دے کر لٹا دیا۔ یہ امی کا بھائی کو پہلا محبت بھرا دلاسہ تھا، بھائی نے بھی پہلی مرتبہ اس دست ِ شفقت کو محسوس کیا تھا، یہ واقعی ماں کا ہاتھ اور ان کا لمس تھا، اور ماں کا ہاتھ ان کے لئے شفا بن گیا تھا۔
اگلے پندرہ دن میں بھائی ہسپتال سے گھر آچکا تھا، امی حقیقی ماں کی طرح بھائی کا خیال رکھتیں، جب وہ ”میرا بیٹا، میرا بچہ“ کہہ کر پکارتی تو ان الفاظ سے سچائی کی خوشبو پھیل جاتی، یہ بڑا پیارا جذبہ تھا، اور امی پہلے سالوں کی محرومیاں دور کرنے کا عزم لئے ہوئے تھیں۔
چھ ماہ میں بھائی بالکل ٹھیک ہو چکا تھا۔ اب امی کی محبت اور شفقت سے ہم دونوں فیض پاتے ہیں۔ دو محبت کرنے والے بھائیوں کی زندگی خوشی اور شادمانی سے بھر گئی ہے۔
٭٭٭