عوام ایکسپریس

عوام ایکسپریس

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابن فاضل:
پرانی بات ہے. کسی کام سے حیدرآباد جانا تھا. مطلوبہ تاریخ پر کسی گاڑی کی ٹکٹ دستیاب نہیں تھی سوائے عوام ایکسپریس کے۔ ہمسفر کا اصرار تھا کہ ریل پر ہی جانا ہے سو مجبوراً عوام ایکسپریس کا ہی ٹکٹ لے لیا۔ چند گھنٹوں میں ہی اندازہ ہوگیا کہ عوام ایکسپریس نام کیوں رکھا گیا ہے۔ انتہائی سست رفتار گاڑی اور اذیت ناک سفر۔

اٹھارہ گھنٹے کے مجوزہ وقت ابھی رحیم یار خان بھی نہ پہنچ پائے تھے۔ بہت کوفت ہوئی۔ ہمسفر سے کہا کہ بھائی درجنوں تیز گاڑیاں اس گاڑی کو کراس کررہی ہیں۔ ہم اس پر سے اتر جاتے ہیں کسی اور گاڑی میں بیٹھ جاتے ہیں، جلد پہنچ جائیں گے۔

وہ خائف تھے کہ ایسا نہ ہو یہ بھی چھوٹ جائے اور کوئی دوسری گاڑی بھی نہ ملے۔ میں نے ٹکٹ چیکر اور ریلوے کے دوسرے عملے سے معلومات لیں کہ کون سی گاڑی کس وقت آتی ہے اور کس سٹیشن پر رکتی ہے۔ اچھی طرح یقین کرلینے کے بعد اور ان کو بہت محنت اور سماجت سے قائل کرنے کے بعد ہم رحیم یار خان اتر گئے۔ کچھ انتظار کے بعد ایک اور گاڑی آئی (نام یاد نہیں) ہم اس میں سوار ہوئے اور کوئی گھنٹہ بھر کے بعد ہم نے عوام ایکسپریس کو کراس کرلیا۔

یہ جو نوکری ہے یا ایسا کاروبار جو آپ کی فطرت سے ہم آہنگ نہیں، یہ عوام ایکسپریس ہی ہے جس میں آپ آہستہ آہستہ جلتے کڑھتے دھکے کھاتے جیون بسر کررہے ہیں۔ جب تک آپ جی کڑا کرکے، بہادرانہ فیصلہ نہیں کرتے اور اپنا ذاتی کاروبار یا کارخانہ شروع نہیں کرتے آپ ایسے ناآسودہ اور پریشان رہیں گے۔

ہر روز پریشان ہونے سے بہتر ہے ایک بار فیصلہ کریں۔ یاد رکھیں! سنہری مواقع کی درجنوں تیز رفتار گاڑیاں آپ کے ارد گرد سے گزررہیں۔ ہمت کرکے نوکری کی عوام ایکسپریس سے اتریں۔ اپنا کام شروع کریں۔ بہت جلد آپ اس نوکری کی آمدنی کو کراس کرجائیں گے
لیکن
ایک بات کا دھیان رہے کہ خوب اچھی طرح ہر بات کا علم حاصل کرنے اور خوب تسلی کرنے کے بعد فیصلہ کریں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ فرطِ جذبات میں کسی ویران سٹیشن پر اتر جائیں جہاں کوئی تیزرفتا گاڑی رکتی ہی نہ ہو۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں