جویریہ سعید:
اس لیے کہ دنیا میں عموماً اعمال کا بدلہ ان کی ظاہری صورت کی بنا پر دیا جاتا ہے۔ کسی عمل کے اثرات کیا ہوئے، یا وہ کن حالات میں کیا گیا، یہ مدنظر رکھنا عموماً انسانی استعداد سے باہر ہوتا ہے۔ مثلاً دو افراد کا ناگوار بات پر چشم پوشی کرنا یا نماز ادا کرنا بظاہر ایک جیسا عمل ہوسکتا یے۔ مگر ان دو افراد کی ان کاموں کے لیے خارجی و داخلی سطحوں پر کی گئی جدوجہد، اور اس نیکی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اثرات ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتے ہیں۔ اور بھی کئی طرح کی باتیں ہوسکتی ہیں۔
مثلاً کسی کی ایک خامشی سے کسی کا گھر بچ جائے، اور دوسرے کی خامشی اذیت کے ایک طویل اور مسلسل عمل میں محض ایک اور ایسی کوشش ہو جس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلتا ہو۔ دونوں اپنی جگہ پر مشکل کام ہیں۔ دونوں کا بہت زیادہ اجر ملنا چاہیے مگر جن نیکیوں کا نتیجہ نکلتا نظر نہ آتا ہو ان کی افادیت خود کرنے والے کی نظر میں سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنت اس لیے بھی ضروری ہے کہ دنیا میں ایسا بہت ممکن ہے کہ دو افراد ایک ہی جیسی نعمتوں سے فیض یاب ہوتے ہوں مگر دونوں کے لیے ان کے حصول کی جدوجہد بالکل الگ کہانی ہو۔ مثلاً بہت سے لوگ اچھا تعلیمی کرئیر اور اچھی ملازمت زندگی کے معمولات کی طرح پالیتے ہیں۔ مگر کچھ لوگوں کے لیے یہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔
بلاشبہ اچھے گریڈز اور اچھی ملازمت کے لیے محنت سب ہی کو کرنی پڑتی ہے، مگر کچھ لوگوں کے لیے صرف محنت سے پڑھنا اور چند ضروری خوبیوں کا ہونا ہی کافی نہیں ہوتا۔ ان اوصاف کے باجود ان کی راہوں میں کئی اور طرح کی مشکلات آتی ہیں۔
مثلاً آپ کو صرف اچھے نمبر ہی نہیں درکار بلکہ آپ کے پاس پیسے بھی نہیں اور اس کے لیے آپ کو پاپڑ بیلنے پڑے ہوں، آپ مختلف زبان بولتے ہوں، مختلف ثقافتی پس منظر رکھتے ہوں، آپ کو اور بھی کئی طرح کے مسائل درپیش ہوں۔
ایسے میں اگر آپ ان افراد کی ہی طرح کامیاب ہو بھی جائیں جو نسبتاً آسان حالات میں آپ کامقابلہ کررہے تھے ، اور آپ کو بھی وہی فوائد و آسائشیں مل جائیں جو دوسروں کو بھی ملتی ہیں ، تب بھی یہ آپ کی جدوجہد کا اصل معاوضہ نہیں ہوسکتا۔ انسان کے بس میں بھی نہیں کہ وہ انسانوں کو ان کی محنت اور کوششوں کے حساب سے معاوضہ دے سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کامیابی کو ایک طرف رکھیے، ایک شخص اوروں کی طرح محنت کرتا ہے مگر وہ ایسے حالات میں پیدا کیا گیا ہے کہ اس کے لیے اوروں کی طرح کامیابی کا حصول ممکن نہیں۔ مثلاً نسبتاً اس کا آئی کیو کم ہے، اس کی شخصیت میں وہ اہم خصوصیات موجود نہیں جو کسی کامیاب کرئیر کا زندگی کے لیے لازمی ہیں، یا عین وقت پر کسی حادثے کا شکار ہوجانے کے سبب تمام تر قابلیت اور محنت کے باجود اپنے مطلوبہ مقام سے محروم ہوجاتا ہے۔
یہی مثال لیجیے کہ کوئی دل کا بہت اچھا ہو مگر صورت شکل میں کم تر ہونے کی بنا پر یا معاشی طور زیادہ مستحکم نہ ہونے کی بنا پر یا کسی جسمانی معذوری کے سبب زندگی میں خوبصورت اور ہمدرد ساتھی نہ پاسکے۔ اور یہ مثال تو بہت عام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلاشبہ نامساعد حالات کے باوجود بھی کچھ انسانوں کو کامیابی نصیب ہوتی ہے اور شاندار کامیابی بھی مل جاتی ہے اور یہی بہت سی انسپریشنل اور موٹیویشنل وڈیوز اور تقاریر کا موضوع اور مرکزی خیال بھی ہوتا ہے۔
مگر ہر نامساعد حالت سے گزرنے والے کو کامیابی نصیب نہیں ہوتی۔ اگر ہوا کرتی تو انسپریشنل وڈیوز اور تقریروں سے ہماری آنکھوں میں آنسو نہ آیا کرتے۔
ایسے میں سوچیے کہ اگر آپ کو یہ علم ہو کہ وہ جسے دنیا میں بہت کچھ آسانی سے مل گیا، اور آپ جس نے ہر ہر شے جان مار کر حاصل کی، مر کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فنا ہو جائیں گے۔
اس سے بھی آگے بڑھ کر سوچیے کہ اگر آپ کو علم ہو کہ آپ اچھائی، ایمانداری اور انسانی ہمدردی کے اصولوں کو سنبھالے ایک عام سی زندگی گزارتے رہے، اور ایک دوسرا بہت سے اچھے اصولوں کو پامال کرتا رہا،اور اس کے باجود شاندار زندگی کا مالک رہا۔ اور یہ کہ آپ دونوں مر کر ایک ہی انجام سے دوچار ہوں گے یعنی ہمیشہ کے لیے فنا ہو جائیں گے تو آپ کو کیسا محسوس ہوگا؟
کیا یہ خیال بےحد مایوس کرنے والا اور اشتعال انگیز نہیں ہے؟
جو لوگ آخرت کا بڑے اعتماد سے انکار کرتے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور خدا سے خفا رہتے ہیں ان کی باتوں اور تحریروں میں انسانوں اور دنیا کے لیے بڑی تلخی اور طنز ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دنیا میں انسان کے پاس بہت کچھ اختیار تو ہے مگر پھر بھی یہ جبر کا چکر ہے۔ موٹیویشنل اسپیکرز کے اقوال زریں کے برعکس کامیابی صرف ہمارے اپنے ہاتھ میں یا صرف ہمارے قدم بڑھانے کی مرہون منت نہیں ہوتی۔
حالات کا جبر جسے ہم luck اور previliges کہتے ہیں ،زندگی میں بہت کچھ حاصل کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
ایسے میں مجھے یہ کہا جائے کہ اس جبر کے باجود انجام سب کا ایک ہی ہونا ہے تو مجھے اس قوت سے نفرت ہی ہوگی جس کے کسی عمل سے میں وجود میں آگئی۔ وہ قوت خدا نہ ہوئی تو میری مایوسی میں کئی گنا اضافی ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا اور آخرت کا شعوری یا لاشعوری طور پر انکار کرنے والوں کو میں نے عموماً ایسا ہی پایا ہے،
اگر ’’اچھے‘‘ انسان ہیں تو کسی نہ کسی طرح مراعات یافتہ ہوں گے
اور اگر مصیبت میں گھرے ہیں تو مایوس اور نفرت کے جذبات سے پُر ہوں گے۔