منفرد اسلوب کی حامل افسانہ نگار، ناول نگار اور کالم نگار محترمہ قانتہ رابعہ سے ایک مکالمہ
محترمہ قانتہ رابعہ بہترین لکھاری ہیں جن کا قلم آپ کو سماجی رویوں کے ساتھ ساتھ سچائی اور صراط مستقیم پہ چلنے کی دعوت دیتا ہے ۔ قانتہ رابعہ صاحبہ کے خواتین کے حقوق کے متعلق کیا خیالات ہیں؟ خود وہ بہ حیثیت خاتون معاشرے اور گھر میں اپنا فعال کردار کیسے ادا کر رہی ہیں؟ یہ جاننے کے لئے ان سے چند سوالات کیے، ان کے جوابات اور خیالات پڑھ کر ہم سب ان سے بہترین رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں:
1:آپ کا تعارف ؟
قانتہ رابعہ :السلام علیکم، ایک تعارف تو یہ ہے کہ بھلیا کی جاناں میں کون!
اور دوسرا تعارف یہ کہ میرا نام قانتہ رابعہ اور مجھے ننھیال اور ددھیال دونوں جانب سے ادب دوستی ملی۔
میری دادی اماں شاعرہ تھیں، ان کی بہنیں بھی فارسی میں شعر کہتی تھیں، میرے نانا ابو بھی شاعر تھے۔ میرے والد صاحب کی بھی کتاب شائع ہوئی اور میرے ماموں بھی مشہور مصنف تھے۔ اس ادب دوست ماحول کے باعث مجھے بھی موقع ملا کہ میں اپنی اس صلاحیت کو استعمال کروں۔
2: قلم سے دوستی کیوں اور کیسے ہوئی؟
قانتہ رابعہ : قلم سے دوستی بچپن سے ہے، میرے گھر میں بچپن سے بتول، اردو ڈائجسٹ، سیارہ ڈائجسٹ، ایشیاء اور اسی طرح کے دیگر بہت سے رسائل و جرائد آتے تھے۔ والدین کو دیکھ دیکھ کر ہی مجھے لکھنے اور پڑھنے کا شوق ہوا.
میری والدہ کے زمانے میں جہانیاں میں بجلی نہیں تھی لیکن میری امی نے نسیم حجازی کے تمام ناول لالٹین کی روشنی میں پڑھے. مجھے بھی الحمدللہ بچپن سے ہی لکھنے کا موقع ملا۔ جب نور،بچوں کے جسارت اور دیگر رسالوں میں میرا نام چھپا تو نام چھپنےکے مرحلے سےلکھنے کو اور مہمیز ملی اور خوشی ہوئی بلکہ خوشی چھوٹا لفظ ہے کہ میرا نام شائع ہوا۔ مجھے شوق ہوا کہ میں لکھوں اور بہت لکھوں.
الحمد للہ میں نے ہر رسالے میں لکھا۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ میں کوئی رسالہ دیکھ کر اس میں اپنی تحریر بھیج دیتی تھی اور وہ رسالہ میرے گھر نہیں آتا تھا تو مجھے دوسروں سے پتہ چلتا تھا کہ فلاں رسالے میں آپ کی تحریر شائع ہوئی ہے۔ یہ سب باتیں اس وقت کی ہیں جب میری عمر محض تیرہ چودہ سال تھی۔
3:آپ کی تحریریں ہمارے معاشرے میں شہرت پانے والے لغو اور نقل شدہ ادب سے بالکل مختلف ہیں ۔ کیا آپ کو نہیں لگتا اس طرح نام اور مقام بنانے میں طویل وقت درکار ہوگا ؟
قانتہ رابعہ:الحمدللہ میری تحریریں منفرد ہیں بلکہ یہ کہوں کہ میری یہ انفرادیت ہے کہ میرے کسی افسانے میں کوئی ہیرو اور ہیروئن نہیں بلکہ کچھ ناولٹ بھی لکھے تو اس میں بھی صرف کہانی ہوتی ہے اور بامقصد تحریر ہوتی ہے۔ جہاں تک نام اور مقام بنانے کا تعلق ہے تو ایسا کبھی ذہن میں تھا ہی نہیں۔
مجھے شروع میں شوق تھا شائع ہونے کا اس کے بعد عادت بن گئی، پھر ضرورت اور اب یہ میرا مشن ہے اور مشنری جذبے کے بغیر مقصد والا ادب تخلیق ہی نہیں کیا جا سکتا۔ جسے پیسے کے لئے لکھنا ہے وہ بھی پیسے کے لئے اسی جذبے سے لکھے گا۔ میرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پیغام پہنچ جائے اسی لئے میری تحریریں طویل نہیں ہوتیں۔
4:آپ کی کاوشوں اور اس مقام تک پہنچنے میں آپ کے اہل خانہ خصوصاً شوہر, باپ, بھائی اور بیٹوں کا کیا اور کیسا کردار رہا ؟
قانتہ رابعہ: شادی سے پہلے میرے ابو، میرے ماموں اور میری چچی نے میری بہت حوصلہ افزائی کی. میرے ابو نے کبھی یہ نہیں کہا کہ تم بہت اچھا لکھتی ہو لیکن میری تحریر پڑھ کر ان کا چہرہ خوشی سے لال ہو جاتا تھا۔ وہ لکھنے کے لئے ضروری تمام چیزیں مہیا کرتے تھے، چاہے وہ کاغذ قلم لانا ہو یا تحریر بھیجنے کے لیے ڈاک خرچ اٹھانا۔ میرے والد نے میری ہر ضرورت پوری کی۔
شادی کے بعد شروع میں کچھ وقت مشکلات کا سامنا کیا لیکن پھر اللہ نے بہت کرم کیا اور میرے شوہر نے میرے ساتھ بہت تعاون کیا بلکہ میں اگر یہ کہوں کہ سب سے زیادہ تعاون ہی میرے شوہر نے کیا تو غلط نہ ہوگا. میرے لکھے کو فوٹو کاپی کروانا، اسے سپرد ڈاک کرنا اور جب تحریر شائع ہو جائے تو رسائل و جرائد لا کر دینے کاکام بھی میرے شوہر ہی کرتے ہیں۔
5:آپ کس معاشرے کی نمائندگی کرتی ہیں ؟ نیز آپ آج کی عورت کو کیا دلانا چاہتی ہیں ؟ عزت ، شہرت ، دولت ؟
قانتہ رابعہ: معاشرہ وہی ہے جس میں میں رہتی ہوں یا ہم سب رہتے ہیں۔ میری تحریریں نہ مافوق الفطرت ہوتی ہیں نہ انہونی، بلکہ میرے کردار میرے ارد گرد رہتے ہیں۔ سب میرے جاننے والے جن کی کہانیاں میں لکھتی ہوں۔
میں آج کی عورت تک قرآن کا پیغام پہنچانا چاہتی ہوں. میری خواہش ہے کہ انھیں اپنا مقصد زندگی پتہ چل جائے۔ مجھے قرآن یا تفسیر پڑھتے ہوئے اگر کوئی بات ایسی معلوم ہوتی ہے یا کوئی موضوع مجھے کلک کرتا ہے تو میری خواہش ہوتی ہے کہ اس پر افسانہ لکھوں۔ اگر آپ لوگوں نے میری تحریریں پڑھی ہوں تو اندازہ ہو گا کہ جو موضوع میرے کالم کا ہوتا ہے وہی افسانے کا بھی ہوتا ہے اور وہی موضوع بچوں کی کہانی کا بھی. انداز سب کا مختلف ہوتا ہے لیکن موضوع ایک.
شہرت اور دولت کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، اصل چیز ہے اللہ کی اطاعت کا پتہ چل جائے اور الحمد للہ مجھے اپنی تحریروں کا جو ردعمل ملتا ہے اس سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ کسی حد تک میں اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوں.
میرا مقصد کامیابی حاصل کرنا نہیں بلکہ یہ ہوتا ہے کہ جو چیز میرے ذہن میں ہے اس پیغام کو میں آگے پہنچا سکوں۔
آج کل صحت کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہوں اور ڈاکٹر نے میرے لکھنے پڑھنے پر پابندی لگائی ہے جو میرے لئے بہت باعث تکلیف ہے کہ جو تحریریں میرے ذہن میں اودھم کود مچا رہی ہیں میں ان کو لکھ نہیں پاتی۔ لکھنے کا کام میرے لئے سانس لینے کی طرح ہے۔
6: کتنی مرتبہ آپ کو یہ احساس ہوا کہ کاش میں حجابی نہ ہوتی ؟
قانتہ رابعہ : یہ احساس کبھی نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ یہ فخر محسوس ہوا کہ میں اس نبی کی امت سے ہوں جس نے عورت کو تحفظ دیا۔
جس طرح قلم میری پہچان ہے اسی طرح مقامی یا اردگرد کے شہروں میں میری گفتگو، تقریر، درس یا قرآنی کلاسز میری ایک پہچان ہیں۔ میں نے یہ کام گھروں میں بھی کیا اور حکومتی سطح پر تعلیمی اداروں اور مختلف انسٹی ٹیوشنز میں بھی۔
اس سے یہ ہوا کہ بعض اوقات بازار یا ایسے ہی کسی پبلک پلیس پر خواتین مجھے دیکھ کر اپنا حجاب یا دوپٹہ درست کر لیتی ہیں یا گلے میں دوپٹہ ہے تو سر پر لے لیتی ہیں تو الحمد للہ اگر کوئی میری وجہ سے اپنا دوپٹہ یا حجاب درست کرتا ہے اپنا سر یا سینہ ڈھکتا ہے تو یہ میرا اعزاز ہے،میرا فخر ہے۔ الحمد للہ
7: کون سے رویے ، مزاج ، مطالبات آپ کو بہت زیادہ تکلیف دیتے ہیں ؟
قانتہ رابعہ: بہت حساس سوال ہے, مجھے دورنگی اور منافقت بہت تکلیف دیتی ہے. اور بظاہر صحیح بات کو سمجھنے کے باوجود غلط بات کو عمل میں لائے تو اس سے مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے.
آج کل مرد و خواتین کی طرف سے جو اللہ کی صریح نافرمانی ہو رہی ہے. وہ چیزیں جن کے بارے میں علم ہے کہ جن کی پکڑ بڑی شدید ہو گی. مجھے بہت تکلیف دیتے ہیں.
8: آپ آج کی عورت سے کیا چاہتی ہیں، اس کو کہاں اور کیسے دیکھنا چاہتی ہیں ؟
قانتہ رابعہ : سچ پوچھیں تو میں اس یوٹوپیا میں ہوں جہاں پہ میرا دل چاہتا ہے کہ مدینہ منورہ کی ریاست ہو اور خواتین اپنے مقصد زندگی سے آگاہ ہوں، بچوں کی تربیت ہویا شوہر کی فرمانبرداری ہویا اپنے گھر بار کو دیکھنا ہو بالکل وہی سیٹ اپ ہونا چاہیے جو صحابیات کا تھا. میں بس عورت کو ویسا دیکھنا چاہتی ہوں۔
9:آپ کو اپنے عورت ہونے پر فخر ہے کیونکہ…… ؟
قانتہ رابعہ : جی ہاں، مجھے اپنے عورت ہونے پر فخر ہے اس لئے کہ اللہ نے مجھے عورت بنایا ہے اور عورت ہونے کی بناء پر میں نے جو کچھ کیا ہے شاید میں مرد ہوتے ہوئے یہ سب کچھ نہ کر پاتی. میں نے ملازمت بھی کی، میں نے لیکچرز بھی دیئے۔
میں نے اپنی زندگی کے ہر معاملے میں سنتوں کو سامنے رکھنے کی کوشش کی خواہ وہ بچیوں کی تربیت ہو یا گھر داری یا میرے لکھنے لکھانے کا عمل ہو. اور الحمد للہ زمانہ اس کی گواہی دیتا ہے کہ میں نے اپنا فرض پورا کیا۔
10: وہ پیغام جو آپ اپنی تحریروں سے دوسروں تک پہنچانا چاہتی ہیں ؟
قانتہ رابعہ :پیغام بس یہی ہے کہ یہ دنیا فانی اور عارضی ہے جس میں ہم وقت بہت ضائع کرتے ہیں۔
اور جتنا دکھ مجھے سنتوں کے ضیاع پر ہوتا ہے اور کسی بات نہیں۔ سنتوں کو ہم نے صرف درسوں کی حد تک رکھا ہوا ہے یا پھر اس حد تک کہ دائیں ہاتھ سے کھا لو اور جمعے کو ناخن کاٹ لو لیکن جلدی سونا جلدی اٹھنا اور سب سے بڑی سنت جو جہاد کی ہے ان چیزوں کو ہم نے اپنی زندگی سے نکال دیا ہے۔ ہم دنیا کی دل فریبیوں میں آگئے ہیں۔ پیغام یہی ہے کہ آنکھیں کھولیں، بصارت کے ساتھ بصیرت پیدا کریں اور دشمنوں کے وار کو پہچانیں۔
11: اے کاش…. ؟
قانتہ رابعہ: میں بہت عاجزی سے یہ بتانا چاہتی ہوں کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد سے میرے افسانوں پر ایم فل کی ڈگری جاری ہو چکی ہے اور بہت سی یونیورسٹیز میں میری تحریروں پر کام ہو رہا ہے تو الحمد للہ اللہ نے مجھے جو لکھنے کی صلاحیت اور توفیق دی اس کو اللہ نے شرف قبولیت بخشا ہے بہت بڑی بڑی مصنفات جن کو ہم دنیاوی پیمانوں سے بڑا کہتے ہیں جن کے سیریل چل رہے ہیں، میڈیا میں بھی آن ہیں ان ہیں۔ میرے افسانوں پر ایم فل ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔
یعنی اللہ نے میرے کام کو قبول کر لیا تو کہنا یہی ہے کہ اے کاش!
جب دنیا سے ہماری رخصتی ہو تو ہم میں سے ہر فرد جس کردار میں بھیجا گیا ہے وہ اس فرض کی ادائیگی کے بعد جائے اور اس کے پسماندگان اس بات کی گواہی دیں کہ وہ یہ کام بطریق احسن کر کے گیا ہے اور میرے جانے کے بعد میری گواہی مجھے چاہنے والے بھی دیں اور وہ بھی دیں جو مجھے نہیں جانتے۔
سوال 12: کوئی خواہش ؟
قانتہ رابعہ : میں اکثر سوچتی ہوں کہ اللہ اگر جنت میں لے جائے تو وہاں حریم ادب کی نشست کریں۔
2 پر “’’خواہش ہے کہ جنت میں حریم ادب کی نشست کروں‘‘” جوابات
قانتہ جی کا انٹرویو کافی دیر بعد دیکھا ۔۔ان کی زندگی کے بہت سے گوشوں سے واقفیت ہوئی ۔۔۔۔حقیقت یہی ہے کہ ان میں بہت ٹیلنٹ ھے مگر اس ٹیلنٹ کو نکھارنے میں تعاون کرنے والوں کا اور حوصلہ افزائی کرنے والوں کا بھی بڑا کردار ھو تاھے جیسا کہ ان کے والد اور شوھر نے کیا ۔۔۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
قانتہ جی کا انٹرویو کافی دیر بعد دیکھا ۔۔ان کی زندگی کے بہت سے گوشوں سے واقفیت ہوئی ۔۔۔۔حقیقت یہی ہے کہ ان میں بہت ٹیلنٹ ھے مگر اس ٹیلنٹ کو نکھارنے میں تعاون کرنے والوں کا اور حوصلہ افزائی کرنے والوں کا بھی بڑا کردار ھو تاھے جیسا کہ ان کے والد اور شوھر نے کیا ۔۔۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ