شکاگو، امریکا، برف باری، سڑک کا سفر

طویل سفر، مسلسل ڈرائیونگ اور موت کے گھاٹ سے واپسی (سفرنامہ)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مدثر محمود سالار:
ہم کل ملا کر دو عدد افراد اور ایک ویگن مع دو کمبل تھے اور ہمیں تیرہ سو کلومیٹر کا سفر کرنا تھا۔ دن میں تقریباً دو گھنٹے گوگل میپ اور موسمی حالات بتانے والی ویب سائٹ پر راستے میں موسم کا تفصیلی جائزہ لیا۔
دراصل دوپہر سے برف باری شروع تھی اور ہم نے سفر بھی ضروری کرنا تھا۔ ہم شکاگو سے نیویارک آرہے تھے مگر موسم کی پہلی برف باری دیکھ دیکھ کر پریشانی ہورہی تھی۔

تیرہ سو کلومیٹر کے سفر میں آدھے سے زیادہ سفر برف باری میں طے ہونے کے امکانات نظر آرہے تھے۔ ہم رات کے آٹھ بجے شکاگو کے وقت کے مطابق نکلے۔ سب سے پہلے ٹارگٹ نامی بڑے مال سے راستے کے لیے پانی، انرجی ڈرنک اور مونگ پھلی و چپس وغیرہ خریدے۔ برفباری مسلسل جاری تھی جب ہم شکاگو شہر سے نکلے۔

ہم جلدی میں آئے تھے تو خواہش کے برعکس اچھی کار کے بجائے ڈاج کی بھاری بھرکم ویگن کرائے پر ملی۔ گو ہم ویگن کے سائز اور متوقع ہوشربا گیس کے خرچے کی وجہ سے ناخوش تھے مگر قدرت نے اسی میں بہتری رکھی تھی۔ برف باری کی پریشانی میں کھانا پیک کروانا یاد نہیں رہا۔

شکاگو شہر اتنا مشہور ہے کہ میرے جیسے کئی افراد شکاگو کو ریاست سمجھ لیتے ہیں جبکہ شکاگو شہر دراصل الینائز ریاست کا ایک شہر ہے۔ شکاگو سے نکل کر ہم ریاست انڈیانا میں داخل ہوئے اور انڈیانا کے سرحدی شہروں کے باہر سے گزرتے ہوئے اوہائیو ریاست میں داخل ہوئے۔ راستے میں کہیں تیز ہوا اور شدید برفباری اور کہیں ہوا کے بغیر برف باری ہورہی تھی۔

ہماری ویگن کا وزن دو ٹن تھا جس کی وجہ سے طوفانی ہوا میں بھی گاڑی بہترین چلتی رہی۔ ہلکی گاڑی چلتے ہوئے طوفانی ہوا اور برفباری میں جھولتی ہے اور بے قابو بھی ہوتی ہے۔ بھاری گاڑی کی روڈ گرپ اچھی ہوتی ہے اس لیے سلپ بھی نہیں ہوتی۔ کئی جگہ تو اتنا شدید طوفان تھا کہ زیادہ سے زیادہ دس پندرہ فٹ کا فاصلہ نظر آتا تھا وہ بھی دھندلا سا۔ ہماری رفتار کئی بار مسلسل گھنٹہ گھنٹہ بہت کم رہی۔

مرکزی شاہراہ پہ بڑے ٹریلر بکثرت تھے اور جابجا ٹریلر الٹے ہوئے نظر آرہے تھے۔ برفباری میں ٹریلر بہت پھسلتے ہیں کیونکہ لمبے ہوتے ہیں تو باآسانی پھسل جاتے ہیں۔راستے میں ٹرکوں سے فاصلہ رکھنے کی بھرپور کوشش رہی ، تاکہ اگر ٹرک پھسل جائے تو ہم نہ ٹکرا جائیں۔ برفباری میں بریک لگانا حماقت ہے اور سڑک پہ برف شیشے کی طرح جم کر بریک کو کام کرنے بھی نہیں دیتی۔

گاڑی وزنی ہونے کے باوجود بعض اوقات ہوا کا دبائو گاڑی کو ادھر اُدھر دھکیلتا تھا۔ گاڑی مابدولت چلارہے تھے اور بڑی ویگن چلانے کا سرور لے رہے تھے۔ جب آس پاس ٹریفک کم ہوتی تو میں شاہراہ کے اطراف کا نظارہ بھی کرلیتا ورنہ مکمل توجہ روڈ پہ اور آگے پیچھے چلنے والی گاڑیوں پہ تھی۔ اطراف میں کہیں دور فیکٹریوں کے اونچے ٹاور دھند اور سفید آسمان کے امتزاج کے ساتھ جلتی بجھتی لائیٹوں کے ساتھ اپنے ہونے کا اعلان کررہے تھے۔

کہیں دور دور تک چٹیل میدان برف سے اٹے ہوئے اور اس پہ چاند کی روشنی چھپن چھپائی کھیلتی ہوئی ایک اور ہی دنیا کا منظر پیش کررہی تھی۔ بعض اوقات میدان کی برف جھیل کی جمی ہوئی سطح کی مانند نظر آتی تھی۔ کبھی کوئی چھوٹا دریا اطراف میں نظر آتا جس کے کنارے پر لمبی گھاس اور اس گھاس کا برف کے بوجھ سے جھکا ہوا منظر ، کبھی اچانک شاہراہ سے کچھ فاصلے پر کوئی خوبصورت گھر برف میں گھرا ہوا خواب آمیز نظارہ دکھاتا۔

اوہائیو میں ایک جگہ ریسٹ ایریا شاہراہ کے ساتھ ہی نظر آیا ، وہاں جاکر واش روم استعمال کیا ، پیٹ پوجا کی۔ گیس ٹینک فل کیا اور مابدولت نے شاہ جی کو پچھلی سیٹ پر سونے کے لیے کہہ کر دوبارہ ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔ ابتدائی چار پانچ گھنٹے تو گپ شپ کرتے گزرے مگر مشکل تب شروع ہوئی جب شاہ جی سوگئے۔ میں نے ہیٹر کا ٹمپریچر کم کردیا تاکہ نیند نہ آئے۔ تقریبا تین سو کلومیٹر چلنے کے بعد ایک گیس سٹیشن کی طرف گاڑی موڑی۔ دوبارہ گیس ٹینک فل کیا۔

اسی جگہ فیس بک چیک کرتے کرتے ڈاکٹر رابعہ خرم صاحبہ کی اپنے والد صاحب کے متعلق یاداشتیں دیکھیں تو سوچا پورا مضمون پڑھ لوں، پھر سفر شروع کرتا ہوں۔ پڑھتے پڑھتے آنکھوں سے بےساختہ آنسو جاری ہوگئے۔ ایک بیٹی کا اپنے باپ کے آخری لمحات کا قلمبند کرنا اور پھر لکھنے والی رابعہ خرم صاحبہ ہوں تو پتھر دل بھی پگھل جائیں۔

سفر میں ہونے کی وجہ سے خیال آیا، مسافر کی دعا جلدی قبول ہوتی ہے اور ڈاکٹر صاحبہ کے ابا کے لیے دعائے مغفرت پڑھتے ہوئے گاڑی گیس سٹیشن سے نکال لی۔ یہاں سے میں نے غلطی کردی کہ شاہ جی کا خیال کرتے ہوئے انہیں سونے دیا اور خود ہی ڈرائیو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ مسلسل سات گھنٹے سے گاڑی چلارہا تھا اور تاحال ہشاش بشاش تھا۔

دو گھنٹے بعد پنسلوینیا ریاست سے گزرتے ہوئے میں گاڑی چلاتے ہوئے سوگیا۔ شاید تیس سیکنڈز یا ایک منٹ کے لیے ہی آنکھ لگی ہوگی یا رب جانتا ہے کتنی دیر سویا ، گاڑی بھاری ہونے کے سبب روڈ پہ باآسانی سیدھی چلتی چلتی آہستہ آہستہ روڈ سے اترنے لگی گاڑی روڈ سے آدھی اتر چکی تھی جب جھٹکوں سے میری آنکھ کھلی۔

گاڑی کی رفتار کم ہورہی تھی میں نے فورا سٹیرنگ سنبھالا اور روڈ پہ واپس آگیا۔ اللہ کا کرم ہوا کہ آس پاس کوئی گاڑی نہیں تھی ورنہ حادثہ ہوسکتا تھا۔ اب میں ہائی وے پہ دیکھ رہا تھا کہ ہائی وے پہ رک نہیں سکتا تو باہر نکلوں یہاں سے۔

قانوناً نیند آنے کی صورت میں آپ ہائی وے پر سائیڈ پہ گاڑی لگاسکتے ہیں اور پولیس آپ کو جرمانہ نہیں کرے گی مگر مجھے اس بات کا علم نہیں تھا۔ اب میں نیند سے جھول رہا اور ایک جگہ غلط ایگزٹ لے لیا، جب اندازہ ہوا کہ غلط موڑ لیا تو عین ایک اشارے کے اوپر ون سائیڈ روڈ پہ یوٹرن لے لیا اور مزید غلط سائڈ پہ چلا گیا۔

مدہوشی کی حالت میں روڈ کے درمیان بار بار یوٹرن لیتا ایک گیس سٹیشن پہ پہنچ ہی گیا۔ گاڑی روک کر شاہ جی کو جگایا اور چائے پی۔ تب اپنا محاسبہ کیا کہ میں نے گاڑی مسلسل ڈرائیو کرنے کی سنگین غلطی کردی ہے۔ اس کے بعد گاڑی شاہ جی کے حوالے کی اور نو گھنٹے کی مسلسل ڈرائیو کے بعد پچھلی سیٹ پر جاکرسویا۔

اس رات کسی حادثے کے بغیر گیس سٹیشن تک پہنچ جانا ناقابل فراموش ہے، صبح پنسلوینیا اور نیویارک کی سرحد پہ ایک جگہ چائے پی، دوبارہ گیس بھروائی۔ گیس سٹیشن پہ کام کرنے والے سردار جی نے باتوں باتوں میں کرتارپور کوریڈور بنانے پر سب پاکستانیوں کا شکریہ ادا کیا جو ہم نے سب کی طرف سے وصول کیا۔
شکاگو میں گیس کی قیمت ساڑھے تین ڈالر فی گیلن تھی جبکہ پنسلوینیا میں اڑھائی ڈالر۔ یہاں گیس سے مراد سی این جی نہیں بلکہ پٹرول ، ڈیزل ہے۔

بہرحال صبح ساڑھے گیارہ ہم گھر پہنچے۔ واپسی کا یہ سفر ساڑھے پندرہ گھنٹے میں طے ہوا ، اس میں زیادہ وقت اس لیے بھی لگ گیا کیونکہ برفباری کی وجہ سے کئی جگہ رفتار بہت کم رہی۔ اس سفر کے بعد یہی سبق ملا کہ لمبے سفر میں مسلسل ڈرائیو کرنا نقصان دہ ہے


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں