حمنہ عمر:
جب مجھے یہ خبر ملی کہ نعمت اللہ خان اس دنیا فانی سے اپنے رب کے حضور جا پہنچے تو آنکھیں نم ہوئیں اور دل غمگین ہوا اور دعا کی کہ اے اللہ صبر دے، صبر دے کہ یہ خسارہ ہر ایک پریشان شہری کا ہے۔
مجھے پہلی ملاقات یاد آئی جب ہمارے گھر رکنے کے لیے خود نعمت اللہ خان صاحب نے اصرار کیا،ایک شہری نے کہا کہ میزبانی کا شرف دیں۔ کہنے لگے تحریکی گھرانہ موجود ہے، میں وہیں قیام کروں گا۔ استقبال کے وقت ہم نے پھولوں کے گلدستے دیے اور چھوٹی کزن نے تسبیح دی تو ہاتھ میں موجود تسبیح جیب میں رکھی اور پیکٹ سے نئی تسبیح نکال کر ہاتھ میں لی، کزن کو شفقت سے پیار کیا، نام پوچھا،ہمیں آٹوگراف دیئے
اور اندر جانے کو کہا۔
سفید بال
جھریوں زدہ چہرہ
روشن باب
جہد مسلسل
اور رب کی رضا کی تڑپ
کراچی شہر سے
صحرائے تھر میں لے آتی ہے
وہ صحرا جہاں تپتی دھوپ کے ڈیرے تھے
وہ صحرا جہاں غذا کی قلت تھی
وہ صحرا جہاں پانی کا نشان تک نہ تھا
وہ صحرا جہاں تعلیم کا فقدان تھا
وہ صحرا جہاں مسیحائی کی طلب تھی
وہ صحرا جہاں ہمدردی کی،محبت کی،شفقت کی،توجہ کی اشد ضرورت تھی
وہ صحرا جہاں جینے کی لیے شعور ناگزیر تھا
ایسے میں نعمت اللہ خان اللہ کی رحمت تھے
نعمت تھے
برسات تھے
نغمات تھے
عنایات تھے
طمانیت تھے
صحرائے تھر کا دل تھے
اور روشن مستقبل
الخدمت ہاسپٹل، الخدمت لیبارٹری اور فلٹر پلانٹ سب نعمت اللہ صاحب کی کوششوں سےہی بنے ہیں
تھر لاوارث ہوگیا
ایک مخلص شخص سے
ایک ہمدرد سے
نعمت اللہ خان صحرائے تھر کی شہ رگ تھے
مگر
تھر میں تبدیلی اور شہر کراچی کا تابندہ و رخشدہ دور یہ تقاضا کرتا ہے کہ
ہر شہر کو اک نعمت اللہ کی ضرورت ہے۔
بلکہ
ہر شہر، محلے، گلی، قصبہ، دیہات، گاوؑں، گھر کو چاہیئے
اک نعمت اللہ ۔ ایدھی نہیں، نعمت اللہ خان ۔
اس لیے اب یہ وقت کا تقاضا ہے
کہ
’’خود بنو نعمت‘‘