لکڑی سے بنا پرانا گھر اور پرانا فانوس

ہمزاد (دوسرا حصہ)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جویریہ سعید:
بیسویں صدی کے اوائل میں بنی عمارت میں قائم اسپتال اور اس کے ساتھ مرکز ذہنی صحت اپنے جلو میں کئی دہائیوں کی بے شمار کہانیاں سمیٹے کھڑے ہیں۔

بھیگی سڑک پر بارش سے بچنے کی کوشش میں دوڑتے، ڈینسٹن ہاؤس کی قدیم عمارت کی لرزتی سیڑھیاں اترتے اور چیٹری کے ساتھ پرانے طرز کی لکڑی کی بنی راہداریوں میں چلتے میں نے اس سے کئی مرتبہ مخاطب ہونا چاہا۔ وہاں جہاں پھرتے ایسا لگتا تھا کہ آپ انیس سو پچاس یا انیس سو ساٹھ کی دہائیوں کی کسی انگریزی فلم کے ماحول میں پہنچ گئے ہیں۔

بھئی ضروری تو نہیں کہ ہم ہمیشہ تلخ نظریاتی مسائل پر ہی آپس میں الجھاکریں۔ میں اسے بتانا چاہتی تھی کہ انیس سو بیس میں تعمیر شدہ اس ڈینسٹن ہاؤس میں ٹریننگ لیتے اگرچہ میں سوچ رہی تھی کہ شکر ہے میرا آفس اس عمارت میں نہیں جہاں ہلکے گلابی رنگ کی دیواریں ہیں اور گہرے سبز رنگ کا گھسا ہوا قالین بچھا ہے اور جہاں کی گھٹی ہوئی فضا میں سیلن زدہ لکڑیوں کی باس ہے،

جس کے قدیم طرز کے شاہانہ سے زینے اترتے مجھے ڈر لگتا ہے کہ یہ کہیں گر ہی نہ پڑے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ یہاں گھومتے پھرتے مجھے اس قدر انوکھی خوشی کا احساس ہوتا ہے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ اپنے آفس جانے کا کوئی اور طویل تر راستہ ڈھونڈ لوں تاکہ ان قدیم طرز کی راہداریوں سے گزرتے ہوئے دیر تک میں خود کو انہی زمانوں میں چلتا محسوس کرتی رہوں جو ہمیشہ مجھے آواز دیتے رہے ہیں۔ وہ اور میں اکثر ہی ایسی باتیں کیا کرتے ہیں۔ مگر آج کل وہ مجھے نظرانداز کر رہا تھا۔

گزشتہ دنوں جب خوب بارش ہوتی رہی تھی۔ سارے درخت، ساری عمارتیں اور ساری سڑکیں تیز بارش میں دھل دھلا کر چمکنے لگیں، سرخ اینٹوں کا رنگ سرخ تر ہوگیا اور بھیگی ہوئی سڑک پر جھکے سبز درختوں کے دلربا سائے نفسیاتی زلزلوں کے بیچ سے گھسیٹ کر ابدی سکون کی پناہ گاہوں کی طرف لیے جاتے تھے۔ سفید اور سبز طوطے شاخوں پر جھولا جھولتے شور مچاتے تھے اور سارا دن سورج کی بادلوں سے آنکھ مچولی کے سبب دھوپ چھاؤں کا کھیل بہت سہانا لگتا تھا، وہ مجھے سے الگ الگ رہا۔ میں گزشتہ ملاقات کی تلخی کا ذائقہ بھلانے کی ناکام کوششیں کرتی رہی۔ مگر شاید اس کی جیت کا خمار اسے مجھ سے گریزاں کیے ہوئے تھا۔

اب میں اکثر اسے ان کوچوں میں تانکا جھانکی کرتے دیکھتی تھی جہاں مذہب نے "No trespassing” یا "شجر ممنوعہ” کے سائن بورڈ نصب کر رکھے ہیں۔ انٹرویو، وی لاگ، پوڈکاسٹ، آرٹیکلز، نعرے ، موٹیویشنل تقریریں، متاثر کن اقوال زریں، بڑے بڑے پروگرامات میں کی گئی تقریریں۔ اور ان سب میں ایک ہی قسم کے بیانات۔

پروں سے آرزوئیں باندھ کر دور سفر پر جانے والے پرندوں نے کتنے طلسم ہوش ربا تلاش کیے، کس بہشت بریں تک پہنچے اور بسکٹوں اور ٹافیوں سے بنے ایسے گھر پالیے جہان چاکلیٹ کا تالاب ہے، آئسکریم کے ذائقے والی برف گرتی ہے اور کوک کی بارش ہوتی ہے۔ ان اسفار نے کس طرح انہیں ابدی مسرتوں سے ہم کنار کیا۔ انہوں نے کن جادوئی چشموں کا حیات آفریں شیریں پانی پیا، کتنے انوکھے ذائقے چکھے اور کتنی حسین جادوئی دنیاؤں میں اپنے گھونسلے بنالیے ہیں۔

یوٹیوب کے ایسے ’’بیوٹی گوروز‘‘ جن کی ایک وڈیو کسی کا سارا کرئیر برباد کرکے اسے تین ملین فالوورز کی بلندیوں سے بدنامی اور ناپسندیدگی کی پستیوں تک گرا سکتی ہے۔
ان میں ہم جنس پرست بھی ہیں اور اپنی جنس تبدیل کر لینے والے بھی۔ اور بےباک اور باغی مرد و خواتین بھی۔

ایک نے لکھا کہ اپنے پندرہ سال پرانے بوائے فرینڈ سے شادی نہ کرنے کی حکمتیں کیا ہیں، اور کوئی بڑے تیقن سے کہتی ہے کہ میں اپنے ساتھی سے شادی اس لیے نہیں کرتی کہ میری ٹو ڈو لسٹ پر ابھی بہت سے کام ہیں اور شادی کا خرچا ان سب اہم تر کاموں کی راہ میں رکاوٹ بنے گا۔

میں نے اسے گلیمر کے پردے پر اپنے حسن و شہرت سے لوگوں کی آنکھیں خیرہ کردینے والے خواتین و حضرات کو بھی بڑے شوق سے سنتے دیکھا۔

میں نے جب جب منہ کھولنا چاہا اس کی کہی ہوئی باتوں نے میرا منہ بند کردیا۔
شادی شدہ زندگی میں بندھی کسی ناآسودہ عورت یا مرد کی فرسٹریشن،
گھریلو تشدد کا شکار کسی عورت کی دردناک داستان،
جنس کی بنیاد پر سماجی امتیاز کا نشانہ بنے افراد کی دلگداز کہانی۔

وجود کی تہوں سے اٹھنے والے عجیب و غریب جنسی داعیات کا دباؤ،
سماجی روایات کے کمر توڑنے والے بوجھ تلے دبے مظلوم انسان۔
ایسی کوئی خبر، کوئی کہانی، کوئی گفتگو اور ملاقات مجھے کمزور کردیتی۔ اس نے کہا تھا،
انسان سرحدیں صرف لذت پرستی کے لیے عبور نہیں کرتا،
کبھی گلے میں موت کی طرح اٹکی زندگی بھی نجات کی امید میں نئی دنیاؤں کے اسفار پر آمادہ کرتی ہے۔

اور ایسے میں ان کوچوں میں رہنے والوں کی باتیں، جن میں میرا یہ ہمزاد آج کل گھومتا پھررہا تھا، انسان کو یقین دلاتی ہیں کہ جو لوگ ہمت کرکے الہامی ہدایات کا پلندہ خدا کے ہاتھ میں زبردستی واپس تھما دیتے ہیں اور آرزوؤں کے پروں پر سوار ہوکر ہوشربا انجانی دنیاؤں کے سفر پر نکل جاتے ہیں وہ کامیاب، خوش و خرم اور آزاد زندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

ان کی روح سماج و مذہب کی زنجیروں سے آزادی حاصل کر کے ہلکی ہوجاتی ہے۔ اس لیے لذتوں کے حصول کے لیے ہی نہیں بلکہ وجود کے غموں سے نجات کے لیے بھی یہی نسخہ کارآمد ہے کہ مذہبی ضابطوں سے چھٹکارا پاکر خواہش کے پرندے کا پیچھا کیا جائے۔
(جاری ہے)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں