کشمیری نوجوان باڑ کے ساتھ کھڑے ہیں

روشن راستے کا مسافر

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر میمونہ حمزہ/
اس نے کندھے پر بیگ اٹھایا، اور بوڑھے والدین سے پیار اور دعائیں لے کر کمرے سے باہر آگیا، اس کے چھوٹے بہن بھائی تاریکی میں کھڑے تھے، اس نے بھرائی ہوئی آنکھوں سے انہیں دیکھا اور ہولے سے مسکرا دیا:

”تم سب کے لئے ہی تو جا رہا ہوں، بتاؤ گڑیا، کیا لاؤں تمہارے لئے؟“۔
وہ چھوٹی بہن سے مخاطب تھا، جو ہمیشہ پٹاخ پٹاخ جواب دیا کرتی تھی:
”بھیا، آپ واپس آجائیے گا سلامت۔۔ ہم آپ کا انتظار کریں گے“۔
”ہاں۔۔ واپس آنے کے لئے ہی تو جا رہا ہوں، کچھ بن کر آؤں گا، اور کچھ کر کے دکھاؤں گا۔۔“۔ وہ بڑے عزم سے بولا۔

”بھائی، ہم بھی چلتے نا آپ کے ساتھ۔۔“۔ اس سے دو بڑس چھوٹا عمر بولا۔
”مجھے تو پہنچ جانے دو“۔ وہ اس لمحے کچھ سننے کے موڈ میں نہ تھا۔

وہ سب کو الوداع کہہ کر تاریکی میں غائب ہو گیا، آخری مرتبہ مڑ کر دیکھا تو اس کی بوڑھی ماں اور باپ دروازے کے باہر کھڑے تھے، ایک لمحے کو اس کے قدم لڑکھڑائے، مگر وہ مضبوط قدموں سے چلتا نکل آیا۔

مقررہ مقام پر اس کے سب ساتھی جمع تھے، گائیڈ بھی موجود تھے، ان کو بریفنگ دی گئی، خطرے کے پوائنٹس اور بچاؤ کے طریقے دہرائے گئے، ہر ایک کا توشہ، جو خشک خوراک پر مشتمل تھا، اس کے حوالے کیا گیا، انہوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا، اور ”الجہاد سبیلنا“ (جہاد ہمارا راستہ ہے) و ”الموت فی سبیل اللہ اسمی امانینا“ (اللہ کی راہ میں مرنا ہماری سب سے بلند آرزو ہے)گنگناتے ہوئے جبری قبضے کی لکیر کی جانب بڑھنے لگے، اور بڑھتے ہی چلے گئے،

راستے کی دشواریاں، موسم کی نامہربانیاں اور جگہ جگہ خوف کی علامتیں، سانپوں کی مانند زیرِ زمین بھارتی غاصبوں کی چوکیاں کچھ بھی ان کے قدم نہ ڈگمگا سکا، ان کے راستے کی دیوار نہ بن سکا، ان کے چلتے قدم اور آنکھوں کی لو ہی ایک دوسرے کی ہمت بندھاتی، اور وہ تھکاوٹ سے چور بدن پھر چلنے پر آمادہ ہو جاتے،

لیکن سخت سردی اور بے سروسامانی انہیں تھکا کر چور کر دیتی، ان کے جسم پر موجود لباس کسی طرح بھی برفانی ہواؤں کا مقابلہ کرنے کے لئے مناسب نہ تھے، ایک کشمیری سوٹ، ایک جیکٹ اور اس پر فیرن (کشمیری چوغہ)، اور سولہ سترہ ہزار فٹ بلند پہاڑوں کی چوٹیاں، جنہیں پار کر کے ہی وہ خونی لکیر کے پار پہنچ سکتے تھے،

دشمن کی پکٹوں سے بچتے بچاتے وہ آزاد کشمیر کی سرزمین پر پہنچ گئے تھے، نرم گرم بانہوں نے ان کا استقبال بھی کیا تھا، مگر اس سفر نے انہیں نڈھال کر دیا تھا، ان کے کپکپاتے جسموں کو گرم لباس بھی ملے اور گرم گرم کھانا بھی! اور ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا، وہ ہواؤں میں اڑ رہے تھے، اور جب کمانڈر نے انہیں اگلے حکم کا انتظار کرنے کو کہا تو وہ پریشان ہو گئے،

ان کا دل چاہتا تھا کہ فوراً ہی تربیتی کیمپ میں پہنچ جائیں، اور ضروری تیاری کے ساتھ واپس پلٹیں اور ازلی دشمن کو دبوچ لیں، جس رائے شماری کے وعدے کو اس نے طاق ِ نسیاں میں رکھ دیا ہے اسے ”بیلٹ“ سے نہیں لے سکے تو ”بلٹ“ سے لے لیں۔

یہ جذبے جن جسموں میں پروان چڑھے تھے، وہ جسم کمزور اور لاغر تھے، شدید سردی سے فراسٹ باٹنگ کا شکار ہو چکے تھے، ان میں سے کچھ ہسپتال سے ابتدائی طبی امداد لیکر فارغ ہو گئے تھے، جبکہ تین کی پاؤں کی اور دو کی ہاتھ کی انگلیاں بری طرح خراب ہو چکی تھیں، اور بندوق کا ٹرائیگر دبانے سے پہلے ہی انہیں کاٹ دینے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔

شکیل نے اپنے جسم کی سلامتی پر اللہ کا شکر ادا کیا، کچھ ہی دنوں میں اس کا بھی تربیت کا نمبر آگیا، اس کی جان میں جان آئی، اس نے ہر تربیتی مشق کو بڑے شوق سے سیکھا، اس کے دیگر ساتھی بھی ایسے ہی تھے،

آزاد کشمیر کے بیس کیمپ میں ٹریننگ کرتے ہوئے وہ کہیں کھو جاتا، اسے اپنی ماؤں بہنوں کی تار تار عزتیں، اور نوجوانوں پر ظلم و ستم کے مناظر دل پر گھونسے مارتے تو وہ اپنے سینے میں لگی آگ کو عزمِ جواں میں ڈھال لیتا۔ دو برس کی مسلسل تربیت نے اس کے جسم کو کندن بنا ڈالا، وہ آزاد کشمیر کے پہاڑوں سے آگے مقبوضہ وادی کی گلیوں میں خود کو قابض فوج سے نبرد آزما پاتا، اس کے خواب اسے بے چین رکھتے، اس کی منزل آزادی تھی، مقبوضہ کشمیر کی آزادی، اور لا الہ الا اللہ کے کلمے کی حکمرانی!

چند روز قبل ہی اسے اپنی بہن کا خط ملا تھا، گڑیا بہت اداس تھی، اور اس کی واپسی کی شدت سے منتظر۔ اس کا خط پڑھتے ہوئے اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں، وادی کے حالات مزید خراب ہو گئے تھے، گڑیا نے سکول جانا بھی چھوڑ دیا تھا، ابا کی دکان بھارتی فوج نے گن پاؤڈر چھڑک کر جلا دی تھی، اور محلے کے کئی نوجوانوں کے جسم پیلٹ گن سے چھلنی ہو چکے تھے، اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی، وہ رات اس نے انگاروں پر گزاری، اگلی صبح وہ کمانڈر صاحب کے سامنے کھڑا تھا:

”آخر کب تک ہم باری کے انتظار میں یہاں پڑے رہیں گے؟ ہماری واپسی کب ہو گی سر؟“۔

اور کمانڈر کے جواب نے اس کے پیروں تلے سے زمین نکال دی، اسے بتایا گیا کہ واپسی کے راستے مسدود ہو چکے ہیں، پاکستان کی حکومت ایسا ”بائی لیٹرل“ معاہدہ کر چکی ہے، جس کی رو سے اس جانب سے دوسری جانب آمد و رفت ممکن نہیں رہی، وہ لڑکھڑا کر گرتے گرتے بچا، اور بمشکل سوال کیا:
”لیکن یہ انتظار کب تک سر۔۔“۔
”جب تک کوئی راستہ نہیں نکل آتا“۔

شکیل کیمپ میں واپس لوٹ آیا، جس جس تک یہ خبر پہنچی، اسے غمزدہ کر گئی، ان کی مشقیں اب بھی جاری تھیں، مگر بے ہدف تھیں۔اسی بے بسی میں سب نے اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا، اکا دکا نوجوان باہر جا کر کام کرنے لگے، کوئی کسی کاروبار میں لگ گیا اور کوئی کسی شعبے میں، پڑھے لکھوں نے تدریس اور کچھ نے دفاتر میں کام شروع کر دیا۔

شکیل کی تعلیم انٹر تک تھی، اس نے بھی ایک درزی سے کام سیکھنا شروع کر دیا، وہ بے وجہ کیمپ پر بوجھ نہ بننا چاہتے تھے، علاقہ کے لوگوں سے میل ملاپ بڑھا تو کچھ دوستیاں بھی استوار ہو گئیں، کچھ نوجوانوں نے گھر بھی بسا لیا، اور اسی طرح ایک روز شکیل نے بھی ایک مطلقہ خاتون سے نکاح کر لیا۔

زندگی ایک نئے ڈھب پہ آگئی، جس میں حرارت تو تھی مگر ایک تلخی بھی،جو اسے جکڑ رہی تھی، وہ بیٹھے بیٹھے دور افق پر دیکھنے لگتا، بات کرتے کرتے اسے چپ لگ جاتی، ایک احساس اسے اندر ہی اندر کھا رہا تھا، کمزور مردوں اور بچوں اور بے بس عورتوں کی کراہیں اسے بے چین کر دیتیں، وہ تو مقبوضہ وادی کو آزاد کروانے کے سفر پر نکلا تھا، عورتیں تو وہاں بھی بہت تھیں، ایک سے بڑھ کر ایک حسین، سگھڑ اور محبت کرنے والی!

یہ تو اس کی منزل نہ تھی، پھر اس نے یہاں پڑاؤ کیوں ڈال لیا؟! وہ اپنے ارادوں کو جانچتا تو آج بھی خود کو واپسی پر آمادہ پاتا، یہ شادی بھی اس کے پاؤں کی زنجیر نہ تھی، زوبیہ کے گھر والوں کو نکاح سے قبل اس نے بتا دیا تھا کہ طبلِ روانگی بجا تو وہ آگے بڑھ کر لبیک کہنے والوں میں ہو گا، اور انہیں اس پر کوئی اعتراض نہ تھا۔

دن مہینے اور سال کھسکنے لگے، وقت کی رفتار کس کے ہاتھ میں ہے، اس دوران اس کا اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے ٹیلیفون رابطہ بھی ہوا، ادھورا سا۔ لائن میں بہت شور تھا، یا اس کے دل کے شور نے ہی سب آوازوں کو مدھم کر دیا تھا، وہ کئی دن بے چین رہا، گھنٹوں اندر بیٹھا اپنی گن کو صاف کرتا اور آنسو بہاتا رہتا،

عصر کے بعد ٹریننگ کیمپ میں جا پہنچتا، اپنی سوالیہ نگاہوں سے ایک ایک کے چہرے کو پڑھتا، اور بے بسی اور مجبوری کے کلمات سن کر واپس ہو لیتا، اس نے سنا کہ جن برف پوش پہاڑوں کو وہ اپنے حوصلے اور عزم کی بلندی سے پار کر کے یہاں پہنچا تھا، نئے معاہدے کی رو سے وہاں خونی لکیر کے آر پار باڑ بھی لگائی جا رہی ہے، رات کے وقت روشنی کے گولے پھینکے جاتے ہیں،

تربیت یافتہ کتوں کے ذریعے ایک ایک کھوہ کی تلاشی لی جاتی ہے، اور اپنی زمین سے اپنی ہی زمین کی جانب سفر ناممکن بن رہا ہے، اب کوئی گائیڈ بھی ساتھ لے جانے کو تیار نہیں، اس کے خواب ٹوٹنے لگے، اور اس پر پژمردگی چھا گئی۔

شکیل کی صحت گرنے لگی، راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں اس کے ٹیسٹ ہوئے، اور اسے بتایا گیا کہ اس کے گردے ناکارہ ہو رہے ہیں، اس کے دوستوں نے گردے کی پیوند کاری کے لئے رقم جمع کرنی چاہی تو اس نے انہیں روک دیا، اس نے اپنی بیماری کے بارے میں گھر والوں کو بھی خبر نہ دی،

بس اتنا ہی کہا کہ کچھ بیمار ہوں، دوا استعمال کر رہا ہوں، البتہ اس مرتبہ جب اس کی گڑیا اور امی ابو سے بات ہوئی تو اس نے انہیں بڑی تفصیل سے اپنے گھر، دکان، اور دوستوں کے بارے میں بتایا، کچھ دوستوں کے نمبر بھی بھیجے، اور بھائی سے اصرار کیا کہ ان سے بھی بات کر لیا کرو۔

وہ ہر ماہ راولپنڈی سے اپنے لئے دوا لاتا، اس مرتبہ وہ آیا تو کچھ فکر مند سا تھا، اس نے بیوی کو اتنا ہی بتایا کہ اس کے پاس وقت کم ہے، شاید وہ چلا جائے، اور اسے بھی ساتھ نہ لے جا سکے، بیوی نے ایل او سی (لائن آف کنٹرول) کے بارے میں جاننا چاہا تو وہ ٹال گیا، اب تربیتی کیمپ بھی اس کی آمدو رفت کم ہو گئی،

ہاں صبح سویرے وہ شہر کے قبرستانوں میں ٹہلتا ہوا پایا جاتا، قبرستان کے رکھوالے سے بھی اس کی دوستی ہو گئی، اور ایک روز اس نے اپنے ہجرت کے ساتھی کو بلایا اور قبرستان میں ایک جگہ اشارہ کر کے بتایا:

”یہاں بنانا میرا مرقد۔ مقبوضہ کشمیر سے ٹھنڈی ہوائیں اس جانب آتی ہیں۔ جب آزادی کی سحر طلوع ہو گی، تو شاید تم بھی مجھے یہ خبر سنانے کو یہاں موجود نہ ہو۔۔ یہ نسیمِ صبا مجھے خبر کر دے گی“۔

میری قبر پر کتبہ لگا دینا، یہاں وہ مہاجر ابدی نیند سو رہا ہے جو شہادت کا عزم لئے قابض دشمن کے چھکے چھڑانے گھر سے نکلا تھا، جس کی بندوق بھی تیار تھی اورقدم بھی!! جس کی راہ میں اپنوں نے ہی کانٹے اگا دیے تھے!!!
٭٭٭


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں