ارسطو نے کہاتھا کہ عظیم شہر کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ زیادہ آبادی والاہو،دو سو سال پہلے گزرنے والے امریکی شاعر والٹ وٹمین کا ماننا تھا کہ عظیم شہر وہی کہلائے گا جہاں کے مردوزن عظیم تر ہوں گے، چاہے وہاں چندٹوٹے پھوٹے جھونپڑے ہی کیوں نہ ہوں اور بل گیٹس کا کہناہے کہ جب تک ہم شہر کے سارے بچوں کو تعلیم نہ دیں، جب تک ہمارا شہر صاف ستھرانہ ہوجائے، ہمارے لئے کرنے کے کاموں میں کمی نہیں ہوگی۔
ارسطو اور والٹ وٹمین کی یہ باتیں جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹائون کی مئیر ہیلن زلے نے اچھی طرح پلے باندھ لیں جب وہ مارچ2006ء میں یہاں کی مقامی حکومت کی سربراہ منتخب ہوئیں۔ اور پھر ایسی کامیاب حکمران ثابت ہوئیں کہ دنیا کی بہترین مئیرقرار پائیں۔ جب انھوں نے شہرکی زمام کار سنبھالی تو ابھی کیپ ٹائون جنوبی افریقہ کے باقی علاقوں کی طرح سولہ برس قبل کی خانہ جنگی کے اثرات سے نجات نہیں پاسکاتھا۔یہاں کے لوگوں کا سب سے بڑامسئلہ اپنی زندگتی کی حفاظت تھی، وہ کہتے تھے کہ انھیں صرف زندہ رہنے کا حق ہی دیدیا جائے۔ ملک میں سب سے زیادہ قتل یہاں ہوتے تھے،سب سے زیادہ ڈکیتیاں بھی اسی شہر میں ہوتی تھیں، گینگ ریپ اور تشدد کے دیگر واقعات میں بھی یہ شہر خوب بدنام تھا۔ ملک کے کریمینل جسٹس سسٹم اور پولیس پر لوگ اس قدربداعتماد تھے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی وارداتوں پر مقدمہ درج کرانے کو وقت کا ضیاع سمجھتے تھے یا ان کا ماننا تھا کہ انھیں جرائم پیشہ افراد کی طرف سے مزید زیادتی کانشانہ بننا پڑے گا اور پولیس بھی انھیں لوٹے گی۔
سفید فام خاتون نے اپنی مئیرشپ کے دوران حقیقی معنوں میں لوگوں کی زندگیوں میں فرق پیداکیا۔ وہ خود سفید فام تھی تاہم اس کے ماڈلز ڈیسمنڈ ٹوٹو اور نیلسن منڈیلا جیسے عظیم سیاہ فام رہنما تھے۔ سن2006ء کے بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے توڈیموکریٹک الائنس نے کیپ ٹائون میں 42فیصد ووٹ حاصل کئے، یہ افریقن نیشنل کانگریس کو ملنے والے ووٹوں سے کچھ زیادہ تھے۔ نیلسن منڈیلاکاتعلق بھی افریقن نیشنل کانگریس سے تھا۔ مئیرکامقابلہ ہواتو ہیلن زلے دیگرچھوٹی جماعتوں کی حمایت حاصل کرتے ہوئے محض تین اضافی ووٹوں کے ساتھ کامیاب ہوگئیں۔ انھیں 106ووٹ ملے تھے۔ ہیلن کو مئیربننے کے بعد پہلے دن سے ہی زبردست مشکلات اور بڑی رکاوٹوں کا سامنا کرناپڑا۔ صوبے میں افریقن نیشنل کانگریس حکمران تھی۔ مخالف حکومت نے نئی پالیسی کے تحت مئیرکے اختیارات میںخاصی کمی کردی۔ اب وہ مئیرکمیٹی کے دس ارکان کاتقرراپنی مرضی سے نہیں کرسکتی تھی۔ اس کے بجائے یہاں متناسب نمائندگی کا طریقہ نافذ کردیاگیا۔اس سے ایک تنازعہ کھڑا ہوگیا جسے ڈیموکریٹک الائنس اور افریقی نیشنل کانگریس نے بعدازاں حل کرلیا۔
سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے ہیلن زلے ’رینڈ ڈیلی میل‘ نام کے اخبارکی سیاسی رپورٹر بھی رہیں، وہاں کام کرتے ہوئے وہ نسل پرستی کی مخالف اخبارنویس کے طورپرمشہورہوئیں۔یہ وہی تھیں جنھوں نے نسل پرستی کے مخالف سیاہ فام رہنما سٹیو بائیکو کی دوران حراست ہلاکت کے واقعے کو بے نقاب کیاتھا۔ اس سے پہلے پولیس کا دعویٰ تھا کہ سٹیو نے اپنے آپ کو خودزخمی کیاتھا جس کی وجہ سے اس کی ہلاکت ہوئی۔ ہیلن زلے ’بلیک ساش‘ نامی تنظیم کی رکن کے طورپرسرگرم کردار ادا کرتی رہیں۔ یہ نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کرنے والی سفیدفام خواتین کی تنظیم تھی۔ اس دوران ہیلن کیپ ٹائون یونیورسٹی میں ڈائریکٹرآف کمیونیکیشن کے طورپر ملازمت کررہی تھیں۔
ہیلن زلے بطورمئیر کیپ ٹائون ذمہ داریاں ادا کرنے سے پہلے قومی وصوبائی اسمبلی کی رکن بھی رہیں، سن2003ء میں انھیںبہترین جنوبی افریقن خاتون کا اعزاز بھی مل چکاتھا، اپنے وژن اور تجربہ کے ساتھ انھوں نے کیپ ٹائون کے باسیوں کی زندگی کیسے بدلی؟ملاحظہ کیجئے:
خاتون مئیر نے یہاں کے باسیوں کی معاشی حالت کو بہتربنانے کو اپنی پہلی ترجیح قراردیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کوششوں اور پالیسیوں کی بدولت یہاں کے لوگوں کی شرح آمدن میں اضافہ جبکہ شہر میں بے روزگاری میں کمی واقع ہوئی۔ جب وہ مئیر کے منصب پر فائزہوئی تھیں تو کیپ ٹائون میںبے روزگاری کی شرح20.7فیصد تھی جو دوسال کے اندر17.9تک کم ہوئی۔ اسی طرح ان کی پالیسیوں کے سبب شہر کے خزانے پر قرض کا بوجھ ایک ارب رینڈ(جنوبی افریقن کرنسی) تک کم ہوا۔ہیلن کے دورمیں شہر کے اندربدامنی کی صورت حال بھی غیرمعمولی طورپر بہترہوئی۔ جی ہاں! جرائم میں90فیصد کمی۔ ہیلن کے برسراقتدارآنے سے پہلے یہاں سیاسی جماعتیں سنگین جرائم میں ملوث افراد کو پارلیمان میں نمائندگی کی فہرست میں شامل کیاکرتی تھیں۔
ہیلن کے اقدامات میں سے ایک حیران کن قدم یہاں کے مستحق لوگوں کو مکانات کی فراہمی کے عمل کو تیز اور کرپشن، اقرباپروری سے پاک کرنا بھی تھا۔ انھوں نے یہ نہ سوچا کہ لوگوں کوچھت فراہم کرنا صوبائی حکومت کے دائرہ کارمیں آتا ہے، اس کے بجائے ہیلن نے مکانات حاصل کرنے والوں کی فہرست کو ازسرنومرتب کرکے اس امر کو یقینی بنایا کہ صرف مستحق افراد ہی کو مکانات فراہم کئے جائیں۔ اسی طرح انھوں نے مکانات فراہم کرنے کی سالانہ شرح میں اضافے کے لئے صوبائی حکومت پر دبائو ڈالا اور خود بھی نجی شعبے سے مل جل کر مختلف منصوبے تیارکئے ۔ جس کے نتیجے میںزیادہ سے زیادہ لوگوں کو چھت کی سہولت حاصل ہوئی۔ کیپ ٹائون میں پہلے سالانہ 3000مکانات تعمیر کرکے لوگوں کو دئیے جاتے تھے، اب وہاں تعداد7000تک پہنچ گئی یعنی محض دوبرسوں کی مدت میں دوگنااضافہ۔ ایک مضمون میں ہیلن نے لکھا کہ ان سے پہلے افریقن نیشنل کانگریس کے دورمیں پہلے سے موجود مکانات کی اپ گریڈنگ کے لئے کوئی بجٹ مختص نہیں ہوتاتھا لیکن انھوں نے مئیرشپ سنبھالنے کے بعد پانی، بجلی اور نکاسی آب کیلئے الگ سے بجٹ مختص کیا۔
ہیلن کے بارے میں ان کے بدترین مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ انھوں نے شہر والوں کی رہنمائی کی ہے ، ان پر حکمرانی نہیں کی۔ انھوں نے مئیرشپ سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے اس شہر کے لوگوں کی فطرت کوسمجھا اور ان کی ضروریات کا اندازہ لگایاجنھیں پورا کرنے سے وہ کامیاب زندگی گزارسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس شہر کے ہرعمر، جنس ، نسل اور رنگ کے لوگوں کی پسندیدہ ٹھہریں۔آج وہ جنوبی افریقہ کے نوجوانوں کے لئے ہمت اور ولولہ کا جذبہ بنی ہوئی ہیں، ایک ایسا جذبہ جو لوگوں کو متحرک کردیتاہے۔ ان کا حوصلہ اور جرات، ان کی قوت اور دیانت، ان کی عقل اورمعاملہ فہمی اس قدرشاندار ہے کہ وہ بارہا مشکل سیاسی حالات سے بخوبی گزرگئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بہترطرزحکمرانی کی چکمتی دمکتی مثال ہیں۔
ہیلن زلے نے اپنے پیشرو کے برعکس کرپشن کے خلاف خم ٹھونک لیا۔اس مسئلے پر انھوں نے مختلف گروہوں میں تقسیم اپوزیشن کو بھی اپنے ساتھ ملالیا۔ان کے پیش نظر صرف ایک ہی مقصد تھا کہ کسی نہ کسی طرح اس شہرکے باسیوں کا بھلا کرجائیں، چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ جرائم اور منشیات کے خاتمے اور فٹ بال ورلڈکپ2010ء کی تیاری کے لئے جدوجہد کرکے انھوں نے کیپ ٹائون کو دنیا کے بہترین شہروں میںشامل کردیا۔ یہ ایک ایسا کارنامہ ہے کہ آج وہ جنوبی افریقہ کے ایسے لوگوں میں شامل ہو چکی ہیں جن کا پوری قوم احترام کرتی ہے۔ جو لوگ اپنی قوم اور کمیونٹی کے لئے سخت محنت کرتے ہیں، انھیں اسی طرح احترام ملتاہے۔اب مائیں اپنی بیٹیوں کو ہیلن ایسی شخصیت بننے کی نصیحت کرتی ہیں۔
ہیلن نے جو کارنامہ سرانجام دیا، اس کا کریڈٹ اپنے والدین کی تربیت ہی کو دیتی ہیں ، ان کے والدین جرمنی میں تھے، نازیوں کے ظلم سے بچنے کے لئے دونوں الگ الگ فرار ہوکرجنوبی افریقہ پہنچے۔ ہیلن تین بچوں میں سب سے بڑی تھیں۔ والدین نے اپنے تینوں بچوں کو تربیت اس طرح کی کہ وہ سیاسی اور سماجی شعور سے پوری طرح مالامال ہوئے۔ انھوں نے بچوں کو ناانصافی کے خلاف مزاحمت کرنے کا سبق دیا اورمعاشرے کا ذمہ دار شہری بننے کو کہا۔ ان کی والدہ بھی بلیک ساش موومنٹ کے ساتھ تھیں اور نسل پرستی کے ہاتھوں زخمی ہونے والے لوگوں کے مسائل حل کرنے میں بطور رضاکارقانونی مدد کرتی تھیں۔ وہ گھر میں ان متاثرہ لوگوں کے مسائل زیربحث لاتی تھیں۔ انہی بحثوں اور تذکروں نے ہیلن کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ آج بھی یہ بحثیں اور تذکرے ہیلن کی یادداشت میں موجود ہیں۔
ان کی یادداشت میں وہ روزانہ کا طویل سفر بھی پوری طرح قائم ودائم ہے جو وہ اپنے والد کے ساتھ سکول جانے کے لئے طے کیاکرتی تھیں۔ ان کے والدین اخبار’’رینڈ ڈیلی میل‘‘ پڑھناپسند کرتے تھے۔ جب ہیلن والدصاحب کے ساتھ سکول کی راہ پر ہوتیں تو اس اخبار کا مطالعہ کرتیں۔ اس کے بعد دونوں حالات حاضرہ پر بحث کرتے۔اور اس سوال کاجواب بھی تلاش کرنے کی کوشش کرتے کہ ناانصافی کے خلاف کیاکچھ اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ ہیلن کہتی ہیں :’’انہی ساری چیزوں نے مجھے ناانصافی کے خلاف اور معاشرے کی بہتری کے لئے کردار ادا کرنے والی شخصیت میںڈھالا۔چنانچہ میں اخبارنویسی کی طرف مائل ہوئی۔ مجھے ایسے ایڈیٹرز کے ساتھ کام کرنے کاموقع ملا جنھوں نے مجھے کام کرنے کے بہت سے مواقع عطاکئے۔ ہر ایسے موقع نے مجھے آگے سے آگے بڑھایا۔ جب میرے ایڈیٹر کو غلط طورپر ان کے عہدے سے ہٹادیاگیاتو میں نے بھی استعفیٰ دیدیا۔حالانکہ انھوں نے نسل پرستی کے خلاف جدوجہد میں اہم کردار ادا کیاتھا‘‘۔
’’اخبارنویسی کے میدان میں ہونے والے تجربے نے میرا ہر روز بہت ساتھ دیا۔ اخبارنویسی نے مجھے سکھایا کہ کس طرح طویل اور مشکل ڈاکومنٹس پر کام کرنا ہے اور کس طرح اہم نکات کو پکڑنا ہے۔ میں نے سیکھا کہ کس طرح نامعلوم سے معلوم کی طرف جانے کے لئے درست سوالات کرناہوتے ہیں، میں نے مختلف نقطہ ہائے نظر کو سننا اور باہم متضاد شواہد کا جائزہ لینا سیکھا، میں نے سیکھا کہ دستیاب معلومات سے غلط نتائج نکالنا کتنا آسان ہے اور بعض مشکل حالات میں سچ تک پہنچنا کتنا کٹھن ہوتاہے۔ میں نے دبائو میں کام کرناسیکھا،اور اختلافی حالات میں پرسکون رہنابھی سیکھا۔ ایک سیاسی رپورٹر کے طورپر کام کرتے ہوئے میں نے جان لیاتھا کہ یہاں کس طرح سیاسی طاقت کا غلط استعمال ہوتاہے۔ چنانچہ میں اس بات کی قائل ہوگئی کہ اس مسئلے کے خاتمے کے لئے چیک اینڈ بیلنس بہت ضروری ہے۔ میں نے سیکھا کہ غلطی کرنے کے بعد اسے مان لینے کے کتنے فوائد ہوتے ہیں ، بجائے اس کے کہ اس پر پردہ ڈالاجائے یاپھر محض ’معذرت‘ کہاجائے اور پھر اپنی روش جاری رکھی جائے۔ ان صلاحیتوں کو میں نے بطورمئیر استعمال کیا‘‘۔
کیپ ٹائون کے بڑے مسائل میں سے ایک یہاں جھونپڑوں میں رہنے والے غریب لوگوں اور اس شہر کے اردگرد بسنے والوں کے حالت زار بھی ہے۔ ناگفتہ بہہ زندگی گزارنے والے ان لوگوں بالخصوص بچوں کی حالت انتہائی خوفناک تھی، حالات بیس برس پرانے ہی تھے۔ ہیلن کا خیال تھا کہ جھونپڑے والوں کو بنیادی ضروریات کی فراہمی سب سے زیادہ ضروری ہے۔ چنانچہ انھوں نے اس مسئلے کو باقاعدہ سائنسی بنیادوں پر جانچنے ، پرکھنے اور پھر اس کے حل کے لئے کوشش کرنے کا فیصلہ کیا۔انھوں نے جائزہ لیاتو معلوم ہواکہ 1994ء میں کیپ ٹائون کے اردگرد28ہزار جھونپڑیاں تھیں لیکن اب ایک لاکھ پانچ ہزار۔ان میں سے کسی کی بھی بنیادی ضروریات پوری نہیں ہورہی تھیں۔ اس شہر میں چارلاکھ ساٹھ ہزار خاندان ایسے تھے جن کے پاس گھر کی چھت نہیں تھیں، حکومتیں انھیں محض وعدوں پر ٹرخا رہی تھیں۔ان میں سے بہت سے ایسے خاندان تھے جو عشروں سے اس شہر میں آباد تھے لیکن انھیں چھت فراہم نہیں کی جاسکی تھی۔ دوسری طرف دیہاتی علاقوں سے کوچ کرکے آنے والے سیلاب کی صورت میں اس شہر میں داخل ہورہے تھے۔ یہ صورت حال کسی دوسرے شہر میں دیکھنے میں نہیں آرہی تھی۔ غریب طبقہ معاشی مواقع تلاش کرنے میں خصوصی طورپر اس شہر کا رخ کررہاتھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کیپ ٹائون کی آبادی میںایک عشرے کے دوران 16فیصد کا اضافہ ہوا۔ باہر سے یہاں آکر بسنے والے اس طرح آباد تھے کہ انھیں بنیادی ضروریات فراہم کرنے کے لئے ضروری تھا کہ انھیں ایک مرتبہ ان کی جگہ سے ہٹایاجائے۔
یہاںزمین کی قیمتیں اس قدر زیادہ تھیں کہ خریدنے کا سوچنا بھی دشوار تھا جبکہ ان پر تعمیر کے اخراجات کا پہاڑ الگ سر کرنا تھا۔ سابقہ حکومتوں نے مکانات کی تعمیر اور فراہمی کے راستے میں مختلف قوانین کو رکاوٹوں کے طورپر استعمال کیا۔ لوگوں کوملنے والے سالانہ مکانات کی تعداد بہت کم جبکہ ان کی فراہمی کی رفتار بہت سست تھی۔ ہیلن اس پیچیدہ صورت حال کو دیکھ کر پریشان بھی تھیں لیکن وہ لوگوں کی ضروریات کو دیکھ کر محض کڑھتے رہنابھی کافی نہیں سمجھتی تھی۔ یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ یہاں لوگوں کو مکانات کی تعمیر اور فراہمی کا شعبہ مقامی نہیں صوبائی تھا۔ ہیلن انتظامیہ نے ابتداء میں اپنے تئیں مکانات کی تعمیر اور فراہمی کا ایک منصوبہ بنایا تاہم اسے صوبائی حکومت نے منظور نہ کیا۔ ہیلن اپنے شہر کے کسی بھی خاندان کو بے گھر نہیں دیکھناچاہتی تھی، وہ اپنی مئیر شپ کے دور ہی میں ان کے خواب پورے کرناچاہتی تھی، ایسے میں ہیلن انتظامیہ نے متبادل منصوبے پر عمل شروع کردیا۔ چنانچہ انھوں نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ سے ایک منصوبہ چلانے کا اعلان کردیا۔
اس کے لئے فوراً نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے متعدد پارٹنرز تلاش کرلئے، ان کے ساتھ معاہدے کئے،بالخصوص بنکوں کے ساتھ۔ یوں کم قیمت پر معیاری گھروں کا خواب شرمندہ تعبیر ہوناشروع ہوگیا۔ ہیلن کہتی ہیں کہ انھوں نے اندازہ لگایاکہ 25فیصدبے گھرخاندان پرائیویٹ سیکٹر کے تعاون سے اپنی چھت کے نیچے زندگی بسرکرسکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میںاگر منصوبے کو کرپشن سے پاک بنایاجائے تو کم ازکم ایک لاکھ خاندانوں کی یہ بنیادی ضرورت پوری کی جاسکتی ہے۔ پچھلے ادوار میں بھی پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ساتھ کچھ رہائشی منصوبے تیارکئے گئے تھے لیکن وہ کم قیمت نہ تھے۔ ہیلن کا یہ منصوبہ 2009ء میں ثمرآور ہوا۔ اس منصوبے کے ساتھ صوبائی حکومت کے منصوبے بھی جاری رہے، ہیلن نے کوشش کی کہ ان منصوبوں کو مزیدتیز کیاجائے اور لوگوں کو سہولت بھی زیادہ ملے۔ ہیلن نے ایک ایسا نظام قائم کردیا کہ زمین کی خریداری،مکانات کی تعمیر اور فراہمی کا عمل مسلسل جاری رہے۔ ہیلن انتظامیہ نے پہلے سے موجود مکانات کی اپ گریڈیشن کے بھی پائلٹ پراجیکٹس بنائے۔ انھوں نے جھونپڑوں میں آباد خاندانوں کامعیار زندگی بھی بہترکرنے پر کام کیا، پینے کا صاف پانی اور ٹوائلٹس کی تعمیر پر خصوصی توجہ دی گئی۔
ایک مسئلہ یہاں گلیوں بازاروں میں پھرنے اور رہنے والے بچوں کابھی تھا۔ انھیں سٹریٹ چلڈرن بھی کہاجاتاہے۔ ہیلن نے اس مسئلہ کے اسباب کاجائزہ لیا۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے بہت سے گھریلوتشدد کی وجہ سے گھروں سے باہرآگئے تھے، کچھ خاندانی جھگڑوں کی وجہ سے اور ایک بڑی تعداد کا مسئلہ نفسیاتی تھا۔ ہیلن نے ان بچوں کی زندگی بحال کرنے کے لئے دو تدابیراختیارکرنے کا فیصلہ کیا۔
گلیوں اور بازاروں میں رہنے والے بچوں اور بڑوں سے پوچھا گیا کہ آیا وہ اپنی زندگی بہتراندازمیں بحال کرناچاہتے ہیں؟ وہ اپنا علاج کراناچاہتے ہیں؟ یہ تدبیر بظاہر بہت آسان محسوس ہوتی ہے لیکن حقیقت میں اسی قدرمشکل بھی تھی۔ یہ بے آسرا بچے اور بڑے برسوں سے اسی اندازمیں زندگی بسرکررہے تھے۔ اس مشکل کو محسوس کرتے ہوئے ہیلن نے نوجوانوں کی مختلف ٹیمیں تشکیل دیں جن کی ذمہ داری تھی کہ وہ گلیوں اور بازاروں میں رہنے والے بچوں اور بڑوں کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھیں گے اور ان کا اعتماد جیتنے کی کوشش کریں گے۔ وہ ان کے سامنے زندگی کو بہتر اندازمیں بحال کرنے کے مختلف پرکشش مواقع کا تذکرہ کرتے۔ اسی طرح منشیات کے عادی افراد کو بھی توجہ کا مرکز بنایاگیا۔ان سب کے لئے پرکشش مواقع کیاتھے؟ انھیں ایک طرف رہائشی سہولت فراہم کی گئی تو دوسری طرف ان کے لئے روزگارکاانتظام کیا گیا۔ انھیں گلیوں اور سڑکوں کی صفائی کی ذمہ داری دی گئی، وال چاکنگ مٹانے کاکام دیاگیا،سٹریٹ لائٹس پر لگے ہوئے پوسٹر وغیرہ ہٹانے کا ٹاسک سونپاگیا۔ اسی طرح ڈاگ مارشلزکی ملازمتیں بھی پیدا کی گئیں۔ روزگار کے مواقع ان کے لئے رکھے گئے جو بحالی پروگرام میں شامل ہونے کے لئے راضی ہوتے۔ ان کی رہائش کے لئے شیلٹر بنائے گئے،اس وقت ایسے شیلٹرز میں قریباً2700بیڈز موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر شیلٹرز سرکاری اور غیرسرکاری فنڈز سے چل رہے ہیں۔ اس طرح کی تدابیر اختیارکرنے سے سٹریٹ چلڈرن میں خاصی کمی واقع ہوئی اور سٹریٹ کرائمز میں بھی۔
جرائم کی شرح کم کرنے کے لئے اس تاثرکومضبوط کیاگیا کہ جس نے بھی جرم کیا، وہ ضرور پکڑا جائے گااور اسے سزابھی بہرصورت ملے گی۔ ہیلن کہتی ہیں کہ معاشرے میں جرائم کی شرح کم کرنے لئے ضروری ہے کہ پولیس کی بہتر تربیت کی جائے، جس قدر ضرورت ہو، نفری کو پورا کیاجائے اور نئی بھرتیاں صرف اور صرف میرٹ پر کی جائیں۔ اسی طرح یہاں چوبیس گھنٹے کام کرنے والی عدالتیں بھی ضروری ہیں۔اس حوالے سے ایک ایسے میکانزم کی ضرورت ہے جس میں پولیس والوں کو کرپشن کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔پولیس کا محکمہ مکمل طورپر آزاد ہو، حکمران جماعت کسی بھی طرح پولیس پر اثرانداز نہ ہوسکے اور وہ کریمینل جسٹس سسٹم کو خراب نہ کرسکے۔ ہیلن مقامی پولیس کی کارکردگی کو بہتربنانے کے لئے مختلف اصلاحات رائج کیں۔اس کام میں انھیں دوبرس لگے۔ ہرجرم سے نمٹنے والے ماہرین پولیس اہلکاروں کے سپیشل یونٹس بنائے گئے۔ قتل کی وارداتوں سے نمٹنے والے الگ اور چوروں کو پکڑنے والے الگ۔ یہاں بجلی کی تاریں چوری کرنے والوں کی بڑی تعداد موجود تھی جس کے نتیجے میں 2006ء کے آغاز میں بجلی فراہم کرنے والے محکمے کوسالانہ 2کروڑ20لاکھ رینڈ کا نقصان اٹھاناپڑتاتھا، ہیلن کی اصلاحات اور توجہ کی وجہ سے دوبرسوں میں یہ نقصان کم ہوکر محض 5 لاکھ رینڈ ہی رہ گیا۔آنے والے برسوں میں اس میں مزید کمی واقع ہوئی۔
جرائم کی شرح کو روکنے کے لئے تشکیل کردہ نئے نظام کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں پولیس، پرائیویٹ سیکورٹی گارڈز اور ٹریفک پولیس کے درمیان ایک کوارڈی نیشن قائم کردی گئی۔ سی سی ٹی وی کیمروں سمیت دیگرجدیدحفاظتی اقدامات کو بھی شامل کیاگیا، اس کے نتیجے میں مجموعی طورپرسنگین جرائم کی شرح میں90فیصد کمی واقع ہوئی۔ ہیلن زلے یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ جنوبی افریقہ میں جرائم روکنے میں سب سے بڑی کامیابی انھیں ہی نصیب ہوئی۔ ہیلن نے اس شعبے میںکئی ایسے پروگرام بھی شروع کئے جن میں بعض غیرملکی بنکوںسے بھی مدد لی گئی۔ غریب علاقے میں جرائم روکنے کے لئے ایک الگ پروگرام تیارکیاگیاجسے جرمن بنک فنڈز فراہم کررہاہے۔ ہیلن نے جس طرح غیرمعمولی طورپر جرائم کم کرنے کے لئے پروگرام ترتیب دئیے، ہماری مقامی، صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو ان کا الگ سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ہیلن کہتی ہیں:’’ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر جرائم کی شرح اس قدر بلند کیوں ہے؟ زیادہ ترماہرین جنایات (جرائم کا علمی مطالعہ کرنے والے) کاکہناہے کہ اس کا سب سے بڑا سبب معاشرے میں کریمینل جسٹس سسٹم کا کام نہ کرناہے۔ ایسے میں مجرموں کی بہت بڑی تعداد کو یقین ہوتاہے کہ یہاں جرم کرکے بچ نکلنے کے مواقع زیادہ جبکہ پکڑے جانے اور سزاپانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ اس صورت حال کا ایک پہلو یہ بھی ہوتاہے کہ لوگوں کا کریمینل جسٹس سسٹم سے اعتماد اٹھ چکا ہوتاہے، وہ اپنے ساتھ ہونے والی واردات کا مقدمہ درج کرانے کی ہمت ہی نہیں پاتے۔
کریمینل جسٹس سسٹم کے نہ چلنے کے تین اسباب ہوتے ہیں۔ اول: ناقص پالیسی، دوم: اقرباپروری کی بنیادوں پر لوگوں کی تعیناتیاں، سوم:بدانتظامی۔ جنوبی افریقہ کے آئین کے مطابق سیفٹی اور سیکورٹی کی ذمہ داری قومی حکومت کی ہے جو وہ صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر انجام دیتی ہے۔ رہی بات مقامی حکومت کی، بحیثیت مئیر، میرے اختیارات بہت محدود تھے، میں قومی سطح کے اس نظام پر اثرانداز نہیں ہوسکتی تھی، میرے پاس محض مقامی پولیس تھی، وہ بھی بہت محدود اختیارات کی حامل تھی۔ بے روزگاری اور غربت بھی جرائم کی شرح کو بڑھاتی ہیں۔ ویسے اس دنیا میں ایسے بھی ممالک ہیں جہاں جنوبی افریقہ سے زیادہ غربت ہے لیکن جرائم کی شرح بہت کم۔
مئیرشپ سنبھالنے کے بعد اگلے تیس مہینوں کے دوران ہیلن انتظامیہ نے پانی کی فراہمی، سیوریج ،سڑکوں، ٹرانسپورٹ سسٹم اور طوفانی پانی سے بچائو کے اقدامات پر گزشتہ مقامی حکومتوں کی نسبت تین گنا زیادہ اخراجات کئے۔ ہیلن سمجھتی تھیں کہ غریب طبقے کے لئے مواقع پیدا کرنے لئے بہت ضروری ہیں۔ یہ سرمایہ کاری، معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے ناگزیر ہیں۔ اسی طرح ہیلن نے شہر میں ٹرانسپورٹ کے سسٹم کو بہترکرنے کے لئے ’بس ریپڈ ٹرانزٹ‘ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ٹرانسپورٹ سسٹم کیساتھا؟ جاننے کے لئے پاکستان کے شہر لاہور میں شروع ہونے والے نئے نظام کو دیکھ لیجئے۔ اس کا پہلا فیز 2010ء میں مکمل ہوا، باقی کے فیز2018ء تک تکمیل کے مرحلہ سے گزرجائیں گے۔
سفیدفام خاتون رہنما نے ثابت کیا کہ محدود اختیارات کے باوجود غربت اور جرائم کے مارے ہوئے ایک ٹوٹے پھوٹے ہوئے شہر کو دنیا کے ترقی یافتہ شہروں کی صف میں شامل کیاجاسکتاہے۔ اگرچہ وہ اپوزیشن اتحاد کی قائد تھیں لیکن انھوں نے اپنی اولین ترجیح اس شہر کے لوگوں کو قراردیا جس کی وہ مئیرتھی۔ یہ ایک شاندار مثال ہے کہ آپ اپنی ذمہ داری سے پوری طرح جڑے رہیں۔ جن کے ووٹوں سے آپ کو اقتدارملاہے، ان کی خدمت کے لئے اس ذمہ داری کو بھی اپنا فرض سمجھیں جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔
نیلسن منڈیلا کے بعد بننے والے جنوبی افریقی صدرتھابومبیکی کاکہناہے کہ ہمارے ملک میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کمپیوٹروں، ٹیلی فونوں اور ٹیلی ویژن سیٹوں کی بات نہیںکرتے بلکہ وہ پوچھتے ہیں کہ ہمارے گائوں تک سڑک کب پہنچے گی۔ معروف برطانوی سوشیالوجسٹ اور حقوق نسواں کی علمبردار اینی بسٹ کاکہناہے کہ انگلینڈ کی بڑی غلطیوں میں سے ایک بھارت کا دیہاتی نظام تباہ کرناتھا۔چلی کی مصنفہ ازابیل ایلنڈی کاکہناہے کہ عورت کو تعلیم اور روزگارملناچاہئے، اس کا اپنی آمدن پر کنٹرول ہو، اسے معاشرے کے لئے مفید ثابت ہوناچاہئے۔ اگرایک عورت مضبوط ہوگی تو اس کے بچے اور خاندان بھی خوشحال ہوگا، اگرخاندان خوشحال ہوں گے تو گائوں ترقی کرے گا ، اس کے نتیجے میں پورا ملک ترقی کرے گا۔
ہم ہیلن زلے سے کیاسیکھ سکتے ہیں؟
آپ اپنے علاقے کے بلدیاتی ادارے کے مئیر یا چیئر مین ہیں یاپھرکونسلر، آپ کی پہلی ذمہ داری آپ کا اپنا علاقہ ہے، آپ کی ہرکوشش اس کے نظم ونسق کو بہتربنانے کے لئے ہونی چاہئے۔ یہی علاقہ آپ کا بنیادی مرکز ہے، اسے بنیاد بناکر اپنے سیاسی کیرئیرمیں مزیدکامیابیاں شامل کریں، اسے اپنے ملک کا ایسا علاقہ بنادیںکہ یہ باقی علاقوں کے ذمہ داران کے لئے مثالی ہو۔ جب تک آپ کے اندر یہ روح پیدا نہ ہو، آپ کامیاب نہیں ہوسکتے اور نہ ہی آپ کے علاقے کے لوگوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے۔
ہیلن زلے کی کہانی سے سبق سیکھا جاسکتا ہے کہ آپ یونین کونسل ،شہر، تحصیل ،ضلع کونسل یا بلدیہ کے سربراہ ہیں تو سب سے پہلے اپنے شہر کے سارے مسائل کا حساب کتاب کریں، لوگوں کی ضروریات کا اندازہ لگائیں۔شہریوں کی زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانا آپ پر لازم ہے۔٭ اس کے بعد دستیاب وسائل کا اندازہ لگائیں۔ آپ کااس بات پر ایمان مضبوط ہوناچاہئے کہ آپ ہرمسئلے کاحل نکال سکتے ہیں۔٭ مسائل سے نمٹنے کے لئے نجی شعبے کا تعاون بھی حاصل کریں۔٭کوشش کریں کہ مسائل جنم ہی نہ لیں کیونکہ لوگوں کی غلط عادات بھی بہت سے مسائل کو جنم دیتی ہیں۔ اس طرح وسائل کو بچایاجاسکتاہے۔٭ کرپشن حکومت کاخزانہ بھرنے نہیں دیتی جس کی وجہ سے مسائل سے نمٹنے کے لئے وسائل کی کمی کا مسئلہ درپیش ہوتاہے۔اس لئے کرپشن کوہرسطح سے ختم کرنے کے لئے تمام ترکوشش کریں۔٭پولیس کے شعبے کے ساتھ مل کر جرائم میں کمی کے خصوصی منصوبے تیارکرکے ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔٭ بجلی، پانی اور سیوریج کے نظام کو بہترسے بہتر کریں۔٭سڑکوں کی حالت بہتربنائیں٭ ٹرانسپورٹ کے نظام کو جدید سے جدیدتر اور بہتر سے بہترین بنانے کا پروگرام بنائیں۔٭لوگوں کے لئے بہتررہائش کے لئے تسلسل کے ساتھ ایک پروگرام ناگزیرہے۔٭ جب آپ اپنے حلقہ کو مثالی بنانے کا عزم اور پروگرام وضع کریں گے تو مسائل سے نمٹنے اور سہولیات کی فراہمی کے لئے نت نئے منصوبے آپ کے ذہن میں آتے چلے جائیں گے۔