تزئین حسن:
فیمینزم یعنی حقوق نسواں کا تعلق اگر واقعی عورتوں کے حقوق سے اور عورت اور مرد کی برابری سے ہے تو قرآن بذات خود ایک فیمنسٹ کتاب ہے۔ مگر چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود قرآن کے احکامات مسلم معاشروں میں نظرانداز ہی ہو رہے ہیں۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے دستور کو مغربی دنیا کی اہم ترین دستاویز اور انسانی حقوق کے حوالے سے ایک اہم سنگ میل تصور کیا جاتا ہے، جس میں عوامی حکمرانی کے حق کو تسلیم کیا گیا۔ اٹھارویں صدی کے اواخر میں مرتب کی جانے والی اس دستاویز کے ناقدین کا کہنا تھا کہ اس میں غلاموں کے حقوق کو نظرانداز کیا گیا۔
امریکا کی جنوبی ریاستیں (جہاں بڑی تعداد میں غلام زرعی معیشت کا حصہ تھے) اس دستور کو تب تسلیم کرنے پر راضی ہوئیں جب انہیں یقین دلایا گیا کہ فوری طور پر غلامی کے ادارے پر کوئی قدغن نہیں لگائی جائے گی اور نہ ہی غلاموں کی تجارت پر پابندی۔ اس کے باوجود غلاموں کے حق رائے دہی کو تسلیم کیا گیا۔ ایک سیاہ فام غلام انسان کا حق رائے دہی، سفید فام آزاد انسان کے تین بٹا پانچ کے برابر رکھا گیا۔ یعنی ہر پانچ غلاموں کا ووٹ، تین آزاد افراد کے برابر گردانا گیا۔
مگر تعجب کی بات یہ ہے کہ ماضی قریب میں مرتب کردہ مغربی دنیا کی اس اہم ترین دستاویز میں غلاموں کے حقوق کی بات تو کی گئی تھی مگر امریکی خواتین کے، چاہے وہ سفید فام آزاد خواتین ہی کیوں نہ ہوں، حقوق کی کوئی بات نہیں کی گئی۔ انہیں ایک غلام کے برابر بھی حق رائے دہی نہیں دیا گیا تھا۔ یعنی خواتین کو ووٹ دینے کا حق امریکی دستور میں سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔
جس سال امریکی دستور کا نفاذ ہوا، اسی سال فرانس میں ’’ڈیکلریشن آف دی رائٹس آف مین اینڈ سٹیزنز‘‘ نامی دستاویز سامنے آئی۔ ذرا غور کیجئیے، رائٹس صرف ‘مین’ یعنی مرد کے تھے۔ اس دستاویز میں بھی، جسے اقوام متحدہ کے موجودہ ’’یونیورسل چارٹر آف ہیومن رائٹس‘‘ کی اساس سمجھا جاتا ہے، خواتین کے حقوق کا کوئی تذکرہ نہیں تھا۔
مغربی معاشرے میں عورت کے حقوق کی بحث ’’فیمینزم‘‘ نامی تحریک نے انیسویں صدی میں شروع کی۔ ووٹ کا حق اسے بیسویں صدی میں دیا گیا جبکہ سورۂ بقرہ ساتویں صدی سے عورتوں کے حقوق کی بات کر رہی ہے:
(ترجمہ:) ’’عورتوں کےلیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق اُن پر ہیں، البتہ مردوں کو اُن پر ایک درجہ حاصل ہے۔‘‘
ہم دیکھتے ہیں کہ ساتویں صدی میں نازل شدہ کتاب ’’قرآن‘‘ کا بڑا حصہ خواتین کے حقوق کو جگہ جگہ اپنی بحث کا حصہ بناتا ہے۔ سورۂ بقرہ، سورہ نساء، سورہ نور، اور سورہ احزاب کا بیشتر حصہ اس بات کا گواہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی دوسرے قانون کے مقابلے میں اسلام، بہ حیثیت انسان عورت کے حقوق کے لئیے سنجیدہ ہے۔ مغربی فیمینزم کے مقابلے میں قران آج سے چودہ سو سال پہلے عورتوں کے حقوق کی بحث چھیڑتا ہے اور حقوق کے اس مقدمے کا فیصلہ انسانی نفسیات کو سامنے رکھ کر کرتا ہے۔
راقم کو بچپن سے انسانی زندگی کے اسرار جاننے کا تجسس رہا اور ہمیشہ مختلف قوموں کے رہن سہن، کلچر سماجی رحجانات اور دنیا پر ان کے اثرات جاننے سے دلچسپی رہی. ایک صحافی اور لکھاری کی حیثیت سے پچھلے چار سال کے دوران میں امریکا اور کینیڈا کے معاشرے کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا. اس کے ساتھ ہی الله کے دین اس کی کتاب میں دیئے گئے قوانین کو ایک مختلف تناظر میں سمجھنے کا موقع الله نے دیا۔
اور میں اگر تمہید کے بغیر بات کروں تو جتنا زیادہ مجھے اس معاشرے میں رہ کر قران کو سمجھنے کا موقع ملا ،میرا یہ یقین بڑھتا چلا گیا کہ اگر فیمینزم کا تعلق عورتوں کے حقوق سے ہے تو قران بذات خود ایک فیمنسٹ کتاب ہے. قران جگہ جگہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ عورت اپنی مختلف جسمانی ساخت کے باوجود اور الگ دائرہ کار کی ضرورت کے باوجود مرد کے برابر ہے. وہ مختلف ضرور ہے مگر حقیر نہیں.
مغربی معاشرہ میں عورت کے حقوق کی بحث فیمینزم تحریک نے انیسویں صدی میں شروع کی جبکہ سورۂ بقرہ ساتویں صدی سے عورتوں کے حقوق کی بات کر رہی ہے:
’’عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق اُن پر ہیں البتہ مردوں کو اُن پر ایک درجہ حاصل ہے۔‘‘
اسی سورہ میں ایک اورجگہ دونوں کو ایک دوسرے کا لباس کہہ کر انہیں برابر قرار دیا گیا:
’’وہ عورتیں تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔‘‘ مساوات کے لئے اتنے خوبصورت اور جامع الفاظ کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
بار بار یاد دلایا گیا کہ یہ عورتیں تمہاری ہی جنس سے ہیں- سورۂ روم میں آیات نمبر اکیس میں ارشاد فرمایا گیا:
’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبّت اور رحمت پیدا کر دی یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہے اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔‘‘
سورۂ بقرہ اور سورۂ نساء پڑھتے ہوئے مجھے بارہا محسوس ہوتا ہے کہ جگہ جگہ اوراق پرقرآن کے مصنف خالق حقیقی کی محبت اپنی اس کمزور مخلوق کے لئے ٹپک رہی ہے. اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب میں پلٹ کر مسلم معاشروں کی طرف دیکھتی ہوں تو مجھے خا لق کی اس محبت کا عکس یہاں نظر نہیں آتا بلکہ اس کے بجائے عورت سے نفرت اور بیزاری غالب نظر آتی ہے۔
ماں بچے کی پیدائش کی خاطر جس تکلیف سے گزرتی ہے قرآن بارہا اس کی قدر کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس مضمون کو قرآن میں بار بار دہرایا گیا ہے. سورہ لقمان آیات نمبر 14 میں ارشاد ہے:
’’اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے اُس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اُس کا دودھ چھوٹنے میں لگے (اِسی لیے ہم نے اُس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔‘‘
ہمارے معاشرے میں ہم ماں کی عزت اور ماں کی بات تو کرتے ہیں مگر دوسری طرف اپنے بچوں کی ماں کی قدر کرنا ایک مرد کو نہیں سکھایا جاتا. یہ جملےعام ہیں
’’ آج کل کی مائیں ایسی ہوتی ہے‘‘،
’’عورتیں ڈرامہ کرتی ہیں‘‘،
اگر وہ بچے کی پیدائش یا شیر خوارگی کے دوران صحت کے مسائل کا شکار ہوں تو اس حوالے سے معاشرے میں بہت کم آگاہی موجود ہے. بلکہ عام طور سے یہ کہہ کر انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے کہ ان مراحل سے تو ہر عورت گزرتی ہے لیکن قرآن نے انہیں اہم جان کر ساتویں صدی میں مسلمانوں کو ان مسائل سے آگاہ کیا۔ اس نے حمل اور دودھ پلانے کے دوران روزوں جیسی اہم عبادت کو ملتوی کرنے کی اجازت دی۔
علیحدگی کی صورت میں مرد کو پابند بنایا کہ اگر وہ بچے کو دودھ پلوانا چاہتا ہے تو عدت کے بعد بھی سابقہ بیوی کی کفالت کرے۔ صنف نازک کی ان اہم اور پیچیدہ ضروریات پر اتنی باریک بینی نظر رکھنے والے مذہب کو اگر فیمنسٹ نہ کہا جائےتو کیا کہا جائے۔
سورہ فرقان آیت نمبر 74 میں نیک بندوں کی نشانیاں بتاتے ہوئے کہا گیا کہ وہ اپنی اولاد کے ساتھ شریک حیات کے لئے بھی دعائیں کرتے ہیں:
’’جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا‘‘
آگے بڑھنے سے پہلے اس حقیقت کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ عورت جسمانی طور پر کمزور ہے اور اسی لئے طاقتور فریق کو اس پر غلبہ حاصل ہونے کا امکان ہمیشہ زیادہ رہتا ہے. اس کے علاوہ جذباتی لحاظ سے بھی وہ مرد سے مختلف ہے اور اکثر جگہ کمزور پڑ جاتی ہے. مثلاً بچوں سے محبت بھی اس کے پاؤں کی بیڑی ہے۔
سیلی کا کہنا ہے: ’’وہ ہر وقت اپنے دس سالہ بیٹے کو یاد کرتی ہے. اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ اس سے الگ کر دیا گیا ہے.‘‘
مرد کے مقابلے میں تعلق ختم ہونے (بریک اپس) کا بھی وہ زیادہ اثر لیتی ہے۔
قرآن اس حقیقت کو سامنے رکھ کر مرد اور عورت دونوں کے حقوق اور فرائض کا تعین کرتا ہے اور مرد کو منتظم یعنی قوام قرار دیکر اسے کفالت کی ذمہ داری سونپتا ہے:
’’مرد، عورتوں پر قوام ( محافظ ) منتظم نگراں ہیں اس بناء پر کہ اللہ نے ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے۔‘‘
لیکن ساتھ ساتھ جگہ جگہ عورت کو اس کے شرعی حقوق دینے کو قانوناً اور اخلاقاً لازمی قرار دیتا ہے.
جسمانی تعلق کی صورت میں مرد کی اخلاقی اور مالی ذمہ داریاں
آج کی مغربی اقدار کے برعکس عورت اور مرد کے جسمانی تعلق کے حوالے سے قرآن کا بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ ہر ایسے سسٹم کو رد کرتا ہے جس میں یہ جسمانی تعلق مرد کو دیرپا مالی ذمہ داریاں دیئے بغیر اسے عارضی یا مستقل طور پرعورت کے جسم کا مالک بنا دے. سورۂ الاسرا آیات نمبر 32 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو۔‘‘
راقم کے نزدیک زنا کی ممانعت عورت کے حقوق کی سمت سب سے اہم پیش رفت ہے. زنا یا بنا شادی کے تعلق کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں. جن چند افعال پر اسلامی حدود یعنی سخت سزائیں اسلامی قوانین میں موجود ہیں زنا ان میں سے ایک ہے. یہ بھی یاد رہے کہ معاشرتی مائنڈ سیٹ کے برعکس جہاں بغیرشادی صنفی تعلق جسے زنا کہا جاتا ہے ایک مرد کے مقابلے میں ایک عورت کے لئے بہت بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے،
اسلام کے قوانین میں مرد اور عورت دونوں کے لئے اس کی سزا برابر ہے. ہمارے معاشرے میں بنا شادی چوری چھپے تعلق یا افئیر کی صورت میں میں مردوں کے افعال کو عموماً مذاق میں نظر انداز کرنے کا چلن ہے جبکہ یہی تعلق عورت کے لئے بہت بدنامی اور ایک ناقابل معافی جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔
جسمانی تعلق کے لئے اسلام شادی کو لازمی قرار دیتا ہے اور مرد سے مہر کی ادائیگی کے ذریعے اس تعلق کی قدر کروانا چاہتا ہے. سورہ نساء آیت نمبر چوبیس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ان کے ما سوا جتنی عورتیں ہیں انہیں اپنے اموال کے ذریعہ سے حاصل کرنا تمہارے لیے حلال کر دیا گیا ہے، بشر طیکہ حصار نکاح میں اُن کو محفوظ کرو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو پھر جو ازدواجی زندگی کا لطف تم ان سے اٹھاؤ اس کے بدلے اُن کے مہر بطور فرض ادا کرو۔‘‘
اور بغور تجزیہ کیا جائے تو یہ حکم براہ راست عورت کے حق میں ہے. اسلام اس کی نسوانیت کی ایک قیمتی شے کی حیثیت سے حفاظت کرتا ہے. مرد اسے حاصل کرنا چاہے تو اسے معاشرے کو گواہ بنا کر اس عورت کی کفالت، اس تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کی کفالت اور گھر کا تمام خرچ برداشت کرنے کا ذمہ دار بناتا ہے۔
یہی نہیں اسلام کے عائلی نظام میں مہر کو بھی بنیادی اہمیت حاصل ہے جس کے تعین کے بغیر یہ تعلق قانونی نہیں گردانا جاتا۔ ایک عورت اتنی قیمتی ہے کہ اسے حاصل کرنے کے لئے محض کفالت کی ذمہ داری کافی نہیں۔ آپ کو مزید مال خرچ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
آج ہمارے کلچر میں جہیز کی اہمیت کے سامنے مہر ایک غیر اہم شے ہو کر رہ گیا ہے. جس کا تذکرہ رسماً کافی سمجھا جاتا ہے لیکن شرعی لحاظ سے اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سورہ ممتحنہ میں جہاں مسلم عورتوں کو ان کے کافر شوہروں کو واپس نہ کرنے کا حکم دیا گیا وہاں ان کے مہر ان کے شوہروں کو لوٹانے کا حکم بھی قرآن میں موجود ہے.
شادی کے پیکیج میں عورت کی ذمہ داریاں
اس کے ساتھ اس حقیقت پر بھی نظر رہے کہ نکاح نامی اس شرعی پیکیج میں عورت پر بھی ذمہ داریاں عائد ہیں کہ وہ اپنے شوہر سے وفا دار رہے گی۔ اس کی اولاد، گھر اور اس کے مال کی حفاظت کرے گی، اپنے شوہر کی جسمانی ضروریات کا خیال رکھے گی، معروف میں اس کی اطاعت کرے گی لیکن اس پیکیج میں اسے گھر سے نکل کر اپنی اور اپنی اولاد کےلیے کمانے کی ذمہ داری سے بری کیا گیا ہے۔
اس کا کام اپنے شوہر کو خوش کرنا ہے فیکٹری یا آفس کی مینجمنٹ کو راضی کرنا نہیں. اس کا کام اپنے گھر کا انتظام سنبھالنا ہے جہاں اس کی حیثیت ایک منتظم کی ہے. جہاں تک اطاعت کا سوال ہے تو قرآن میں یہ بات واضح کی گئی کے مرد کو ایک درجہ فضیلت اس لئے حاصل ہے کہ وہ اپنے مال خرچ کرتے ہیں. اسے ظلم یا خواتین کا استحصال سمجھنے والوں سے عرض ہے کہ دنیا کے ہر ادارے کے استحکام کے لئے ضروری ہے کہ اس میں ایک اتھارٹی ہو۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک فیکٹری یا کارپوریشن کے ورکرز کی باس کے احکامات کی تعمیل کو ظلم تصور نہیں کیا جاتا لیکن گھر کے ادارے میں مال خرچ کرنے والے کی اطاعت کو ظلم و ستم سے تعبیر کر کےعورت کو یہ سکھایا گیا کہ اگر تم خود کماؤ گی تو تم پر یہ ظلم و ستم نہ ہو گا۔ اس لئے تم بھی گھر سے باہر نکل کر کمانا شروع کرو۔
آئیے کچھ اور قرآنی آیات پر نظر ڈالتے ہیں جن میں الله واضح کر رہا ہے کہ اس کی نظر میں عورت اور مرد برابر ہیں. سورہ آل عمران 195 میں ارشاد ہے:
’’جواب میں ان کے رب نے فرمایا، میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو لہٰذا جن لوگوں نے میری خاطر اپنے وطن چھوڑے اور جو میر ی راہ میں اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور میرے لیے لڑے اور مارے گئے اُن کے سب قصور میں معاف کر دوں گا اور انہیں ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی یہ اُن کی جزا ہے اللہ کے ہاں اور بہترین جزا اللہ ہی کے پاس ہے‘‘۔
سورۂ نساء آیات نمبر1 میں الله تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ مرد اورعورت کو ایک جان سے پیدا کیا گیا. برابری کی اس سے بڑی توجیح اور مثال کیا دی جا سکتی ہے:
’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے‘‘۔
سورہ غافر آیات نمبر 40 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ جنت میں داخلے کا معیار مرد اور عورت کے لئے ایک ہی ہے:
’’جو برائی کرے گا اُس کو اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنی اُس نے برائی کی ہو گی اور جو نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، ایسے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے جہاں اُن کو بے حساب رزق دیا جائے گا‘‘
سورہ احزاب آیات نمبر 73میں ارشاد ہے کہ سزا اور جزا کا معیار بھی مرد عورت کے لئے ایک ہی ہے
’’اِس بار امانت کو اٹھانے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اللہ منافق مردوں اور عورتوں، اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے اور مومن مَردوں اور عورتوں کی توبہ قبول کرے، اللہ درگزر فرمانے والا اور رحیم ہے‘‘
مومنین کی خوبیاں بتائی جاتی ہیں تو احزاب آیات نمبر پچیس میں ارشاد ہوتا ہے:
’’بالیقین جومسلم مرد اور مسلم عورتیں ہیں، مومن مرد اور مومن عورتیں، مطیع فرمان مرد اور مطیع فرمان عورتیں، راست باز مرد اور راست بازعورتیں، صابر مرد اور صابر عورتیں، اللہ کے آگے جھکنے والے مرد اور الله کے آگے جھکنے والی عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والی عورتیں، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور الله کو کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں ہیں ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے۔‘‘
الله اور اس کے رسول کی اطاعت کی بات آتی ہے تو بھی مرد عورت دونوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ سورہ احزاب آیت نمبر 36 میں ارشاد ہے:
’’کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اُس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا‘‘
مومنین کو تکلیف دینے کا ذکر آیا تو صرف مومن مردوں کا تذکرہ نہیں کیا گیا، مومن عورتوں کے لئے بھی الله اتنا ہی حساس ہے. سورہ احزاب آیت نمبر 58 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو بے قصور اذیت دیتے ہیں اُنہوں نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے سر لے لیا ہے‘‘
سورۂ نور آیت 30 اور 31 میں میں مرد اور عورتوں دونوں کو نگاہیں نیچی رکھنے اور شرمگاہوں کی حفاظت کا حکم دیا گیا:
’’اے نبیؐ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے‘‘
عورتوں کو آیت 31 میں احتیاط اور ان کی حفاظت کے پیش نظر کچھ مزید احکامات دیئے گئے:
’’اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں‘‘
آگے آیت 31 میں ہی ارشاد کیا گیا:
’’وہ (مومن عورتیں) اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، ا پنے مملوک، وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔ وہ ا پنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے۔‘‘
اس آیت کے احکامات کو اسلام مخالف افراد عورتوں پر ظلم کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور باقی سب کچھ نظر انداز کر دیتے ہیں. مغرب میں جنسی ہراسگی، جنسی حملوں اور زیادتیوں کے خلاف اتنے مضبوط قوانین ہونے کے باوجود پچھلے دنوں ہالی وڈ کی ایک سلیبرٹی ہاروے ونسٹین کے خلاف جنسی زیادتیوں کے الزام اور اس سے قبل امریکی صدارتی امیدوار ٹرمپ کے خلاف ایک سے زائد الزامات سامنے آئے تو ٹویٹر پر خواتین نے ایک مہم کے طور پر اپنے اوپر ہونے والے جنسی حملوں کے مجرموں کے ناموں کو پبلک کرنا شروع کیا تو ہزاروں غیر رپورٹ شدہ زیادتیاں سامنے آئیں۔
یعنی ہر طرح کے قانونی اقدامات ان معاملات میں خواتین کے تحفظ میں ناکام ہیں۔ ایسے میں قرآن حفاظتی تدابیر خواتین اور مردوں دونوں کو دیتا ہے۔ یہ دوسری بات کہ ہمارے معاشرے میں اور خصوصاً دینی طبقات عورت کے پردے کا تو بہت ذکر کرتے ہیں لیکن غض بصر کو بہت کم بحث کا موضوع بنایا جاتا ہے۔
عام طور سے عورت کی بے پردگی کو بہانہ بنا کر سڑکوں پر مرد کی بد نگاہی کو جائز قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے جو غلط ہے۔ ہماری سڑکوں پر با پردہ عورتوں کے لئے بھی اتنی ہی ہراسانی موجود ہے لیکن اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا کیونکہ مختلف فورمز پر عورت کی نمائندگی بہت کم ہے۔
وراثت میں عورتوں کا حصہ
مغرب میں عورتوں کو وراثت اور مالی معاملات میں خود مختاری فیمینزم موومنٹ نے ماضی قریب میں دلوائی لیکن قرآن ساتویں صدی عیسوی میں سورہ نساء آیات نمبر سات میں کہتا ہے:
’’مردوں کے لیے اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔‘‘
وراثت میں مرد کے مقابلے میں عورتوں کے نصف حصے کو عموماً اسلام مخالف لوگ عورتوں پر زیادتی گردانتے ہیں مگر وہ یہ بات فراموش کر دیتے ہیں کہ گھر، بچوں اور خود عورت کی کفالت مرد کی تنہا ذمہ داری ہے۔ اسلام عورت کو وراثت میں حصہ تو دیتا ہے مگر اس پر کفالت کی کوئی ذمہ داری نہیں ڈالتا۔
قرون وسطیٰ کے مسلمانوں کی تاریخ میں صرف آزاد خواتین ہی نہیں کنیز خواتین بھی کثیر مال کی مالک ہوتی تھیں۔ اسی لئے مدرسے اور پبلک ویلفیئر کے کاموں میں عورتوں کا خاطر خواہ حصہ ہوا کرتا تھا۔
قرآن کے ان واضح احکامات کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم معاشروں میں خصوصاً برصغیر میں آج بھی مختلف حیلوں بہانوں سے بیٹیوں اور بہنوں کے حصوں کو بعض مذہبی گھرانوں میں بھی دبانے کی کوشش کی جاتی ہے. اس میں بہنوں سے حق معاف کروانا، قرآن سے شادی، اپنی زندگی میں جائیداد کی تقسیم سے ڈر کر اپنے بیٹوں کے نام کر دینا، جائیداد کی تقسیم سے ڈر کر کی شادی نہ کرنا شامل ہیں لیکن سورہ نساء کی آیات نمبر گیارہ میں ہی ارشاد باری ہے:
’’تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون بہ لحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں، اور اللہ یقیناً سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔‘‘
اسی طرح شوہر کی جائیداد میں بیوی کا حصہ اور بیوی کی جائیداد میں شوہر کا حصہ مقرر کیا گیا۔ (نساء)
قرآن عورت کے حقوق کا بہت واضح تعین کرتا ہے. وہ اس معاملے کو محض انسانی اخلاق پر نہیں چھوڑنا چاہتا۔ وہ مرد کو باقاعدہ صنف نازک سے تعلق کے ہر ہر پہلو میں ہدایات دینا ضروری خیال کرتا ہے۔
میرا الله عورتوں کے حقوق کے لئے جتنا حساس ہے کہ مرد کی فطرت کو سامنے رکھ کر سورہ نساء آیات نمبر 19 میں اسے ہدایت دیتا ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو اور نہ یہ حلال ہے کہ انہیں تنگ کر کے اُس مہر کا کچھ حصہ اڑا لینے کی کوشش کرو جو تم انہیں دے چکے ہو.‘‘
آگے جا کر اسی آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ان کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی بسر کرو اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو‘‘
مرد کی ہرجائی طبیعت الله جانتا تھا. اس پر بند لگانے کے لئے اگلی آیت نمبر 20 سورہ نساء میں کہا گیا:
’’اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کر لو تو خواہ تم نے اُسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا کیا تم اُسے بہتان لگا کر اور صریح ظلم کر کے واپس لو گے؟‘‘
آیت نمبر21 سورہ نساء اسی مضمون کو آگے بڑھاتی ہے:
’’اور آخر تم اُسے کس طرح لے لو گے جب کہ تم ایک دوسرے سے لطف اندو ز ہو چکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں؟‘‘
قرآن عورت کے حقوق کو محض معاشرے، اخلاق یا مرد کی مرضی پر نہیں چھوڑتا بلکہ ہر حق کو واضح احکامات کی صورت میں بیان کرتا ہے۔ کفالت پوری طرح مرد کی ذمہ داری ہونے کے باوجود عورت کا وراثت میں مخصوص حصہ، جائیداد اور مال رکھنے کا حق، شوہر سے علیحدگی اختیار کرنے کا حق، شادی میں لڑکی کی رضامندی، مہر کی صورت مالی معاوضہ، اپنے مال سے کاروبار کرنے کا حق، علیحدگی کی صورت میں بچے کو دودھ پلانے کا معاوضہ حاصل کرنے کا حق، اور اس دوران نان نفقے کا حق جیسے امور اتنے واضح ہیں کہ انہیں صرف جان بوجھ کر ہی نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ہندو مت کے زیر اثر ہمارے معاشرہ ان میں سے بیشتر کو سنجیدگی سے دین کا حصہ ماننے میں متامل ہے-
شوہر اور بیوی کا ساتھ گزارا نہ ہو تو ناگزیر حالات میں قرآن طلاق یا خلع کی اجازت دیتا ہے لیکن طلاق کی صورت میں عورتوں کے حقوق کی طویل بحث موجود ہے۔ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کو قرآن اس کا حق قرار دیتا ہے، گو آج بھی مسلم معاشرے اسے یہ حق دینے پر عملاً راضی نہیں اور عورت اگر اپنا یہ حق عدت کے بعد استعمال کرنا چاہے تو اسے اسکینڈلز کا نشانہ بنا کر بدنام کیا جاتا ہے۔ عمران خان کی تیسری منکوحہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی جو ایک مسلم معاشرے میں افسوسناک ہے۔
عورتوں پر چار گواہوں کے بغیر الزام لگانے والوں کو اسّی کوڑوں کی سزا بھی ظاہر کرتی ہے کہ قرآن کا مصنف (الله تعالیٰ) عورتوں کی عزت کےلیے کتنا سنجیدہ ہے۔ مرد کا اپنی بیوی کے کردار پر الزام لگانے کی صورت لعان کا قانون بھی، جس کے تحت مرد اورعورت میں خوش اسلوبی سے علیحدگی ہوجاتی ہے، اسی حقیقت کو آشکار کر رہا ہے۔ ایسے میں قتل غیرت کو قرآن قطعی طور پر مسترد کرتا ہے۔
غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اٹھارویں صدی کے اواخر میں امریکی آئین تصنیف کرنے والوں کے مقابلے میں قرآن کے مصنف کی نظر میں اس صنف کی کتنی اہمیت ہے۔
مگر ہم اس تکلیف دہ حقیقت سے بھی نظر نہیں چرا سکتے کہ قرآن کے واضح احکامات کے باوجود مسلم معاشروں میں بھی عورت کی حالت دگرگوں ہی ہے اور چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود قرآن کے احکامات نظرانداز ہی ہورہے ہیں اور مسلم معاشرے میں عورت سے نفرت کا رویہ عام ہے۔
عورتوں سے نفرت اور بیزاری کا رویہ مسلم معاشروں، یہاں تک کہ دینی طبقات میں بھی کم نہیں۔
’’عورتیں ڈرامہ کرتی ہیں‘‘،
’’آج کل کی مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں‘‘،
’’اس عورت نے تو اپنے شوہر کو اپنا غلام ہی بنالیا ہے‘‘،
’’عورتیں سارا دن گھر میں کرتی ہی کیا ہیں؟‘‘
یہ جملے ہمارا معاشرہ اپنے بچوں کی ماؤں کےلیے استعمال کرتا ہے اور ہم مغرب پر اخلاقی برتری کے دعوے کرتے ہیں۔
دوسری طرف مغربی حقوق نسواں کی تحریک خواتین کو برابر معاوضہ تو اکیسویں صدی تک نہ دلواسکی مگر انہیں گھروں سے باہر نکال کر ملکی معیشت کا پرزہ بناکر اسے یہ زعم ضرور دے دیا کہ وہ اپنے جسم کی مالک ہے اور جس سے چاہے صنفی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کرسکتی ہے۔
’’فیمینزم‘‘ کے نام پر عورت کو اس کے سب سے قیمتی اثاثے یعنی نسوانیت سے دستبردار ہونے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ آج وہ آزادی کے نعروں کا شکار ہو کر خود جسمانی آسودگی کی تلاش میں مرد کے پیچھے بھاگ رہی ہے اور اس کے مطالبات ماننے پر مجبور ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تحریک کے نتیجے میں مرد پر سے ہر ذمہ داری ساقط ہوچکی ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ مغربی معاشرے میں فیمینزم کے نام پر عورت کو جو حقوق حاصل تھے، وہ بھی اس سے چھین لیے گئے ہیں۔ برابری کا نعرہ دے کر مرد پر اس کی کفالت کے حق کو ساقط کردیا گیا ہے۔ گھر سے باہر نکل کر معاش کی چکی کا ایندھن بننے کو عورتوں کا حق تصور کرلیا گیا۔ دوسری طرف بغیر کسی دیرپا معاہدے کے اپنے جسم کو مرد کے حوالے کرنے کو بھی عورتوں کا حق تصور کرلیا گیا ہے۔
الغرض قرآن نے ساتویں صدی عیسوی میں عورتوں کے حقوق کو ایک اہم موضوع کے طور پر متعا رف کروایا اور اسے وہ حقوق دیئے جو بدقسمتی سے آج بھی مشرق اور مغرب میں کہیں نظر نہیں آتے۔ صنف نازک کہلانے والے اس کمزور طبقے کی ضروریات، معاشرے کے طاقتور طبقات کے اس کے ساتھ ناروا سلوک کا الله کو کتنا احساس ہے، اس کا اندازہ کرنا ہو تو سورۂ بقرہ اور سورۂ نساء کی ان آیات کا سرسری جائزہ لینا ہی کافی ہے جو عائلی زندگی کے مختلف معاملات پر بحث کرتی ہیں۔
عورتوں کے حقوق اور عائلی زندگی کو قرآن کے مصنف (الله تعالیٰ) نے کتنی اہمیت دی ہے اور اس دنیا کے بنانے والے کی نظر میں اس دنیا کی پر امن اور پر سکون بقا کےلیے گھر کے ادارے اور اس میں خواتین کے کردار اور بنیادی حقوق کو کتنی اہمیت حاصل ہے؟ قرآن کا قاری معمولی غور و فکر سے اس حقیقت کا ادراک کر سکتا ہے۔
یہ دوسری بات ہے کہ مغرب اگر اس کتاب میں دیئے گئے قوانین سے بے خبر ہے یا کسی تعصب کی وجہ سے اسے نظرانداز کرتا ہے تو دوسری طرف مسلمان معاشرے بھی اس بے نظیر کتاب کے بے نظیر اصولوں کی تفہیم اور عملی نفاذ سے کوسوں دور ہیں۔ مسلم معاشروں میں بھی یہ قرآنی احکامات بڑی حد تک نظر انداز ہی ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ مضمون نگار کا مقصد دوسرے معاشروں سے تقابل کرکے اپنی قوم کو اعلیٰ اخلاقی منصب پر فائز کرنا نہیں بلکہ قرآن، عورتوں کے حقوق کی جو بحث ساتویں صدی میں چھیڑتا ہے، اس کی طرف توجہ دلانا ہے۔