پاکستان کے تمام دوار حکومت پر گہری نظر رکھنے والے، ممتاز صحافی، اردو ڈائجسٹ کے مدیر جناب الطاف حسن قریشی کا کہنا ہے کہ
’’بلاشبہ جناب عمران خان ملک میں ایک عظیم تبدیلی کے ایجنڈے کے ساتھ آئے تھے مگر اُن کی ڈیڑھ سالہ کارکردگی یہ راز فاش کر گئی ہے کہ وہ سیاست، ریاست اور معیشت کی حرکیات سے ناآشنا ہیں اور اپنے چند مخصوص تصورات کی دنیا میں رہتے ہیں۔اُنہیں تو یہ بھی ادراک نہیں ہوتا کہ اُن سے بات کرنے والا شخص سنجیدہ بات کر رہا ہے یا خوشامدانہ کلمات سے اپنا کام نکالنا چاہتا ہے۔
وزیرِاعظم عمران خان اِس وقت ایک نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ اُنکی مخلوط حکومت میں دھڑے بندیاں عروج پر ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے بھی طاقت کے مراکز کے ساتھ رابطے قائم کر لیے ہیں۔
’’جناب وزیراعظم خیبر پختونخوا کی کابینہ سے تین وزیروں کو نکال کر یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ سیاسی شورش ختم ہو گئی ہے، حالانکہ اُن کے اِس غیر حکیمانہ اقدام نے اختلافات کی چنگاریوں کو شعلوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ درونِ خانہ کوشش ہو رہی ہے کہ بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کی حکومت قائم کی جائے اور پنجاب میں اِن ہاؤس تبدیلی کا عمل آگے بڑھایا جائے‘‘۔
الطاف حسن قریشی کہتے ہیں:
’’حالات حیرت انگیز طور پہ ایسے بنتے جا رہے ہیں کہ قبل از وقت انتخابات ناگزیر ہیں، کیونکہ یہ تاثر قائم ہو چکا ہے کہ جس طرح پاکستان ریلوے میں سفر خطرناک بن گیا ہے، اِسی طرح آج کے سیاسی حکمرانوں کی قیادت میں سیاسی سفر پاکستان کے لیے غیر محفوظ نظر آتا ہے۔ ایسے میں قابلِ اعتماد انتظامات کے تحت شفاف انتخابات ہی سلامتی کا راستہ فراہم کرتے ہیں‘‘۔