پاکستان کے لوگ نیا فن سیکھنے سے کیوں بھاگتے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابن فاضل

بے روزگاری کی بہتات کے باوجود وطن عزیز میں ہنرمند یا کاریگر افراد کی شدید قلت ہے. اور اس کی بڑی وجہ تعلیم واعتماد کی کمی اور ہنرسکھائے جانے کے نظام کی عدم دستیابی. دوسری طرف جانے ہمارے نظام تعلیم میں ایسا کیا ہے کہ تھوڑا بہت پڑھ لکھ جانے والے یہاں تک کہ مڈل پاس افراد بھی کارخانوں وغیرہ میں ہاتھ سے کام کرنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں. نتیجہ یہ ہے کہ ہر قسم کی صنعت میں کاریگری اور ہنرمندی زیادہ تر ان پڑھ لوگوں کے ہاتھ میں. ظاہر ہے کہ بنیادی تعلیم کے بغیر تھوڑا سا پیچیدہ اور تکنیکی کام بھی بہت مشکل لگتا ہے.

لہذا ایک تو ضروری علم کے بغیر مشکل لگنے والے کسی بھی کام کو سیکھنے کے لیے خاصہ وقت لگ جاتا ہے، دوسرا جو سکھانے والے استاد ہیں ان کے پاس بھی عمر بھر کی کمائی وہ تھوڑا سا ہنر ہی ہوتا ہے سو اس کو آگے سکھانے یا پھیلانے میں وہ بھی بہت بخل سے کام لیتے ہیں. اس سارے عمل کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تھوڑا سا ہنر جاننے والا ہنرمند بھی سمجھتا ہے کہ اس نے نامعلوم کیا کمال کررکھا ہے. اس بنا پر ان بہت سا نخرہ اور بہت سا غرور ہونا فطری امر ہے. لہذا ہمارے ہاں ہر چیز ہوّا بن جاتی ہے.

بدقسمتی سے صرف صنعتوں میں ہی یہ صورت حال نہیں تعمیرات سے لیکر گاڑیاں مرمت کرنے کی ورکشاپس، ڈیری فارمنگ سے لیکر زراعت تک اور فش فارمنگ سے فوڈ پراسیسنگ تک ہر جگہ یہی صورت حال ہے. اب ہوتا کیا ہے جب بھی کسی شعبہ میں کوئی نئی ٹیکنالوجی آتی ہے ہمارے لیے ہوّا بن جاتی ہے.

ہر طرف سے زبردست مزاحمت شروع ہوجاتی ہے. کیونکہ نئی ٹیکنالوجی کے لیے نئے سرے سے علم حاصل کرنا پڑتا ہے اور یہاں تو پہلے ہی آدھی زندگی کا خراج دیکر ایک کام سیکھ رکھا ہے. گاڑیوں میں کاربوریٹر کی جگہ فیول انجیکشن سسٹم آیا. کاریگروں نے کہا فیل ہے. کیونکہ سمجھ میں نہیں آتا تھا. پھر مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق رفتہ رفتہ کچھ نے سیکھ لیا. باقی پھر بھی مزاحم رہے. پھر گاڑیوں میں کمپیوٹر سسٹم آیا. سب نے یک زبان کہا فیل ہے. وجہ وہی. کہ ان کے نزدیک پھر نئی مصیبت نئی ٹیکنالوجی سیکھنا پڑے گی. اسی طرح ہائبرڈ پر واویلا. وعلی ھذالقیاس.

پنکھوں کی تیاری میں ایلومینیم کی ڈھلائی استعمال ہوتی ہے. اس میں سہولت کیلئے گاڑیوں سے نکلا پرانا تیل استعمال ہوتا ہے. جس سے بہت زہریلا دھواں بڑی مقدار میں بنتا ہے. یہاں تک کہ اس جگہ جہاں ڈھلائی ہورہی ہوتی ہے، کچھ دیر سے زیادہ کھڑا ہونا ناممکن ہوجاتا ہے.

ہم کوریا سے جدید کیمیائی مواد لیکر آئے. بالکل محفوظ اور ساری دنیا میں مستعمل. تمام تر کوشش کے باوجود کاریگروں نے استعمال ہی نہیں کیا کہ اس کا استعمال کا طریقہ کار تھوڑا سا مختلف تھا اور کوئی بھی شخص نئی چیز سیکھنے پر آمادہ نہیں. نتیجہ ساری محنت اور بہت سا روپیہ ضائع ہوا. اور لوگ اب بھی خطرناک زہریلے دھوئیں کے رحم وکرم پر ہیں.

اسی طرح صنعت میں کمپیوٹر سے چلنے والی مشینیں آئی. ایک عرصہ تک کاریگر نہیں ملتے تھے. پہلے صرف سادہ مشینوں کے کاریگروں کے نخرے برداشت کرنا ہوتے بعد میں ان مشینوں کے کاریگروں کی بھی بلیک میلنگ بھگتنا پڑتی اور وہ بھی عام کاریگروں کی نسبت کہیں زیادہ قیمت پر.

چین میں ہم نے ایک فیکٹری مالک سے پوچھا کہ سی این سی مشین کے کاریگر کی تنخواہ زیادہ ہے کہ عام مشین کے کاریگر کی. اس نے جواب دیا کہ عام مشین والا تو پھر بھی کچھ کام کرتا ہے، سی این سی والے نے کرنا کیا ہوتا ہے. ٹک ٹک اور بس. ادھر ہم نے سی این سی کس ہوّا بنا رکھا تھا. پھر کچھ حوصلہ ملا. واپس آکر بہت سے ڈپلومہ ہولڈر بھرتی کیے. چار چھ ماہ میں ان کو مشین چلانے کے قابل کرتے اور دوسرے کارخانوں میں بھیج دیتے. الحمد للہ اب درجنوں شاگرد اپنی صنعتوں کے مالک ہیں لیکن ایسا صرف اس لیے ہوا کہ وہ پڑھے لکھے تھے، جلد سیکھ لیتے تھے. اور دوسری طرف ہم بھی پورے شوق اور جذبہ سے سکھاتے.

اگر ہم دوسرے ممالک سے اپنے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کوالٹی اور ٹیکنالوجی کا موازنہ کریں تو یقیناً ہم ہر ہر میدان میں بہت پیچھے ہیں. زراعت میں کوسوں دور، فوڈ پراسیسنگ کا تو سرے سے وجود ہی نہیں. تعمیرات میں وہ ٹیکنالوجی اور اشیاء ہی دستیاب نہیں جو باہر کے ممالک میں عام ہیں. صنعتوں میں پچاس پچاس سال پرانی مشینیں اور ٹیکنالوجی. اور یہی زبوں حالی مرمت اور خدمات کے شعبہ جات میں.

اور اس کی وجہ وہی جو میں نے اوپر بیان کی کہ ہر جگہ ان پڑھ ہنرمند کی اجارہ داری ہے. ان پڑھ لوگوں میں اول تو کچھ نیا سیکھنے کا شوق اور رجحان ہی نہیں ہوتا اور اگر مجبوراً کچھ سیکھنا پڑ ہی جائے تو یہ علم نہیں ہوتا کہ سیکھیں کیسے. اس کے برعکس جن معدودِ چند فیکٹریوں میں کچھ پڑھے لکھے لوگ ہیں. وہ جدید ذرائع جیسے انٹرنیٹ اور یوٹیوب وغیرہ سے بہت کچھ نیا سیکھ کر جدت کو اپنانے کی تگ ودو میں لگے رہتے ہیں.

اگر ہمیں اس دقیانوسی چکر سے نکلنا ہے اور ہر نئی چیز کو ہوّا بنانے سے بچنا ہے تو ہمیں مندرجہ ذیل اقدامات کرنا ہوں گے. بصورت دیگر پھر یونہی لڑھکتے رہیں گے اور ہمارا اور دیگر ممالک کا فاصلہ بڑھتا جائے گا.

جنگی بنیادوں پر تعلیم کا پھیلاؤ. کوئی ایک بھی تعلیم سے محروم نہ رہے.
ہر بچہ کو دوران تعلیم یہ بات تکرار کے ساتھ باور کروائی جائے کہ تعلیم صرف شخصیت کیلئے ہے اس کا روزگار سے تعلق نہیں. اور نہ ہی یہ افسری کا ذریعہ ہے.

ہر ہر میدان میں ہنرسکھانے کیلئے ادارے اور کورسز ہوں. بلکہ ہر سکول میں آٹھویں کے بعد ہنرسکھانے کا انتظام ہو.
ہر میدان میں آنے والی ہر نئی ٹیکنالوجی حکومتی سطح پر لاکر اس میدان کے چیدہ چیدہ لوگوں کو سکھائی جائے. تاکہ ہر شعبے میں دنیا کے ہم قدم رہیں.

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “پاکستان کے لوگ نیا فن سیکھنے سے کیوں بھاگتے ہیں؟”

  1. روبینہ Avatar
    روبینہ

    بالکل ٹھءک کها تعلیم بے غرض هو کر حاصل کرنی چاهیے