طوبیٰ ناصر
باجی پوری دنیا میں کسی کو ہمارا خیال نہیں آتا ہو گا؟
یہ علی محمد تھا جو اپنے ہم جماعتوں کے دل میں اٹھنے والے سوال کو الفاظ دے گیا تھا ،اب سب سوالیہ نظروں سے فاطمہ کو دیکھ رہے تھے۔ فاطمہ جو اس سوال کے پیچھے چھپی حسرت کو جانتی تھی۔ ایک نرم مسکراہٹ سے سب کی طرف دیکھتے ہوئے بولی:
’’پوری دنیا کا تو مجھے نہیں پتہ لیکن ہاں ہمارے کشمیری بہن بھائی ہیں جو آزاد فضاؤں میں سانس لیتے ہیں وہ بھی ہمارے لیے ہماری ہی طرح تو تڑپتے ہیں، ہماری آزادی کا دن دیکھنے کے لیے ان کی بھی آنکھیں ہماری ہی طرح منتظر ہیں اور پاکستان بھی تو ہے جس کا ذکر ہماری رگوں میں خون بن کے دوڑتا ہے۔ ہمارے پاکستانی بہن بھائی جو ہمارے لیے دنیا سے لڑنے کی ہمت رکھتے ہیں جو کشمیر کو اپنی شہ رگ کہتے ہیں۔ ہم کیسے کہہ دیں کہ دنیا میں ہمارا کوئی نہیں!‘‘
’’ اس دنیا میں جتنے بھی مسلمان ہیں ان سب کے اندر ایک دل دھڑکتا ہے۔ حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا سب مسلمان ایک جسم واحد کی طرح ہیں۔ اگر اس کی آنکھ دُکھے تو اس کا سارا جسم دُکھ محسوس کرتا ہے اور اسی طرح اگر اس کے سر میں تکلیف ہو تو بھی سارا جسم تکلیف میں شریک ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم) تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم تکلیف میں ہوں اور ہمارے مسلمان بہن بھائی آرام سے بیٹھے ہوں‘‘۔
یہ ضلع بانڈی پورہ کا ایک چھوٹا سا سکول تھا جو بظاہر تو ایک اکیلی خاتون کا گھر تھا جو اپنے اکیلے پن سے گھبرا کر محلے اور جہاں کہی سے بچے آنا چاہے انھیں پڑھاتی تھی لیکن اصل میں یہ ایک تربیت گاہ تھی جہاں جو بچے آتے، فاطمہ ان کی تربیت کرتی اور جب بچے اس قابل ہو جاتے کہ مجاہدین کی جماعت میں شامل ہوسکیں انھیں مجاہدین کے پاس بھجوا دیا جاتا تھا۔
جب سے وادی میں کرفیو لگا تھا، نظام زندگی تو ویسے بھی نارمل نہیں تھا لیکن اب تو بالکل ہی مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔ لوگ گھروں میں محصور تھے،تعلیمی اداروں کا بھی کوئی رُخ نہیں کرتا تھا۔ وہاں فاطمہ نے اپنے گھر کو کھول دیا تھا اور اس کو ایک چھوٹے سے سکول کی شکل دے کر زندگی کو ایک راہ پر ڈالنے کی اپنی سی کوشش کی۔
شام ڈھلتے ہی محلے کے کچھ بچے اور بچیاں اس کے پاس آجاتے جہاں وہ مل کر کبھی کچھ پڑھ لیا کرتے تھے اور کبھی اپنے علاقے کی صورت حال پر بات کر لیا کرتے تھے۔ یہاں آ کر وہ اپنے زندہ ہونے کا یقین کرتے اور زندہ رہنے کے لیے جواز تلاش کرتے اور ایک دوسرے کی ہمت بنتے تھے۔
اس کلاس میں آنے والا کوئی طالب علم بھی ایسا نہ تھا جو درندوں کے ظلم کا شکار نہ ہوا ہو، کہیں کے زحم جسموں پر اور کہیں کے روح پر لیکن ان کے ارادے اب بھی مضبوط تھے، ان کی آنکھوں میں اب بھی آزادی حاصل کرنے کا یقین تھا جن کی زندگی کا مقصد آزادی تھا یا شہادت اور فاطمہ ان آنکھوں میں جلتے ہوئے ان دیوں کو کبھی بجھنے نہیں دینا چاہتی تھی اسی لیے اس نے بچوں کو اکیلے ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا تھا لیکن دل میں اس کے یہ خیال آیا تھا کہ آخر دنیا کے مسلمان کہاں ہیں جو آج 72سالوں بعد بھی ہمارے لیے کچھ نہ کر سکے۔
چھ ماہ سے ہم پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دیے گئے لیکن ہمارے لیے کوئی نہیں آیا۔ وہ چاہتی تھی وہ یہ آواز پاکستان تک پہنچا سکے کہ ہم پاکستان، پاکستان کرتے نہیں تھکتے، کہیں ہماری آنکھیں پتھرا نہ جائیں رستہ تکتے، یہ فاطمہ کی سرگوشی تھی جو کاش! پاکستان تک پہنچ سکتی۔
~~~~~~~
آج وادی کی صورتحال بہت ہی خراب تھی۔ پریشانی فاطمہ کے چہرے سے جھلک رہی تھی۔ فضا میں ابھی تک بارود کی بو بسی ہوئی تھی۔ اس نے مکان کی بالائی منزل سے جھانک کر نیچے دیکھا، دور دور تک کوئی انسان نظر نہیں آ رہا تھا۔
بھارتی فوج نے تھوڑی دیر پہلے یہاں زبردست فائرنگ کی تھی۔ اب بھی اکادکا گولی کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ وادی میں آج کئی گھنٹوں کا طویل کریک ڈاؤن ہوا تھا، لوٹ مار اور اندھا دھند فائرنگ کی گئی تھی۔ اس سے بھی جب بھارتی فوج کا جی نہ بھرا تھا تو ظالم درندے تلاشی کے نام پر گھروں میں گھس آئے تھے،
نہ جانے کتنے ہی لوگوں کو گرفتار کر لیا تھا۔ درجنوں شدید زحمی تھے اور کتنی ہی عورتوں کی عزت تار تار ہوئی تھی اور اب سب لوگ یقیناً اپنا بچا کھچا اثاثہ سمیٹ رہیں ہوں گے وہ جو کہیں عزتوں کی صورت میں ہو گا اور کہیں پیاروں کی لاشیں اور کہیں بہتا خون، اسی لیے موت کی سی خاموشی ہے۔
فاطمہ اپنے بچوں کے لیے بھی پریشان تھی، اللہ سب کی خیر کرے! بس یہی دعا اس کے دل سے نکل رہی تھی اس صورتحال میں کوئی کلاس میں بھی تو نہیں آئے گا۔ فاطمہ اپنے گھر میں اکیلی رہتی تھی، شوہر اور بیٹا تو وہ کشمیر پر قربان کر چکی تھی لیکن اس کے حوصلے اب بھی چٹان کی طرح مضبوط تھے کہ لٹانے کے لیے ابھی جان باقی تھی۔
اب یہ بچے ہی اس کا کُل اثاثہ تھے جن میں روز آزادی کی ایک نئی روح پھونکتی تھی تو اس کا شوہر اور بیٹا روز زندہ ہو جاتے تھے لیکن آج اسے بچوں کی بہت فکر ہو رہی تھی اللہ کرے ان میں سے آج کوئی بھی گھر سے نہ نکلا ہو۔
ابھی وہ یہ دعا کر ہی رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی، فاطمہ بھاگ کر دروازے تک پہنچی تھی اور اس کے پوچھنے سے پہلے ہی تنویر نے اسے آواز دی: فاطمہ باجی! ہم ہیں۔
اللہ خیر! فاطمہ نے کانپتے ہاتھوں سے دروازہ کھولا تو سامنے تنویر،الیاس اورعبداللہ کھڑے تھے۔
تم لوگ آج کیوں آ گئے پتہ بھی ہے، حالات کتنے خراب ہیں تم لوگوں کو گھر سے نہیں نکلنا چاہیے تھا وہ انھیں اندر لاتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ تنویر بولا باجی علی محمد ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ہے۔
فاطمہ کو لگا جیسے ابھی کسی نے اسے اس کے بیٹے کی شہادت کی خبر دی ہو، وہ نڈھال سی ہو کر بیٹھی تھی لیکن ابھی حوصلہ باقی تھا ، اس نے اپنی ہمت جمع کی، اس کا حوصلہ اس کے بچوں کا حوصلہ تھا۔
آج علی محمد اپنے رب سے جا ملا ہے۔ اللہ اس کی بہترین میزبانی کرے اور اس کی شہادت کو قبول کرے لیکن ابھی ہماری منزل نہیں آئی، ہم نے منزل پر پہنچنے تک لڑنا ہے۔ ہمارے خون کا آخری قطرہ آزادی کے لیے بہے گا۔ ابھی ہم نے ہمت نہیں ہارنی۔ فاطمہ نے بچوں کے ساتھ ساتھ خود کو بھی حوصلہ دیا تھا۔
’’علی محمد شہید کیسے ہوا؟‘‘ فاطمہ نے تنویر سے پوچھا۔
’’باجی ہم اگھٹے ہی تھے جب کریک ڈاؤن ہوا تھا بھارتی فوج کے سامنے جو آرہا تھا اسے بےدردی سے مار رہے تھے۔ ہم نے بھی پتھروں سے مقابلہ کرنا شروع کیا۔ اسی دوران ایک گولی علی محمد کے سر پر لگی اور وہ زمین پر گر گیا ۔ ہم اسے اٹھا کر ایک طرف لے گئے لیکن اس کا خون بہت بہہ رہا تھا ۔ ہاں اس ںے کہا تھا باجی سے کہنا:’ میں نے اپنے حصے کا کام کر دیا ہے، کیا اس کی خبر بھی ہمارے مسلمان بہن بھائیوں تک پہنچے گی جو آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں؟ کیا وہ ہم تک پہنچ سکیں گے؟ اگر وہ ہم تک پہنچ جائیں تو ان سے کہنا اس وادی کے ہر ایک انسان نے آزادی کے لیے اپنا خون بہایا ہے ہم نے اپنا فرض ادا کیا ہے وہ بھی اپنا فرض ادا کر لیں‘‘۔
فاطمہ کی آنکھوں میں بس آنسو تھے، ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔
اب پھر دروازے پر دستک ہوئی۔
’’الیاس! جاؤ دروازے پر دیکھو، کون ہے؟‘‘فاطمہ نے الیاس سے کہا۔
الیاس کے ساتھ نادیہ اندر آئی جس کی آنکھیں کرب کی ایک الگ داستان کہہ رہی تھی لیکن اعصاب مضبوط اور چال میں ایک مجاہدہ کا اعتماد تھا۔
’’کہو! نادیہ خیر سے آئی ہو؟‘‘ فاطمہ نے پوچھا۔
’’فاطمہ! خیر کی خبر تو برسوں سے نہیں سنی ہم نے۔۔۔ ہر گھر ہی کربلا کا میدان ہے، ہر انسان کی روح تک زحمی ہے اور پھر یہ بھارتی ظالم درندے ہر وقت ہم پر آنکھیں گاڑے بیٹھے ہیں، جہاں چاہتے وہیں انسانوں کو چیر پھاڑ کے رکھ دیتے‘‘۔
نادیہ ایک مضبوط ارادے کی لڑکی تھی۔ وہ بھی آزادی کے لیے جنگ لڑ رہی تھی۔ اس نے اپنے گھر میں ایک تربیت گاہ بنائی تھی جس میں وہ بازار سے مختلف چیزیں لا کر بم بناتی تھی اور اسی کی تربیت وہ اپنی ہم عمر لڑکیوں کو بھی دیتی تھی ۔ جب بم تیار ہوجاتے تو انھیں مجاہدین کے حوالے کرنے بھی خود جاتی تھی۔
نادیہ نے بتایا آج صبح بھی اس کی دو ساتھی چھپ چھپا کر بم مجاہدین کو دینے جا رہی تھیں کہ اچانک کریک ڈاؤن ہو گیا اور وہ دونوں ساتھی تلاشی کے دوران پکڑی گئیں۔ ایک ساتھی جس کا نام عائشہ تھا مزاحمت کرتے ہوئے گولی لگنے سے اسی وقت شہید ہو گئی جبکہ دوسری ساتھی آمنہ کو انھوں نے پکڑ لیا۔ اس کو اپنی حیوانیت کا نشانہ بنا کر اسے گلی میں پھینک گئے۔ ابھی میں اسے گھر پہنچا کر آپ کے پاس آرہی ہوں اس کی حالت بہت غیر ہے کبھی کبھی تو میرا حوصلہ بالکل ختم ہو جاتا ہے، پچھلی کئی دہائیوں سے ہمارے بڑے، ان کے بڑے یہ قربانیاں دیتے آ رہے ہیں۔ ہم تحریک آزادی کی تاریخ اپنے لہو سے لکھتے آرہے ہیں۔ لیکن آخر کب تک؟‘‘ نادیہ بہت ٹوٹی ہوئی لگ رہی تھی۔
فاطمہ نے ہمیشہ کے طرح اپنی ممتا بھری آغوش میں اسے لے لیا:’’ اپنے رب پر توکل کرو، وہ اپنے بندوں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا، سخت تاریک حالات میں روشنی کی کرن دکھا دیتا ہے۔ یہ آزمائش ہے، اسے ختم ہونا ہے اور ہمیں ہمت نہیں ہارنی۔ اللہ نے ہمیشہ اپنے نیک بندوں کو ہی آزمایا ہے۔۔ اللہ نے اپنے نبیوں کو بھی تو آزمایا یے‘‘۔
’’لیکن باجی! آزمائش جب بہت سخت ہوئی تھی تو نبی کے ساتھی بھی تو بول اٹھے تھے کب آئے گی اللہ کی مدد!‘‘ یہ عبداللہ تھا جس کے لہجے میں تکلیف سنائی دے رہی تھی۔
’’تب ہی تو اللہ نے جواب دیا تھا، ہوسکتا ہے کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہو‘‘۔
فاطمہ نے شفقت بھری نظر عبداللہ پر ڈالتے ہوئے کہا تھا اور جو نہیں کہا تھا وہ اس کی نظریں کہہ گئی تھیں۔
ابھی وہ لوگ وہی بیٹھے آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کر رہے تھے جب انھیں بتایا گیا کہ محمدعلی کی میت نمازجنازہ کے لئے لے جائی جارہی ہے، وہ سب اٹھ کر باہر آ گئے۔
جنازہ کیا تھا ایک پھول کا آخری سفر تھا جو ابھی مکمل کھلا بھی نہیں تھا لیکن اس کے حوصلے جوان تھے۔ اس نے ایک ایسی ریاست میں آنکھ کھولی تھی جو ظلم کا شکار تھی جہاں زمین اس کے بزرگوں کے خون سے لال تھی، جہاں قدم قدم پر اس کی بہنوں کی عزتیں تار تار ہوئی تھیں۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں خاموشی بھی ہو تو آزادی کی گونج سنائی دیتی ہے۔ جہاں بچہ ایک قوی مجاہد کی سی طاقت اور حوصلے لے کر ماں کی کوکھ سے نکلتا ہے، جہاں مائیں اپنے بیٹوں، بہنیں اپنے بھائیوں اور بیویاں اپنے شوہروں کو خود سر پر کفن باندھ کر جہاد کے لیے بھیجتی ہیں اور خود ان کی طاقت بن کر ان کے ساتھ کھڑی رہتی ہیں۔
وہ جاتے جاتے بھی اپنا حق ادا کر گیا تھا، وہ جھکا نہیں، ڈرا نہیں تھا، اسلحہ سے لیس ہوکر بھارتی درندوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑا تھا کہ اس کی زندگی کا مقصد آزادی تھا یا پھر شہادت۔ آج وہ آزادی کی جنگ لڑتے لڑتے شہادت کا تاج اپنے سر پر سجائے اپنے رب کے حضور پیش ہوگیا تھا۔
فاطمہ نے اس کا چہرہ دیکھا جس پر سکون بھری مسکراہٹ تھی، جیسے کہہ رہا ہو، دیکھیں باجی! میں آپ کا پڑھایا ہوا سبق نہیں بھولا لیکن کیا آپ کی یہ امید ٹھیک ہے کہ وہ لوگ جو آزادی کی فضا میں سانس لیتے ہیں کیا وہ واقعی ہمیں یاد رکھتے ہیں؟ وہ بھی ہمارے لیے ہمارے درد پر ہماری ہی طرح تڑپتے ہیں؟ کیا وہ ہمارے لیے آئیں گے؟
فاطمہ ایک دم محمد علی سے دور ہوگئی کہ یہ سوال اسے پریشان کررہےتھے، اس کے پاس ان سوالوں کے کوئی جواب نہیں تھا، وہ کیا کہتی! آج چھ ماہ سے وہ جس ظلم کا شکار ہیں اس پر باہر کی دنیا کیوں خاموش ہے؟ وہ پاکستان جس کا نام لے کر ہر ایک کشمیری جیتا ہے وہ کہاں ہے؟ وہاں کی فوج کیوں نہیں پہنچی ہم تک؟
وہ پاکستان جو ہمیں اپنی شہ رگ کہتا ہے وہ ابھی تک کیسے زندہ ہے؟ بھلا کوئی شہ رگ کے بغیر بھی زندہ رہ پایا ؟ وہ پاکستان سکون کی نیند کیسے سو سکتا ہے کہ جب ہمارے گھر محفوظ نہیں۔ ہمارے پاکستانی اور دنیا بھر کے مسلمان بھائی غیرت کے ساتھ سر اٹھا کر کیسے چل سکتے ہیں جبکہ ہماری ماؤں،بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں محفوظ نہیں، ہم کیسے مسلمان ہیں کہ جو جسد واحد کی طرح ہیں لیکن جسم کا ایک حصہ جل رہا ہے،مر رہا ہے اور کٹ رہا ہے لیکن دوسرا حصہ پرسکون اور مستی میں ہے۔ کتنے ہی سوال تھے جو فاطمہ کے دماغ میں چل رہے تھے اور اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
وہ خالی خالی نظروں سے اس ہجوم کو دیکھ رہی تھی جو غم سے نڈھال تھا کہ جن کے کندھے روز جوان جنازے اٹھا اٹھا کر تھگ گئے تھے لیکن ان کے اندر اب بھی امید باقی تھی کہ وہ ایک دن اس ظلم سے رہائی حاصل کر لیں گے۔
ہجوم اگے بڑھتا جا رہا تھا، فاطمہ پیچھے ہی رک گئی ،آج اس نے اپنا ایک اور بیٹا قربان کیا تھا، وہ نڈھال تھی، وہ کہیں چھپ جانا چاہتی تھی ، جہاں اسے یہ روز روز نہ دیکھنا پڑے، وہ اسی سوچ میں گم تھی کہ کسی نے اس کا کندھا ہلایا ۔’’ فاطمہ باجی!‘‘
’’جی‘‘ فاطمہ نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو ایک عورت اپنے 15 سالہ بچے کے ساتھ کھڑی تھی اور فاطمہ کو ہی دیکھ رہی تھی۔
’’یہ میرا بیٹا ہے عمر، بہت بہادر اور نڈر ہے۔ یہ مجاہدین کی جماعت میں جانا چاہتا ہے، اس لیے آپ کے پاس لے کر آئی ہوں تاکہ آپ اس کی بھی تربیت کریں اور یہ مجاہدین کی جماعت میں شامل ہو کر تحریک آزادی میں حصہ لے‘‘۔
وہ عورت بول رہی تھی اور فاطمہ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ فاطمہ نے عورت کو گلے لگایا اور روتے ہوئے کہا :’’ ہاں ہم کریں گے تربیت اپنے بیٹوں کی ، ہمارا ہر بیٹا مجاہد ہے کیونکہ ہم مائیں ان کی طاقت ہیں۔ ہم انھیں تیار کرکے میدان جہاد میں اتارتی ہیں۔ ہم نے اپنے بیٹے کھوئے ہیں لیکن اپنا حوصلہ نہیں کھویا۔ جب تک ہم زندہ ہیں ہمارا ہر بیٹا مجاہد ہے اور ہم زندگی کی آخری سانس تک لڑیں گے ان شاءاللہ‘‘۔
پھر فاطمہ چپ ہوگئی ، اس نے خاموش نظروں سے آسمان کی طرف دیکھا، جیسے کہہ رہی ہو کہ باہر کی دنیا کو کوئی بتا دے، ہم ابھی ہمت نہیں ہارے، ہم لڑیں گے آخر دم تک۔ ہمیں آپ کا انتظار ہے۔ آؤ کہ ابھی ضرورت ہے، ابھی ہم زندہ ہیں، ابھی ہم لڑ سکتے ہیں۔ آؤ کہ ابھی ان آنکھوں میں انتظار ہے۔ کہیں اتنی دیر نہ کردینا کہ یہ آنکھیں آزادی کی صبح دیکھنے سے پہلے بند ہو جائیں۔ وہ آنکھیں جو تمھارے آنے کی منتظر ہیں وہ بند ہو جائیں۔
علی محمد کی تدفین ہوچکی تھی، سب لوگ گھروں کو لوٹ رہے تھے، فاطمہ بھی گھر کی طرف چل پڑی کہ ابھی کام باقی تھا۔