حمیرا گیلانی
ڈرامہ’’میرے پاس تم ہو‘‘ کی کہانی ایک عام کہانی ہے اور ہوسکتا ہے کہ اس طرح کی کئی کہانیاں مختلف معاشروں میں پھیلی ہوئی ہوں۔ بے وفا صرف مرد نہیں ہوتے عورتیں بھی ہوسکتی ہیں اور ہوتی بھی ہیں کیونکہ انسان ہر طرح کی غلطی کرسکتا ہے اس میں جنس کی تخصیص نہیں ہوسکتی۔
کسی نے سچ کہا ہے کہ وفا کا تعلق مرد اور عورت سے نہیں بلکہ خوف خدا، تربیت اور نیت سے ہے۔ بے وفائی تو ہم سب کر رہے ہیں، کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی جگہ، کسی بھی رشتے میں، کسی بھی تعلق میں، کسی بھی کام میں۔
کہیں شوہر اپنی بیوی سے جھوٹ بول کر بیوی سے بے وفائی کر رہا ہوتا ہے، کہیں کوئی شخص باس سے غلط بیانی کر کے بے وفائی کر رہا ہے، کہیں کوئی اپنا کام پورا نہ کر کے کام سے بے وفائی کر رہا ہے اور ہم مسلمان ہر لمحہ اپنے رب سے بے وفائی کر رہے ہیں۔ کہیں اس کی دی ہوئی صلاحیتوں کو کسی غلط مقصد میں استمعال کر کے ،کبھی اس کی دی نعمتوں کی ناشکری کر کے اور سب سے بڑھ کر اس کے دئیے ہوئے مقصد زندگی کو چھوڑ کر اس رب سے بے وفائی ہی تو کر رہے ہیں۔ کبھی اس بات پہ غور ہی نہیں کرتے کہ ہم اپنے رب سے کئے وعدے کو بھی بھول گئے ہیں۔
ایک اسلامی معاشرے میں عورت اور مرد کے آزادنہ اختلاط کی ہی ممانعت ہے لیکن اخلاقی نظریات کے بدل جانے کی وجہ ایسا کرنا اب معیوب نہیں سمجھا جاتا ۔بالکل غیرمحسوس طریقے سے یہ کام کیا گیا، انسانی نفسیات ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا، سنتا ہے، ویسا ہی سوچنے لگتا ہے اور پھر اس کو وہ سب کچھ نہ تو برا لگتا اور نہ ہی وہ اس کو غلط کہتا ہے بلکہ وقت کا تقاضا سمجھتا ہے۔
جب ہم کسی بری چیز پہ خاموشی اختیار کرتے ہیں تو اس بری چیز کو لانے والے ہماری خاموشی کو ہماری رضامندی سمجھ کر اس سے اگلا قدم اٹھاتے ہیں جو اس سے بڑی برائی ہوتی ہے۔ پچھلے 50 سال سے ہمارے معاشرے میں اسی طرح برائیوں کو پھیلایا جا رہا ہے۔
کسی نے سچ کہا ہے کہ یہ معاشرہ برے کی برائی سے تباہ نہیں ہو گا بلکہ اچھے لوگوں کی خاموشی کی وجہ سے تباہ ہو رہا ہے۔ یہ بات اب عورت اور مرد کے آزادنہ میل جول، تنگ اور چست لباس سے بڑھ کر اب بے لباسی ، عورت اور مرد کا سرعام بوس و کنار بلکہ اللہ کی حدود کو توڑنے تک پہنچ چکی ہے۔ ہم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور ہر فرد اپنی جگہ یہ سوچتا ہے کہ میرے بولنے سے کیا ہو گا لیکن بارش کا پہلا قطرہ کسی نے تو بننا ہے ۔ یہ ہم سب کے ایمان کا معاملہ ہے۔
ہم ایسی بے حیائی اور اللہ کی حدود کی بے حرمتی پہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، ہم ایمان کے سب سے نچلے طبقے سے بھی شاید نیچے آ چکے ہیں کہ اللہ کی حدود کی بے حرمتی پہ بھی خاموش بیٹھے ہیں۔ اس ڈرامہ میں اسلامی قوانین کی بے حرمتی کی گئی، اسلام میں جب ایک عورت کو طلاق ہوتی ہے تو وہ اپنے شوہر کے لئے حرام ہے ، عدت میں ہے جبکہ اس ڈرامہ میں وہ عورت جس دن طلاق ہوتی ہے اسی رات اپنے آشنا کے ساتھ اس کے گھر چلی جاتی ہے، تمام حدود کو توڑ دیتی ہے اور 5 ماہ اس کے ساتھ بغیر نکاح کے رہتی ہے۔
اس کام کو شہوار کی بے وفائی کہا جا رہا ہے یہ نہیں کہ ان دونوں نے گناہ کیا ہے۔ اسلامی قوانین میں تو اس کی گنجائش ہی نہیں یعنی یہ بے حیائی اس ڈرامہ کے ذریعہ ہمارے معاشرے میں پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آج کل کے سب ڈرامہ ایسی ہی گناہوں کو پھیلانے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔
اللہ تعالی قرآن میں فرماتے ہیں:
جس نے اللہ کی حدود سے تجاوزکیا پس اس نے اپنی ہی جان پر ظلم کیا۔ سورہ الطلاق، آیت 1
کیا ہم اللہ کی حدود توڑنے پہ خاموش رہیں گے؟ نہیں، ہم ہرممکن کوشش کریں گے کہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔ اللہ نے ہماری کوشش دیکھنی ہے، اس گناہ کو بہ آواز بلند گناہ کہیں اور اس کی اشاعت کو روکنے کی ہرممکن کوشش کریں ۔
اور یہاں اس ڈرامہ میں ایک عورت کی بےوفائی کے چرچے ہیں، جس معاشرے میں شاید ایسی عورتیں ایک فیصد بھی نہیں ہیں۔ الحمدللہ ۔ ہمارا ایک نظریاتی ملک ہے۔ اس نظریہ کی وجہ سے ہمارا معاشرہ اس قسم کی خرافات سے محفوظ ہے۔ اس ملک میں ایسے ڈرامہ دکھانے کا مقصد اس معاشرہ میں بے راہ روی کو فروغ دینا ہے ۔
اس ڈرامہ کا جو پرومو دکھایا گیا ہے اور جو آخری قسط ہوگی اس کے مطابق دانش اپنی طلاق یافتہ بیوی کے پاس جائے گا لیکن ابھی آخری قسط دیکھنے کے بعد ہی اس پہ کوئی رائے دی جا سکتی ہے لیکن اگر پرومو پہ بات کی جائے تو اسلام ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے کہ ایک مرد اپنی طلاق یافتہ سابقہ بیوی کے پاس جائے۔ پھر کیسے ایک اسلامی معاشرہ میں ایسے ڈرامہ بنائے جاتے ہیں؟ کیا پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جو اس قسم کے ڈراموں پہ پابندی لگائے، ان کی اشاعت کو روکے؟ کیا ایک اسلامی معاشرے میں یہ سب دکھانا جائز ہے؟ کیا اللہ کی ناراضگی ہمارے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی؟
اصل بات یہ ہے کہ اس ڈرامہ کے ذریعہ دو چیزیں معاشرے میں پھیلائی جا رہی ہیں۔ ایک تو اس میں بچہ نہ صرف بدتمیز دکھایا گیا ہے جو والد سے بدتمیزی سے بات کرتا ہے، اس کا گفتگو کا انداز مہذب نہیں جیسے وہ اپنے باپ سے کہتا ہے کہ تم ڈر گئے یا چلو کھانا کھا لو مجھے بہت بھوک لگی ہے وغیرہ
دوسرے بچوں کے اندر بے باکی پیدا کی جا رہی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے بارے میں جو بھی فیصلہ کر لیں جیسے وہ ٹیچر کے گھر جانا چاہتا ہے تو جیسے ہی اس کے والد گھر میں آتے ہیں وہ گھر سے نکلنے لگتا ہے اور باپ کے پوچھنے پہ بتاتا ہے کہ ٹیچر کے گھر جا رہا ہوں۔ مطلب اجازت لینا تو دور کی بات وہ بتانا بھی گوارا نہیں کرتا ۔
یہ ہماری تہذیب کا حصہ نہیں ہے کہ ایک 5 سال کا بچہ خود فیصلے کرے۔ ہمارا دین تو بچوں کو ماں باپ کے کمرے میں آنے کے لئے بھی اجازت لینے کا حکم دیتا ہے۔ یہ ڈرامہ ہماری تہذیب ہمارے معاشرے کی عکاسی نہیں کرتا۔ اس ڈرامہ کے ذریعہ کسی اور تہذیب کو ہم پہ مسلط کرنے کوشش کی جارہی ہے۔
پھر وہ باپ کو بتائے بغیر ٹیچر کے گھر اپنے باپ کا رشتہ لے کر جاتا ہے بحیثیت والدین کوئی بھی اپنے بچہ کی ایسی تربیت نہ کرتا ہے اور نہ کرے گا نہ ہی معاشرہ ایسے بچہ کو قبول کرے گا ۔ دین کو اگر چھوڑ بھی دیں تو کیا کوئی معاشرہ یہ قبول کرے گا کہ کوئی 5 سال کا بچہ اپنے والد کا رشتہ اپنی ٹیچر کے لئے لے کے جائے ؟ ہرگز نہیں پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ یہاں دین بچوں کو اس بے باکی کی اجازت دیتا ہے نہ یہاں کا معاشرہ ۔
اس ڈرامہ میں ایک انتہائی غلط چیز دکھائی گئی کہ لڑکی شوہر سے طلاق لے کر دوسرے مرد کے ساتھ بغیر نکاح کے رہتی ہے، وہ یہ سب کچھ صرف پیسے کے لئے کرتی ہے، اس کے اس کام کو غلطی تو کہا جا رہا ہے لیکن اسے گناہ نہیں بتایا جا رہا اور نہ وہ سمجھ رہی ہے کہ اس نے گناہ کیا ہے۔ الغرضیکہ یہ غلطی نہیں بلکہ گناہ ہے ۔ یوں ہمارے معاشرہ سے گناہ کے کانسیپٹ کو بھی ختم کیا جا رہا ہے ۔
ایک تبصرہ برائے “’’میرے پاس تم ہو‘‘کے پس پردہ منصوبہ کیا ہے؟”
وقت لے ساتھ قدریں بھی بھولتے جارہے ہیں