دعا عظیمی
کاسنی دوپٹے والی بگھی میں بیٹھے بہت دور جا رہی تھی . اس کے پیچھے ساز بجانے والے اور گانے والے طربیہ گیت گا رہےتھے….ان کے ہونٹوں پہ شاعر کے گیت تھے، جس کے بول تھے:
’’اے ماہ جبیں…..
تو گلابوں سے زیادہ حسین
تو میری آنکھ کا نور
تومیرے قلب کاسرور
اے ماہ رو اے خوبرو‘‘
محمل آنکھ سے دور ہوتا گیا… آواز کی گونج مٹتی گئی۔
شاعر ریت کے ذروں پر اپنے پیروں کے نشان چھوڑتا آگے بڑھتا رہا، اس کے اختیار میں ہوتا تو کاسنی دوپٹے والی کے لیے دمکتے تاروں کی روشنی مانگ لاتا … نیل گگن پہ اڑتے ابر کی نرم روئی سے اس کے لیےسبز مخمل کا دوشالہ بُنتا …اس کی ہیرے جیسی آنکھوں میں سنہرے سپنے پورے کرنےکے لیے لعل و جواہر کے ڈھیر لگا دیتا….لیکن وہ تو تہی دامن تھا۔
ہاں! اگر شاہزادی کو پریوں کی کہانیاں سننے کا شوق ہوتا تو وہ ضرور اس کی خاطرباد شمال کے سنگ کوہ کاف کا سفر کرتا اور اپنی ذنبیل سے الف لیلی کی داستان نکا لتا اور اسےہر رات نئی کہانی سناتا کیونکہ وہ یہ کر سکتا تھا. اور جو وہ کر سکتا تھا کر دیتا پر وہ جس کے لیے نہیں بنا تھا وہ کیسے کر پاتا، بھلا کھجور پہ زیتون لگتی ہے کبھی یا انگور کی بیل پر آم کیسے اتر آتے؟ وہ فرہاد کی طرح تیشے سے سر کیسے پھوڑتا؟ دودھ کی نہر کیسے بہاتا؟
وہ اس ہنر سے عاری تھا اور شاہزادی کے لیے عربی نسل کا گھوڑا کہاں سے لاتا ؟ نہ ہی کوئی سفید محل اس کی ملکیت تھا جسے اس کے لیے مختص کر دیتا. وہ تو ایک مفلس تھا جس کا دل شام سے ہی بجھا سا رہتا تھا۔
خیر! وہ ایسا تہی دست بھی نہ تھا،اسے لگتا عود و عنبر اس کے خیالوں کے سامنے ہیچ تھے۔ وہ اچھا سوچ سکتا تھا، وہ سوچ سکتا تھا، گیت لکھ سکتا تھا، قصیدے بن سکتا تھا، وہ رات بھر حرفوں کی پن چکی سے برہ کی ہوک کو محسوس کر سکتا تھا، حزن اور ملال کو تحریر کر سکتا تھا گو وہ ماتم گر نہ تھا اور نہ ہی خونی نہ جلاد ۔
اس کے ہاتھ صاف تھے، صبح کی کرنوں کے خواب چننا اسے آتے تھے۔ -کائنات اس کے لیے پر کھولے بیٹھی تھی، منظر اس کےلیے وا ہوتے، پو اس کے لیے پھٹتی، سورج اپنی نرم کرنوں سے اس کی پلکوں کی چلمن پہ دستک دیتا..اور شاعر اپنے تخیل کےباغ ارم سے رسیلے حروف چنتا اور رس سے کٹورے بھرتا اور صراحی کی نازک گردن تک محبت کی آب حیات ٹپکاتا۔۔
یہ اور بات کہ اس کے دونوں ہاتھ خالی تھے…..جنہیں وہ دعا کے لیے اٹھا سکتا تھا اور وہ اپنی محبوبہ کے حضور صرف ایک عمدہ خیال پیش کر سکتا تھا ، مگرکیا ایک عمدہ خیال عربی گھوڑے کے متبادل ہو سکتا تھا ؟
کسی حسینہ کے لیے تو ہر گز نہیں..ہر گزنہیں.
بھلا وہ ایک شاعر سے بندھن کیوں باندھتی کیا ایک مصرع تر یاایک تخیل کسی سفید محل کے برابر ہو سکتا ہے، نہیں ہر گز نہیں!!!
اسے نہ تو شاعر سے ناتا تھا نہ اسے شاعر کے تخیل یا مصرعے کی اور نہ ہی اس کے خیمے کی ضرورت تھی .
اس کا دامن بھید سے بھرارہتا لیکن چھید سے بھی خالی نہ تھا.
قصیدے مناجاتوں میں بدلتے گئے.
“اے حسین کائنات کے مالک.” وہ عرض کرتا ..تیری دنیا کتنی حسین اور مکمل ہے اور میں ایک ناتواں ناتمام ادھوری تشنہ کام تصویر . بزبان اشک خودکلامی ہوتی.
“میرے محل کا تعلق صرف خیال سے ہے. خیال جو خوشبو کی مانند ہے نہ نظر آنے والا ہیولہ” آواز آتی:
” اے شاعر بے نوا تو میرا خیال ہے” ڈھارس بندھتی اور کھلے آسمان پہ چاند اور تاروں سے صحرا جاگ جاتا.
خیال میں حقیت کا رنگ جھلکتا.
جیسے پانی میں عکس جیسے مکان میں مکین….
کاسنی دوپٹے والی بگھی میں بیٹھے بہت دور جا رہی تھی. اس کے پیچھے ساز بجانے والے اور گانے والے طربیہ گیت گا رہےتھے….ان کے ہو نٹوں پہ شاعر کے گیت تھے , جس کے بول تھے
’’اے ماہ جبیں…..
تو گلابوں سے زیادہ حسین
تو میری آنکھ کا نور
تومیرے دل کا سرور”
شاعر کا دل سورج کی کرنوں سے روشن تھا۔
شاید کاسنی دوپٹے والی دنیا تھی.گیت اس کی خواہشوں کا پر تو، حروف سچ کے پیالے، سچ جو تھا بھی اور نہیں بھی تھا.