ٍڈاکٹرعبیداحمد خانزادہ، نیورولوجسٹ، کراچی
دنیا میں مسائل ہر ایک کے ساتھ ہوتے ہیں، ان میں سے بعض لوگ مسائل کا مقابلہ نہیں کرپاتے اور اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں ہی سے ختم کرلیتے ہیں، اسے ہم خودکشی کہتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ خود کشی اسلام میں حرام ہے جبکہ پاکستان پینل کوڈ 306 PPC کے مطابق بھی یہ ایک جرم ہے۔
خود کشی کرنے والوں کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے یعنی جو لوگ ذہنی طور پر بیمار ہوتے ہیں وہی ایسے حرام کام کرتے ہیں ۔ اس وقت دنیا میں ہر سال آٹھ سے10 لاکھ لوگ خودکشی کرتے ہیں ۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں2018ء میں1338 لوگوں نے اپنی زندگی اپنے ہی ہاتھوں سے ختم کی جن میں786مرداور552 خواتین ہیں اور اس کی سب سے وجہ ڈپریشن یعنی مایوسی ہے۔
دنیامیں ہر40 سیکنڈ میں ہر ایک فرد خود کشی کرتا ہے۔ پاکستان میں بھی خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، اس کی وجہ سے معاشرے میں پھیلی نا انصافی، افراتفری، بے راہ روی، مایوسی، غربت ، مشترکہ خاندانی نظام کا تنزلی کی جانب سفر ، تشدد ، دماغی اور نفیساتی عوارض و انتشار ، طلبہ میں غیر ضروری تعلیمی مسابقت اس کے خاص اسباب ہیں ۔ پاکستان میں خود کشی کا بڑھتا ہوا رحجان ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے جس کی ایک بڑی وجہ مذہب سے دوری بھی ہے۔ آج کل ہم اپنے بچوں کو نئی گاڑیاں اور موبائل فونز مہیا کرتے ہیں لیکن انھیں صحیح طرح سے دین کی تعلیم نہیں دیتے۔
خودکشی کرنے والا آسانی سے اس کا ارتکاب نہیں کرتا بلکہ وہ شدید تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے۔ ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق ڈپریشن کے ہر 16مریضوں میں سے ایک فرد خودکشی کرتا ہے۔ خودکشی کرنے والے 90 فیصد لوگوں میں ذہنی صحت کے ایشوز ہوتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 30کروڑ سے زائد افراد ڈپریشن کا شکار ہے۔ عالمی سروے کے مطابق ہر چوتھا شخص اور ہر دسواں بچہ ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں50 لاکھ سے زائد افراد نفسیاتی مسائل کا سامنا کررہے ہیں جن میں اینگزائٹی اور ڈپریشن سرفہرست ہیں ۔
لوگ سیاسی اور معاشی حالات سے پریشان ہوکر بھی خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ ماحولیات کی بناءپر بھی امراض بڑھ رہے ہیں یعنی فضائی اور زمینی آلودگی، بڑھتا ہوا شور وغیرہ ۔
زیادہ تر ذہنی امراض لڑکپن میں شروع ہوتے ہیں اور ان کی تشخص نہیں ہوتی اور نہ ہی علاج ہوتاہے کیونکہ آگاہی نہ ہونے کے سبب والدین اور اساتذہ ان امراض کی علامات کو پہچان نہیں سکتے۔ پاکستان میں ٹین ایج میں25-18 سال کی عمر والوں میں خودکشیوں میں خطرناک حدتک اضافہ ہورہا ہے ۔اعصابی تناﺅ ختم کرنے اور سکون آورادویات کا استعمال بھی خود کشی کا سبب ہوتا ہے۔
شادی شدہ عورت میں خودکشی کا رسک بڑھ جاتا ہے جبکہ شادی شدہ مرد میں خودکشی کا رسک کم ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں ہر چھ میں سے ایک فرد کو ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا ہے۔
10 سے20 سال کی عمر کے نوجوانوں میں گھبراہٹ ، خوف ، مایوسی، ڈپریشن، منشیات کی لت ، غصہ ، تشدد ، عد م برداشت ، فحاشی اور جنسی بے راہ روی، مشاغل کا نہ ہونا، کیئریر کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال اور ان جیسے حالات میں ذہنی ونفسیاتی امراض تیز ی سے بڑھ رہے ہیں ۔
یادرکھیے کہ زندگی ایک دفعہ ملتی ہے، اسے اپنے ہاتھوں سے ضائع نہ کیجئے ۔ اس مسئلے کے حل کیلئے خاندان ، اسکول اور مقامی معالجین کی سطح پر شعور اور آگاہی کے نظام کو بہتر بنا نا ہوگا۔ ذہنی صحت سے متعلق غلط فہمیوں کو دورکرنا ہوگا۔ خودکشی پر آمادہ لوگوں کی کونسلنگ کرنا ہوگی۔ میڈیا کو بھی اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ مثلاً خودکشی سے دور لے جانے والی فلمیں اور گیت متعارف کرانا ہوں گے۔ اسی طرح مختلف سرگرمیوں کے ذریعے مثبت پیغامات دینے ہوں گے۔
غذا میں سبزیوں اور پھلوں کا استعمال کرنے اور لوگوں سے مثبت رویہ سے پیش آنے سے بھی اس کا تدارک ہوسکتاہے۔ اسی طرح روزانہ خالی پیٹ 20 سے 30منٹ کی واک کرنا، جلدی سونا اور صبح سویرے اٹھنا ، زندگی کے معاملات کو مثبت طریقوں اور مثبت سوچ کے ساتھ حل کرنا بھی لوگوں کو خودکشی کی طرف جانے سے روک سکتا ہے۔
اللہ رب العزت کے احکامات اور نبی پاک ﷺ کے طریقوں کے مطابق زندگی گزارنا ہوگی ، ان تمام کاموں کے ذریعے سے ذہنی صحت کے مسائل سے بچاجاسکتا ہے ۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم خود بھی ان اسباب سے دور رہیں جو ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار کرتے ہیں اور معاشرے کے دیگر لوگوں کو بھی بچنے کا شعور فراہم کریں ۔