اردو ڈائجسٹ کے مدیر اور ممتاز بزرگ صحافی اعجاز حسن قریشی سے خصوصی مکالمہ
ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن، ملک کی سیاسی تاریخ کے گواہ اور کہنہ مشق صحافی ہیں۔1928ء میں بھارت کے ضلع کرنال کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں پر حاصل کی۔ایف ایس سی علی گڑھ سے کی ۔ تقسیم کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔جرمنی سے تاریخ کے مضمون میں ڈاکٹریٹ کیا اور کچھ عرصے کے لیے پنجاب یونیورسٹی میں لیکچرر بھی رہے ۔
انہی دنوں ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ کے نام سے ایک منفرد ماہنامہ شروع کیا۔صحافت کے ساتھ ساتھ تجارت میں بھی سرگرم رہے اور یہاں کے مقامی پھلوں اور سبزیوں کی برآمد شروع کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مستحق طلبہ کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے والے ادارے کاروان علم فاؤنڈیشن کے بانی اور سیکریٹری جنرل بھی ہیں۔سات دہائیوں پر مشتمل صحافتی سفر میں قید و بند سمیت کئی آزمائشوں سے بھی گزرے۔ تقسیم کار کے تحت اپنے بھائی الطاف حسن قریشی کو لکھنے کی ذمہ داری سونپی اورخود پس منظر میں رہے۔ آج کل اپنی یاداشتیں قلمبند کر رہے ہیں جنہیں مناسب وقت پر کتابی صورت میں شائع کرنا چاہتے ہیں۔84 سال کی عمر میں بھی چاک وچوبند ہیں ۔
گزشتہ ہفتے ان کے ساتھ طویل نشست ہوئی جس میں متنوع موضوعات زیربحث آئے۔ اس ملاقات کا احوال ان سطور میں نذر قارئین ہے۔
گفتگو کا آغاز ملکی صحافت کے حال احوال سے ہوا تو انہوں نے کہا ’’قوموں کی تعمیرمیں جہاں تعلیم بہت اہم کردار ادا کرتی ہے وہیں صحافت بھی اہم کردار کرتی ہے۔ اگر پڑھنے والوں کوصحیح خبریں اور درست تجزیے پڑھنے کو مل جائیں تو انہیں اپنی رائے بنانے میں آسانی ہو گی۔بدقسمتی سے ہمارے حکمران شروع ہی سے آزادیٔ صحافت کے قائل نہ تھے۔یہاں ابتداء ہی سے صحافیوں اور صحافتی اداروں پر پابندیاں لگتی رہیں ۔جو بھی حکومتوں پر تنقید کرتا تھا وہ غدار شمار ہوتا ۔شروع ہی کے سالوں میں جب حسین شہید سہروردی حکومت سے الگ ہوئے تو ان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ جو صحافی سچی بات لکھتا تھا سے غدار قرار دے دیا جاتا تھا۔اس کے علاوہ حکومتوں کا یہ وطیرہ بھی رہا ہے کہ وہ اپنے چنیدہ لوگوں کو باقاعدہ ایجنڈے کے تحت صحافی بناتے رہے ہیں۔‘‘
ان کے بقول اخبارات میں حکومتوں کے ساتھ اختلاف رائے کی روایت جماعت اسلامی کے اخبار ’’تسنیم‘‘ سے چلی جس میں وہ بطور ڈسپیچر بھرتی ہوئے تھے ۔اس زمانے کی یادوں کو آواز دیتے ہوئے کہتے ہیں ’’اس وقت کشمیر کے مسئلے پر مولانا مودودی مرحوم سے منسوب ایک بیان تناؤ کی بڑی وجہ بن گیا جس کے پیچھے نوائے وقت اخبار تھا۔ نوائے وقت نے ’’تسنیم‘‘ کے خلاف باقاعدہ ایک اداریہ لکھا ،جس میں اس اخبار کو بند کرنے پر زور دیا گیا تھا۔‘‘
’’ بس یوں سمجھئے اب آپ کی سیاسی موت واقع ہو چکی ہے۔‘‘
’’تسنیم‘‘ میں صحافتی خدمات کے زمانے سے جڑی کئی اور اہم باتیں انہیں یاد آئیں ’’میں جب ’تسنیم‘ کا رپورٹرتھا اس وقت پورے ملک میں ختم نبوت کی تحریک زوروں پر تھی۔ وزیراعلیٰ ممتاز دولتانہ نے اعلان کیاکہ جلوسوں پر گولی نہ چلائی جائے ۔ میں نے اس اعلان کی خبر لگا دی ۔ صبح اپنے دفتر (جو گوالمنڈی میں واقع تھا) پہنچا تو گولیوں کی آواز سنی ،ہڑبڑا کر باہر نکلا تو دیکھا کہ لوگ بانساں والے بازار سے آ رہے ہیں اور میو ہسپتال کے سامنے ان لوگوں پر گولیاں برسائی جا رہی ہیں۔ اسی ہیجانی کیفیت میں دولتانہ صاحب کو فون کیا اور کہا کہ اس وقت لوگوں پرگولیاں چل رہی ہیں حالانکہ رات کو آپ کا جو بیان آیا تھا وہ اس کے بر عکس تھا۔ انہوں نے کہا ہم نے تو لاہور میں مارشل لاء لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میں نے اس وقت انہیں کہا کہ بس یوں سمجھیے کہ اب آپ کی سیاسی زندگی کی موت واقع ہو چکی ہے۔ اس کے بعد ممتاز دولتانہ بھٹو کی نوکری کے علاوہ کبھی سیاسی افق پر نمایاں طور پرابھر نہ سکے۔
’’تم صحافی لوگ اتنے چالاک ہوتے ہو کہ سنسر کو بھی غیر مؤثر کر دیتے ہو۔‘‘
جب مارشل لاء لگا تو میں تسنیم اخبار کے لیے رپورٹنگ کرتا تھا۔ اس وقت مجھے ایک ترکیب سوجھی اور میں مختلف ہسپتالوں میں گیا،جہاں زخمی داخل کیے گئے تھے۔ ان کے کوائف جمع کیے۔میں یہ سب معلومات ایک خبر کی صورت میں پریشان حال لوگوں کی اطلاع کے لیے شائع کرانا چاہتا تھا۔ اس وقت سنسر بورڈ کے انچارج ملک محمد حسین تھے۔ میں ان کے پاس یہ خبر لے کر گیا توانہوں نے اس پر سنسر کی مہر لگا دی۔ مجھے پتہ تھا کہ یہ خطرناک خبر ہے۔ میں ’’تسنیم‘‘ کے مالک و ایڈیٹر نصر اللہ خان عزیز کو وہ خبر دے کر ایگزیٹ پرمٹ لے کر کراچی چلا گیا ۔ وہاں دو دن بعد میں نے ریڈیو میں سناکہ ’’تسنیم‘‘ تین ماہ کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔اس خبر کے سلسلے میں ملک نصر اللہ عزیز کی پیشی بھی ہوئی۔ وہاں ملک محمد حسین نے ان سے کہا کہ آپ صحافی لوگ اتنے چالاک ہوتے ہو کہ سنسر کو بھی غیر مؤثر کر دیتے ہیں۔میں ایسا صحافی رہاہوں (ایک لمحہ توقف کے بعد کہا)۔
الطاف قریشی نے بھٹو کو جواب دیا ’’اچھا ہوا ،اب آپ قوم کے لیڈر بن جائیں گے۔‘‘
ستر کی دہائی قریشی برادران اور اردو ڈائجسٹ پر بہت گراں رہی ۔ ہم نے اس زمانے کے واقعات کے بارے میں استفسار کیا تو بتانے لگے ’’بھٹو صاحب کو ایوب خان کی کابینہ سے نکالنے والا اردو ڈائجسٹ ہی تھا۔الطاف حسن قریشی نے بھٹو صاحب کا انٹرویو کیا تھا ۔اردو ڈائجسٹ میں اس انٹرویو کے شائع ہونے کا تو کسی نے نوٹس نہیں لیا لیکن کسی طرح وہ میر خلیل الرحمٰن کے ہاتھ لگ گیا۔ انہوں نے اس کی خبر بنا کر شہہ سرخی کے طورپر اپنے اخبار میں شائع کر دی۔اس طرح خبر پھیل گئی اور ایوب خان نے بھٹو صاحب کو طلب کر لیا اور پوچھا کہ یہ تم نے کیا کیا؟بھٹو صاحب نے کہا جناب میں نے تو آف دی ریکارڈ بات تھی وغیرہ وغیرہ ۔پھر بھٹو صاحب نے الطاف صاحب کو ٹیلی فون کیا ۔ اس وقت ہمارا ٹیلی فون خراب تھا۔اس لیے انہوں نے علامہ علاء الدین صدیقی کو فون کیا کہ آپ جائیں اور الطاف حسن قریشی سے میرا رابطہ کرائیں۔ پھر کچھ دن میں ہمارا فون ٹھیک ہو گیا تو بھٹو صاحب نے الطاف حسن قریشی صاحب کو فون کر کے کہا کہ آپ کے انٹرویو کی وجہ سے مجھے ایوب خان نے کابینہ سے نکال دیا ہے۔ الطاف نے جواب دیا کہ اچھا ہے اب آپ قوم کے لیڈر بن جائیں گے۔یہ بات الطاف حسن قریشی کی نئی کتاب ’’یادیں کیا کیا ‘‘ میں درج ہے۔ پھر بھٹو صاحب نے اپنی سیاسی جدو جہد شروع کر دی ۔
بھٹو کی پہلی تقریر سنتے ہی کہہ دیا تھا کہ اسے پھانسی ہو جائے گی۔
ہم سمجھتے تھے کہ بھٹو اور مجیب دونوں بڑے فاشسٹ ہیں اور دو فاشسٹ جب ٹکرائیں گے تو ملک کو نقصان ہو گا تو ہم نے ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ اور ’’زندگی‘‘ میں بھٹو پر بہت سخت تنقید کی ۔ چنانچہ بھٹو صاحب 70ء کا الیکشن جیت گئے اور انہوں نے پنجاب اسمبلی ہال کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں قریشی برادران کو’ فکس اَپ‘ کروںگا ، اگر میں نہ کر سکا تو میری اولاد کرے گی۔ وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے ایک تقریر کی جو میں اور الطاف ایک ساتھ بیٹھ کہ ٹرانسسٹر پر سن رہے تھے۔تقریر سننے کے بعد میں نے کہا تھا کہ اس شخص کو پھانسی لگے گی۔ یہ میری پیش گوئی تھی۔ الطاف نے پوچھا کہ بھائی آپ یہ کیسی بات کر رہے ہیں؟ میں نے کہا مجھے اس کی تقریر سے محسوس ہو گیا ہے کہ یہ بہت منتقم مزاج ہے ۔ یہ انتقام لے گا اور نتیجے میں پھانسی چڑھ جائے گا۔پھر اس کے بعد ہم نے ان کی پالیسیوں کے خلاف مضمون لکھنے شروع کیے حالانکہ اس زمانے میں کسی کو بھٹو کے خلاف بات کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔
حکم تھا کہ خبر نہ چھپے ہم نے اداریہ لکھ ڈالا۔
ایک واقعہ بڑا عجیب ہے ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب غلام مصطفی کھر بھٹو کے مخالف ہوئے تھے۔ یہاں تاج پورہ میں ایک ضمنی انتخاب کے سلسلے میں وہ جلسہ کر رہے تھے۔ اس جلسے میںپانی چھوڑ دیا گیا لیکن اس کے باوجود جلسہ ہوا ۔ پھر اس میںسانپ چھوڑ دیے گئے جس سے بھگدڑ مچ گئی اور کئی لوگ کچلے گئے اور مر گئے۔ اس وقت ڈی پی آر اپنے بننے کے اگلے دن ہی لاگو ہو گیا تھا۔ اس کے تحت ایک پریس نوٹ جاری ہوا کہ تاج پورہ کے واقعے کے بارے میں کوئی خبر بھی شائع نہ کی جائے اور دوسری ہدایت یہ تھی کہ یہ بھی شائع نہ کیا جائے کہ یہ پریس نوٹ جاری ہوا ہے۔ کسی مائی کے لال کی جرأت نہیں تھی کہ اس پریس نوٹ کی مخالفت کرے۔ ہمارے پاس وہ پریس نوٹ تین دن بعد پہنچا۔ہم نے اس کی خلاف ورزی کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے وکیل اسد اللہ صدیقی کے پاس گئے اور ان سے مشاورت کی ۔ انہوں نے کہا کہ اس پریس نوٹ کی مخالفت کی وجہ سے آپ کا ڈیکلیریشن ضبط ہو جائے گا، پریس بھی بند ہو جائے گااورآپ لوگ جیل چلے جائیں گے۔ ہم نے کہا بس یہی ؟ اور تو کچھ نہیں ہو گا ناں؟ پھر ہم نے اردو ڈائجسٹ میں ’’ہم ہیں آپ کے وفا دار‘‘ کے عنوان سے اداریہ لکھا کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک میں ایک متوازی حکومت قائم ہے جوموجودہ حکومت کو بدنام کرنے کے لیے اس طرح کے نوٹس جاری کرتی ہے ۔پھر ہم سب اندر ہو گئے۔اس سے اندازہ کیجیے کہ ایک ماہنامہ نے کس طرح ایک حکومت کو ہلا کر رکھ دیا گیا۔
ہم جیل کی انہی کوٹھڑیوں میں رہے جہاں بھٹو رہ چکے تھے۔
یہ 72ء کی بات ہے ہم نے ڈائجسٹ کے چار شماروں میں ’سقوط ڈھاکہ سے پردہ اٹھتا ہے‘ کے عنوان سے ایک مضمون قسطوں میں شائع کیا۔اسکی وجہ سے ہمیں ڈی پی آر کے تحت پکڑ لیا گیا۔ ہم دو بھائی (میں اور الطاف حسن قریشی)،مجیب الرحمان شامی،مظفر قاضی(ان کا کوئی اور مسئلہ تھا) اور حسین نقی قید ہوئے۔ہم انہی کوٹھریوں میں رکھے گئے جہاں بھٹو صاحب کو رکھا گیا۔ پھر مجھے اٹک جیل ،الطاف کو جھنگ جیل جبکہ شامی صاحب کو سیالکوٹ اور مظفرقاضی کو ملتان بھیجا گیا۔ حسین نقی کو بھی سیالکوٹ جیل بھیجا گیا۔
مجید نظامی صاحب نے کہا ’’بھائی! ہم توجیل نہیں جا سکتے‘‘
ہم نے پوچھا کہ ابتلاء کی اس گھڑی میں دائیں بازو کی اس زمانے کی توانا آواز یعنی نوائے وقت نے آپ کی رہائی کے لیے کچھ کیا تو معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگے ’’ کیا بات چھیڑ دی ہے آپ نے ۔ ایک دفعہ جب ہم جیل میں گئے تو اس وقت مجید نظامی صاحب سی پی این ای کے صدر تھے۔ان کی بھٹو سے ملاقات ہوئی توانہوں نے بھٹو سے صحافیوں کی گرفتاری سے متعلق پوچھا۔بھٹو صاحب نے جواب دیا کہ کیا آپ کو پتہ ہے کہ انہوں نے میرے خلاف کیا لکھا ہے؟خیر جب ہم رہا ہو کر آئے تو ہماری ملاقات مجید نظامی صاحب کے ساتھ ہوئی ۔ملاقات کے دوران انہوں نے کہا کہ بھائی! ہم توجیل نہیں جا سکتے۔‘‘
پاکستان کا قیام مشیت ایزدی تھی ۔
سوال یہ تھا کہ قائد اعظم اور ان کے ساتھی کیسا پاکستان چاہتے تھے۔آج کل یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان کے ذہن میں مسلمانوں کو معاشی تحفظ دینا تھا۔ اس پر وہ بھڑک کر بولے’’میں سمجھتا ہوں جو لوگ ایسی بات کرتے ہیں وہ جاہل ہیں۔ پاکستان کا بننا اللہ تعالیٰ کی مشیت تھی۔میں نے نواب زادہ لیاقت علی خان کے حلقہ نیابت میں اس وقت کام کیا جب ہم علی گڑھ میں پڑھتے تھے۔ پھرمیں وہاں سے سندھ گیا۔اس وقت عوام کا یہی نعرہ تھا کہ ’پاکستان کا مطلب کیا لاالہ اللہ‘ ۔ ہمارے لیڈران کا کردارالبتہ اس کے خلاف تھا۔مسلم لیگ کی اس وقت کی قیادت کو کئی مرتبہ عوامی دباؤ پر یہ مجبوراً یہ نعرہ لگانا پڑالیکن اللہ تعالیٰ کو عوام کا لگایا ہوایہ نعرہ منظور تھا۔
پاکستان تو اس وقت بنا جب قائداعظم بھی پیچھے ہٹ گئے تھے
میں تو یہ کہتا ہوں کہ پاکستان اس وقت بنا جب قائداعظم بھی پاکستان کے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئے تھے اور اس وقت جو مشن پلان آیا تھا اس کے تحت ہندوستان کے تین حصے کیے گئے تھے۔انگریزوں کے اس وقت کے اٹارنی جنرل نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ پلان پہلے کانگریس نے تسلیم کر لیا تھااور قائداعظم نے بھی کہا تھا کہ وہ اپنی ورکنگ کونسل سے مشورہ کر کے بتائیں گے۔ جب مسلم لیگ نے ہاں کر دی تو کانگریس والے یہ سوچ کر کہ دال میں کچھ کالا کالا ہے ،مُکر گئے ۔ پٹیل نے کہا کہ انہیں پاکستان دے کر ان سے جان چھڑاؤ۔ مطلب یہ کہ قائداعظم ’’اے بی سی‘‘ والی یہ تقسیم ماننے پر تیار ہو گئے تھے لیکن اللہ تعالی کو منظور تھا کہ پاکستان بنے گا، چنانچہ وہ بن گیا۔
قائداعظم کا یہ کہنا کہ میری جیب میں یہ کھوٹے سکے ہیں، درست تھا۔
قیام پاکستان کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کے لیے ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی نے قرآنی آیات کا سہارا لیا اور کہنے لگے ’’ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مختلف علوم کے ساتھ ساتھ سابق اقوام کی تاریخ بھی بیان کی ہے۔ قرآن میں بنی اسرائیل کا واقعہ تفصیل سے ہے ۔ بنی اسرائیل ایمان و عقیدے کے اعتبار سے بہت کمزور تھے۔ان کو آزاد کرانے کے لیے دو انبیاء مبعوث کیے گئے۔ بنی اسرائیل کے خلاف اللہ تعالیٰ نے جو چارج شیٹ بنائی ہے وہ پڑھیں اور دیکھیں کہ ان کی حالت کتنی بدتر تھی ۔ان کا رویہ انبیاء کے ساتھ بہت ہی نامناسب تھا۔اسی طرح پاکستان اللہ تعالیٰ نے بنانا تھا جس کے لیے ایک شخص منتخب کیا گیا جس کا نام تھا محمد علی جناح اور ہندوؤں وغیرہ کی سازشوں کے باوجود یہ ملک بن گیا ۔ قائداعظم کا یہ کہنا کہ میری جیب میں یہ کھوٹے سکے ہیں ،درست تھا۔ میں نے ان کے ساتھیوں اور نمائندوں کا کردار بہت قریب سے دیکھا ہے اور آج جو کچھ نظر آ رہا ہے یہ انہی کھوٹے سکوں کی کارستانیوں کا نتیجہ ہے۔
قائداعظم کے بارے میں سوچ بھی نہیںسکتا کہ وہ منافق تھے
دیکھئے قائداعظم کے بارے میں میں کبھی بھی یہ نہیں سوچ سکتا کہ وہ منافق تھے لیکن باقی سارے منافق تھے(قطعیت کے ساتھ)۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ عوام کا کیا مطالبہ تھا ، وہ کیوں ان کے ساتھ ہوئے تھے۔ کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ معاش کا مسئلہ تھا۔اس وقت قائداعظم نے پاکستان کا نقشہ تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی جس میں مولانا مودودی بھی شامل تھے۔ میں نے قائداعظم کی بہت سی تقاریر سنی اور پڑھی ہیں۔ انہوں نے ایسا کبھی نہیں کہا(کہ پاکستان مسلمانوں کی معاشی حالت کی بہتری کے لیے بنایا گیا ہے)۔ 46ء کے الیکشن میں مینڈیٹ ’’پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ‘‘ ہی کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا۔
مولانا مودودی پر قیام ِپاکستان کی مخالفت کا الزام وہی لوگ لگاتے ہیں جنہوں نے ان کی کتابیں نہیں پڑھیں۔
ان کے بارے میں پھیلائی گئی یہ کہانی بالکل غلط ہے کہ وہ پاکستان کے مخالف تھے۔ مولانا مودودی نے جو کہا وہ سب لکھا ہوا ہے ۔ان کی کتاب’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ پڑھنی چاہیے۔افسوس یہ ہے کہ لوگ مولانا مودودی کی کتابیں پڑھے بغیر ان پر تنقید کرتے ہیں۔میں جب پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے کا طالبعلم تھا تو وہاں ڈاکٹر حمید الدین میرے استاد تھے ۔ہم برطانوی ہند کا عہد پڑھ رہے تھے تو انہوں نے مولانا مودودی پر اعتراضات کرنے شروع کر دیے۔ میں خاموشی سے سنتا رہا ۔ جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے ان سے درخواست کی کہ میں آپ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے مولانا مودودی کی لکھی ہوئی کوئی بھی کتاب پڑھی ہے؟کہنے لگے نہیں۔ میں نے کہا کہ آپ ہمیں ایم اے کی سطح پر پڑھا رہے ہیں مگر آپ نے مولانا مودودی کو نہیں پڑھا۔ ہمارا یہی المیہ ہے ۔
اردو میں مولانا مودودی جیسا انشاء پرداز نہیں ہوا۔
مولانا مودودی کی خاص بات کیا تھی۔ انہیں کیوں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ؟ اس پر قدرے جذباتی ہو کر کہنے لگے ’’اردو میں ان کی طرح کا انشاء پرداز نہیں ہوا۔ میں یورپ میں پچاس کی دہائی میں گیا تھا ۔ اس سے پہلے میں نے یورپ کے بارے میں مولانا مودودی کی بہت سی تحریریں پڑھ رکھی تھیں، وہاں جا کر دیکھا تو وہ معلومات بالکل درست تھیں۔ انہوں نے پیرس کا جو حال لکھا ہوبہو ویسا ہی تھا۔ مولانا مودودی نے جو بھی بات کی دلیل کے ساتھ کی اور ایسی زبان میں کی جو آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ ان کی نثر کا ایک ایک لفظ ایسا ہے جسے آپ ہلا نہیں سکتے۔مولانا امین احسن اصلاحی ڈاکٹر اعجاز حسن کے پڑوسی تھے ۔ ان کی بابت پوچھا تو کہنے لگے ’’وہ ایک بڑے عالم دین تھے لیکن ان میں اپنے راجپوت ہونے کا بہت احساس تھا۔ وہ داعی نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ داعی کاکام سب کو اکٹھا کرنا ہوتا ہے ۔ یہی مولانا مودودی کی بھی کمزوری تھی۔
جماعت اسلامی متوسط لوگوں کی جماعت ہے ، اوپر کے طبقے کا آدمی اس میں فٹ نہیں ہو پاتا۔
جماعت اسلامی میں اب وہ پہلے والی بات نہیں رہی ۔ اس زوال کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟’’ میرا تأثر یہ ہے کہ جماعت اسلامی درمیانے طبقے کی جماعت ہے۔جو شخص اوپر کے طبقے کا یہاں آتا ہے وہ ان میں فٹ نہیں ہو پاتا۔دوسرے یہ کہ ان کے عہدے داران جماعت کے معاوضہ پر کارکن ہیں۔ ان کی اپنی زندگی میں کوئی ایسی کنٹریبیوشن نہیں ہے جس کی بنیاد پر قوم انہیں لیڈر سمجھے۔‘‘
کنٹری بیوشن کی مراد پوچھی تو کہنے لگے ’’دیکھئے عمران خان کیوں لیڈر بنا ؟ اس کے پاس ٹائٹل تھا ۔قائداعظم اس لیے لیڈر تھے کہ وہ مسلمانوں کے منجھے ہوئے وکیل تھے۔عام طور پر لیجنڈ ہی لیڈر بنتے ہیں۔ لیڈرو ں کے اعتبار سے جمنا کے اس پار کا خطہ زرخیزتھا۔وہاں جاگیردار اور وڈیرے نہیں تھے۔پنجاب کا علاقہ ذہنی لحاظ سے بہت پست تھا۔تعلیم کے لحاظ سے بھی یہ لوگ بہت پیچھے تھے۔ عوامی سطح پر کوئی بھی اچھا وکیل نہیں تھا۔اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ایک جج صاحب سے میری ملاقات ہوئی ۔ میں نے ان سے پوچھا کہ جب پہلا مارشل لاء لگا تو آپ کو اس کے نتیجے کا کوئی اندازہ نہیں تھا؟ انہوں نے جواب دیا اعجاز صاحب! ہمیں کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو پاکستان بننے کے بعد اپنے علاقوں کے تیسرے درجے کے وکیل تھے۔ اہل افراد کی کمی کے باعث یہ لوگ ان عہدوں پر پہنچ گئے جن کے وہ حقیقت میں اہل نہیں تھے۔
71ء میں ناپختہ ذہن کے حامل عوام کے جذبات کے ساتھ کھیلا گیا
الطاف قریشی صاحب کے مخالفین یہ بھی کہتے ہیں کہ ادھر ڈھاکہ میں فوجی آپریشن جاری تھا اور اِدھر آپ لوگ لکھ رہے تھے کہ وہاں کے لوگوں میں پاکستان کے لیے محبت کے جذبات جوش مار رہے ہیں؟’’جب محبت کے زمزے بہہ رہے تھے، اس کے اور کشت وخو ن کے درمیان پانچ چھ سال کا فرق تھا۔ انہوں نے اس عرصے میں سب کچھ بدل کر رکھ دیا تھا۔ ہمارے عوام اس وقت پختہ ذہن نہیں تھے ۔ آج بھی یہی المیہ ہے۔ بھٹو صاحب نے صاف کہا تھا کہ یہ قوم بے وقوف ہے۔’’میں روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگا کر آیا ہوں ، دینا کس نے ہے؟‘‘
70ء کے الیکشن ہندوستان مخالف فضاء بھٹو کے کام آئی۔
بھٹو صاحب 70ء کی دہائی میں سیاسی افق پر نمایاں ہو کر ابھرے اور چھا گئے۔ ان کی شخصیت کے اس سحر کی کیا وجہ تھی؟’’دیکھئے یہ وہ دور تھا جب ہماری قوم پہلی مرتبہ انتخابات میں جا رہی تھی۔ اس سے پہلے 46ء میں انتخابات ہوئے تھے جن میں ووٹ دینے کے لیے خاص قسم کی پابندیاں تھیں اس لیے بہت کم لوگ ووٹ دے پاتے تھے۔ بھٹو جب آئے تو پہلی بار ملکی سطح پر انتخابات ہو رہے تھے۔ وہ اس سے قبل وزیر خارجہ رہ چکے تھے۔ انہوں نے ہندوستان کے خلاف ایک فضاء بنا دی تھی جو اِن کے کام آگئی۔یہ بات بھی ظاہر ہے کہ وہ ایک اچھے مقرر بھی تھے۔ انہیں بولتے ہوئے یہ احساس بھی نہیں ہوتا تھا کہ جو وہ بول رہے ہیں اس کاانہیں جواب بھی دینا ہو گا۔لوگوںکی پگڑی اچھالنا ان کی عادت تھی ۔
ہم بھٹو کے نہیں ان کی پالیسیوں کے مخالف تھے۔
آپ بھٹو صاحب کے مخالف تھے؟ اس اچانک سوال پر وہ بولے’’نہیں ہم ان کی پالیسیوں کے مخالف تھے۔ شریف برادران سے ہم اس لیے محبت کرتے تھے کہ یہ پیپلز پارٹی کے حق میں نہیں ہیں لیکن جب ہم نے ان کے لچھن دیکھے تو ان سے بھی دل بھر گیا۔ میں نے تو انہیں ووٹ بھی نہیں دیا۔وہ چیز اب سامنے آ رہی ہے جس کی وجہ سے میں نے انہیں ووٹ نہیں دیا تھا۔میں ایک عرصہ تک عمران خان کو اچھا سمجھتا تھا لیکن اب میرا خیال ہے اس میں لیڈرشپ کی صلاحیت نہیں ہیں۔
(انٹرویو کا 54 واں منٹ تھا کہ انہوں نے سامنے پڑی چائے کی جانب التفات کیا جو اب شربت بن چکی تھی۔)
ہم جہاد افغانستان میں روس کے خلاف نہ لڑتے تو وہ پاکستان پر قابض ہو جاتا۔
جہاد افغانستان کو آپ نے بہت پرجوش انداز میں سپورٹ کیا یہ غلطی نہیں تھی؟نہیں اصل بات یہ تھی کہ ہم روس کے خلاف لڑ رہے تھے۔روس ایک نظریاتی ریاست تھی جو سوشلزم کی پرچارک تھی۔ روس اگر وہاں کامیاب ہو جاتا تو پاکستان پر بھی قبضہ کر لیتا۔جس طرح وہ اور ریاستوں پر قابض ہوا تھا۔ اس دور کا ایک واقعہ سنیے۔ اس وقت برطانوی سفارت خانے میں رابرٹ نام کے ایک آدمی ہوا کرتے تھے۔یہ وہ دن تھے جب ہم افغانستان کے بارے میں لکھ رہے تھے۔وہ مجھے سے وقت لے کر یہاں آئے ۔ ان صاحب کے ساتھ اس وقت کے ان کے پبلک ریلشننگ آفیسر بھی بیٹھے ہوئے تھے، میں ان کا نام بھول رہا ہوں۔ انہوں نے پہلا سوال کیا کہ مسٹر قریشی! کیا آپ سمجھتے ہیں کہ روس افغانستان سے بھاگ جائے گا؟ میں نے کہا جی ہاں! جس ذلت کے ساتھ امریکا ویت نام سے نکلا تھا ، روس اس سے زیادہ ذلیل ہو کر نکلے گا۔ انہوں نے پلٹ کر پوچھا کہ ایسا کیسے ممکن ہو گا؟ روس ایک ناقابل تسخیر قوت ہے ۔ میں نے کہا تمہارے لیے ہوگی ہمارے لیے نہیں ۔اس لیے کہ تم جینا چاہتے ہو اور ہم مرنا چاہتے ہیں۔
جہاد افغانستان کی مکمل منصوبہ بندی نہ کی گئی اس لیے دہشت گردی عام ہوئی۔
تسلیم، پاکستان تو بچ گیا مگر یہ جو عسکریت پسندی ملک کے طول وعرض میں پھیلی ہوئی ہے کیا یہ اسی ایڈونچر کی کوکھ سے نہیں پھوٹی؟یہ اسی کا نتیجہ ہے جو قائد اعظم نے کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں ۔ یہ انہی کھوٹے سکوں کی مہربانی ہے۔ جہاد افغانستان کی منصوبہ بندی کی ضرورت تھی۔ آپ جن لوگوں کو عسکری تربیت دیکر وہاں بھیج رہے تھے ،ان کے مستقبل کے بارے میں بھی لائحہ عمل طے کرنا چاہیے تھا۔انہیں بعد میں اسی طرح چھوڑ دینا غلطی تھی۔ اب یہ را کے ایجنٹوں کی باتیں چل رہی ہیں مگر یہ حکمران خاموش ہیں۔ یہی وہ کھوٹے سکے ہیں جن میں اپنے مستقبل میں جھانکنے اور اس کے بارے میں سوچنے کی جرأت بھی نہیں۔
ہمارے رہنماؤں میں دانش کا فقدان ہے۔
ماضی کی نسبت اب دائیں بازو کے لوگ بہت کمزور نظر آتے ہیں ۔ وجہ کیا ہے ؟یہ ہماری لیڈر شپ کا کام تھا۔ تعلیمی اداروں کے منتظمین کی ذمہ داری تھی کہ وہ یونینز کو اپنا کام کرنے دیتے ، انہیں چاہیے تھا کہ وہ دائیں بازو کو مضبوط بناتے لیکن انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ اب ہٹلر کو دیکھئے ، اس نے اپنے ملک اور قوم کیلئے کتنے کام کیے ہیں۔اس نے اپنی قوم کو یہ تصور دیا کہ تم دنیا کی سب سے بہترین قوم ہو۔ دوسری جنگ عظیم کا کوئی بھی معائدہ نہیں ہوا۔آخری میٹنگ جو کاسا بلانکا میں ہوئی اس میں چرچل بھی تھے۔اس وقت فرانسیسی جرمنی کیساتھ وہی سلوک کرنا چاہتے تھے جو انہوں نے 1919ئمیں عہد نامہ ورسائی کے تحت کیا تھا۔اس وقت ہٹلر نے کہا نہیں اب ہمارا دشمن روس ہے ۔ روس کو یورپ میں روکنے والا سوائے جرمنی کے کوئی نہیں ہے۔ یہ ہوتی ہے وزڈم ۔ ہمارے یہاں وزڈم نہیں ہے ۔ اتنا بڑا دشمن ہمارے سامنے ہے جو بھی اس کے دل میں آتا ہے کرتا ہے ۔ اگر کوئی اس کیخلاف بات کرے تو اسے روک دیا جاتا ہے۔
جرمن اساتذہ طلباء کو انگلی پکڑ کر چلاتے تھے ۔
جرمن اساتذہ اپنے شاگردوں کو مقتداء تھے۔ وہ اپنے شاگردوں کو سکھانے کے جذبے سے سرشار ہوتے تھے۔ وہ انہیں انگلی پکڑ کر چلاتے تھے۔ میں ایک مرتبہ اپنے پروفیسر کے پاس گیا ان کے سامنے ایک متن اور اس کا ترجمہ پیش کیا اور کہا اب بتائیے کون سا صحیح ہے؟ میرا دعوی یہ تھا کہ یہ ترجمہ جان بوجھ کر اپنے مقصد کے لیے توڑ مڑور کر کیا گیا ہے ۔ وہ ترجمہ کرنے والے صاحب میرے پروفیسر کے استاد تھے ، ان کا نام وِِِل ہاؤزن تھے۔ میرے پروفیسر نے بغیر کسی تعصب کہ میری بات کو درست قرار دیا ، یہ ان کا کمال تھا۔جب میں نے اپنا مقالہ جمع کرایا تو انہوں نے کہا کہ غلطیوں کی اصلاح کرتے جانا ورنہ ڈگری نہیں ملے گی۔ ان کی محنت کا یہ عالم تھا۔
مستشرقین نے استعماری عزائم کی تکمیل کیلئے لٹریچر تیار کیا۔
’’بات یہ ہے کہ جب یہ لوگ نوآبادیاں قائم کرنے نکلے تو ان کا سابقہ مسلمانوںسے پڑا۔جب ہندوستان میں یہ لوگ آئے تو بھی مسلمانوں ہی کی جانب سے مخالفت میں شدت دیکھی گئی۔ کوئی ایسی تحریک نہیں جو ہندؤں نے ان کے خلاف چلائی ۔‘‘ میں نے تحریک خلافت و ترک موالات کا نام لیا تو کہنے لگے ’’ دیکھیے گاندھی کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔گاندھی نے اپنی کمزورقوم کو ذہنی اعتبار سے اٹھانا تھا۔اس کی ہمیشہ کوشش یہ تھی کہ کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا رہے جسے وہ قوم کو متحرک کرنے کے لیے استعمال کرے ۔اس لیے یہ سمجھنا چاہئے کی استعماری عزائم والی قوموں کا سابقہ صرف مسلمانوں ہی سے پڑا ہے جو آخر دم تک مزاحمت کرتے رہے۔ استعماری عزائم رکھنے والی قوموں کے اہل فکر نے مسلمانوں کی اس درجہ ردعمل کے اسباب جاننے چاہے تو ان کے سامنے دو اسباب آئے ۔ ایک مسلمانوں کی رسول ﷺ سے بے پناہ محبت اور دوسری چیز ان کا فلسفہ جہاد۔ انہوں نے اپنی توسیع پسندی کا جواز قائم کرنے کیلئے من پسند ترجمے کیے اور تاریخی واقعات تراشے۔ انہوں نے مسلمانوں کا حضور ﷺ سے رشتہ کمزور کرنے کیلئے عجیب و غریب باتیں گھڑی ہیں۔
مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں۔
مسلمانوں کو استشراق کے مقابلے میں کیا کرنا چاہے؟پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم اپنے دین کو درست طریقے سے سمجھے ہی نہیں۔ہمارے خدا نے جو بھی قرآن میں فرمایا ہے وہ شک سے بالا تر ہے۔ مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں۔
قید کے دوران تفسیر ’ترجمان القرآن ‘سبقاً سبقاً پڑھی۔
میرا جیسے پاکستان کے بارے میں ایمان ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے بنا یہی میرا اردو کے بارے میںموقف ہے۔ اردو اور عربی کے اسی فی صد الفاظ مشترک ہیں۔ آپ کو عربی نہ بھی آتی ہو تب بھی آپ الحمد شریف سمجھ سکتے ہیں۔ اسی طرح آپ عربی کے بیشتر الفاظ اردو میں استعمال کر سکتے ہیں ۔ دینی لٹریچر جتنا اردو میں شائع ہوا اتنا شاید عربی میں نہیں ہوا۔مجھ پر بھٹو صاحب کا یہ بہت بڑا احسان ہے(مسکراتے ہوئے) کہ جیل میں ڈال دیا اور اس زمانے میں مولانا مودودی کی تفسیر ’’ترجمان القرآن‘‘ میں نے سبقاً سبقا پڑھی۔جو اردو میں تفسیر پڑھنا چاہتا ہے وہ ترجمان القرآن پڑے۔ اس تفسیر میںکیا کمال کی اردو زبان استعمال کی گئی ہے۔
یہ اردو کا کمال ہے کہ ہم دنیا کی ہر زبان کا تلفظ کر سکتے ہیں۔
میں جب جرمنی گیا تو وہاں جرمن زبان کی کلاسیں لینے لگا۔ ہماری استانی ہم سے متن پڑھوایا کرتی تھی۔ دیگر ملکوں کے طلباء کسی نہ کسی لفظ پر اٹک جاتے تھے مگر میں بالکل بھی نہیں اٹکتا تھا۔ انہوں نے مجھ سے اس کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا کہ یہ میری زبان اردو کا کمال ہے کہ ہم دنیا کی ہر زبان کا تلفظ کر سکتے ہیں۔اس زبان کے بڑے دو ماخذ عربی اور فارسی ہیں ، ہندی اور سنسکرت کے الفاظ بھی اس زبان میں شامل ہیں۔ ہماری قیادت نہیں چاہتی کہ اردو نافذ نہ ہو۔ جب تک زبان ہماری اپنی نہیں ہو گی ہم آزاد نہیں ہوں گے۔ یہ رومن لکھنا تو بہت بڑا ظلم ہے ۔
ہندوستان کی بد عہدی ایک طویل داستان ہے۔
دیکھئے ہمیںحکومتی سطح پر بھارت سے دشمنی نہیں مول لینی چاہیے لیکن ہمیں ان کی ذہنیت کا بھرپور ادراک رکھنا چاہیے ۔ غور کیجیے محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کیوں کیے۔ وجہ یہ تھی کہ یہاں کئی ریاستیں تھیں جو آپس میں لڑتی تھی۔ کمزور ریاستیں اسے مدد کے لیے بلاتی تھیں ۔وہ آتا تھا اور کوئی معائدہ کر کے واپس چلا جاتا تھا۔ وہ دو تین سال عہد کی پاسداری کے بعد پھر بد عہدی کردیتے تو وہ دوبارہ آ جاتا تھا۔اس کا مقصد یہاں حکومت کرنا ہر گز نہیں تھا۔آخری حملہ جب سومنات پر کیا تو مقامی باشندوں نے کہا کہ ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ مخبر نے بتایا کہ انہوں نے دولت بتوں میں چھپائی ہوئی ہے۔ اس طرح وہ بت شکن بنا اور ساری دولت لے گیا اور جاتے ہوئے قطب الدین ایبک کو وہ اپنا گورنر بنا کر گیا جو بعد میں ہندوستان کے پہلے مسلمان سلطان بنے ۔ ہندوستان کی بد عہدی کی ایک طویل داستان ہے۔ بھارت نے قائداعظم کے ساتھ جتنے بھی عہد کیے،پورے نہیں کیے ۔اس لیے ان کو سمجھنا ضروری ہے۔
ہماری قیادت بونے لوگوں پر مشتمل ہے۔
بنگلہ دیش میں71ء میں پاکستان کی حمایت کرنے والوں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں لیکن حکومت خاموش ہے ۔آپ کیا کہتے ہیں؟ہماری قیادت اپنے مفادات کے حوالے سے بھی باشعور نہیں ہے۔یہ لوگ بالکل بھی اہل نہیں بلکہ یہ تو بونے لوگ ہیں۔ مجھے اب توان سے چڑ سی آنے لگی ہے۔ میں یہ (مطیع الرحمن کی پھانسی کی) خبر پڑھ کر رویا تھا۔ترکی کے علاوہ پورے عالم اسلام سے کوئی بھی ان انتقامی پھانسیوں پر نہیں بولا۔ہمارے صحافیوں کو چاہیے ان کے بارے میں کچھ لکھیں۔
ہماری ترجیح یہ رہی ہے کہ ہم لوگوں کو زبان کی اہمیت سکھائیں۔
اردو ڈائجسٹ کا ادارہ صحافت کی نرسری رہا لیکن لوگ یہاں سے چلے کیوں جاتے ہیں؟ہم ایک ماہنامہ چلاتے ہیںاور ہر اچھے صحافی کو ایک وسیع میدان چاہیے ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے ایک ماہنامہ اس قدر وسیع میدان فراہم نہیں کر سکتا۔اس لیے ہم یہ چاہتے تھے کہ ہمارے ہاں لوگ آئیں ، یہاں سے سیکھیں اور پھر اسے آگے جا کر استعمال کریں۔بڑے اخبارات میں ان کو کھل کھیلنے کا زیادہ موقع ملتا ہے ۔ ہماری ترجیح یہ رہی ہے کہ ہم لوگوں کو زبان کی اہمیت سکھائیں اور وہ اچھی زبان لکھیں۔دوسرے ہم کیمونزم کے سخت خلاف تھے۔ تیسرے ہمارا خیال یہ تھا کہ مولوی نظام نے انسانیت کو سوائے نقصان کے کچھ نہیں دیا ۔ ہم اسلام کے نظام حیات پر یقین رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہی وہ نظام ہے جو انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے آیا ہے۔اس ماہنامے سے ہمارا مقصد پیسے کمانا نہیں تھا۔آپ کے ماہنامے کا ذکر چلے تو پہلے الطاف حسن قریشی کا نام آتا ہے ۔آپ خود کیوں نہیں لکھتے؟’’دیکھئے بھائی! ہم نے تقسیم کار کی ہوئی تھی کہ وہ لکھیں گے اور ہم لکھوائیں گے۔میں انہیں فیڈ کروں گا۔ یہی وجہ ان کے اکثر مضامین ہم نے ہی فیڈ کیے ہیں۔ ‘‘
ایک تسلسل کے آزادی نمبر ، دفاع نمبر نکالنے کے پیچھے کیا سوچ کار فرما ہے؟ہمارے ذہن میں یہی تھا کہ ہم اپنی قوم کو احساس کہتری سے نکالیں۔ یہ آزادی بڑی چیز ہے اس کا احساس کریں ۔ عام آدمی کو آزادی کا کچھ پتہ نہیں۔ ہم سے پوچھو ہم غلام پیدا ہوئے۔ ہمیں آزادی کی بہت قدر ہے ۔
شبلی کی’’ الفاروق‘‘ لاجواب کتاب ہے۔
اپنی مطالعاتی دلچسپیوں کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’’مجھے تاریخ میں بہت دلچسپی ہے اور خاص طور پر یورپ کی تاریخ سے ۔دوسرے میں نے مولانا مودودی کو تفصیل سے پڑھا ہے اور اس زمانے کے اور بھی جو لکھنے والے تھے ان سب کو پڑھا ہے۔پسندیدہ کتاب کا پوچھا تو جھٹ سے شبلی نعمانی کی ’’الفاروق‘‘ کا نام لیا۔’’آپ اسے پڑھ کر تو دیکھیں(جذباتی انداز میں کہا)۔ وہ جنگ کے حالات اس طرح لکھتے ہیں گویا کہ آپ بیٹھے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے حضرت عمرؓ کے نظام مملکت پر جو کچھ لکھا ہے اس کاجواب نہیں ۔‘‘
ملاقات کی آخری ساعتوں میں معاصر کالم نگاروں کے بارے میں ان کی رائے جاننی چاہی تو بولے ’’بعض کالمسٹ تو محنت کرتے ہیں۔مجھے جاوید چوہدری پسند ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے وہ اپنا کالم کسی دلچسپ واقعے سے شروع کرتا ہے اور یہی اردو ڈائجسٹ کا انداز ہے۔ہارون رشید یہیں سے ہو کر گئے ہیں ان کے ہاں فلسفہ زیادہ ہوتا ہے جو عام آدمی کی توجہ حاصل نہیں کر پاتا۔
بھٹو صاحب نے کہا: ’’یہ بے وقوف قوم ہے ، اسے جو چاہے کہہ دو‘‘
ہمارے ایک عزیز ہیں جو بھٹو کے دور میں لاڑکا نہ میں ڈی سی تھے۔جب بھٹو صاحب لاڑکانہ جاتے تو سب انتظامی افسران سے ملتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جب بھٹو صاحب میرے پاس آئے تو میں نے کہا کہ بھٹو صاحب! آپ جو روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر آئے ہیں۔ یہ سب کہاں سے دیں گے؟ آپ کے وسائل کیا ہیں؟ تو بھٹو صاحب نے کہا کہ یہ بے وقوف قوم ہے ، اسے جو چاہے کہہ دو۔
مولانا مودودی سے دو غلطیاں ہوئیں مگر انہیں قیام پاکستان کا مخالف کہنا غلط ہے
میں جماعت اسلامی میں رہا ہوں۔ وہ اچھے اور دیانتدار لوگ ہیں لیکن مولانا مودودی سے سیاست میں دو غلطیاں ہوئیں۔ ایک یہ کہ وہ دین کے داعی تھے لیکن انہوں نے ایک تاریخ دان کا کردار اختیار کر لیا اور ’’خلافت وملوکیت‘‘ لکھی حالانکہ داعی کا کام لوگوں کو اکٹھا کرنا ہوتا ہے ۔دوسرے یہ کہ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے ترجمان القرآن کے تین شماروں میں پاکستان بنانے میں قائداعظم کی حکمت عملی پر شدید تنقید کی تھی (یہ غالباً اڑتالیس کی بات ہے)۔اس سے پہلے مولانا مودودی ریڈیو پر تقریریں کرتے تھے۔’’اسلام کا نظام حیات‘‘ نامی کتاب ان کی نشری تقریریں ہیں ۔جب انہوں نے قائداعظم پر تنقید کی تو لوگ ان کے خلاف ہو گئے۔ نوائے وقت نے اس وقت خوب تعصب کا مظاہرہ کیا۔میری سمجھ میں نہیں آیا کہ انہوں نے ایک غیر پنجابی (یعنی قائداعظم) کو قبول کیسے کر لیا تھا حالانکہ کوئی بھی غیر پنجابی ایسا نہیں جس کی انہوں نے مخالفت نہ کی ہو۔لیاقت علی خان کا کیا حال کیا انہوں نے؟ یہ حقائق ہیں۔ انہوں نے پنجابی ہونے کے ناطے مودودی صاحب کے خلاف بھرپور مہم چلائی۔ مولانا مودودی کا جواب موجود ہے اسے پڑھنا چاہیے۔ملک نصر اللہ عزیز صاحب اس اجلاس میں شریک ہو کر آئے جس میں یہ مسئلہ زیر بحث تھا ۔ اس وقت مولانا اختر علی خان نے کہا کہ ملک صاحب! آپ ہی بتائیے کی مودودی صاحب نے یہ لکھ کر قوم یا اسلام کی کتنی خدمت کی ہے ۔یہ بات ہمیں ملک نصراللہ عزیز صاحب نے بتائی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مولانا مودودی کی غلطی تھی لیکن یہ کہنا کہ یہ پاکستان کے قیام کی مخالفت تھی ، میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ ان کی بات پڑھے بغیر یہ کہنا درست نہیں ۔ میں نے مولانا مودودی کا سارا لٹریچر حرفاً حرفاً بلکہ سبقاً سبقاًپڑھا ہے مگر مجھے اس میں ایسی کوئی بات نہیں ملی بلکہ مسلمانوں کے علیحدہ قوم ہونے کے جو دلائل انہوں نے دیے ہیں وہ مسلم لیگ نہیں دے سکی تھی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ انہی کے مضامین کو پھیلاتی تھی۔
شریف خاندان کی کاروباری ترقی فوج کی وجہ سے ہے
میاں نواز شریف آرمی کے ذریعے آئے تھے ۔ میں اس وقت ان کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا جب جنرل جیلانی نے فون کر کے ان سے پوچھا تھاکہ آپ کے پاس شیروانی ہے یا نہیں ؟یہ سب مفادات کا چکر ہے۔ ان کے والد صاحب اتنے بڑے کاروباری بنے، اس کی وجہ بھی فوج تھی۔اس زمانے میں باہر سے سپیئر پارٹس نہیں ملتے تھے۔ان کے والد صاحب وہ سپیئر پارٹس فینسی پرائس پر لا کر دیتے تھے ۔ہمیں تو اس ساری کہانی کا علم ہے ۔ میں توابھی چند دن پہلے میاں نواز شریف کی اسمبلی میں بیان کردہ کتھا سن کر ہنس رہا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ان کی بی ایم ڈبلیو گاڑیاں آئیں، جن پر ڈیوٹی زیادہ تھی۔ فوری طور پر ایک ایس آر او جاری ہوا اور ڈیوٹی کم کر دی گئی ۔جب ان کی گاڑیاں کلیئر ہو گئیں تو فوراً ہی وہ ایس آراو معطل کر دیا گیا۔ وہ ساری گاڑیاں فوجیوں کو انہوں نے رشوت میں دی تھیں۔ ایک جرنیل (جنرل آصف نوازجنجوعہ ) نے ان کی گاڑی قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
جرمن استاد پروفیسر رابرٹ کی تین یادگار نصیحتیں
جب میں جرمنی پی ایچ ڈی کے لیے گیا تو میرے پروفیسر نے مجھے شروع ہی میں تین باتیں بتائی تھیں۔(ان کا نام پاریٹ تھا۔ 57ء میں وہ پاکستان بھی آئے تھے) پہلی بات یہ تھی کہ اس موضوع پر پہلے جو بھی آپ نے پڑھا ہے اس پر اعتماد نہ کریں اور براہ راست مآخذ سے استفادہ کیجیے۔ دوسرے یہ کہ آپ کی تحریر میں کوئی لفظ ، کوئی جملہ ایسا نہ ہو کہ اسے نکال دیا جائے تو بھی بات پوری ہو۔ تیسرے یہ کہ آپ کا قاری ایک عام آدمی ہے۔اس کے ذہن میں جو سوالات پیدا ہوتے ہیں ، انہیں سمجھئے اور اس کا جواب دیجیے۔
قیام پاکستان کے ساتھ ہی دینی مدارس کو ختم ہو جانا چاہیے تھا
ہمارے تعلیمی نظام پر سب سے بڑا ظلم تو یہ دینی مدارس ہیں۔ یہ بے کار نظام ہے۔ دہشت گردی ایسے ختم نہیں ہو گی۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ آپ اسلام کے خلاف چلتے ہیں۔ پھر ان میں ایک بڑا انتقامی جذبہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ اسکولوں کے بچوں کو پڑھ لکھ کر ڈاکٹر انجینئر بنتے دیکھتے ہیں اور یہ بے چارے مسجد کے امام کے علاوہ کچھ نہیں بن پاتے۔ ایسے لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہیں۔ مدارس کے نظام کی ایک تاریخ ہے اسے سمجھناچاہیے اور پاکستان بننے کی بعد ان مدارس کو ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ان کو عام رسمی نظام تعلیم کا حصہ بنا کر وہی سہولتیں دینی چاہییں تھی۔
آپ دیکھئے ترکی نے اس نظام کو ختم کیا۔ ترکی والوں کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے مدرسوں کو سرکاری تعلیمی نظام میںضم کر دیا۔جہاں ان کو مذہبی و عصری ہر طرح کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ مدارس دراصل انگریزوں کے خلاف جدو جہد کے دوران بنائے گئے تھے۔ اس جد وجہد کے رہنما مذہبی لوگ تھے اورمدارس ان کی پناہ گاہیں بھی تھیں لیکن اب تو ان کی ضرورت نہیں رہی ۔ نظام الملک والے نصاب کی تو آج کوئی حاجت نہیں ہے ۔ مدارس کو شروع ہی میں زور دینا چاہیے تھا کہ وہ سارے نظام تعلیم کو اسلامی بناتے ، دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر علوم کی تحصیل کی جانب بھی توجہ دی جانی چاہیے تھی۔ میری رائے یہ ہے کہ دینی مدارس کو عصری تقاضوں کے مطابق جدت کی جانب لایا جائے ۔ان کو تمام سہولتیں اورپیشہ وارانہ تربیت دیں تاکہ وہ معاشرے کا مفید حصہ بن جائیں۔