یہ غزہ (فلسطین) کا وسطی علاقہ ’مغازی‘ ہے، جہاں ایناس نوفل اپنے شوز کے تسمے باندھ رہی ہے، اسے صبح کی دوڑ لگانی ہے۔ یہ پندرہ برس کی لڑکی غزہ کی پہلی اور واحد خاتون ایتھلیٹ ہے، ورنہ غزہ کے باقی لوگ اسرائیلی محاصرے کے سبب سانس بھی نہیں لے پاتے۔ جب ایناس نوفل سڑک پر دوڑ رہی ہوتی ہے تو لوگ اسے حیرانی سے دیکھتے ہیں۔ وہ کہتی ہے:’’ دوڑ میری زندگی ہے، سونے سے پہلے میں سوچتی ہوں کہ اگلی صبح میں نے کس روٹ پر دوڑ لگانی ہے۔‘‘
ایناس نوفل نے گزشتہ برس ہی سے اپنے مقامی کوچ سمیع نتیل البلد کے ساتھ دوڑنا شروع کیا ہے، لڑکی کے باپ محمود اپنی کار میں ان دونوں کا تعاقب کرتے ہیں، سبب یہ ہے کہ اگر انتظامیہ یا عام لوگوں میں سے کوئی ایناس کی راہ میں رکاوٹ ڈالے تو وہ اس سے نمٹ سکیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’بعض لوگ لڑکیوں کو دوڑ سے روکتے اور برابھلا کہتے ہیں، یہ بات مجھے افسردہ کردیتی ہے، تاہم میں اپنی اس کیفیت کو ایناس سے چھپانے کی کوشش کرتاہوں، میں اس کے خواب چھین کر اس کی حوصلہ شکنی نہیں کرناچاہتا ، مجھے امید ہے کہ وہ ہماری معاشرے کی عورتوں اور لڑکیوں سے متعلق سوچ کو تبدیل کرے گی۔ ‘‘
ایناس پر امید ہے کہ وہ بین الاقوامی مقابلوں میں فلسطین کے لئے بہت سے اعزازات جمع کرے گی، تاہم غزہ میں پروفیشنل ایتھلیٹس کے لئے سہولیات بہت محدود ہیں۔ ایک عشرے سے بھی کم وقت میں اسرائیل سے تین جنگوں نے انفراسٹرکچر کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیاہے،کھیلوں اور دیگرتفریحی سرگرمیوں کے لئے مواقع بہت کم ہیں۔ گزشتہ ماہ ایناس نوفل کو اس وقت شدید صدمہ ہوا جب اسے اور دیگردرجنوں فلسطینی ایتھلیٹس کو فلسطینی میراتھن( منعقدہ بیت اللحم) میں شرکت سے روک دیاگیا۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کو کس قدر سخت پابندیوںکا شکار اور ان کی نقل وحرکت کو محدود کررکھاہے۔
ایناس نوفل روزانہ دوڑتی ہے، بعض اوقات دن میں دو بار۔ اس کے لئے شوز اس کا کوچ خریدتاہے، غزہ میں ایتھلیٹس کے شوز کم ہی دستیاب ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس کے کوچ کو کہیں بھی ایسے شوز نظر آجائیں، وہ فوراً خریدلیتاہے۔ پروفیشنل ایتھلیٹ بننا خاصا مہنگا ثابت ہوتاہے، اس کے لئے سپانسر کی ضرورت ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں غزہ میں سپانسر بھی نہیں مل سکتا۔اسرائیلی جارحیت اور سخت پابندیوں نے اصحاب ثروت کو بھی خوشحال نہیں رہنے دیا۔
ایناس کے گھر میں ٹریڈمل( دوڑنے کی مشین) بھی موجود ہے، وہ ہفتے میں دوبار استعمال کرتی ہے۔ یہاں روزانہ 12گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے چنانچہ جب بجلی ہوتی ہے تو وہ یہ مشین استعمال کرپاتی ہے، بعض اوقات بجلی کا انتظار کرتے رات کے دس بج جاتے ہیں، بعض اوقات اس کی دوڑ کے دوران ہی بجلی آف ہوجاتی ہے۔
ایناس کے والد محمود اس کے سب سے بڑے سپورٹر ہیں۔مقامی مقابلوں میں اس لڑکی نے میڈلز اور ٹرافیاں جیتی ہیں، وہ ان کی بڑے شوق سے نمائش کرتے ہیں۔ایناس نوفل اور اس کی 20 سالہ بہن کی خواب گاہ ایک ہی ہے۔ اس کی چار بہنوں میں کوئی دوسری ایتھلیٹ نہیں ہے تاہم سب کی سب ایناس کو سپورٹ کرتی ہیں۔ ایناس کا کوچ 14 برس کا تھا جب اس نے بحیثیت ایتھلیٹ دنیابھرمیں مقابلوں میں شرکت شروع کردی تھی۔ آج کل وہ اپنا سارا وقت غزہ کے ٹین ایجرز کو ایتھلیٹ بنانے میں صرف کررہاہے۔اس کے شاگردوںمیں نادرالمصری بھی ہے جس نے فلسطینی میراتھن 2015ء جیتی تھی۔ ایناس نوفل سمندر کنارے ایک مچھیرے کی ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی میں’سٹ اپس‘ کرتی ہے۔
ایناس پہلے پہل ایک فٹ بال گراؤنڈ میں دوڑلگاتی تھی لیکن پھر اسے یہ گراؤنڈ چھوٹا محسوس ہوا چنانچہ اب وہ سڑک پر دوڑ لگاتی ہے۔ غزہ مجموعی طورپر 365 مربع کلومیٹر رقبہ پر محیط ہے چنانچہ اس کی سڑکوں پر دور کے لئے روٹ بنانا مشکل ہوتاہے ۔ ایناس کہتی ہے کہ پہلے میں سڑک پر دوڑنے سے ہچکچاتی تھی لیکن پھر زیادہ تر لوگوں نے میری حوصلہ افزائی کی۔ ایناس دوپہر کے وقت سکول جاتی ہے نتیجتاً وہ صبح دوڑ سکتی ہے۔ یاد رہے کہ غزہ میں سکول کم اور طلبہ وطالبات زیادہ ہیں، نتیجتاً سکولوں میں تعلیم وتدریس شفٹوں میں ہوتی ہے۔ ایناس کبھی غزہ سے باہر نہیں نکلی، وہ کہتی ہے:’’ میں غزہ سے باہر کی دنیا میں بھی دوڑنا چاہتی ہوں، جہاں دوڑ کے لئے زیادہ جگہ دستیاب ہو‘‘۔