انسان، گھنے جنگل میں

آئو جنگلوں میں چلتے ہیں!

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مدثرمحمود سالار۔۔۔۔۔۔۔
ہزاروں سال پہلے انسان اور جانور جنگلوں ، وادیوں میں اکٹھے ہی رہتے تھے۔ جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا انسان نے بھی نت نئی اختراعات اور جدت کو تہذیب و ثقافت سمجھ کر اپنانا شروع کردیا۔ انسانوں کی آبادی رفتہ رفتہ بڑھتی گئی اور انسان جنگلوں ، وادیوں اور غاروں کو ترک کرکے اپنی انسانی آبادیاں جنگلوں سے دور بسانے لگا۔

تاریخ بتاتی ہے کہ انسانوں کا نظریہ یہ تھا کہ ہم جانوروں سے مختلف باشعور اور اشرف ہونے کی بنیاد پر بے عقل ، وحشی جانوروں کے ساتھ جنگلوں میں زندگی نہیں بسر کرسکتے۔ آبادیاں بڑھتی گئیں ، گائوں ، شہر ، صوبے اور ریاستیں وجود میں آتے آتے کرہ ارض پر بے ہنگم انداز میں پھیل گئے،

ہر زمانے میں علم و تجربہ کو پروان چڑھاتے چڑھاتے انسان نے کروڑہا اشیاء ایجاد کرکے اپنی زندگی کو حتی الوسع آسان کیا ہے اور مسلسل اسی تگ و دو میں ہے کہ زندگی میں مزید آسانی پیدا کی جائے۔ ترقی کرتے کرتے آج انسان کائنات کے سربستہ رازوں کو کھولتے کھولتے خلا اور چاندتک جاپہنچا ہے۔
کہاں جنگلوں اور غاروں میں رہنے والا انسان اور کہاں دور حاضر کا ٹیکنالوجی سے معمور انسان۔
انسان نے جنگل سے نکل کر زمانے کے ساتھ ساتھ اپنے رہن سہن،بودوباشت میں مسلسل تبدیلی کی کوشش کی ہے۔
انسان ترقی کرتے کرتے آسمان کو چھونے لگا ہے مگر اپنی خصلت نہیں بھولا۔

ابتدا میں انسان کا پالا جانوروں سے پڑا اور جانوروں اور انسانوں نے ایک دوسرے کو دشمن سمجھ کر خوب شکار کیا۔ اتفاق سے انسان نے جانوروں کی وحشیانہ فطرت کے باعث اپنی خود کی بستیاں آباد کرنا شروع کی اور وحشی درندوں سے دور ہوتا گیا۔ انسان درندوں سے دور تو ہوتا گیا مگر انسان پر درندوں کے اثرات اتنے گہرے منقوش ہوگئے کہ اب تک وہ وحشیانہ فطرت انسان کا جزو خاص ہے۔

شہری آبادیوں میں درندے تو ناپید تھے توانسان نے مجبور ہوکر ایک دوسرے کو شکار کرنا شروع کردیا ۔ تاریخ کہ جس کا آخری سبق یہی ہے کہ مجھ سے کسی نے آج تک سبق حاصل نہیں کیا، وہی تاریخ بتاتی ہے کہ انسان جنگلوں سے نکل کر بزعم خود مہذب کہلواتا ہے مگر فطرتاً ایک درندہ ہی ہے۔

دیگر درندے انسانی آبادی سے دور ہی رہتے ہیں مگر انسان ایسا درندہ ہے جو تہذیب و ثقافت کا لبادہ اوڑھے اپنے ہی ہم جنسوں کا شکار کررہا ہے اور بے دریغ کررہا ہے۔ انسان کو معلوم ہے کہ فی الحال انسانی آبادی معدوم ہوتی نظر نہیں آتی اس لیے انسان کا شکار بلا تمیز وقت و جگہ ہر خطے میں جاری ہے۔

انسانی خون تو اگر کسی جنگلی درندے کے منہ کو لگ جائے تو وہ بھی آدم خور بن جاتا ہے تو تصور کریں انسان کو دوسرے انسانوں کا لہو کتنی لذت اور مزہ دیتا ہے۔ مال و دولت ، زمین جائداد سب نعمتوں کے باوجود جو مزہ انسان کے شکار میں ہے وہ کسی شیر یا چیتے کے شکار میں کہاں۔

اب تو کرہ ارض کے چپے چپے پر انسان نما درندے طاقت کے نشے سے مخمور رسہ تڑوائے ہوئے سانڈ کی مانند انسان کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے۔ انسان کا شکار ایسا دلچسپ اور پرلطف کھیل ہے کہ بلا تمیزِ جنس و عمر کھیلا جاتا ہے۔

ایک فلسفی انسان نے ناجانے کس زعم میں کہہ دیا تھا کہ
“عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے تھے”
کیسا عروج کہاں کی ترقی؟ صدیوں سے انسان کا شکار جاری ہے اور تاحشر جاری رہے گا۔

خالقِ کائنات کو تو اس کے خاص فرشتوں نے ابتدا میں ہی بتادیا کہ یہ جو مخلوق تو نے بنائی ہے اس سے فساد کی بو آرہی ہے۔ انسان اس شکار میں اتنا جری ہے کہ اب اسے معاشرے کی لعن طعن اور پھٹکار کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ جنگلوں میں تو قانون ہوتا ہوگا شاید ، مگر انسانی آبادیاں قانون سے ماورا لگتی ہیں،

جنہوں نے قانون بنانا اورانصاف کرنا تھا وہ خود انسانی لہو کے پیاسے ہوگئے ہیں۔ اگر کسی شکار کے دوران کوئی انسان زخمی ہوجائے تو اس کا علاج کرنے والا انسان بھی درندہ بن کر بستر پر پڑے ہوئے بے بس شکار کی بوٹیاں نوچنے لگ جاتا ہے۔ جو شکار ہونے سے بچ جائے وہ بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی اس وحشی کھیل میں دلچسپی لینے لگتا ہے۔

انسان نے تہذیب کے نام پر جتنی اشیاء ایجاد کیں ان کا آخری استعمال انسان کا ہی شکار کرنا ٹھہرا۔ حتی کہ جو ایجادات انسانی جان بچانے کی غرض سے تیار ہوئیں وہ بھی درندہ انسانوں نے بے بس اور لاچار نیم مردہ انسانوں کو اپنا شکار سمجھ کر ان پر استعمال کرکے تڑپا تڑپا کر مارا۔

علم و ثقافت کے ہر مرکز میں مذہب و قومیت کے نام پر تیز دھار تلواریں طاقتوروں کو تھما دی گئیں۔ جو شکار آسان لگے اسے مذہب یا قومیت کے نام پر جب موقع پائو کاٹ ڈالو۔ اب تو ہر انسان کو دوسرے انسان سے خوف آنے لگا ہے۔ کب کون کس جگہ شکاری بن جائے۔

اے بچ جانے والے بے بس انسانو!
آئو واپس جنگلوں میں چلتے ہیں ، وہاں کم از کم درندوں کا کوئی قانون تو ہوگا، درندوں سے لین دین کا معاملہ بھی شاید ہوجائے، کوئی حد بندی ہمارے اور درندوں کے درمیان قائم ہوجائے۔ انسانی آبادیاں تو فقط انسانی لہو پر پل رہی ہیں۔ کوئی قانون، کوئی شکار بندی، کوئی حد نافذ نہیں ہے۔ آو غاروں میں واپس چلتے ہیں اس سے پہلے کے انسان دنیا سے معدوم ہوجائے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں