آسیہ عارف، پاکستان کی کم عمر ترین یونیورسٹی سرٹیفائیڈ اور عربی، انگلش کتب کی مصنفہ

’’شوق ہو تو کم عمری میں بھی بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے‘‘

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

پاکستان کی کم عمر ترین یونیورسٹی سرٹیفائیڈ، متعدد عربی کتب کی مصنفہ آسیہ عارف سے مکالمہ

عبیداللہ عابد ۔۔۔۔۔۔۔۔
آسیہ عارف محض سات برس کی تھیں جب انھوں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے عربی بول چال کورس میں اے گریڈکامیابی حاصل کی، اگلے برس انھوں نے عربی زبان میں پہلی کتاب لکھی، یہ عربی زبان سکھانے کی کتاب تھی۔ اس سے اگلے برس اِس کتاب کا دوسرا حصہ مکمل کیا۔

اِسی سال، نوبرس کی عمر میں انھوں نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے عربی زبان کا ایڈوانس ڈپلومہ بی گریڈ کے ساتھ حاصل کیا۔ جب انھوں نے یہ ڈپلومہ کیا تو وہ سکول میں تیسری جماعت کی طالبہ تھیں۔ یہ حیران کن تعلیمی سفر جس لڑکی کا ہے، وہ پنجابی والدین کی بیٹی ہیں، ماں کا تعلق کسی عرب ملک سے ہے نہ باپ کا تاہم آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ وہ انتہائی کم عمری میں پوری فصاحت وبلاغت کے ساتھ نہ صرف عربی زبان بولتی ہے بلکہ اب تک کئی کتابیں بھی تصنیف کرچکی ہے۔ انھیں قطر، کویت، عمان، ترکی اور سعودی عرب کی طرف سے ان کی بچوں کے لئے ادبی خدمات پر متعدد انعامات اور تعریفی اسناد دی گئیں۔

آسیہ کی عمر محض تین برس تھی جب انھوں نے قطر میں ایک ٹیلی ویژن چینل کو نہایت فصیح عربی زبان میں پانچ چھ منٹ کا انٹرویو دیا۔ اس پرانھیں ایک ہزار ریال کا انعام ملا، کئی اخبارات میں آسیہ کے بارے میں پورا صفحہ شائع ہوا۔ ان کی یادداشت بھی ایسی حیران کن ہے کہ دس منٹ میں عربی زبان کے100 اشعار سنا سکتی ہیں۔ رسول اکرم ﷺ کا حضرت آدم علیہ السلام تک شجرہ نسب بھی حفظ کر رکھا ہے۔

آسیہ عارف اب تک چار کتابیں لکھ چکی ہیں، دو کتابیں مکمل عربی زبان میں ہیں۔ ان میں سے ایک کتاب میں انھوں نے چالیس موضوعات پر اس اندازمیں لکھاہے کہ بچے، بڑے ان کی مدد سے عربی زبان کافی حد تک سیکھ سکتے ہیں۔ دوسری کتاب میں اسّی موضوعات پر تحریریں ہیں۔ تیسری کتاب عربی اور انگریزی زبان میں ہے ، یہ ایک کہانی ہے جسے عربی میں لکھا اور ساتھ ہی اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ چوتھی کتاب میں سبق آموز عربی کہانیاں اور ان کا اردوزبان میں ترجمہ ہے۔ان میں سے ایک کتاب عمان سے شائع ہوئی جس کی تقریب رونمائی بھی وہاں سے ہی ہوئی۔

آسیہ گھرمیں اپنے والد محترم کے ساتھ صرف اور صرف عربی زبان میں بات کرتی ہیں۔ ان کے والد ڈاکٹرعارف صدیق انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹرصاحب کو لڑکپن ہی سے عربی زبان سیکھنے کا شوق تھا۔ میٹرک کے بعد انھوں نے ایک مسجد کے امام صاحب سے کسی حد تک عربی سیکھی۔ پھرعربی سے محبت کا یہ سفر کہیں نہ رک سکا۔

ان کی خواہش تھی کہ شادی بھی ایسی خاتون سے ہو جو عربی زبان جانتی ہو، اس مقصد کے حصول کے لئے کافی تگ ودو کی تاہم اللہ تعالیٰ کو اس خواہش کی اس اندازمیں تکمیل منظور نہ تھی، انھیں اہلیہ ایسی ملی جو اگرچہ عربی زبان نہیں جانتیں تاہم عربی سے محبت کرنے والوں کی قدر کرنا خوب جانتی ہیں۔

٭عربی سے محبت کا سفر کیسے شروع ہوا؟
ڈاکٹرعارف صدیق نے بتایا: ’’شادی ہوئی تو اللہ نے ہمیں ایک آزمائش میں رکھا، گیارہ سال تک اولاد نہ ہوئی، پھر آسیہ پیدا ہوئی۔ کبھی سوچا نہ تھا کہ میں بیٹی کو عربی سکھاؤں گا کیونکہ ایسا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ میں قطر میں تھا، وہاں ایک اخبار سے منسلک تھا، میں نے اس میں ایک مضمون لکھا، وہاں شام سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹرصاحب مقیم تھے جو عربوں کوجدید عربی سے کلاسیکل عربی کی طرف واپس لانے کی جدوجہد کررہے تھے۔

انھوں نے میرا مضمون پڑھا۔ اِس وقت عربوں کی بڑی تعداد اپنے مقامی لہجوں کے مطابق عربی زبان بول رہی ہے۔ اسے مقامی لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں، ہم جیسے لوگ عربی سیکھ کر بھی ان کی باتیں نہیں سمجھ سکتے۔ ڈاکٹرصاحب سکولوں کے اساتذہ پر محنت کررہے ہیں کہ وہ اپنے طلبہ وطالبات سے مقامی لہجوں کے بجائے کلاسیکل عربی زبان بولیں۔

انھوں نے قطر میں ایک لیکچر کے دوران اپنا ایک تجربہ بیان کیا کہ انھوں نے اپنے بیٹے سے شروع ہی سے فصیح عربی زبان میں بات کرناشروع کردی تھی جبکہ وہ بچہ اپنی والدہ سے مقامی لہجے میں بات کرتاتھا۔ اس طرح وہ تین سال کی عمر میں دونوں زبانیں سیکھ گیا‘‘۔

’’اس سے مجھے انسپائریشن ملی۔ اس وقت میری بیٹی کی عمر ایک سال تھی، میں نے اسی رات بیٹی سے عربی زبان میں بات کرنا شروع کردی۔ دوست احباب میرا مذاق اڑانے لگے، حالانکہ ہمارے ہاں لوگ بچوں سے شروع دن سے انگریزی میں بات کرتے ہیں۔ میں نے ڈیڑھ، دو سال کی عمرسے بیٹی پر محنت شروع کی، تین سال کی عمر میں یہ عربی سیکھ گئی،

پھر میں صومالیہ کی ایک شخصیت کے پاس بیٹی کو لے گیا کہ اس کی عربی زبان چیک کریں، وہ آسیہ کو اپنے گھر میں بیٹیوں کے پاس لے گئے۔ وہ آسیہ سے مل کر بہت خوش ہوئیں، کہنے لگیں کہ ہم بھی آسیہ کی طرح عربی (کلاسیکل) بولیں گی۔ قطر میں، اسے پاکستانی کمیونٹی تک ہی محدود رکھتا تھا، میں نے جان بوجھ کر اسے عربوں سے نہیں ملایا ورنہ اس کی عربی زبان خراب ہو جاتی۔ جب آسیہ ساڑھے تین برس کی تھی ہم پاکستان واپس آگئے‘‘ ۔

٭ذخیرہ الفاظ بڑھانے کی تکنیک
آسیہ کے والد بتا رہے تھے: ’’میں اس کے ذخیرہ الفاظ میں جو بھی نیا لفظ شامل کرتا، اسے ایک ڈائری میں لکھتا تھا، تاکہ وہ دوہرایا جاتا رہے۔ دراصل میں ایک مکمل عربی ماحول بنانا چاہتا تھا۔ چنانچہ میں آسیہ سے بات کرتے ہوئے مونث کے صیغے بولتا تھا، ہمارا کوئی بیٹا نہیں ہے، اس لئے میں سوچتا تھا کہ یہ مذکر کے صیغے کیسے سیکھے، میں نے اس مسئلے کا ایک حل نکالا اور ایک فرضی مردانہ کردار گھڑا۔ ایک وقت میں آسیہ لڑکا بن جاتی، پھر میں مذکرصیغوں کے ساتھ اس سے بات کرتا۔ آسیہ کو میں پیار سے ’بتو‘ بھی کہتا ہوں۔ جب میں اسے ’بتو‘ کہتا ہوں تو یہ میرا بیٹا بن جاتی ہے‘‘۔

٭ پاکستان میں زندگی
آسیہ کی عمر ساڑھے تین برس تھی کہ جب اپنے والدین کے ساتھ واپس پاکستان آئیں۔ اب والد نے بیٹی کو عربی شاعری سنانی اور پڑھانی شروع کر دی، ان کی عمر ساڑھے چھ، سات برس تھی کہ ارفع کریم مائیکروسافٹ ایکسپرٹ، کا انتقال ہوگیا۔ والد نے اس کے بارے میں سنا تو فیصلہ کیا کہ اپنی بیٹی کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے عربی زبان کا کورس کروائیں گے تاہم خطرہ یہ تھا کہ کہیں وہ اس قدر کم عمر بچی کو داخلہ دینے سے انکار ہی نہ کردیں۔ تب انھوں نے گوگل پر تحقیق کی تو پتہ چلا کہ بھارت میں ساڑھے چھ سالہ بچے نے ایک اوپن یونیورسٹی سے سرٹیفکیٹ کورس کیا تھا۔

چنانچہ آسیہ کے لئے کورس میں داخلہ کے لیے اپلائی کر دیا گیا، یونیورسٹی نے کوئی اعتراض کئے بغیر اسے داخلہ دے دیا۔ یہ چھ ماہ کا کورس تھا۔ جب بچی اپنی والدہ کے ساتھ امتحانی مرکز میں امتحان دینے گئی تو سکیورٹی والا کہنے لگا :’’بچی کو باہر چھوڑ آئیں‘‘۔ انھوں نے کہا کہ بچی ہی تو پیپر دینے آئی ہے تاہم سکیورٹی اہلکار یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں تھا، اسے بچی کی رول نمبر سلپ دکھائی گئی تو بڑی مشکل سے بات بنی۔ پھر بھی اس نے اچھی طرح تسلی کی۔ آسیہ نے یہ امتحان 72 فیصد نمبروں سے پاس کیا۔

آسیہ ساڑھے سات بر س کی تھیں جب ان کے والد انھیں ہر روز ایک موضوع دیتے اور اس پر عربی زبان میں دس جملے لکھنے کو کہتے۔ یہ کام حرم کعبہ میں شروع ہوا جب آسیہ اپنے والد کے ساتھ بالائی منزل پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ والد نے خانہ کعبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیٹی سے کہا کہ اس کے بارے میں دس جملے لکھو۔ پھر یہ سلسلہ پاکستان میں بھی چلتا رہا۔

والد کی تدبیر اس قدر کامیاب ثابت ہوئی کہ اب فصیح عربی زبان اردو یا پنجابی سے زیادہ آسان ہوچکی ہے، مزید دلچسپ امر یہ ہے کہ آسیہ کو انگریزی زبان پر بھی مکمل عبور حاصل ہے۔ چنانچہ اب یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ آسیہ عارف کو عربی زبان پر زیادہ عبور حاصل ہے یا انگریزی زبان پر۔آج کل وہ انگریزی کتابوں کو نہایت شوق سے پڑھتی ہیں، چند ہی روز پہلے انھوں نے مشہور انگریزی ناول ’الکیمسٹ‘ کا مطالعہ مکمل کیا۔

٭سہیلیوں کو عربی زبان سکھانے کی کوشش
آسیہ اپنی ننھی منی سہیلیوں کو بھی عربی سکھانے کی کوشش کرتی رہیں، یہ ان کے بچپن کا دور تھا، جب ان کی سہیلیاں کھیلنے کے لئے ان کے ہاں آتیں، اسی دوران آسیہ نے اپنی سہیلیوں کو عربی سکھانا شروع کردی۔ یہ چھ سات سہیلیوں کی کلاس ہوا کرتی تھی تاہم سہیلیوں نے عربی سیکھنے میں بہت زیادہ جوش وخروش کا مظاہرہ نہ کیا۔ آسیہ کا کہنا ہے ’’یہ شوق کی بات ہوتی ہے۔ ہاں! ایک سہیلی ہے جس نے کافی حد تک عربی سیکھی، وہ بہت پرانی دوست ہے۔ اسے بہت شوق تھا‘‘۔

لطف کی بات ہے کہ آسیہ نے بچپن میں یوٹیوب کے ذریعے بھی عربی سکھانے کا سلسلہ شروع کیا، تاہم یہ سلسلہ باقاعدہ شکل اختیار نہ کرسکا۔ جب آسیہ سے پوچھا کہ وہ پاکستانی بچوں کو عربی زبان سیکھنے کے لئے کیا مشورہ دیں گی؟ ان کا کہنا تھا:’’بچوں کو شوق ہو تو وہ کسی بھی طریقے سے سیکھ جائیں گے، چاہے وہ آن لائن سیکھیں، کتابوں سے سیکھیں یا پھر ٹیوٹر سے۔ آپ انھیں بزور کچھ نہیں سکھا سکتے‘‘۔

آسیہ اس وقت جماعت دہم کی طالبہ ہیں، وہ اپنی کلاس کے بہترین طلبہ وطالبات میں سے ایک ہیں، ان دنوں وہ اپنی تعلیم میں بہت زیادہ مصروف ہیں، اس لئے عربی سکھانے کاکوئی باقاعدہ اہتمام نہیں کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں:’’چونکہ میٹرک اور ایف ایس سی کے چار برس زندگی کے لئے نہایت اہم ہوتے ہیں، اس دوران اپنی سرگرمیاں صرف اپنی تعلیم تک محدود رکھنا چاہتی ہوں‘‘۔ آسیہ سی ایس ایس کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں، انٹرنیشنل ریلیشنز کے شعبے کی طرف بھی کشش محسوس کرتی ہیں۔

آسیہ کے ذوقِ مطالعہ کو جاننا چاہا تو پتہ چلا کہ انھوں نے چھوٹی سی عمر میں کافی کچھ پڑھ رکھا ہے۔ بچپن میں عربی کہانیاں پڑھنے کا شوق تھا، اس لئے انھوں نے جہاں بھی کوئی ایسی کوئی کتاب دیکھی، اسے لمحوں میں پڑھ ڈالا۔ پھر عربی شاعری کی دولت سے مالامال ہوئیں۔ اس کے بعد باری آئی انگریزی ادب کی۔ آج کل ہیری پوٹر سیریز ان کے زیرمطالعہ ہے جبکہ وہ انگریزی اخبارات کا بھی باقاعدگی سے مطالعہ کرتی ہیں۔ ان دنوں وہ باقاعدگی سے عربی ذرائع ابلاغ بالخصوص عرب ٹیلی ویژن چینلز دیکھتی ہیں۔ کہتی ہیں:’’ میں نے عربی زبان میں بہت سی فلمیں دیکھی ہیں، اور سب کی سب بابا کے ساتھ بیٹھ کر دیکھیں۔

اسی دوران میں مختلف الفاظ کا بابا سے پوچھتی تھی کہ ان کا کیا مطلب ہے، اس سے میرا ذخیرہ الفاظ بہت وسیع ہوا۔ لطف کی بات ہے کہ یہ فلمیں کلاسیکل عربی ہی میں بنی تھیں، یہی وجہ ہے کہ مجھے جدید عربی کے بجائے کلاسیکل عربی زیادہ سمجھ آتی ہے۔ میری جو سہیلیاں عرب ممالک میں ہیں یا وہاں سے پاکستان آتی ہیں تو ان سے بات کرتے ہوئے ان کی جدید عربی سمجھنے میں کچھ دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کلاسیکل عربی میں بنی ہوئی یہ فلمیں اسی کوشش کا حصہ ہیں کہ عربوں کو کلاسیکل عربی کی طرف لایا جائے۔ یہ تحریک اب بڑی سطح پر چل رہی ہے‘‘۔

آسیہ عارف نے اپریل 2018ء میں ترکی کے شہر استنبول میں ہونے والی چار روزہ او آئی سی یوتھ کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ یہ پُرعزم بچی کہتی ہیں کہ ان کی ملاقات وزیراعظم عمران خان سے ہو تو وہ انھیں پاکستانی بچوں کو عربی اور انگریزی زبانوں کی تعلیم کا ایک منصوبہ پیش کریں گی تاکہ پاکستانی قوم کا مستقبل مضبوط بنیادوں پر تعمیر ہو۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں