تزئین حسن۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم میں سے بہت سے لوگ دار الندوہ کے بارے میں جانتے ہیں جہاں قریش کے بڑے جمع ہو کر بحث مباحثے کے بعد اہم فیصلے کیا کرتے تھے۔ یہ بڑے جنہیں ہم سردار بھی کہتے ہیں اپنے اپنے قبیلے کے نمائندے ہوتے تھے جنہیں قبیلے والوں نے اپنی جانب سے اجتماعی فیصلوں اور معاہدوں کا اختیار تفویض کر رکھا تھا۔ اختیار دینے کے اس عمل کو بیعت بھی کہا جاتا تھا۔ اسی نظام کو بعد میں بھی برقرار رکھا گیا۔
امیر معاویہ نے یزید کے لئے بیعت اپنی زندگی میں لی۔ یہ بیعت بھی دراصل عوام میں اثر رسوخ رکھنے والوں سے لی جاتی تھی۔ آج بھی ہمارے دیہاتوں میں چوپالوں اور جرگوں میں گاؤں والے جمع ہو کر بحث مباحثہ کر کے کچھ بڑوں کی مرضی سے اپنے فیصلے کرتے۔
عام طور سے جمہوریت کو ایک مغربی نظام سمجھا جاتا ہے اور یونان کو اس کی جنم بھومی۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ یونانی جمہوریت میں نمائندے نہیں ہوتے تھے بلکہ آج کی چوپال کی طرح ہر ایک کو بولنے کا حق ہوتا تھا اور ووٹنگ کا حق آبادی کے ایک بہت قلیل حصے کو حاصل تھا جو دس سے بیس فیصد سے زیادہ نہیں تھا اور ملٹری افسران اور کمانڈرز کو ووٹ کے ذریعے منتخب کیا جاتا۔
مغرب میں دسویں گیارہویں صدی عیسوی تک حکمران کے احتساب کا تصور نہیں تھا۔ آئین اور قانون کی حکمرانی، حکمران کا احتساب، کھلی بحث، اظہار کی آزادی، مشاورت سے فیصلے آج مغربی جمہوریت کے بلڈنگ بلاکس ہیں۔ ہمارے ہاں جمہوریت محض ووٹ دے کر حکمران کے انتخاب کو سمجھا جاتا ہے۔
کہنا یہ ہے کہ یہ بلڈنگ بلاکس دنیا میں مغرب نے متعارف نہیں کروائے۔ ساتویں صدی کے مدینے میں اظہار آزادی کا یہ حال تھا ایک بوڑھی عورت شرعی مسئلے پر خلیفہ وقت کو خاموش کر دیتی ہے اور وہ اپنی غلطی مان لیتا ہے۔۔
احتساب کا یہ حال تھاکہ ایک بچہ عرب اور عجم کے حکمران سے اس کے کرتے کے بارے میں سوال کرتا ہے۔ آئین اور قانون کی حکمرانی کہ خلیفہ وقت اپنی مطلقہ بیوی سے بچے کی کسٹڈی کا مقدمہ ہار جاتا ہے۔ مشاورت کا یہ حال کہ مفتوحہ علاقوں کی زمیں کی پیمائش اور ٹیکسیشن کے نظام کے لئے، مفتوحین کے انجینئرز سے مشاورت لی جاتی ہے۔ جمہوریت محض ووٹنگ کر کے حکمران منتخب کرنے کا نام نہیں، اس کے کچھ اور بھی لوازم ہیں جس میں آزادئ اظہار جو آج کے دور میں آزادئ پریس یا میڈیا بھی کہلا سکتا ہے سر فہرست ہے۔ یاد رہے کہ ہر آزادی کی کچھ حدود ہوتی ہیں چاہے مشرق ہو یا مغرب۔
جمہوریت کے بلڈنگ بلاکس کو دیکھیں تو جمہوریت بہت سی مختلف شکلوں میں دنیا میں رائج رہی ہے۔ دوسرے نظام حکومت کی طرح یہ بھی کوئ آئیڈیل نظام نہیں اور اس کے بھی مختلف مدارج ہیں۔ کون سا ملک کتنا جمہوری ہے یہ دیکھنا ہو تو اہم یہ ہے کہ بلڈنگ بلاکس یعنی قانون اور آئین کی حکمرانی، اظہار کی آزادی، حکمران کا احتساب، مشاورت اور کھلی بحث سے فیصلے کس حد تک ہوتے ہیں۔
اس نظام کو آپ کوئی بھی نام دے دیں۔ اسلامی کہہ لیں یا مغربی۔ یہی نظام حکمرانی کا بہترین نظام ہے۔ اس کے طریقہء کار مختلف ہو سکتے ہیں لیکن ایک قوم کا سیاسی سفر صحیح سمت میں جب ہی شروع ہوتاہے جب وہ ان بلڈنگ بلاکس کو اپنے نظام کا حصہ بنانے میں سنجیدہ ہوتی ہے۔
یاد رکھیں کہ یہ بلڈنگ بلاکس ہمیں مغرب نے نہیں دئے، یہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو دئے۔ انہیں رحمت للعالمین بلا وجہ نہیں کہا گیا۔