محمد عثمان جامعی۔۔۔۔۔۔۔
اب تک تو یوں تھا کہ ’وابستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ’، اگرچہ جس پر بہار آنا تھی وہ شجر ہی نظر نہیں آرہا تھا، پھر بھی امید بہار رکھی گئی۔
آس تھی کہ وہ شجر جس پر بہار آنا ہے ‘بلین ٹری منصوبے’ کے تحت زمین سے نمودار ہوگا اور ایک دن جب ہم پاکستانی اپنے اپنے گھر سے باہر آکر دیکھیں گے تو اس پر بہار آچکی ہوگی۔ شاخوں سے پھل ٹپاٹپ گر رہے ہوں گے اور لوگ ان ثمرات سے اپنی جھولیاں بھر رہے ہوں گے، لیکن ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ وہ شاخ ہی نہ رہی جس پر (امیدوں کا) آشیانہ تھا۔ مزید برآں جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔
ہم نے یہ جو بَک بَک کی ہے اس کی آسان زبان میں تشریح وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری صاحب کا یہ بیان ہے کہ عوام نوکریوں کے لیے حکومت کی جانب نہ دیکھیں۔ انہوں نے یہ خوش خبری بھی سنائی ہے کہ حکومت 400 محکمے بند کررہی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’نوکریاں حکومت نہیں نجی سیکٹر دیتا ہے۔’
فواد چوہدری سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر ہیں اور حکومتی امور کا تعین پولیٹیکل سائنس کا موضوع، چنانچہ ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے سائنسدان فواد چوہدری نے دریافت کیا کہ ملازمت فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں۔ اب معلوم نہیں کہ یہ دریافت ‘آپی آپ’ ہوگئی یا نیوٹن کی طرح ان کے سر پر بھی کوئی پھل آ بجا تھا۔
نیوٹن کا دماغ تو سیب کی دھمک سے روشن ہوا تھا، لیکن جتنی بڑی دریافت چوہدری صاحب نے کی ہے اس اعتبار سے لگتا ہے ان کے سر پر کم ازکم تربوز یا پیٹھا آ گرا ہوگا۔ ممکن ہے اس دریافت پر لوگ انہیں ‘نیو ٹُن’ کہنا شروع کردیں۔
کوئی کچھ کہے، ہم تو کہتے ہیں فواد چوہدری نے بالکل ٹھیک کہا۔ حکومت کا کام نوکری دینا نہیں۔ یوں بھی خود اس حکومت کو بڑی مشکل سے ‘نوکری’ ملی ہے۔ پھر حکومت آخر کس کس کو نوکری دے؟ عثمان بزدار، فردوس عاشق اعوان، فواد چوہدری، فیاض چوہان، مراد سعید، فیصل واؤڈا، شہریار آفریدی، زلفی بخاری، علی امین گنڈاپور، علی زیدی، اعظم سواتی، شیخ رشید، سمیت جانے ‘عوام’ میں سے کتنے افراد کو نوکری یا ‘چاکری’ دی جاچکی ہے، سو نوکری کے باب میں حکومت کا عوام سے یہ کہنا بنتا ہے کہ ‘تیرے’ حصے میں کچھ بچا ہی نہیں۔
اب آپ وہی گھسی پٹی باتیں کریں گے کہ ‘پھر عمران خان نے انتخابات کے دوران ایک کروڑ ملازمتیں دینے کا وعدہ کیوں کیا تھا اور آبی وسائل کے وزیر فیصل واؤڈا نے کیوں دعویٰ کیا تھا کہ ملک میں نوکریاں زیادہ ہوجائیں گی لوگ کم پڑجائیں گے، اگر ایسا نہ ہو تو میری تکہ بوٹی کردی جائے۔’
بھئی بات یہ ہے کہ اس وقت تک خان صاحب بہت سے حقائق سے لاعلم تھے، جیسے انہیں معلوم نہیں تھا کہ پاکستانی عوام بڑے بے صبرے ہیں، خزانہ خالی ہے، آئی ایم ایف کے پاس جانے سے خود کشی واجب نہیں ہوتی، پیٹرول کے مہنگے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وزیرِاعظم چور ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح ہمارے خیال میں وہ ‘احتساب’ میں کتنے ہی اچھے ہوں حساب میں کمزور ہیں، یہی وجہ ہے کہ ارکان کو گنے بغیر ہی اپنی کابینہ کو مختصر سمجھتے ہیں، چنانچہ یہ نہ جان پائے کہ ایک ملین میں کتنے ہندسے ہوتے ہیں اور ملین کو درجن سمجھ کر وعدہ کر بیٹھے۔
کون نہیں جانتا کہ ان کے قول و عمل کا عنوان کرکٹ کی اصطلاحات بنتی ہیں، تو یہاں بھی ٹیم کے 11 اور 12ویں کھلاڑی کو ملاکر درجن کا لفظ ہی ان کے ذہن میں ہوگا۔ اب اگر ان کی نیت دیکھی جائے تو وفاق، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزیروں، مشیروں، ترجمانوں، معاونین خصوصی اور چیئرمین کرکٹ بورڈ احسان مانی کو ملاکر تعداد 10 درجن سے کہیں زیادہ ہوجاتی ہے۔ لہٰذا یہ وعدہ تو پورا ہوگیا۔
رہی بات فیصل واؤڈا کے وعدے کی تو انہیں یقین تھا کہ مہنگائی، غربت اور حالات کے باعث لوگ اتنے کم پڑجائیں گے کہ پارٹی کے جلسوں اور وزیرِاعظم کے بیرونی دوروں سے واپسی پر استقبال کے لیے بھی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو زحمت دینا ہوگی یا پردیس سے اچھی تالی بجانے کی صلاحیت رکھنے والے افراد کرائے پر لانا ہوں گے، بس یہی سوچ کر انہوں نے یہ دعویٰ کردیا۔
اب بے چارے واؤڈا صاحب کو کیا معلوم کہ پاکستانی جتنے بے صبرے ہیں اتنے ہی ڈھیٹ بھی۔ ورنہ ان کے حساب سے اب تک لوگ ‘کم پڑجانے’ چاہیے تھے۔ رہا معاملہ تکہ بوٹی کرنے کا تو ان کے بارے میں یہ بدگمانی ٹھیک نہیں کہ وہ عوام کو آدم خور بنانا چاہتے ہیں، بھلا وہ کیوں چاہیں گے کہ حکومت کے فرائض میں عوام شریک کرلیے جائیں!
فواد چوہدری نے اتنا ہی کہا ہے کہ عوام نوکری کے لیے حکومت کی طرف نہ دیکھیں، ہم تو دو قدم، بلکہ ڈھائی اور ساڑھے تین قدم آگے بڑھ کر کہیں گے کہ عوام سرے سے حکومت کی طرف دیکھیں ہی نا۔ وہ کیا ہے کہ حکومت کو لاج آتی ہے اور وہ اٹھلا کر کہتی ہے ’ایسے کیا دیکھ رہے ہو! غیروں پہ کُھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا۔’
عوام کو چاہیے کہ وہ تاجروں اور صنعت کاروں کو دیکھیں، جنہوں نے حکومت کی طرف دیکھنا چھوڑ کر کسی اور کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھا اور جب پیغام ملا کہ حکومت کی طرف دیکھ مگر پیار سے، تو نظر مایوس پلٹ آئی، اب لگتا ہے کہ وہ اپنے سرمائے سمیت ہوائی اڈے کا راستہ دیکھ رہے ہیں۔
عوام کو حکومت کی طرف دیکھنا ہی ہے تو اس کے کچھ طریقے ہیں، مثلاً ‘اگر دیکھنا ضروری ہوگیا ہے تو دُور سے دیکھا جائے’ یعنی بیرون ملک جاکر مقیم ہوں اور پھر اس حکومت کو دیکھیں تو یہ بہت اچھی لگے گی۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سرکاری عینک حاصل کریں اور وہ لگا کر دیکھیں تو سب اچھا لگے گا۔ یہ عینک حالات پر صبر و شکر کرتے ‘صابر شاکر’ لوگوں کے پاس ہے، ان سے عاریتاً حاصل کرکے بطور تجربہ کچھ دیر استعمال کی جاسکتی ہے۔ تب تک عینک اُدھار دینے والے اپنی آنکھیں بند رکھیں گے۔
چوہدری صاحب کا یہ بیان ہمارے لیے انکشاف تھا کہ لوگ نوکری کے لیے حکومت کی طرف دیکھتے ہیں، عجیب لوگ ہو تُسی، حکومت مختلف ممالک میں مصالحت کا فریضہ ادا کرتی پھرے، دھرنے روکے، سوشل میڈیا پر مخالفین کی دُھلائی اور اپنا دفاع کرے یا نوکری دینے جیسے فضول کاموں میں پڑجائے!
ارے جب صحت، تعلیم، ایمرجینسی، قدرتی آفات، صاف پانی، بجلی، ہر ہر سہولت کے لیے نجی شعبے کی طرف دیکھتے ہو تو نوکری کے لیے بھی اسی طرف دیکھو ناں، چلو نظریں ہٹاؤ حکومت پر سے، تمہارے مسلسل تاڑنے کی وجہ سے وہ بے چاری نروس ہوگئی ہے کچھ کر نہیں پارہی۔