رقیہ اکبرچودھری۔۔۔۔۔
ابھی مسز خان کی “للو” کی گونج کم نہیں ہوئی تھی کہ مردوں کی مسز خان “قطب بلال صاحب” میدان میں آگئے فرماتے ہیں:
‘‘شوہر کی ہاں میں ہاں ملایا کرو زبان نہ چلایا کرو بیبیووووو۔۔۔یہ ہے گھر بچانے کا سنہری اصول’’۔
اس میں کوئی شک نہیں کسی بھی رشتے کو ٹوٹنے سے بچانے کیلئے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں کرنے بھی چاہیئں۔اب چاہے وہ بہن بھائی کا ہو دوست احباب کا ہو یا میاں بیوی کا۔
میاں بیوی کا رشتہ اس لحاظ سے زیادہ اہم بھی کہ اس پر معاشرے کی بقا کا انحصار ہے۔اللہ رب العزت نے مرد اور عورت کی جنس بنائی تو دونوں میں کچھ خاص قسم کی خصوصیات و مزاج رکھا۔
ایک کو جسمانی طور پر طاقتور بنایا تو دوسرے میں صبر اور حوصلہ کی طاقت رکھ دی۔ ایک کو جذباتی طور پر بہت نرم رکھا تاکہ نسل انسانی کی پرورش کرنے میں آسانی رہے تو دوسرے کو جذباتی طور پر کٹھور اور قدرے سخت دل بنایا تاکہ مشکل فیصلے کرنے میں آسانی رہے اور توازن بھی برقرار رہے۔۔اور یہ توازن ہی دراصل اس سارے تعلق کی خوبصورتی اور پائیداری کا ضامن ہے۔
اس سب کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ ان خصوصیات کی بنا پر کسی کو کمتر یا برتر بنا دیا جائے یا کسی ایک کی ایک خصوصیت کے باعث اسے دوسرے پر فوقیت دی جائے نہ ہی اس کا یہ مطلب کہ جسے کسی ایک میدان میں زیادہ صلاحیت دے دی گئی تو اب اسے رگڑ ہی ڈالا جائے۔
قطب بلال کے اس بیان کے بعد ایک اور مضمون بھی نظر سے گزرا جس میں ملک میں بڑھتی ہوئی طلاقوں پر بحث کی گئی تھی اس مضمون پر لوگوں کی آراء (بالخصوص مردوں کی) پڑھیں تو حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہوا۔
گویا آج بھی یہی سوچ تقریباً ہر مرد کے ذہن میں پل رہی ہے کہ طلاق کی تمام تر ذمہ داری صرف عورت کی ہے وہ چاہے تو گھر کو جنت بنا دے چاہے تو توڑ دے۔۔۔
اور بقول سب کے ایک عورت کا گھر توڑنے والی دوسری بھی صرف عورت ہی ہوتی ہے کبھی ساس ،کبھی نند اور کبھی سوتن کے روپ میں۔
تو کیا یہ مان لیا جائے کہ :
مرد محض ایک ناکارہ پرزہ ہے جس کا گھر بنانے یا اجاڑنے میں کوئی عمل دخل نہیں؟
کیا مرد کا کردار بس صرف معاشی ہے؟
کیا معاشرے کی اول و آخر اکائی بس عورت ہے؟
اگر میں یہ کہہ دوں تو تمام مرد اپنے اپنے قلم کی لٹھ لے کر میرے پیچھے پڑ جائیں گے حالانکہ یہ سب انہی کے فرمودات ہی ہیں۔
کہا گیا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی طلاق کی وجہ صرف عورت ہے جس میں برداشت نہیں رہی معاشی خودمختاری نے اسے سرکش بنا دیا، تعلیم نے دماغ خراب کر دیا، بدزبان ہو گئی اور نتیجہ طلاقیں۔۔۔
بات مسز خان کی “للو چلانے ” کی ہو یا قطب بلال کے الفاظ میں “زبان نہ چلاؤ” یا خرم شہزاد کے مضموں کی رو سے عورت کی معاشی خودمختاری اس کی وجہ ہو حضور مجھے آپ سب صرف یہ بتایئے آپ کو رنج گھروں کے ٹوٹنے کا ہے یا مفت کے بےزبان غلام کے چھن جانے کا؟
اگر یہ حب حسینؑ ہے تو جناب یہ نصحتیں کبھی تو مردوں کو بھی کیجئے کہ بھائی اپنا گھر مت توڑو، برداشت کرو، ہاتھ مت چلائو، گالی مت دو، بےعزتی مت کرو۔ضروری نہیں کہ بیوی پسند نہ ہو تو دوسری شادی کر لو اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرلو۔۔وغیرہ وغیرہ
میں یہ نہیں کہتی کہ عورت کو اچھے بُرے کی تمیز نہ سکھائو مگر آخر سارا بوجھ ساری نصیحتیں صرف عورت ہی کیلئے کیوں؟
کیا گھروں کو جوڑنے کی سنبھالے رکھنے کی ذمہ داری دونوں پہ یکساں عائد نہیں ہوتی؟ کیا گھر دونوں کا نہیں۔۔ کیا بچے دونوں کے نہیں؟ پھر کیوں ہر ہر دانشور اٹھ کر بار بار عورتوں سے کہتا ہے کہ برداشت کرو گھروں کو بچائو۔
آپ ہمیں مثالیں دیتے ہیں اس عورت کی جو شوہر کو کھانا دیتے ہوئے ڈنڈا ساتھ رکھتی تھی تاکہ شوہر کو کھانا پسند نہ آئے اور وہ بدبخت بیوی کی دھنائی کرنا چاہے تو ڈنڈا اٹھانے تک کی زحمت بھی اسے نہ اٹھانی پڑے۔
کچھ خدا کا خوف کیجئے! کیا سمجھا ہے آپ نے عورت کو!! کبھی واہ واہ کرتے ہو اس عورت کی جو بات بات پر طلاق دینے والے شوہر کو اپنے نازوادا سے رام کرتی ہے،کبھی تعریفوں کے پل باندھتے ہو اس عورت کیلئے جو ساری عمر زیادتی سہتی رہی مگر واہ بھئی کمال ہے اس کے صبر کی کہ آنکھ سے ایک آنسو بھی نہ ٹپکا اور نہ کبھی حرف شکایت ہی لائی وہ زبان پر۔۔۔۔
کیا تمہارے پلو میں ایسی مثالیں بھی ہیں جہاں مرد نے عورت کے ستم اور زیادتیاں اسی طرح برداشت کی ہوں؟
ہے تو پیش کرو اور اگر نہیں تو سر خم کر کے عورت کی عظمت کو تسلیم کر کے اسے خود سے زیادہ عظیم ڈیکلئر کرو۔
ایک طرف آج کی عورت کو سبق پڑھاتے ہو کہ ہماری مائیں صبر کا پیکر تھیں، ان کے برداشت سے ہی گھر آباد تھے مطلب مانتے ہو کہ اب تک جو گھروں کو جوڑ کر رکھا وہ عورت ہی تھی تو کیا اس عورت کو وہ عزت و تکریم اس سب کے بدلے ملتی رہی؟
اسے تو ہمیشہ فار گرانٹڈ ہی لیا گیا ،گالی کھانا اس کا مقدر اور جوتیاں سیدھی کرنا اس کی قسمت بنا دی گئی ۔ انہیں ہمیشہ مرد سے کمتر درجے پہ ہی رکھا گیا۔
وہ عورت جس نے اپنی ہر خواہش ہر ارمان کا گلا گھونٹ کر آپ کے گھر کو آباد رکھا، وہ عورت جس سے انسان ہونے کے سب حقوق چھین لئے گئے تھے بس ایک باندی اللہ میاں کی گائے جسے جس کھونٹے سے چاہا باندھ دیا گیا۔ساری عمر اس نے گھٹ گھٹ کر گزار دی اور آپ کو لگتا وہ کامیاب ہے؟
نہیں ۔۔۔کبھی خود کو اس عورت کی جگہ پر رکھ کر سوچو تو سہی پھر پتہ چلے کہ وہ جی رہی ہے یا صرف سانسیں لے رہی ہے؟
وہ عورت جس نے ساری عمر اپنی جوانی سے لیکر بڑھاپے تک خود کو مار کر سب رشتوں کو زندہ رکھا کیا ملا اسے؟ کیا اسے واقعی گھر کی ملکہ کا درجہ اس صبر کے بدلے میں مل گیا؟
نہیں بالکل نہیں ملا۔۔بڑھاپے میں بھی جب مرد کے اعصاب جواب دے گئے حکم تب تک اسی کا چلتا رہتا ہے خوشی ،صحت اور جذبات تب بھی اسی کے اہم تر ہی رہتے ہیں، فرق پڑا تو صرف اتنا کہ اب وہ ہاتھ اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتا۔۔گالی دینے کی سکت نہ رہی تو بولتا ہے کہ ساری عمر صبر سے اس عورت نے میرا دل جیت لیا۔۔
ایک عورت کی جوانی کھا کر بڑھاپے میں اسے یہ مان دینا آپ کو کیا لگتا ہے یہ ہے بدلہ۔۔۔یہ ہے انعام اور عورت کو یہ انعام خوشی خوشی لے لینا چاہیئے؟؟
رہی بات کہ ظلم کرنے والی بھی عورت ہی ہوتی ہے تو ذرا اس کی ساری زندگی کی کہانی کو سامنے تو رکھئے۔
ساحر لدھیانوی نے کہا تھا:
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے ،لوٹا رہا ہوں میں
بعینہ وہ عورت جو ساری زندگی پستی رہی جب اسے اختیار ملے گا تو وہ بھی وہی کرے گی جو اس کے ساتھ ساری عمر ہوا۔اسے لگتا ہے کہ جب مجھ پر ترس نہ کھایا گیا تو میں کیوں کسی پر ترس کھائوں۔۔ یہاں بھی اس کا اختیار صرف اپنے سے کمزور یعنی بہو بیٹی پہ چلتا ہے اور وہ اپنی محرومیوں کا بدلہ انہی سے لیتی ہے۔
اس کی تربیت بھی تو اسی نہج پہ ہوئی ہوتی ہے، اس کے ذہن میں یہ بٹھا دیا گیا ہوتا ہے کہ بس عورت کا کام صرف جوتے کھانا ہے۔
وہ آنے والی بہو کیلئے زندگی تنگ کر دیتی ہے کیونکہ اسے لگتا ہے کہ یہ کوئی انہونی یا انوکھی بات نہیں ،میں نے بھی یہی برداشت کیا اور اب میری بیٹی اور بہو کو بھی برداشت کرنا ہو گا۔۔یہی نسل در نسل چلے گا ،چلنا چاہیئے۔۔۔
نیز اس کی زندگی کا محور و مرکز جب آپ صرف مرد کی ذات کو بنا دیں گے سب خوشیوں کے دروازے کھلنے کی چابی ہر کامیابی کے راستے کا زینہ صرف مرد ٹھہرے گا تو وہ ساری کوشش اسی کو جیتنے میں لگا دے گی ناں۔۔۔۔۔ چاہے وہ مرد شوہر ہو یا بعد میں بیٹا۔۔
اور وہ مرد جس نے بچپن سے اپنی ماں کو یہ سب سہتے دیکھا اس نے بھی یہی سیکھا کہ عورت کا کام بس برداشت کرنا ہی ہے۔۔
اب جب عورت نے اپنے انسان ہونے کا احساس دلانا شروع کیا۔ اس نے کہا مجھے لات مارتے ہو تو تکلیف مجھے بھی ہوتی ہے اس نے کہا مجھے گالی دیتے ہو تو جذبات میرے بھی مجروح ہوتے ہیں اس نے کہا میری بےعزتی کرتے ہو تو ٹوٹ جاتی ہوں میں بھی۔۔۔اس لئے اب میں یہ سب برداشت نہیں کروں گی۔
تو مرد سے یہ برداشت نہ ہوا اب یہ خود کو انسان تسلیم کروانے والی عورت اس مرد کو ہضم نہیں ہو رہی کیونکہ اسے تو بس کنیزوں کی طرح سر جھکا کر حکم بجا لانے والی کی عادت پڑ گئی تھی اور اب یہ سر اٹھا کر جینے والی اس حاکم مزاج مرد سے کیسے برداشت ہو سکتی ہے؟
اور اس پہ مستزاد یہ کہ آج کی عورت معاشی طور پر مضبوط ہوئی تو مرد کو انسکیورٹی نے آگھیرا کہ اب تک جس بنیاد پر اسے باندھ کر رکھا تھا وہ بنیاد کمزور ہونے لگی۔اب وہ خود کو پال سکتی ہے مرد کی دست نگر نہ رہی تو مرد کو اس میں ساری برائیاں نظر آنے لگیں۔
میں ایک بار پھر کہتی ہوں کہ ہرگز ہرگز میں عورت کو خود سر بنانے کی یا “میرا جسم میری مرضی” کی بات نہیں کر رہی مگر میں عورت کو تختہ مشق بنائے جانے والے مروجہ اصولوں کی ہرگز حمایت نہیں کروں گی۔ عورت کو اپنے جیسا گوشت پوست کا انسان سمجھو اسے برداشت کا درس دینے سے پہلے اپنے بیٹے کو برداشت کرنا سکھائو ۔
اسے یہ سکھائو کہ عورت لوٹ کا مال نہیں ہے کہ ایک گئی تو دوسری آئی اسے سمجھائو کہ اور اشیاء ضرورت میں فرق ہے۔۔۔عورت کا حصول اس کیلئے اتنا سہل مت بنا دو کہ وہ چیزوں کی طرح اسے برتنا شروع کر دے۔
اسے بتائو کہ عورت کے بالکل تمہارے جیسے حقوق ہیں اس کا دائرہ کار مختلف ہے مگر حقوق نہیں۔
کوئی عورت زبان کیوں چلائے گی اگر مرد اس کو عزت دے لیکن اگر وہ گالی دے تو کیوں خاموشی سے سب سہہ جائے کیا صرف اس لئے کہ وہ عورت ہے اور اس ناتے اسے بولنے کا حق نہیں۔۔
گدھوں کی طرح اس پہ بوجھ لادو ،ضرورت پوری کرو ،پھر لات مار کر بستر سے گرا دو اور وہ پھر سے کپڑے جھاڑ کر ہاتھ منہ دھو کر تیرے لئے کھانا گرم کر کے لا دے۔۔۔کیوں؟؟
مانا کہ نہ سب مرد برے نہ ہی سب عورتیں بیبیاں مگر عمومی رویہ کیا ہے اسے سامنے رکھئے۔
یاد رکھیےاگر زبان دراز عورت مرد کو پسند نہیں تو گالی دینے والا مرد بھی عورت کیلئے ناقابل برداشت ہے۔
اب سب سے آخری بات کہ ملک میں بڑھتی ہوئی طلاقوں کو کیسے روکا جائے۔؟
طلاق اللہ کے حلال کردہ امور میں سے ایک ایسا عمل جسے پسندیدہ اگرچہ نہیں کہا گیا مگر حرام اور لعنت بھی قرار نہیں دیا گیا اس لئے سب سے پہلے تو ہمیں اس جائز چیز کو حرام اور لعنت سمجھنے والے اپنے رویوں پہ نظر ثانی کرنی پڑے گی ۔
ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم نے اس جائز امر کو اپنے قول و فعل سے حرام کے درجے تک کیوں پہنچا دیا؟
کیوں طلاق کو گلے کا طوق کہہ کر اسے ماتھے پہ لگنے والے داغ میں بدل دیا؟
اگر محمدمصطفیٰ ﷺ کے پاس ایک عورت آکر یہ کہتی ہے کہ مجھے اپنے شوہر کی شکل پسند نہیں اور پیارے نبی طلاق دلوا دیتے ہیں تو آخر ہمارے ہاں اسے لعنت کیوں بنا دیا گیا؟
ہم نے کیوں یہ سوچ لیا کہ زندگی بھلے جہنم سے بدتر ہو کر گزارو ، گھٹ گھٹ کر جیو، سانسیں ختم ہونے سے پہلے مر جاؤ ، زندہ لاش بن کر سانسوں کی گنتی پوری کرو ،چاہے مرد ہو یا عورت دوسرے فریق کا ہر ظلم ،ہر زیادتی برداشت کرو مگر خبردار جو طلاق کا سوچا۔۔۔کیوں آخر؟
طلاق یافتہ مرد کیلئے بھی زندگی کوئی بہت آسان نہیں ہوتی اسے بھی معاشرے میں بہت مشکلات سہنی پڑتی ہیں مگر عورت کی زندگی تو بالکل ہی جہنم بنا دی جاتی ہے۔طلاق کو اس کے ماتھے پر واقعتا داغ بنا کر چپکا دیا جاتا ہے جسے وہ مرتے دم تک نہیں دھو سکتی۔ اور ایسا صرف ہمارے برصغیر میں ہوتا ہے۔
ہو سکتا ہے دنیا کے کسی اور خطے میں بھی ایسا ہوتا ہو کم یا زیادہ مگر برصغیر پاک و ہند میں تو یہ گویا گناہ عظیم بنا دیا گیا۔میرا سوال ہے کہ ایسا کیوں ؟
کیا دور رسالت میں طلاقیں نہیں ہوتی تھیں؟ کیا تب بھی طلاق یافتہ مرد وزن کو اتنا ہی ناپسند کیا جاتا تھا جتنا کہ آج؟ مجھے تو حضرت زینب کے اسی ایک واقعے سے یہی نظر آیا کہ طلاق لینے کیلئے محض ناپسندیدگی بھی ایک قابل قبول عذر ہے۔
مانا کہ طلاق کوئی پسندیدہ عمل نہیں ، اعزاز نہیں ،تمغہ شجاعت نہیں مگر کالک بھی تو نہیں جس کے لگنے سے عمر بھر کیلئے انسان کے کردار کو داغدار کر دیا جائے۔
اب سوال یہ کہ اس عمل کی بڑھتی شرح کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے ؟
میرے خیال سے یہ سب اس لئے کہ قلم ،طاقت اور اختیار سب مرد کے ہاتھ میں ہے؟
جب تک آپ طلاق کو مرد کی دستار کا داغ نہیں کہیں گے جب تک آپ طلاق کو مرد کی عزت سے نہیں جوڑیں گے اور جب تک آپ طلاق یافتہ مرد سے اتنی ہی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کریں گے جتنی طلاق یافتہ عورت کیلئے کرتے ہیں ، جب تک طلاق یافتہ مرد کیلئے دوسری شادی اسی طرح مشکل نہیں بنائیں گے تب تک یہ عورت کے ماتھے کا داغ ہی رہے گا اور باآسانی طلاقیں ہوتی رہیں گی اور اس کی شرح بڑھتی رہے گی۔
جب تک یہ عمل مرد کے غصے میں کہے گئےتین لفظوں کےکھیل تک محدود رہے گا یہ کھیل کھیلا جاتا رہے گا ۔
اس کی شرح میں اضافے کو آپ تب تک نہیں روک سکتے جب تک اسے مرد کیلئے باعث ندامت نہیں بنائیں گے بالکل اسی طرح جس طرح عورت کیلئے بنا دیا ہے۔
کیوں طلاق کو مرد کے گلے کا طوق نہیں بنایا جاتا ،اس کے ماتھے پہ داغ کی صورت کیوں نہیں چپکا دیا جاتا؟
چاہے غلطی مرد کی ہو چاہے وہ دوسری شادی کی خواہش میں عورت کو طلاق دیدے چاہے بیٹے کی آرزو میں وہ بیٹیوں والی کو چھوڑ دے اسے لعنت ملامت کیوں نہیں کی جاتی اس کے حصے کا یہ داغ کیوں عورت کے ماتھے پر ہمیشہ کیلئے چپکا دیا جاتا ہے؟
آپ مرد کو طلاق یافتہ کہہ کر دھتکارنا شروع کر دیں ،اپ طلاق یافتہ مرد کی دوسری شادی اسی طرح مشکل بنا دیں جس طرح عورت کی تویاد رکھئے مرد کبھی بات بات پر طلاق کی دھمکی دے کر اس کی عزت نفس کی دھجیاں نہیں اڑائے گا عورت کو عزت دے گا تو کوئی وجہ نہیں کہ عورت گرم و سرد برداشت نہ کرے۔