محمد عمیر مفکر، کالم نگار، تجزیہ نگار

مولانا فضل الرحمن ،حکومت کا خاتمہ اور مسئلہ کشمیر

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمد عمیر مفکر۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاست کے میدان میں، میں نے بہت سارے مدبر، دلیر، نڈر بےباک سیاستدان دیکھے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمن صاحب جیسے مدبر، دلیر لوگ بہت کم دیکھے ہیں۔ مولانا صاحب سے ممکن ہے آپ کے اور میرے نظریاتی، سیاسی لاکھ اختلاف ہوں مگر اس بات پر دو رائے ہرگز نہیں کہ مولانا فضل الرحمن نے ہمیشہ جمہوریت اور جمہوری قوتوں کا ساتھ دیا ہے۔

ایک دن اسلام آباد میں الیکشن کمیشن افس کے سامنے مولانا فضل الرحمن نے پریس کانفرنس کے دوران ریاستی اداروں اور فوج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ملک کے محافظ اور ہمارے سروں کے تاج ہو مگر جب آپ سیاست گردی کروگے، خارجہ،داخلہ اور فنانس پالیسیز میں من مانی اور مداخلت کروگے،پارلیمنٹ کو غلام بنانے کی کوشش کروگے تو پھر ہم تمہیں عزت نہیں دے سکتے، تمہارا کام سیاسی مداخلت نہیں بلکہ سرحدوں کی حفاظت ہے… اس دوران عدلیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ سے نہیں بلکہ تمہاری نا انصافی اور امتیازی فیصلوں سے نفرت ہے…

پس ثابت ہوا کہ مولانا فضل الرحمن ریاستی اداروں، فوج اور عدلیہ کے خلاف نہیں بلکہ ان کے فیصلے کے خلاف ہیں…..قوت کے لحاظ سے سے دیکھا جائے تو تقریباً 25 ہزار مدارس میں مولانا فضل الر حمن کےعقیدت مندوں کی تعداد لاکھوں میں ہے مگر مولانا صاحب نے کبھی شدت پسندی اور جذباتی سیاست کا مظاہرہ نہیں کیا ہے بلکہ ہمیشہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوۓ سیاسی جدوجہد کی…

مولانا انتہائی معتدل مزاج، ہنس مکھ اور زیرک سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی معاملات پر انتہائی مضبوط گرفت رکھنے کی وجہ سے ہمیشہ مضبوط موقف رکھتے ہیں…یہاں پر میں جمیعت علماء اسلام کے کارکنان کا اداروں کے نام پیغام آپ کے پیش خدمت رکھنا چاہتا ہوں ‏

"مولانا فضل الرحمن سمیت کسی بھی عالم دین ، مذہبی کارکن کے خلاف انتقامی کاروائی کی کوشش کی گئی تو ہماری سفید پگڑیاں امن کا نشان تو ہیں ہی لیکن یہی پگڑیاں پھر ہمارے کفن ہوں گی.اور تمھیں ایسا سبق سکھائیں گے کہ تاریخ کانپ اٹھے گی.

مولانا فضل الرحمن کے سیاسی ورکرز کے علاوہ ہزاروں مدارس میں مرید موجود ہیں اور ان سے شدید عقیدت رکھتے ہیں۔ وہ کسی دوسری سیاسی پارٹی کی طرح نہیں بلکہ مولانا صاحب پر جان دینے اور لینے کو بھی چوبیس گھنٹے تیار رہتے ہیں.

مولانا صاحب کے ساتھ وہ مجاہدین بھی موجود ہیں جنہوں نے افغانستان میں جہازوں، جدید ٹیکنالوجی کو شکست سے دوچار کیا ہے. مولانا کے ساتھ وہ کارکن و مرید ہیں جو مولانا صاحب کی خاطر لڑنا، جنگ، جہاد کرنا اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں.

موقع ملے تو مولانا صاحب کے قریب جائیں، ان کے اپنے کارکنان کی عقیدت دیکھیں اور ان کا بیک گراؤنڈ ضرور دیکھیں۔ الغرض مولانا صاحب کو کچھ بھی ہوا تو پاکستان کسی بھی ادارے کا سربراہ محفوظ نہیں رہے گا ۔ جس طرح ہم نے انگریزوں کے خلاف جہاد کیا تھا اسی طرح آپ کے خلاف بھی کریں گے لہذا اپنی حد میں رہو، عزت سے پیش آئو، ہم پر امن ہیں(یہ رہا مولانا صاحب کے کارکنان نے اداروں کے نام پیغام)…

میں بذات خود مولانا کے کارکنان کی قوت کی تصدیق کرتا ہوں کیونکہ میں خود دینی مدارس کا فارغ التحصیل ہوں۔ مدارس کے طلباء علماء کے ساتھ جو عقیدت اور محبت رکھتے ہیں، کوئی بھی قوت اسے شکست نہیں دے سکتی…

مولانا صاحب کے جارحانہ رویہ سے ان کی شفافیت، پاک دامنی اور ان کے بےداغ ماضی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگر ایسا رویہ کوئی دوسرا لیڈر استعمال کرتا تو اب تک اسکے اوپر چور، ڈاکو، نشئی، کرپٹ، بدعنوان اور اس طرح کی دیگر کئی دفعات لگ چکی ہوتیں… میں سمجھتا ہوں پاکستان کی سیاست مولانا کے بغیر نامکمل ہے….

الغرض 25 جولائی 2018 کی سلیکشن کو مولانا سمیت دیگراپوزیشن جماعتوں نے مسترد کیا۔ مولانا نے اپنی مدد آپ کے تحت ملک گیر ملین مارچ کا آغاز کیا خیبر سے لے کر کراچی تک۔ کوئٹہ میں فائنل مارچ کیا جہاں انہوں نے حکومت کو ایک ماہ کی ڈیڈلائن دی کہ وہ اکتوبر تک مستعفی ہوجائے ورنہ اکتوبر میں عوام، دیگر پارٹی کے کارکنان کو لے کرجمیعت علماء اسلام کارکنان اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے اور اسلام اباد کا لاک ڈاؤن کریں گے…

چند دن پہلے اسلام آباد میں دو روزہ پارٹی اجلاس کے اختتام پر انہوں نے پریس کانفرنس میں وزیر داخلہ کو دوٹوک پیغام دیا کہ ہمارے قافلہ پرامن ہوں گے، ہم نے سارے ملین مارچ پر امن کیے ہیں لہذا وہ ہماری راہ میں رکاوٹ نہ بنیں..

اس دوران ایک صحافی کے سوال نے سوال کیا کہ اگر آپ کے قافلے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کی گئیں تو پھر کیا ہوگا؟ تو مولانا نے آسان جواب دیا کہ راستہ ہموار کرنے کے لیے اس کی صفائی بھی کریں گے…. ایک ٹی وی پروگرام میں عاصمہ شیرازی کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا نے کہا کہ سارے ایشوز زیر بحث ہیں اور ہم ایک سال سے پلاننگ میں ہے لہذا ہم تمام ایشوز کو ساتھ لے کر اسلام آباد کی طرف مارچ کر یں گے اور جب تک اس حکومت کا خاتمہ نہیں ہوگا تب تک واپس نہیں لوٹیں گے…

صحافی نے سوال کیا کہ آج کل کشمیر کا ایشو بہت ہی سنجیدہ مسئلہ بن گیا ہے اگر آپ اسلام اباد لاک ڈاؤن کریں گے تو اس سے کشمیر مسئلہ مزید متاثر نہیں ہوگا؟ مولانا نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جس شخص نے یہ حالات بنائے ہیں پہلے اس کا صفایا ہونا چاہیے اور اگر ضرورت پڑی تو کشمیر بھی آزاد کروائیں گے لیکن اس حکومت کو مزید وقت دیا تو یہ کشمیر کے ساتھ پاکستان کا سودا بھی کر لے گا.

میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ عمران خان کی حکومت مولانا فضل الرحمن صاحب کے ہاتھوں چلی جائے گی.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں