محمدعامرخاکوانی۔۔۔۔۔۔۔۔
برادرم رئوف کلاسرا کا ٹاک شو بند ہونا افسوسناک اور پریشان کن امر ہے۔ ٹی وی پروگرام اگر ریٹنگ نہ آنے یا عدم مقبولیت کی وجہ سے بند کیا جائے تو اس کی وجہ الگ ہے۔ کوئی پروگرام انویسٹی گیٹو جرنلزم اور حکومتی سکینڈل بے نقاب کرنے کی وجہ سے بند کیا یا کرایا جائے تو یہ پریشان کن امر ہے۔
مجھے افسوس ہے کہ عمران خان کی حکومت میں یہ ہور ہا ہے۔ ان کے حکومتی سکینڈل سامنے آ رہے ہیں اور کابینہ اور حکومت کا غصہ، برہمی بڑھ رہی ہے۔ عمران خان سے ہمیں یہ توقع نہیں تھی۔ میڈیا ٹربیونلز کے حوالے سے بھی زیادہ غصہ وزیراعظم نے دکھایا۔ انہیں برداشت اور تحمل سے کام لینا سیکھنا چاہیے۔
اسی رئوف کلاسرا کے پروگرام بطور اپوزیشن لیڈر انہیں بے حد پسند تھے، وہ ان سکینڈلز کو اپنی پریس کانفرنسوں، ٹاک شوز میں استعمال کرتے تھے ۔ وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان کی نظر، سوچ کا زاویہ سب بدل گیا۔
اللہ رحم کرے، آنے والے دن میڈیا کے لئے زیادہ پریشان کن لگ رہے ہیں۔ میڈیا کا زندہ رہنا سماج کے لئے ضروری ہے کہ اگر یہ خاموش ہوا تو پھر اپوزیشن اور کسی بھی قسم کے اختلاف کو کوئی نہیں بچا سکے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ کس طرح پتہ چلے گا کہ ان کے ادارے نے انہیں ریٹنگ یا بجٹ وغیرہ کی وجہ سے فارغ کیا ہے یا اس میں حکومتی دبائو کارفرما تھا؟
ادارے جب فارغ کرتے ہیں تو وہ بیشتر اوقات ایک ماہ کا نوٹس دیتے ہیں۔ اس دوران وہ بھی متبادل اینکر ، ٹیم ڈھونڈ لیتے ہیں اور اینکر بھی اپنی مرضی سےکہیں ادھر ادھر بات کر لیتا ہے۔ ایسا بھی ہوا کہ اینکر نے چینل چھوڑ دیا ،مگر وہ کچھ پروگرام ریکارڈ کرا گیا جو اس کے جانے کے بعد بھی چلتے رہے ، وہ اس لئے کہ بیشتر اشتہارات پروگرام کے حساب سے بک ہوتے ہیں۔
جب اچانک یہ کہا جائے کہ آپ کا شو بند کیا جارہا ہے اور آج رات پروگرام نہیں ہوگا تو وہ ادارے کی طرف سے نہیں بلکہ کسی اور طرف سے بند کرایا جاتا ہے۔ اس کیس میں جس کا اندازہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کلاسرا صاحب کے پروگراموں کی وجہ سے خاصی ناراض تھی۔
ادارے کے لئے کسی شو کوہنگامی بنیاد پر بند کرانے کی کوئی تک نہیں ہوتی کیونکہ انہیں اس ٹائم میں کوئی پروگرام تو چلانا ہے۔ فوری طور پر متبادل اینکر ، ٹیم ، گیسٹس وغیرہ کا انتظام کرنابہت مشکل ہوتا ہے۔ کلاسرا صاحب کے معاملے میں ویسے بھی چھ سات دن بعد یکم ہے۔ آسانی سے یہ کہا جا سکتا تھا کہ یکم سے آپ پروگرام نہ کیجئے گا۔
ریٹنگ کا ویسے اس معاملے میں مسئلہ نہیں تھا، اگر ہو بھی تو جب تین ماہ سے پروگرام ہو رہے ہیں تو چھ دن مزید ہونے سے کیا آفت آ جانی تھی؟ متبادل پروگرام نے کون سا پہلے دن سے ریٹنگ لے لینی ہے؟
اصل نکتہ جو میں نے اپنی پوسٹ میں اٹھایا کہ جب انویسٹی گیٹو جرنلسٹ کے پروگرام یوں بند ہونے لگے تو پھر جلد وہ وقت آ جائے گا جب کسی حکومتی سکینڈل کی خبر کوئی فائل ہی نہیں کر پائے گا۔ یہ پوری سوسائٹی کے لئے پریشان کن امر ہوگا۔
رئوف کلاسرا کا پروگرام بند ہونا صرف ان کے لئے برا نہیں، یہ پورے میڈیا، صحافتی برادری اور اس سے بھی بڑھ کر تمام سیاسی قوتوں اور عوام کے لئے نقصان دہ ہے۔ اس بندش کو اس تناظر میں دیکھئیں۔