نام: مرجع خلائق
مولف: عبدالودود
قیمت:500 روپے
ناشر: مکتبہ خواتین میگزین، منصورہ، لاہور
اللہ تبارک و تعالیٰ کی یہ عجیب سنت ہے کہ ہردور میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں اور لوگوں کی نگاہوں میں آتے رہتے ہیں جو اس دور کے تقاضوں کو بھی پورا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ تبارک و تعالیٰ کے اس اعلان ’’ اور اس شخص سے اچھی بات کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا، نیک عمل کیا اور کہا کہ بے شک میں تو سراطاعت خم کردینے والوں میں سے ہوں‘‘ کی عملی تفسیر بن کر رب کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچاتے رہتے ہیں۔
زیرنظرکتاب جس مرجع خلائق کے بارے میں ہے ، انھیں پاکستان کا اہم ترین شہر راولپنڈی مولانا قاضی محمد سرورکے نام سے گزشتہ کئی عشروں سے جانتا اور پہچانتاتھا۔ وہ جماعت اسلامی کے بانی سیدابوالاعلیٰ مودودی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور علمی و عوامی حلقوں میں بڑا نام و مقام رکھتے تھے۔ انھوں نے ایک دنیا کو اپنی شخصیت سے متاثرکیا۔ کتاب میں کم وبیش ایک سو لوگوں نے ان کا تذکرہ لکھاہے اور خوب لکھاہے۔ ان سب تذکروں سے قاضی صاحب کی شخصیت کا بخوبی اندازہ ہوتاہے، کسی نے انھیں ’پہاڑی کا چراغ‘ کہا، کسی نے انھیں دیکھا تو اسے قرون اولیٰ کے لوگوں کی یاد تازہ ہوگئی۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگ سراپا روشنی ہوتے ہیں اور معاشرے کو بھی روشن کرنے کے لئے شبانہ روز محنت کرتے ہیں۔ کتاب کے مطالعہ سے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ سعادت کی زندگی کیسی ہوتی ہے اور وہ لوگ کیسے ہوتے ہیں جن کے رخصت ہونے پر زمانہ رہ ، رہ کے روتاہے۔
…………………………………………………………..
نام: کالاپانی (تواریخ عجیب)
مصنف: مولانا محمد جعفرتھانیسری مرحوم
قیمت:500روپے
ناشر:بک کارنر، جہلم
دومئی1864ء کو عدالت میں جج کی آواز گونجی:’’ مولوی محمد جعفر!!‘‘
’’تم بہت عقل مند، ذی علم، اور قانون دان، اپنے شہر کے نمبردار اور رئیس ہو، تم نے اپنی ساری عقل مندی اور قانون دانی کو سرکار کی مخالفت میں خرچ کیا۔ تمہارے ذریعے سے آدمی اور روپیہ سرکار کے دشمنوں کو جاتاتھا۔ تم نے سوائے انکارِبحث کے کچھ حیلتاً بھی خیرخواہی سرکارکا دم نہیں بھرا اور باوجود فہمائش کے اس کے ثابت کرانے میں کچھ کوشش نہ کی۔ اس واسطے تم کو پھانسی دی جاوے گی۔ میں تم کو پھانسی پر لٹکتا ہوا دیکھ کر بہت خوش ہوں گا‘‘۔
مولوی محمد جعفر نے بے خوف کہا:’’جان لینا اوردنیا خدا کاکام ہے، آپ کے اختیار میں نہیں ہے۔ وہ رب العزت قادر ہے کہ میرے مرنے سے پہلے تم کو ہلاک کردے۔‘‘
تاریخ گواہ ہے… مولوی محمد جعفر کی پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی اور جج اگلے چند روز میں دنیا سے سدھارگیا۔
مولانا محمد جعفرتھانیسری تحریک سیداحمد شہید کے قافلے کے رہرو تھے، یہ تحریک جہاد اور تجدید احیائے دین کی تھی جس کے سرفروش اپنی گردنیں اپنی ہتھیلیوں پر لیے پھرتے تھے۔ سید احمد شہید نے طاغوت اور لرزتی ،کانپتی ، دم توڑتی سکھاشاہی حکومت کے خلاف تلواریں نیام سے نکال کر وقت کے پہیے کو گھمایا۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمان شدید ابتلاء و آزمائش میں تھے، زندگیاں اجیرن، مساجد اور اسلامی شعائر کی علانیہ بے حرمتی کا دور دورہ تھا۔ مولانا جعفر اور ان کے ساتھیوں نے اس کے خلاف جدوجہد کی۔
مولانامحمد جعفر کی پھانسی کی سزا عمرقید میں بدلی اور انھیں’کالاپانی‘ بھیج دیاگیا جہاں انھوں نے قریباً دوعشرے گزارے۔ زیرنظرکتاب اسی طویل قید کی داستان ہے، بہت شاندار نثر میں نہایت عمدگی سے تمام حالات وواقعات بیان کئے گئے ہیں۔ قیدی کی زندگی اذیت ناک ہوتی ہے لیکن عجیب بات ہے کہ مولانا محمد جعفرتھانیسری کی یہ داستان بہت لطف بخشتی ہے۔ آپ ضرور پڑھئے گا۔
٭٭٭
نام: کبھی ہمت نہ ہارئیے
مصنف: سجاول خان رانجھا
قیمت:400روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم
سجاول خان رانجھا سینئر صحافی، سفرنامہ نگار اور دانشور ہیں۔ پہلے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے صحافت میں ماسٹرڈگری حاصل کی، پھر فرائی یونیورسٹی برلن جرمنی سے بھی اسی مضمون میں ماسٹر کیا۔بعدازاں دنیا کی دیگرکئی یونیورسٹی میں پڑھتے رہے، پھرتے رہے۔ سفرنامہ نگاری ان کی بڑی پہچان ہے، ممتازمفتی، اشفاق احمد، ڈاکٹرسلیم اختر، پروفیسرمحمد منور، افتخارعارف، ڈاکٹروحید قریشی ، سیدضمیر جعفری، ڈاکٹرمسکین علی حجازی، ڈاکٹرعطش درانی، مستنصر حسین تارڑ، عطاالحق قاسمی، ڈاکٹررضیہ سلطانہ، ڈاکٹرنجیبہ عارف، پروفیسراحمد رفیق اختر، محسن احسان اور منشایاد ایسے سرکردہ ادیبوں اور دانشوروں نے ان کے سفرناموں کو خراج تحسین پیش کیا۔
زیرنظرکتاب کا عنوان ہی اس کا تعارف ہے، یہ نامساعد حالات میں کامیاب اور نامور بننے والے اہل ہمت کی ولولہ انگیز داستانوں کا مجموعہ ہے۔ کتاب کی خوبی یہ ہے کہ مصنف ایک شخص کی محض کہانی بیان کرکے آگے نہیں بڑھ گئے بلکہ نہایت دلنشین اندازمیں اس کی داستان عزم وہمت بیان کرنے کے ساتھ ہی ساتھ ، قاری کو غیرمحسوس طور پر کچوکے بھی لگاتے رہے، پھر ہر کہانی کے آخر میں سوالات کی صورت میں قاری کو باقاعدہ بازوسے پکڑ کے کچھ کرگزرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔مثلاً ایک آدمی کے19گھوڑوں کی کہانی بیان کرکے پوچھتے ہیں کہ کسی مشکل کا سامنا کرتے ہوئے آپ اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا پریشان ہوکرہاتھ پاؤں چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں؟ ایک مشہور فاسٹ فوڈ چین کے بانی کرنل ہارلینڈ سینڈرز، مشہور امریکی شخصیت اوپراونفرے، ہیری پوٹرسیریز کی مصنفہ جے کے راؤلنگ کی کہانیاں بیان کرکے سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ کی زندگی کی کہانی بھی کچھ اسی قسم کی ہے، جسے آپ دوسروں کے ساتھ شئیر کرنا پسند کریں گے؟ اور مجمسمہ سازمائیکل اینجلو کا قصہ بیان کرکے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ بھی آج کے بعد مائیکل اینجلو ایسا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
اگر آپ بھی اپنے آپ کو کسی بندگلی میں محصور محسوس کرتے ہیں تو یہ کتاب آپ کو کامیابی کی شاہراہ پر گامزن کردے گی۔
٭٭٭
جو بچھڑگئے
’’تابوت لئے ہوئے ہیلی کاپٹر ساڑھے دس بجے کے لگ بھگ ڈیرہ بگتی پہنچا، تابوت سیل بند تھا، چہرے والی جگہ پر شیشہ بھی نہیں لگایا گیاتھا، سو کوئی نہ دیکھ سکا کہ تابوت کے اندر کس کی میت ہے؟ ہے بھی یا نہیں؟ گزشتہ کئی گھنٹوں سے حراست میں لئے گئے مولانا محمد ملوک نے نمازجنازہ پڑھانے میں ڈیڑھ منٹ لیا، ایک ٹی وی چینل کے مطابق پندرہ افراد نے نمازجنازہ پڑھی۔ اخبارنویس چیختے رہ گئے کہ ہمیں چہرہ دکھایاجائے لیکن ایسا کرنا وسیع ترقومی مفاد کے خلاف سمجھاگیا۔ دوچار مزدوروں نے تابوت قبر میں اتارا، مٹی ڈالنے کے بعد فاتحہ ضروری نہ سمجھی گئی، صحافیوں اور مزدوروں نے مل کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے، چاروں طرف سیکورٹی فورسز کا گھیرا تھا، گلیوں اور سڑکوں پر بکتربند گاڑیاں کھڑی کرکے بند کردی گئی تھیں۔ امن وامان کا کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوا اور ’’ریاستی رٹ‘‘ کو چیلنج کرنے والے باغی کو انہی کی نگرانی میں سپردخاک کردیاگیا جن پر اس کے قتل کا الزام تھا۔ قبرکا دھانہ بند ہوتے ہی پاکستان کی فصیل دفاع فولاد کے سانچے میں ڈھل گئی‘‘۔
جناب عرفان صدیقی نے اپنے کالموں کے زیرنظرمجموعہ میں نواب اکبربگٹی کا تذکرہ کچھ اس اندازمیں کیا کہ آنکھوں میں نمی اتر آتی ہے۔ منفرداسلوب کے حامل کالم نگار ایک طویل عرصہ صحافت کے میدان میں گزارنے کے بعد ایک عرصہ سے پاکستان کے صدور اور وزرائے اعظم کو مشاورت فراہم کرنے کے منصب پر فائز ہیں۔ اس اعتبار سے انھوں نے بہت کچھ ایسا دیکھا، سنا جو کروڑوں لوگوں کے علم میں نہیں ہے۔ ان کی معلومات، مشاہدات کالموں کی صورت میں اخبارات کی زینت بنے، ان میں سے پچاس کے قریب کالم زیرنظرمجموعہ کی شکل اور مجلدصورت میں منظرعام پر آئے ہیں۔ کتاب کے عنوان ہی سے بخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ یہ کالم جانے والوں کی یاد میں لکھے گئے ہیں، ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کا ذکر مصنف نے سنا اور وہ بھی جنھیں دیکھا اور ایسے بھی جن کے ساتھ وقت گزارا۔
ذوالفقارعلی بھٹو سے بے نظیر بھٹو حتیٰ کہ آصف علی زرداری تک، پیپلزپارٹیکبھی عرفان صدیقی کے فکر وخیال میں جگہ نہیں بناسکی تاہم اس کے باوجود بے نظیر بھٹو سے ان کی محبت کے قصے زیرنظرکتاب میں موجود ہیں۔ نواب زادہ نصراللہ خان،میاں طفیل محمد،مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسرغفوراحمد، نواب اکبربگٹی، قاضی حسین احمد سے ملاقاتوں کی کہانیاں بھی شامل ہیں۔ دل چاہتاہے کہ ان خوبصورت ملاقاتوں کی ایک ایک جھلک یہاں لکھ دوں لیکن تنگی داماں اس چاہت کو قید کردیتی ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ آپ کتاب ہی خرید لیں، اس میں علامہ اقبال، مولانا ظفرعلی خان، آغا شورش کاشمیری، مفتی نظام الدین شامزئی، مولانا نعیم صدیقی، مفتی محمد جمیل خان، ڈاکٹر اسراراحمد، ڈاکٹر سرفراز نعیمی، عباس اطہر، میاں محمد شریف، سلیم شہزاد، اشفاق احمد، احمد فراز، ارشاداحمد حقانی، عبدالقادرملا ایم ایچ ہمدانی، بشیراحمد بلور اور جسٹس رانا بھگوان داس کے علاوہ اپنی، بہت ہی اپنی ہستیوں کو بھی یاد کیا، والدہ، بھائی، دیگر اعزا اور اساتذہ کے شاندار تذکرے موجود ہیں۔ اس انتہائی مضبوط اور خوبصورت کتاب کی قیمت 800روپے ہے اور ناشر ہے: ’بک کارنر، جہلم‘ ۔
٭٭٭
نام: سلطان زنگی کی بیوہ
مصنف:ڈاکٹر اختر حسین عزمی
قیمت:260 روپے
ناشر: منشورات منصورہ،ملتان روڈ ،لاہور
ڈاکٹر اختر حسین عزمی بنیادی طور پر ایک استاد ہیںاور طالبعلموں میں علم وعمل کی جوت جگانے میں روز و شب مصروف رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان میں خطابت کا ملکہ بھی رکھا ہے۔ کسی بھی موضوع پر سامعین کو پُرمغز گفتگو سے مسحور اورمحصورکردیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے جس موضوع پر قلم بھی اٹھایا، اپنا سکہ جمایا۔ان کی کتب ’مولانا امین احسن اصلاحی حیات و افکار‘،’امام شافعی کے علمی سفر‘،’عظمتِ کردار‘،’نیل کا مسافر‘،’فطرت ِ انسانی اور دعوت و تربیت‘پڑھنے والوں کو سیراب کر رہی ہیں۔ ابانھوں نے ’سلطان زنگی کی بیوہ‘ پر قلم اٹھایا اور تاریخِ اسلامی کے اس روشن کردار سے قارئین کو آگاہ کرنے کا حق ادا کردیا ہے۔
ڈاکٹر عزمی خود تاریخِ اسلامی کے اس روشن کردار کا تعارف ان الفاظ میں کرواتے ہیں:’’1099ء میں قبلہ اول بیت المقدس پرصلیبی طاقتوں کا قبضہ ،مسلمانوں کی کمزوری کے باقاعدہ اظہار کاایک نقطہ ء آغاز تھالیکن ان کا زوال اور بگاڑ تو بہت پہلے شروع ہو چکا تھا۔ اتنا بڑا سانحہ اس وقت وقوع پذیر ہو ا تھاجب مسلمان امرا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے صلیبیوں کے مددگار بن گئے تھے۔ قبلہ اول کی طرف پیش قدمی کرنے والے صلیبیوں کو بہت سی ریاستوں کے مسلمان امرا نے اپنی اپنی ریاستوں سے گزرنے کے لیے نہ صرف راہداری دی تھی بلکہ رسد، جسے آج کے زمانے میں لاجسٹک سپورٹ کہتے ہیں، وہ بھی فراہم کی تھی۔ مسلم معاشروں میں مسلمان امرا کو اتنی لاتعلقی اور بے غیرتی کی جسات اس وقت پیداہوئی جب مسلم معاشروں میں منافقت ، بے مقصدیت اور بے حسی کی معاشرت پروان چڑھ چکی تھی۔
ایسے میں شام کی ایک چھوٹی سی ریاست کا حکمران عمادالدین زنگی اس احساسِ زیاں کی علامت بن کر ابھرا۔ اس کے بعد اس کے بیٹے نورالدین زنگی نے نہ صرف اپنی سلطنت کو توسیع و استحکام بخشا بلکہ وہ احیائے اسلام کے لیے مضطرب روحو ں کا مرکزِ توجہ بن گیا۔ اس کی وفات کے بعد بظاہر حالات وہیں پہنچ گئے تھے،جہاں سے نورالدین زنگی کے باپ نے آغاز کیا تھا۔ نورالدین زنگی کا کمسن بیٹا مفاد پرست امرا کے ہاتھوں میں کھلونا بن گیا توقدرتِ حق نے صلاح الدین ایوبی کو سلطان زنگی کے مشن کا وارث بنا کر کھڑا کر دیا۔ عظمتِ اسلام کے مشن سے منحرف سلطان زنگی مرحوم کے بیٹے کے مقابلے میں خود اس کی ماں۔۔۔یعنی سلطان زنگی کی بیوہ ۔۔۔۔۔نے جس طرح اندورنی محاذ پر مزاحمت کر کے دمشق کی سلطنت کے بگڑے ہوئے تشخص کو پھر سے بحال کر دیایہ ہماری تاریخ کا اہم باب ہے۔‘‘
کتاب کاسرورق خوب صورت اور طباعت کا معیار اعلیٰ ہے۔ اسلامی تاریخ سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک تحفے سے کم نہیں