تزئین حسن، صحافی، تجزیہ نگار، مصنف

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

تزئین حسن۔۔۔۔۔
لوگ کتابوں پر تبصرے لکھتے ہیں میرا دل چاہ رہا ہے، میں چترال کے اس نوجوان کی نا پختہ تحریر پر تبصرہ لکھوں جس کا عنوان ہے، “حجاب ڈے مگر کیوں؟”

تین ماہ پہلے میرے ایک مضمون پر چترال سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان نے کچھ اعتراض اٹھائے کہ آپ کا پردے کا تصور تو خود آپ کے ممدوح علماء کے پردے کے تصور پر پورا نہیں اترتا۔

دوسرے اس کا کہنا تھا کہ آپ پڑھی لکھی دین دار خواتین صرف اپنے طبقے کی عورت کو سامنے رکھ کر لکھتی ہیں، پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی دیہی علاقوں میں رہ رہی ہے اور وہاں کیا ہو رہا ہے، وہاں کی عورت کے اصل مسائل کیا اس سے آپ کو کوئی سروکار نہیں۔

اس کے بعد سے میں دیکھتی رہی ہوں کہ یہ نوجوان مسلسل خواتین کے اصل حقوق، جو اسلام نے ان کو دیئے ہیں، پر آواز اٹھانے میں لگا ہوا ہے۔ پتہ نہیں کیوں مجھے اسے دیکھ کر قرآن اٹک اٹک کر پڑھنے والے کیوں یاد آتے ہیں۔ شاید اس لئے کہ میں بھی اسی اسٹیج سے گزری ہوں جب دنیا سے مختلف سوچ اور کہنے کے لئے بہت کچھ ہو لیکن اظہارکا سلیقہ نہ ہو۔ اور ایسے موقع پر منہ کھولنا آسان کام نہیں مگر یہ کر گزرتا ہے۔

میری طرح یہ بھی اپنے آس پاس ہونے والی نا انصافیوں پر زیادہ کڑھتا رہا ہے، اسی لئے اپنوں کی گالیاں بہت کھاتا ہے۔ میں نے خود اپنے ذاتی فیس بک پیج پر بزعم خود اسے مذہب کے ایک ورژن کا دفاع کرنے والوں کو اسے گندی گندی گالیاں دیتے دیکھا ہے اور ردعمل میں اس کی متانت بھی ملا حظہ کی ہے۔

اس کا تعلق صوبہ کے پی کے دور دراز علاقے چترال سے ہیں لیکن انٹرنیٹ ایج کا شکریہ کے اس کی نظر ماشاللہ کراچی سے منصورہ اور اسلام آباد سے گلگت بلتستان پاکستان کے ہر کونے میں ہے۔ دینی حلقوں پر بہت گہری نظر ہے، مطالعہ خوب ہے، درد مندی سے تجزیہ کرتا ہے، بات کہنے کا سلیقہ شاید کم! مگر دلیل سے بات کرتا ہے۔ جماعت اسلامی کے ایک خاندان سے تعلق ہے اورمیری طرح سچ بولنے کی بیماری۔

اس نے جو سوالات اٹھائے اور بجا طور پر میرے دل میں بھی یہ سوالات موجود ہیں وہ یہ کہ خواتین مارچ پر یہ کہا گیا کہ خواتین کو اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر آنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا کہنا ہے کہ پھر حجاب مانگنے کے لئے سڑکوں پر آنے کی کیا ضرورت؟

اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام عورت کو چار دیواری میں رکھنا چاہتا ہے، دوسری طرف انہی جماعتوں کی خواتین پارلیمنٹ اور میڈیا ہر جگہ موجود ہیں۔ دوسری طرف پردے کے نام پرعورت کو خاتون ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے علاج کی اجازت بھی نہیں ملتی لیکن مذہبی طبقات/ حضرات ان مسائل پر کوئی بات کرنا نہیں چاہتے۔

کچھ اقتباسات درج ذیل ہیں:

“جب آٹھ مارچ کو ویمن ڈے منایا گیا جو عورتوں کے حقوق کے متعلق تھاتو مذہبی حلقے کی طرف سے عورتوں کے حقوق کے بجائے،مارچ کرنے والوں پر تنقید کی گئی،حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھاکہ جو حقوق اسلام نے دئیے ہیں ان کو بیان کیا جاتا “

“خواتین مارچ پر جو تنقید کی گئی، اس میں یہ تھاکہ جن حقوق کو بیان کیا جاتا ہے کیا یہ خواتین کے اصل مسائل نہیں بلکہ ایک مخصوص طبقے کے مسائل ہیں لیکن میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کیا حجاب ہمارے معاشرے کی خواتین کا اصل مسئلہ ہے؟

پھر خواتین کے اصل مسائل کی ایک فہرست بھی تھما دی گئی کہ یہ ہمارے معاشرے کی عورت کے اصل مسائل ہیں۔ اگر یہ مارچ ہمارے معاشرے کے خواتین کے لیے ہوتا تو اس میں یہ بیان ہوتے۔

پوچھنا یہ ہے کہ آپ خود یہ مسائل بیان کیوں نہیں کرتے؟ کیا آپ سے زیادہ خواتین کے اصل مسائل کو بیان کرنے کا کریڈٹ عورت مارچ کونہیں جاتا؟

یہ بھی کہا گیا کہ ہمیں حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمیں اسلام نے یہ حقوق چودہ سو سال پہلے دیئے ہیں سوال یہ کہ اسلام نے حیا اور حجاب کرنے کا حکم بھی چودہ سوسال پہلے دیا ہے تو پھر یہ دن منانے کی ضرورت اور حکمت کیا ہے؟

“عورت مارچ پر تبصرہ دیتے ہوئے ایک خاتون نے لکھا کہ سمجھ سے بالاتر ہے، کون ہیں یہ خواتین جنھیں سڑک پر آکر اپنے حقوق مانگنے پڑتے ہیں، ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہ ہے ہی فیمل سنڑرڈ معاشرہ۔

حجاب ڈے مناتے ہوئے اسی خاتون کو دیکھ کر خیال گزرا کہ پوچھوں،سمجھ سے بالاتر ہے کون ہیں یہ خواتین جو سڑک پر آکر حجاب اور حیا مانگتی ہیں، ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہ تو ہے ہی با حیا اور با پردہ معاشرہ۔”

“میں ان مسائل کا تذکرہ نہیں کرتا جو ہمارے معاشرے میں پردے کے نام پر موجود ہیں کہ پردے کے نام پر نہ مسجد جانے کی اجازت ہے، نہ تعلیم حاصل کرنے کی،نہ ملازمت کی۔ ان واقعات کو بھی نظر انداز کرتا ہوں جہاں پردےکے نام پر رشتہ داروں سے ملنے پر پابندی،خاتون ڈاکٹر نہ ہونے کی صورت میں میل ڈاکٹر کو نہ دکھانے کی صورت میں مر جانا،وغیرہ وغیرہ۔ میں ان مسائل کا تذکرہ بھی نہیں کرتا جہاں پردے کے نام پر خود اسلام کے دیئے گئے حقوق سے بھی عورتوں کو محروم رکھا گیا،جہاں عورت کی آواز اور نام کو بھی پردہ قرار دیا گیا-“

“یہاں مسئلہ یہ ہے کہ پردے کے نام پر عورتوں کو خود اسلام کے دیئے گئے حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے لیکن ہمارے مذہبی لوگ لفظ”پردہ” کے اشتراک کی وجہ سے اس کا دفاع شروع کر دیتے ہیں،یہ دیکھے بغیر کہ یہ پردہ خود اسلام کے مطابق ہے کہ نہیں؟ایک عورت کوگھر میں قید کرکے تعلیم، ملازمت، مسجد، جائز تفریح سے محروم کرنے والا بھی اس کو پردے کا نام دیتا ہے-“

“آخری سوال یہ کہ اسلام میں خواتین سے متعلق بہت سے احکامات موجود ہیں ،جن میں سے ایک پردہ کرنا ہے، سوال یہ ہے کہ ان تمام میں پردے کو اتنی اہمیت دینے کی کیا وجہ ہے؟، وہ بھی اس ملک میں جہاں اکثریت پردہ کرتی ہے۔”

“لیکن دوسری طرف میراث میں حصہ شاید ہی کسی کو ملتا ہو لیکن اس پر خاموشی۔ پردہ نہ کرنے والے چند فیصد ہو سکتے ہیں جبکہ میراث سے محروم،مرضی کی شادی اور مسجد جانے سے تو خود منصورہ میں بھی خواتین محروم ہیں، سوال یہ ہے کہ ان کا تذکرہ کیوں نہیں کیا جاتا ؟عزت کے نام پر ہر سال ہزار سے زائد قتل ہوتی ہیں لیکن ان پر خاموشی،کیا ان کا قصور بس اتنا ہے کہ وہ کشمیر یا فلسطین میں پیدا نہیں ہوئیں ؟”

الله اس نوجوان کو اس جہاد میں استقامت دے۔ یقین نہیں آتا کہ پاکستانی معاشرے میں دینی طبقہ سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان خواتین کے حقوق کے لئے اتنا حساس ہو سکتا ہے۔ یہ نوجوان جن لوگوں میں گھرا ہوا ہے وہاں یہ باتیں کفر کے زمرے میں آتی ہیں۔ (مجھ سے زیادہ کون جان سکتا ہے؟)-


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں