مدثرمحمود سالار۔۔۔۔۔
سورج آہستہ آہستہ پہاڑوں کے عقب میں موجود کسی انجان ویرانے میں ڈوبتا جارہا تھا۔ تیز اور برفیلی ہوا گویا جسم میں چھریاں چلائے جارہی تھی۔ وہ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بڑبڑایا: اونہہ سورج کے نکلنے کا کیا فائدہ جب سورج میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ برفانی ہوائوں کا مقابلہ کرسکے۔ جوں جوں دن ڈھل رہا تھا شام اداسی کا لباس پہنے رقص پر آمادہ نظر آرہی تھی۔ اس نے گاڑی شاہراہ پر ڈالی مگر جان بوجھ کر گاڑی کا ہیٹر آن نہیں کیا، شاید خود کو اذیت دینا مقصود تھا۔
وہ باہر درختوں کی بریدہ ٹہنیوں کو تیز ہوا سے لرزتا دیکھ کر موسمِ سرما کی آمد کو بالآخر قبول کرنے پر آمادہ ہورہا تھا، کاش موسموں پر ہمارا اختیار ہوتا تو موسمِ سرما دور پہاڑوں کی غاروں میں سسک کر مرجاتا مگر اسے باہر انسانی آبادی میں آنے کی اجازت نہ ہوتی۔
وہ جس شہر میں پیدا ہوا اور جہاں پرورش پائی وہاں موسمِ سرما اتنا سفاک اور بے رحم نہ تھا کہ سردی سے نفرت ہوتی۔ اسے اپنا شہر اپنی مٹی یاد آنے لگی۔
چلتے چلتے بہت دیر بعد اسے خیال آیا کہ وہ اس ذیلی سڑک کو بہت پیچھے چھوڑ آیا ہے جو اس کے گھر کی طرف جاتی ہے۔
اس نے ایک نگاہ گاڑی کے فیول میٹر پر ڈالی اور اندازہ لگایا کہ وہ باآسانی سو کلومیٹر آگے جاکر واپس بھی آسکتا ہے۔
اس نے سیٹ پر ٹیک لگالی اور اسی شاہراہ پر سفر کرنے لگا۔ اکادکا بڑے ٹرک آ جا رہے تھے مگر زیادہ گاڑیاں نظر نہیں آرہی تھیں۔ یقینا لوگ سردی کی وجہ سے گھروں میں آتش دان جلائے گرم کمروں میں زندگی سے محظوظ ہورہے ہوں گے۔
وہ سوچنے لگا کہ لوگ گھروں میں کیا کررہے ہیں ؟ کیا انہوں نے آتش دان کے پاس بیٹھ کر چائے پی ہوگی یا وہ ریت میں بھنی ہوئی مونگ پھلیاں کھاتے ہوئے کوئی فلم دیکھ رہے ہوں گے؟ کیا پتا ان کے گھروں میں بھی گیلی لکڑی کا تلخ دھواں رچا ہوا ہوگا یا ان پر جدید طرز زندگی کا اثر غالب آگیا ہوگا اور یہ لکڑی کے دھویں اور لالٹین کی ٹمٹماتی لو سے کوسوں دور جاچکے ہوں گے؟
انہی بے ربط خیالوں میں گم وہ غیرمحسوس انداز میں خیالوں ہی خیالوں میں اپنے شہر پہنچ گیا۔ اس نے دیکھا بوڑھا باپ ایک رضائی اور اس کے اوپر ایک فوجی کمبل ڈالے بستر میں لیٹا ریڈیو پر خبریں سن رہا ہے، ماں لکڑی کا ٹکڑا مٹی کے چولہے میں ڈال کر لوہے کے چمٹے سے انگاروں کو ادھر اُدھر کر رہی ہے اور کبھی کبھار ساتھ پڑی کسی پرانی سکول کی کاپی کو جھلا کر چولہے کو ہوا دے کر آگ کو زندہ رکھنے کی سعی کرتی ہے۔اس کا بھائی زرد بلب کی روشنی میں کتاب کھولے اونگھ رہا تھا، اس نے محسوس کیا کہ کسی کو اس کی موجودگی کا احساس نہیں ہوا، اس نے کچھ دیر انتظار کیا اور پھر چپکے سے دروازہ کھول کر کمرے سے باہر نکل آیا۔
باہر نکلتے ہی اس نے دوبارہ خود کو گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر پایا اور اس نے خوف سے جھرجھری لی۔ وہ خود کو ملامت کرنے لگا کہ گاڑی دھیان سے چلانے کے بجائے وہ کن فضول خیالوں میں کھو گیا تھا۔
اس نے ایک پٹرول پمپ کی روشنیاں دیکھ کر گاڑی پمپ کی طرف موڑ لی۔
گاڑی کھڑی کرکے وہ باہر نکلا تو سرد ہوا نے ایک بار تو جسم کا تار تار ہلا دیا۔ اس نے پچھلی سیٹ سے کوٹ اٹھاکر پہنا اور پٹرول پمپ سے متصل ایک پرانی مگر اچھی خاصی بڑی دکان میں داخل ہوا۔
دکان میں سوائے دکاندار لڑکی کے اور کوئی نظر نہیں آرہا تھا، اس نے سلام کرنے کے بجائے ہلکی سی مسکراہٹ اچھالی اور لڑکی کے کچھ کہنے سے پہلے خود کو ایک پرانی سامان سے بھری میز کی طرف متوجہ کرلیا۔
پرانے سامان میں لکڑی سے بنے ٹریکٹر، زنگ آلود لوہے سے بنے موٹرسائکل، چند تمباکو نوشی کے پائپ اور کھانے کی پلیٹوں اور چمچ کے علاوہ ایک شمعدان بھی اپنے متوقع گاہک کے انتظار میں جانے کب سے یہاں پڑے تھے۔
وہ آگے بڑھا اور دیگر الماریوں میں پڑے مختلف الاقسام سامان کو دیکھتا ہوا کاونٹر پر جاکھڑا ہوا، لڑکی کاونٹر کے پیچھے الماری میں سامان کو ترتیب دے رہی تھی۔ اس نے کاونٹر پر پڑے ہوئے سامان کو بغور دیکھنا شروع کیا تو اچانک ایک ٹافیوں کے ڈبے کو دیکھ کر اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
ٹافی کی شکل میں بچھو حنوط کیے ہوئے تھے، اس نے سردی کی لہر اپنے جسم سے گزرتی محسوس کی۔
"معاف کیجیے کیا یہ ٹافی ہے؟ "
لڑکی نے مڑ کر دیکھا اور جواب دیا: "ہاں یہ ٹافی ہی ہے۔”
اس نے پوچھا "کیا یہ بچھو اصلی ہیں یا میری نظر دھوکہ کھارہی ہے؟”
"نہیں آپ کی نظر دھوکہ نہیں کھارہی یہ اصلی بچھو ہیں۔”
وہ بولا :”اوہ اسی لیے آج کل لوگ زہریلے ہوگئے ہیں کیونکہ بچھو کو چوستے ہیں نا”۔ لڑکی نے مسکرا کر کہا بے شک۔
اس نے کاونٹر سے ایک چاکلیٹ اٹھائی اس کی قیمت ادا کر کے باہر نکلا تو اندھیرا چھا چکا تھا۔
اس نے گاڑی میں بیٹھ کر انجن سٹارٹ کرکے ہیٹر آن کرلیا اور گاڑی کے سب دروازے لاک کرکے آنکھیں موند کر ٹیک لگا لی۔
خیالات کی پرواز پھر سے شروع ہوگئی،
ایک وقت تھا اس کے دادا اس کے لیے پودینے والی میٹھی گولیاں لایا کرتے تھے، اس کے نانا بھی جب ان کے ہاں آتے تو آم رس ٹافی یا مالٹے والی گولیاں لاتے تھے، اسے ایک ایک کرکے وہ تمام ٹافیاں اور مٹھایاں یاد آنے لگیں جو وہ بچپن میں کھاتا آیا تھا۔
تو اب زمانہ اتنا جدید ہوگیا کہ زہریلے بچھو ٹافی کی صورت میں کھائے اور کھلائے جاتے ہیں؟ کیا ان گوروں کے پاس کوئی میٹھی شے باقی نہیں رہی جو بچے کھاسکیں؟
وہ دیر تک گوروں کے طرز زندگی اور اپنے دیس کے طرز زندگی کا تقابل کرتا رہا۔
سوچتے سوچتے شاید صدیاں گزر گئیں، اس نے گاڑی کا شیشہ بجنے کی آواز پر آنکھ کھول کردیکھا تو پولیس والا اسے اشارہ کررہا تھا، اس نے شیشہ نیچے کیا تو پولیس والا بولا "آپ خیریت سے تو ہو نا؟ "
"جی جی بالکل خیریت سے”، وہ ہڑبڑا کر بولا۔
پولیس والا: "آپ کہاں رہتے ہو؟ "
وہ: "ووڈسٹاک میں جناب۔ "
پولیس والا: "اوہ اگر آپ کو یہاں کوئی اور کام نہیں ہے تو آپ چلے جائیں وگرنہ آپ کو کافی دیر لگ جائے گی جاتے جاتے۔”
اس نے شکریہ کہہ کر شیشہ بند کیا اور گاڑی آگے بڑھادی۔
راستہ سنسان تھا اور شاہراہ کے اطراف گھنا جنگل ماحول کو مزید خوفناک بنارہاتھا۔اسے وہم ہونے لگا کہ اگر اچانک کسی موڑ پر کسی نے روک کر گاڑی چھین لی یا اسے مار دیا تو اس کی لاش یہیں جنگل میں نہ پھینک دی جائے؟ یا اگر کسی نے گاڑی چھین لی اور اسے بے یارومددگار اس اندھیری یخ بستہ رات میں تنہا چھوڑ دیا تو وہ کیا کرے گا؟
کبھی کبھار شاہراہ کے دائیں اور بائیں طرف کئی چکمتی آنکھیں ڈرا دیتیں ، حالانکہ قریب سے گزرنے پر نظر آجاتا تھا کہ ہرنوں کی ٹولی شاہراہ کے کنارے چر رہی ہے۔
فضول اور لایعنی خیالات کے دوران اسے یہ سوچ بھی آئی کہ اس شاہراہ پر کوئی ڈاکہ یا قتل و غارت ناممکن ہے کیونکہ یہ سندھ کے جنگلات نہیں بلکہ امریکہ ہے۔
وہ بار بار اپنے وطن کا تقابل اس دیس سے کرنے لگتا جسے اب وہ اپنا وطن بنائے بیٹھا تھا۔ ویسے بھی کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ مرد اور گھوڑے کا کوئی وطن نہیں ہوتا۔
مگر اس قول کو حقیقت مان لیا جائے تو پھر وہ مٹی وہ شہر وہ گلیاں کیوں یاد آجاتی ہیں جہاں سے اس کا خمیر اٹھا تھا؟
اپنے وطنِ اصلی سے ہزاروں میل دور ہوتے ہوئے یہاں کے جدید و پرآسائش طرزِ حیات کے مقابلے میں اپنے وطن کا غریبانہ اور سادہ سا رہن سہن نجانے کیوں یاد آجاتا ہے۔
وہ سوچتا رہا کہ وطن کیا ہوتا ہے ، اس کی کیا وقعت ہے ، جب روزی روٹی یہاں کمارہا ہوں تو اسی مٹی میں گھل مل جانا چاہیے۔ کیسا احمقانہ رویہ ہے کہ ڈھیروں پیسہ یہاں سے کمانا ہے مگر یاد اس مٹی کو کرنا جہاں اس کا رزق متروک ہوگیا تھا،
جس دیس میں میرے لیے دو روٹیاں میسر نہیں تھیں میں اسے کیوں یاد کروں؟ جہاں میرے ہنر کی قدر نہیں تھی میں اس شہر کو کیوں یاد کروں؟
اور سونے پہ سہاگہ کہ جب سے معاش کی تلاش میں پردیس آیا تو اپنے ہی دوست احباب اب میری حب الوطنی پہ شک کرتے ہیں، بقول ان کے میں نے چند ڈالروں کی خاطر اپنا دیس چھوڑ دیا اور میں تو وطن کی مٹی سے ہی مخلص نہیں رہا۔
ایسے لوگوں کو اور ایسے وطن کو کیوں یاد کرنا؟
سوچتے سوچتے اسے اپنے اندر زہر پھیلتا محسوس ہوا، منفی سوچوں نے اسے گھیر لیا۔
اس نے گھر کی طرف جانے والی سڑک پر گاڑی موڑی اور بچھو والی ٹافیاں یاد کرنے لگا۔
گاڑی گھر کے سامنے روک کر اس نے خود سے کہا
میرے ہم وطن میٹھی ٹافیاں کھاکر بھی زہر اگلتے ہیں تو گوروں کا بچھو چاٹنا کیونکر برا ہوسکتا ہے۔ یہ تو پھر بھی سرِ عام زہر چاٹ کر زہر اگلتے ہیں، کم از کم میٹھی گولی کے کور میں زہر رکھ کر نہ بیچتے ہیں نہ کھاتے ہیں۔