تیمیہ صبیحہ۔۔۔۔۔
اخیر ہاڑ کے دن تھے جب سورج ڈھلتے ہی ہم تقریباً باندھ کے اپنی حب الوطنی مستند کرنے کے واسطے گنڈا سنگھ والا لے جائے گیے ـ انہی دنوں راجہ رنجیت سنگھ کی برسی پر ایک یادگار شاہی قلعے میں کھڑی کی گئی تھی اور ہاہاکار مچی ہوئی تھی، مگر ہمیں حضرت گنڈا سنگھ سے قطعا اِبا محسوس نہ ہواـ
وجہ شاید یہ ہو گی کہ ضلع قصور میں اِدھر پچھم میں گنڈا سنگھ دت اور اُدھر پورب کے ضلع فیروز پور میں حسینی والا جی باہم ہاتھوں میں ہاتھ دیے پڑے ہوتے ہیں ـ دونوں ہی بزبان حال پنجاب کی صدیوں پرانی رِیت الاپتے ہیں
نہ میں عربی، نہ لاہوری
نہ میں ہندی شہر رنگوری
نہ ہندو نہ ترک پشوری
نہ میں رہنا وچ ندون
بلھا کی جاناں میں کون
….بلھا! او کھڑا ہے کون؟
بلھا کی جاناں میں کون
ــــــــــ
بابا بلھے شاہ کو ہم قطعاً بائی پاس نہ کرتے اگر شیر شاہ سوری کے مثیل خادم اعلیٰ کی یادگار چار رویہ شاہراہ سیدھی گنڈا سنگھ والا کے چرنوں میں نہ پہنچاتی ـ فیروز پور روڈ پر جیسا کچھ منہ بناتے نکلے، ارفع کریم ٹاور، کوٹ لکھپت کی آلودہ سبزی منڈی، قینچی، چونگی امر سدھو اور پھر جنرل ہسپتال کے سامنے سے بھی جب کہیں ہم دوشِ ثریا اور کہیں دھرتی کے سینے پر رواں دواں نکلتے چلے گیے تو اچنبھا ہوا،
یکے بعد دیگرے بنے پنکھڑیوں کی صورت پلوں سے گھنٹوں رکتے ٹریفک کو نان اسٹاپ کاریڈور پر رواں دیکھ کر ہماری بڑبڑاہٹ کو چپ لگتی گئی ـ لاہور رنگ روڈ کے نیچے سے ہی گزرے مگر اس شخص کو داد ضرور دی جس کے وژن نے یہاں واقع سیکڑوں دیہاتوں کے باسیوں کو اکیسویں صدی کے میٹرو پولیٹن کا ہلکا سا شعور دیاـ
برابر میں سرخ سرخ بیر بہوٹی سی لمبی لمبی سواریاں سیکڑوں کو اپنے پیٹ میں لیے دوڑی جاتی تھیں ـ "ہونہہ! ” ہم نے دانستہ آنکھیں پھیر لیں ـ سال بھر میں تعمیر شدہ اس ناگن کو جو ڈھائی لاکھ سواریاں گجو متہ سے شاہدرہ تک روزانہ ڈھوتی ہے، دیکھ دیکھ کے اپنے رِستے زخم کیوں ہرے کیے جائیں ـ
روزانہ شاہراہ کشمیر سے گزرتے اپنے ناتمام کولتار اور کنکریٹ کے ڈھیر کو دیکھ کے جو حسرت آگیں کسک ہوتی ہے، اسے یاد کرنے کا بھی کوئی موقع نہ تھا ـ سو وقتاً فوقتاً مندی مندی آنکھوں سے مولسری اور موتیے کے جھاڑوں کے دائیں بائیں دوڑتی شاہراہ پر نگاہ غلط انداز ڈالتے ، املتاس کے زرد پھولوں پر سہج سہج چلتے، کچنار جامن کے بڑھتے درختوں اور جگہ جگہ پھیلائی سنہری مکئی کے بیچ راستہ بناتے ہم بڑھتے چلے گئےـ قومی شاہراہ کو مقامی پھولوں اور پھلوں کے درختوں سے سجانے کا یہ نیک خیال بہت بھلا ہےـ
اگرچہ پہلے خبردار کر دیا گیا تھا کہ بی آر بی کے پار جانے کے لیے تلاشی پریڈ متوقع ہے، مگر سگ باش، برادر خورد مباش، ہم نے بڑائی کے زعم میں درخور اعتنا نہ سمجھا ـ جونہی پل پر پہنچے اور اترنے کا اشارہ ہوا گویا طائران قفس کو پروانہ آزادی عطا ہوا ـ ہمارے ارے ارے کہتے دونوں گاڑیوں میں ٹھسے پنچھی دے ٹھکا ٹھک رینجر کے جوانوں کو سیلوٹ مارتے پل کے جنگلے پر جھول رہے تھے ـ
” وہ دیکھو! سمندر "، ” دریا ہے یہ بے وقوف! "، ” نہر ہے نہر ” ” واہ جی ـ پانی، اتنا بہت سارا پانی ” ” ابا جان!! ادھر آئیے ” پھپھو ..! وہ دیکھیں ” ” خالہ! میرا جوتا گر گیا .. "
رینجر کے جوان کبھی اس لشکر جرار کو دیکھتے کبھی پیچھے جمع ہو جانے والی گاڑیوں کی قطار کو اور کبھی اپنا جوتا ڈھونڈتی محترمہ کو جو بچوں کے اترنے کا فائدہ اٹھا کے سیٹوں کے نیچے سینڈل تلاش کر رہی تھیں ـ اس افتاد بلا خیز سے نبٹنے کے لیے تین چار جوان آگے بڑھے، ہماری گاڑیاں خصوصی پروٹوکول کے تحت کنارے لگائی گئیں ـ
بچوں کو پل سے واپس کھینچا، قطار بندی کی، معصوم خوشیوں کا گلا گھونٹنے پر دل مسوستے، بچوں کی گنتی کر کے واپس ٹھونسا، ” بھائی! اب کے بارڈر سے پہلے بریک نہ لگانا ” قسم کے مشورے دیتے آگے چلے ـ قصور بائی پاس کے بعد بھی سڑک کی آب و تاب قائم رہی ـ گردا گرد پھیلے کھیتوں میں دھان کی پنیری لہلہا رہی تھی ـ فضا میں کوئل کی مست کوکو، شفق کو چھوتے سورج کی مٹتی دھوپ، کہیں کہیں منڈلاتی بدلیاں، ہوا میں تیزی آ چکی تھی ـ
” خدایا! میرے وطن کا ہر رنگ سلامت رہے، پھول ہنستے رہیں، کلیاں کھلتی رہیں، رنگ و بو کی فضائیں مچلتی رہیں”، دل میں نغموں کی سی گنگناہٹ ہونے لگی ـ بمباوالی ـ راوی ـ بیدیاں نہر جو ڈسکہ کے قریب، چناب سے چل کے قصور کے بعد ستلج سے ہم آغوش ہو جاتی ہے صرف آب پاشی نہیں، پاک بھارت سرحد پر دفاعی خندق کا کام بھی دیتی ہے ـ ہماری استادی نے کافی زور لگایا مگر بچے کسی تاریخی و جغرافیائی لیکچر سننے کے موڈ میں نہیں تھے ـ وہ لائو ایکسپیرئنس چاہتے تھےـ
بھائی صاحب نے تیز رفتار جتن کر ہمیں تقریب سے پندرہ منٹ پہلے گنڈا سنگھ بارڈر پہنچا دیاـ ما شاءاللہ ہم چار بہن بھائی اپنی اپنی کلیوں، گلوں، گلشن سب کو حسب ہدایت رینجرز، مردانہ و زنانہ دو قطاروں میں آراستہ پیراستہ کر چلے ـ آپیاں بچہ گاڑی دھکیلتی اس اعتماد سے بڑھیں گویا بکتر بند دوڑاتی ہوں، کسی شناخت کے کھوکھے پر نہ رکیں ـ
مردانہ قطار والے خود کو پریڈ کا حصہ سمجھتے ہوے ننھے ننھے ہاتھ ماتھے کی لٹوں کے بیچ دیے سیلوٹ فرماتے جا رہے تھے ـ ہم ایک طرف بچوں پر نظر رکھتے دوسری طرف اپنی جامہ تلاشی کرا کے لشتم پشتم پہنچے ـ دائیں بائیں آیات و اقوال کی بہار تھی ـ شہدا سے موسوم چمن زار، پختہ و نیم پختہ احاطے، نہایت تنومند گھوڑوں کا اصطبل، صاف ستھرا نیم فوجی علاقہ تھا ـ
بارڈر پر بنی چھوٹی سی مسجد میں عصر کی نماز پڑھی ـ بھارتی علاقے میں بنی عالیشان عمارت کے سامنے، مختصر سی پاکستانی عمارت زیر تعمیر تھی ـ واہگہ کے برعکس یہاں تمام تقریب بہت قریب سے ملاحظہ کی جا سکتی ہے ـ
بلھے شاہ تو شناخت تلاش کرتے رہے مگر ہمیں ہدایات دی گئیں کہ ” پاکستان زندہ باد ” ” جیوے جیوے پاکستان "، "نعرہ تکبیر: اللہ اکبر ” اور ” پاکستان کا مطلب کیا: لا الہ الا اللہ ” کے سوا کوئی نعرہ لگانا منع ہے ـ لکیر کے اُس پار بھی ایسی ہی ہدایات دی جا رہی تھیں ـ
بینڈ بجنا شروع ہوا ، خواتین رینجرز نے ہمیں اشارہ کیا، تعمیل حکم میں پتھریلی سیڑھیوں پر براجمان کیا ہوئے، تمام تر دانشورانہ طرازی غتر بود ہونے لگی ـ وہ جو کہتی تھی کہ بارڈر پر ہونے والی یہ نا شبھ تقریب ہمسایوں ماں جایوں کے ملن کی راہ روکتی ہے، قوم کو جنگ کے بخار میں مبتلا کرتی ہے،
جہادی آیات اور نعرہ تکبیر وغیرہ جدید نیشن اسٹیٹ میں بالکل آؤٹ آف فیشن ہے ـ قوم کیا ہے؟ ملت کیا ہے؟ یہ کیا وشواش ہے؟ ہے بھگوان! کیسا اشدھ نیستی کا مارا گردو پیش ہے ـ ہمیں اپوتر کیے جاتا ہے ـ ہو ہو ہو .. جے ہند! نعرہ تکبیر! ہندوستان زندہ باد! جیوے جیوے پاکستان!
ادھر فوجی بوٹوں کی ٹھکا ٹھک شروع تھی ـ ہوشیار!! سر اونچے، پگڑیوں کے شملے اکڑے ہوئے، طویل مونچھوں کو تاؤ دیتے، سینے نکالتی پیٹ پٹخاتی سَینا ، جو چلے تو زمیں لرزے جو رکے تو آسماں دہلے، جنتا کی دھڑکنیں زیر و زبر کرتے، اپنے لہراتے پرچموں تلے بڑی دیر تک لہو گرم کرنے کا بہانہ کرتے رہے ـ
دانشوری تو پگھل ہی گئی تھی، اب انسانی جذبات ابھرنے شروع ہوئے اور ہمیں نیوزی لینڈ کا قبائلی رقص ہاکا یاد آیاـ چہرے کے خشونت بھرے اتار چڑھاؤ، پھڑکتے ہوئے بازوؤں کے دھمکی آمیز اشارے، سینے اور کولہے دشمن کو کچل ڈالنے کا اعلان، ہاتھ اور پیر کا ردھم، دھمک، پس منظر میں رجزیہ سنگیت ـــــ موسیقی اور رقص کا تال میل جذبات کی دنیا کو اتھل پتھل کیے دیتا ہے ـ
دشمن پیدا کرنا، پھر اس کے لیے ایک خاص منافرت کا مائنڈ سیٹ بنانا اور اس سے مقابلے کے لیے غیرت قومی کے نام پر نعرے نغمے کچھ پھریرے ایسے شعائر کھڑے کرنا، عین دینِ فطرتِ قومی ہے ـ ہمیں قومی تشکیل کے عالمی عناصر سے کیوں کنارا کرنا چاہیے؟
لوگ اِدھر بھی خدا کے بندے تھے، اُدھر بھی تھے ـ دھرتی ماں ان کی بھی تھی، ماتھے کا سیندور ان کا بھی تھا ـ سیاہ و سپید، ہرے، لال، ارغوانی، زعفرانی آنچل ہر دو جانب اڑتے ہیں ـ ہاڑ کا پسینہ ایک سا بہتا ہے، اور گھر کو لوٹتے پکوڑوں کی مہک دونوں کے پیر سے لپٹی جاتی ہے ـ
ہاں اُدھر تماشائیوں کے بیچ سنہری پیتل سے گاندھی جی براجمان تھے، اِدھر جناح و اقبال قوم پر نظر رکھے ہوئے تھے ـ اُدھر ترنگا لہراتا تھا اِدھر سبز ہلالی پھریرا ہوا کے دوش اڑتا تھا ـ پورب کا سوراج، اشوک چکرا کو سلام کرتا تھا، پچھم میں لا الہ الا اللہ گونجتا تھا ــــــ جے ہند الاپتے، مطالعہ پاکستان پڑھتے، قومیت کی تشکیل تو ہو چکی ہے اور وقت کا پہیہ الٹا نہیں گھوما کرتاـ
رینجر اور بی ایس ایف اک دوجے کی سرزمین میں جھنڈا لیے جا پہنچے تھےـ صدیوں پرانی ریت بڑی شان سے جاری تھی ـ ہمارے کچھ شاہین مہر بلب تھے اور بعض خوب اچھل رہے تھے ـ ننھی منی آوازیں سب نعروں کے ساتھ مل کے خوب سُر اٹھا رہی تھی ـ رفتہ رفتہ پرچم اتارے گیے، مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے اک دوجے کو آنکھیں دکھائی گئیں، جنگلے نیہوڑائے گئے، پھاٹک اڑسے گئے اور ساری جنتا کو باہر کا رخ دکھایا گیاـ
ابھی سورج افق سے اترا نہ تھا ـ ہم نے چاہا بارڈر کے قرب و جوار سے روشنی ہی میں رخصت ہو لیں مگر تقدیر کھڑی ہنستی تھی ـــ گاڑی کی چابی اگنیشن میں لگی ہمیں منہ چڑاتی تھی ـ گزرتے ہوئے مردوزن کی نگاہ ہمدردی کا نشانہ بنتے، طرح طرح کے نیم میکانیکی ٹوٹکے آزماتے جب ارد گرد سے سب گاڑیاں روانہ ہو گئیں تو اس ویرانے میں میرِ آشفتہ سر ہی رہ گیاـ
سب بچوں سے توبہ استغفار کرائی، دعا وظیفے شروع کیے ـ کچھ رقیق القلب بچے ریت پر اپنی قضا نمازوں کی ادائی کرنے لگے کہ رحمت باری تعالیٰ جوش میں آئے ـ سگنل تھے نہ ارد گرد ایسی آبادی کہ جس سے مدد کی امید ہو ـ حفاظت پر کھڑے سپاہی اپنی سی کوشش کر گزرے ـ سورج مغرب سے گلے مل رہا تھا ـ
ادھر ڈیوٹی ختم کر کے جاتے ٹرک میں بھرے رینجر آ پہنچے ـ جتنے منہ اتنی باتیں ـ "کیا ہوا؟ ، مکینک بلاؤ "، ” یہ تار ڈالو "ـ
” شیشہ توڑو جی شیشہ! ” بندوق ہلاتے ایک حضرت گویا ہوئے جنہیں واپسی کی بڑی جلدی تھی ـ سبھی ٹرک سے اتر آئے ـ کچھ ایگزامینیشن میں مصروف ہوئے، کچھ تاریں چابیاں گھسا کے کوشش فرما رہے تھے، ہم نے ماحول کا تناؤ دور کرنے کی خاطر ان کے ہاتھوں میں پکڑی مختلف طرح کی بندوقوں کی بابت دریافت کیا جس پر ایسی نظروں سے سرفراز کیا گیا گویا ہم کلبھوشن یادیو ہی ہیں ـ خفت مٹانے کے لیے ہم نے جلدی سے پانی منہ سے لگایاـ
چشم فلک نے یہ نظارہ کاہے کو دیکھا ہو گا! پندرہ بیس وردی پوش اپنا اسلحہ تھامے نیم دائرے میں کھڑے تھے ـ دوسری طرف بچوں کا گھیرا تھا ـ بیچو بیچ ہماری کاریں تھیں ـ دانشوری سے قومیت کے کلچرل عناصر تک کا سفر ہم طے کر ہی چکے تھے، نا گاہ ذہن میں راکیز وغیرہ میں کوہ پیمائی فرماتی، فطرت کی آغوش میں رات بِتاتی، اک محترمہ در آئیں، جن کی مدد کے لیے غیب سے ” دو عدد مخمور فرشتے ” اترے تھےـ خدا ازل سے ہمارا ہے ـ اس نے ہمارے واسطے دو چھوڑ بیسیوں راحت رساں، مشکل کشا بھیجے جن کی بندوقوں کے سایے تلے ہم خواہی نخواہی دانت نکال رہے تھے ـ
فوٹو بنا کے بطور ثبوت پیش کرتے لیکن کناڈیوں نے کون سا دکھایے تھے، ایمان بالغیب ہونا چاہیے یا ہماری پیمبری پر بھروساـ "او چلو تسی واپس بیٹھو "، کوئی بار بار پکارتا تھاـ مگر استاد کی پکار صدا بصحرا تھی ـ یکا یک مشکل کی ہر گھڑی میں قوم کی داد رسی کرتے پاک فوج کے جوانوں کی مشترکہ کوششوں سے ایک شیشہ اتر آیا، ہاتھ بڑھا کے چابی نکالی، کلمات تشکر ادا کیے، نعرہ تکبیر دل سے بلند کیا اور واپسی کا قصد کیاـ
تو صاحبو! یوں ہم کشور حسین گنڈا سنگھ سے ترجمانِ ماضی شانِ حال کا سبق پڑھتے، جانِ استقبال کی تمنا کو سینے میں بیدار کرتے، قوم ملک سلطنت کے مرہون احسان ہو کے، پرچم ستارہ و ہلال تلے، پائندہ تابندہ رہنے کا عزم لیے، شاد باد منزل مراد کو پہنچے ـ