بیٹی کا ماں کے ہاتھ پر بوسہ

سجی خدمت، نیا اردو افسانہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نصرت یوسف۔۔۔۔۔۔
اپنے گھر کے ساتھ جڑے سوہانجنا کے کچے پتوں کی ٹہنی توڑتے نبیلہ رفیق نے مسکرا کر پڑوسی کے بچے کو دیکھا جو اپنے گھر کی اوپری منزل پر کھڑا بغور انھیں دیکھ رہا تھا۔ یک دم گھٹنے میں درد کی ٹیس سی اٹھی اور وہ ٹہنی بہ مشکل تھامتی اپنے گیٹ میں داخل ہوگئیں۔
لہر لمحہ بھر کی تھی، لیکن شدید تھی۔ باورچی خانہ میں آکر انہوں نے سوہانجنا کا قہوہ بناکر پیالیوں میں ڈالتے میاں کو آواز دی:
“رفیق صاحب یہاں آجائیں۔”

کچھ ہی لمحوں میں اسٹک کی مخصوص ساز دار آواز شروع ہوگئی، نبیلہ جان گئیں کہ بس دو منٹ بعد وہ اپنی مخصوص کرسی پر بیٹھ جائیں گے۔ قہوہ کے ساتھ انہوں نے کچھ مقدار میں نمک پارے بھی پلیٹ میں رکھے تھے، جو رفیق صاحب دکان سے واپسی میں ساتھ لائے تھے۔

نبیلہ کو نبیلہ رفیق بنے چالیس برس گزر چکے تھے۔ رفیق خیال رکھنے والے شوہر اور محبت کرنے والے باپ تھے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کے لیے اپنا گھر اور اپنے بال بچے اولین ترجیح ہوتی ہے۔ بیوی، تین بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ زندگی سے انہیں کوئی خاص شکوہ نہ تھا۔

بیوی بھرے پُرے گھر سے بھری پری سسرال آئی، وہ سب نبھایا جس کا رفیق صاحب کو شاید ہی علم ہوا، جو نہیں کرسکی، اس کا کسی نے شکوہ بھی نہیں کیا۔ سو زندگی ایسے گزری کہ بچوں کی شادیوں کے بعد وہ دونوں تنہا رہ گئے۔ دو تنہا تو نہیں کہلاتے لیکن تنہائی کا تعلق دل کی توانائی سے ہوتا ہے۔

جب سب سے چھوٹے بیٹے کی بیوی نے بارہا اپنے مزاج کی جھنجھلاہٹ اور دوسرے انسانوں کے تبصرے میاں کو سنائے تو اسے بھی لگا کہ ایک سو بیس گز کا یہ گھر ماں باپ کے ساتھ رہنے کے لئے ناکافی ہے جس میں دو کمروں پر قفل ان بیٹوں کے نام کا جن کی بیویاں سسرال کے جھنجھٹوں سے آزاد ملک سے باہر ہیں۔

ہر سال کا دسمبر ان کو پندرہ بیس دن کے لیے ابا اماں کے گھر جمع کرتا ہے اور پھر سب پرندوں کی مانند اُڑ جاتے ہیں۔ منجھلی بہو جاتے بہت جذباتی ہوجاتی ، میاں سے بھی زیادہ، نبیلہ رفیق اس کو خوب گلے لگا کر پیار کرتیں تو دوسری بہوؤں کو لگتا “نمبر بناتی ہے بیکار کے”

“ساری خدمتیں ہم کریں، ساری محبتیں ان کے لیے” چھوٹی گھر خالی ہونے کے بعد سکون کی سانس لیتے بے سکونی میاں پر انڈیلتی تو میاں”ہوں” کر کے چپ رہتا۔

کیا کہتا، دونوں بھائی اس کی مختلف ضرورتیں دیکھتے خاموشی سے اس کو رقم تھما جاتے۔ جس کی خبر دیے اور لیے ہاتھ کے سوا کسی کو نہ ملتی۔ اس گھر میں رہتا تھا، تو نوازا بھی جاتا تھا۔

لیکن جب ناقدری کی پٹی بندھ جائے تو ہر نعمت کے ساتھ جڑی تکلیف ہی دکھائی دیتی ہے، فوائد کثیر نہیں۔ چھوٹی بہو کو بھی اپنا آپ بڑا ہی مظلوم لگتا، ایک میں ہی ہوں جو اس کیفیت میں جی رہی ہوں، باقی سب کے عیش ہیں۔
” ایک کمرا صرف”

کوئی چھوٹی سے پوچھتا کہ نائلہ رفیق کا سجا سجایا مہمان خانہ جو ہر رات بچوں کا کمرہ بنتا ہے وہ کیا ہے؟

ان کا اپنا کمرہ جو جب چاہے بچے استعمال کرے وہ کیا ہے اور بڑا سا صحن جو کمروں کے درمیان کشادگی دیتا ہے۔ بچے، بڑے جیسے دل چاہے اسے استعمال کریں، اسے بھی کیا ایک کمرا ہی کہتے ہیں۔

بلاشبہ مسائل تھے لیکن وہ گھر کے ہر مکین کے لئے یکساں تھے، صرف شکوہ کناں کو نہیں۔
مزاج کی تندی اور رویوں کی چبھن بڑھتی گئی۔
جس کا اختتام چھوٹے بیٹے کے علیحدہ گھر لینے پر ہوا۔

نبیلہ کے گھر خاموشی چھا گئی جہاں تین بچوں کی چہکار تھی، وہاں اب سرسراہٹ تھی اور قدموں کی کپکپاہٹ۔

دونوں اولاد کی خوشی میں خوش رہنے والے انسان تھے، سو بچی کھچی مصروفیات می‍ں گم ہو کر زندگی گزارنے لگے۔ رفیق صاحب نوکری سے ریٹائرمنٹ کے بعد گھر سے قریب، واقف کار کے جنرل اسٹور میں چار چھ گھنٹے خدمات دے کر کچھ کمالیتے، روڈ ایکسیڈنٹ سے ٹانگ متاثر تھی، اسٹک استعمال کرتے تھے۔ نبیلہ مقامی ادارے میں کھانے پکانے کی کلاس ہفتہ کے چار دن لیتیں۔

بیٹی کا دل ماں باپ کی تنہائی سے ہر وقت فکرمند رہتا، پانچ نمازوں کے ساتھ تو فون نہ کر پاتی لیکن سورج کے زوال سے قبل اس کا پہلا فون بجتا، پھر ماں باپ کے سونے سے قبل دن کی آخری کال آتی۔ ہر دوسرے دن خبر گیری کا چکر لگاتی تو کچھ نہ کچھ پکا ہوا کھانا بھی ساتھ لاتی۔

نبیلہ رفیق کا دل چاہتا وہ اس کو گلے لگا کر خوب دعائیں دیں لیکن اس سے پہلے ہی ان کی آنکھیں نم ہونے لگتیں تو یہ ارادہ وہ موخر کرجاتیں۔

وہ یہ ضرور کہتیں، میاں کے ماں باپ کی دعائیں لینا بھی نہ بھولنا تو وہ سر ہلا دیتی۔
“امی وہاں تنہائی نہیں “

تنہائی نہ ہو لیکن انتظار ہر ماں باپ کو! “
بے اختیار گھر کے باہر لگے درخت کے بلند ہوتی شاخوں پر نگاہ ٹکتی جو پوتے کے ساتھ مل کر رفیق صاحب نے پچھلے برس ہی لگایا تھا۔

یہ سوہانجنا کا پیڑ تھا، گو اس کی پھیلتی شاخیں گھر کے لیے پریشانی بن سکتی تھیں لیکن رفیق صاحب اور نبیلہ کے لیے اس کی جذباتی وابستگی بہت گہری تھی۔ یہ ان کی اولاد کی اولاد کا لگایا شجر تھا، وہ دونوں میاں بیوی اس سے محبت کرتے تھے۔

اس کے فوائد سے زیادہ بچوں کی محبت گھونٹ گھونٹ قہوہ کے ساتھ اترتی تو وہ ہر خدشہ جھٹک دیتیں۔

پوتیوں کی آواز کانوں میں گونجتی “دادی! سوہانجنا کی کتنےنازک پتے ہیں” تو مسکراہٹ لبوں پر پھیل جاتی اور وہ ٹوٹے پتوں کی وضع پر غور کرتیں۔

اس دن درخت سے پتے توڑتے پڑوس کے بچے کو دیکھ کر اپنے بچے بہت یاد آئے۔ ہفتہ میں ایک بار آتے تھے کچھ گھنٹوں کے لیے اور موبائل اور ٹی وی اسکرین کے ساتھ ہی وقت گزار دیتے۔ ایسا نیا نہ تھا لیکن ساتھ رہنے میں کبھی کچھ نہ کچھ وقت مل ہی جاتا۔

چھوٹی سکون میں تھی اب، ہر ذمہ داری سے بے نیاز اپنے میاں اور بچوں کے ساتھ زندگی اس کو بہتر لگتی تھی۔

نبیلہ اور رفیق کے گھر کام کون کرتا ہے، بڑوں کے بہت سے کام جوانوں اور سواری بنا ادھورے رہ جاتے ہیں، وہ کیسے ہوتے ہیں، اس سے اس کو کوئی مطلب نہ رہا۔

ساس نے کہا تو کام کردیا، نہیں تو خود سے پوچھا نہیں۔ کتنی بار نبیلہ کے گھر کے قریب سے گاڑی ڈرائیو کرتی گزرتی، اور اس وقت ان کی ایسی ضرورت اٹکی ہوتی جو چھوٹی کی سواری پوری کرسکتی لیکن وہ اٹکی ہی رہتی۔

ہاں وہ یار بیلی میں زبردست تھی۔ دوستوں کی نہ حساسیت ہوتی ہے اور نہ ذمہ داری۔ کام کیا تو واہ واہ ہو گئی، کیسا کیا، اور کتنا کرنا تھا، اس کا حساب دوست کرتا نہیں اس لیے رشتے نبھانے مشکل، دوست بنانا دلچسپ عمل ہے۔

دن چھوٹے ہو چکے تھے، نبیلہ رفیق کو میاں کی فکر ہو رہی تھی، وٹامن ڈی کی کمی ان کے لیے پریشان کن تھی۔ پہلے بچوں کو لے کر قریبی پارک چلے جایا کرتے تھے لیکن پچھلے دو برس سے جوڑوں کا درد بڑھ چکا تھا۔ پارک جانے پر تیار ہی نہ ہوتے تھے۔

ہاں سوہانجنا کا قہوہ جتنا دل چاہتا پیتے، کہتے:”میرے جوان نے لگایا ہے، پی کر میں بھی جوان!”
اس شام بیٹی آئی تو باپ کی پسند کے سینڈوچ بنا کر ساتھ لائی، ایپل ٹی بنائی اور ماں باپ کی پسندیدہ جگہ پر بیٹھ کر ان سے ہلکی پھلکی باتیں کرنے لگی۔

“آج فلزا کا کسی اولڈ ہائوس” خدمت خلق ” کے لیے دوستوں کے ساتھ پروگرام تھا” بیٹی نے چائے کا گھونٹ لیا تو رفیق صاحب نواسی کے متعلق بات سننے کے لیے متوجہ ہوگئے۔
“پھر؟” ماں نے پوچھا۔

“پھر یہ کہ شیما نے منع کردیا “وہ بڑی بیٹی کا ذکر کرتے مسکرائی۔
“کیوں؟”
“امی اس میں آپ والی روح ہے، کہنے لگی: فلزا دادا جان دادی جان ہفتہ بھر سے تمہیں یاد کر رہے ہیں، تم اپنے ٹیسٹس میں لگی تھیں، اب ان کو وقت دو، ہماری ذمہ داری بھی ہے اور عبادت بھی۔ یہ اولڈ ہائوس والی ایمیٹیشن خدمت کسی کام کی نہیں”

“میرے کہنے سے شاید ہی وہ دوستوں کے ساتھ کا پلان ختم کرتی، بہن نے اسے سیدھا کر دیا “

ماں کے لہجے میں اپنی اولاد کے لیے وہی تشکر اور محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا جو نبیلہ رفیق کے دل میں اپنی بیٹی کے لیے ابھرتا جب وہ نیک پری مانند پر سکون اور پر نور بنی ان کی خبر گیری کرتی۔

اطمینان کی گہری سانس لیتے نبیلہ رفیق نے الحمد للہ کہا۔ یک دم سینڈوچ مزید ذائقہ دار ہوگیا تھا۔ سنگھار دان میں سجی خدمت انسانوں کے درمیان اتر چکی تھی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں