ڈاکٹر میمونہ حمزہ کی نئی کہانی، جس کی کردار رافعہ جیسے طلبہ وطالبات ہی پاکستان کو ترقی یافتہ اور خوشحالی کی منزل دلاسکتے ہیں.
ایگزامینیشن ہال کے باہر کھڑے طلبہ عجب پریشانی میں تھے، اکثر کے چہرے تنے ہوئے تھے، بے خوابی کی علامات نمایاں تھیں، بے ترتیب لباس، بکھرے بال، جنھیں شاید ہاتھوں ہی سے درست کیا گیا تھا، اور متورم آنکھیں!
کچھ ہاتھوں میں نوٹس اور کچھ ہاتھ سراپا دعا۔ ایسا لگتا تھا کہ ان کی اکثریت سٹڈی ٹیبل سے اٹھ کر سیدھی یہاں آ پہنچی ہے، ناشتے کا کسے ہوش ہوگا؟ ایم بی بی ایس کے سال ِ آخر کے طلبہ، جو امید و بیم اور خوف کے مابین کھڑے تھے، جنہیں اپنی منزل کے قریب ہونے کا یقین تو تھا، مگر انجانے اندیشے انھیں ڈرائے دے رہے تھے،
کبھی منزل دو ہاتھ پر محسوس ہوتی اور کبھی کسی ناگہانی کی صورت میں کافی دور! کچھ طلبہ پڑھنے اور خدائی مدد پانے کے درمیان الجھے ہوئے تھے، ان کی نگاہیں کبھی کالے حروف پر مرکوزہو جاتیں اور کبھی کوئی اندرونی جذبہ ہاتھوں کو کٹورا بنا کر رب کے آگے پھیلا دیتا، آج ان کا سرجری کا پریکٹیکل یعنی زبانی وعملی امتحان تھا۔
اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک استاد ایک ورق تھامے سیدھا انہی کی جانب آیا، طلبہ مقناطیسی کشش کی مانند بےاختیار اس کے قریب ہوئے، گویا انھیں اسی لمحے کا انتظار تھا اور استاد نے بڑی مہارت سے عملی امتحان ’’آسپی‘‘ (آبجیکٹولی سٹریکچرڈ پریکٹیکل ایکزام) میں آنے والے کیسز کی ’’کی‘‘ ان کے حوالے کی۔
طلبہ و طالبات نے اس متاع گراں مایہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا، استاد اسی تیزی کے ساتھ امتحانی ہال میں واپس چلا گیا، اور طلبہ و طالبات ’’کی‘‘ پر جھک گئے۔ کسی کو اندازہ بھی نہ ہوا کہ ان کی ایک ساتھی طالبہ رافعہ جو ان سب سے پرے کھڑی تھی، وہ اس ہنگامے سے کچھ اور دور ہو گئی تھی،
گویا اسے کیسز اور ان کی ’’کی‘‘ سے کوئی دلچسپی نہ ہو، وہ اس عملی امتحان کے سوالات جاننا چاہتی تھی نہ جوابات! بلکہ جب طلبہ نے ڈسکشن شروع کی تو وہ کچھ اور فاصلے پر چلی گئی۔ مبادا کوئی لفظ اس کے کان کے پردے سے ٹکرا جائے، اسے ہاتھ آئی نعمت سے اس طرح بیزار کوئی بھی طالب علم دیکھتا تو اسے ناشکری ہی کہتا، وہ کچھ بھی سننا نہ چاہتی تھی۔
کچھ دیر بعد کمرہ امتحان کا دروازہ کھلا اور طلبہ کو اندر آنے کا اشارہ کیا گیا، رافعہ نے اپنا موبائل نکالا اور تین حرفی لفظ ’’دعا‘‘ لکھ کر سینڈ کا بٹن دبایا اور پھرتی سے موبائل بیگ میں ڈال دیا،
بیگ کو مطلوبہ مقام پر رکھ کر وہ بھی قطار میں کھڑی ہوگئی، اس کے لب مسلسل ہل رہے تھے، اور دل دھڑک رہا تھا، آج اس کا فائنل ائیر کا مشکل ترین امتحان تھا، آج سرجری کا پریکٹیکل تھا، اور اسے کچھ گھبراہٹ ہو رہی تھی۔
زاہدہ گھر کے کام کاج میں مصروف تھیں، ان کی نگاہیں بار بار گھڑی کی جانب اٹھ جاتیں، نو بجے کے لگ بھگ موبائل پر میسیج کی ٹون بجی تو انھوں نے لپک کر اسے اٹھا لیا، اسے کھولتے ہوئے انہیں خوب اندازہ تھا کہ یہ کس کی جانب سے ہوگا، بلکہ انھیں اس کا پیغام بھی بن پڑھے معلوم تھا،
رافعہ کی میسیج لسٹ میں سب سے زیادہ بھیجا جانے والا پیغام ’’دعا‘‘! اور اس کے بعد اکثر اوقات ’’الحمد للہ، ٹھیک ہوگیا‘‘، زاہدہ کے ہاتھ بے اختیار دعا کے لیے پھیل گئے، آج ان کی پیاری بیٹی کا پریکٹیکل تھا،
انہوں نے رافعہ کو دعا دے کر رخصت کیا تھا، اور حسب ِمعمول وہ صبح ہی سے وقفے وقفے سے دعا کر رہی تھیں، اور اس پیغام کے بعد وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ اﷲ رب العزت سے اس کی کامیابی کی دعا کرنے بیٹھ گئیں۔
تمام طلبہ اپنی نشستوں پر پہنچ چکے تھے، اور آسپی کے کیسزز کے سوالات ہر طالب علم کی میز پر چپکائے ہوئے تھے، ان کے جوابات لکھنے کے لیے جوابی کاپیاں رکھ دی گئی تھیں، طلبہ اپنی نشستوں پر پہنچ چکے تھے اور استاد کی مہربانی سے عنایت شدہ ’’کی‘‘ انہیں ازبر ہو چکی تھی،
اسی لیے جواب لکھتے ہوئے ان کے ہاتھ بڑی پھرتی سے چل رہے تھے۔ چند منٹ قبل افشا کیے گئے سوالات و جوابات کو لکھنا کیا مشکل کام تھا، رافعہ اپنی نشست پر حیران و پریشان بیٹھی تھی، آسپی کے سوالات دیکھ کر اس کے ہاتھوں کے توتے اڑ گئے تھے، کئی سوالات اسے بالکل ہی نامانوس لگ رہے تھے، اور کچھ سوالات کی محض جزئیات سے وہ واقف تھی،
اس نے ٹھنڈی سانس لی اور دوبارہ پیپر پر جھک گئی، اللہ سے مدد مانگی اور بار بار سوالات پڑھے، اس کے ہاتھ ٹھنڈے ہونے لگے، لمحے کے ہزارویں حصّے میں اس کے دماغ میں ایک خیال کوندا، اور وہ پورے وجود سے لرز گئی، دور کہیں سے آواز سنائی دی:
’’اب مزا چکھو، اسے کہتے ہیں ایمانداری کا بخار‘‘، اس نے اس آواز سے توجہ ہٹانا چاہی تو ’’وسواس الخناس‘‘ پھر ڈھٹائی کے ساتھ آگیا: ’’چلو زندگی میں پہلی مرتبہ فیل ہونے کا مزا بھی چکھ لینا‘‘،
رافعہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، وہ بے آواز رو رہی تھی، ہمیشہ نوے اور بانوے فی صد نمبر لینے والی رافعہ کا نام فیل ہونے والوں کی فہرست میں ہوگا؟ اسے جھرجھری آگئی، اس نے اعوذ باللہ پڑھا اور پیپر پر جھک گئی، جو سولات آتے تھے ان کے جواب لکھ کر انھیں گنا تو سردی کی لہر اس کے وجود میں سرایت کر گئی،
اس نے بقیہ سوالات پر اندھیرے میں تیر چلائے، اسے اچانک سورہ الطلاق کی آیت یاد آگئی: ’’ومن یتوکل علی اللہ فھو حسبہ‘‘ (جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے، وہ اس کے لیے کافی ہے) اس کا دل مطمئن ہو گیا اور آنکھیں خشک ہو گئیں ۔
اسی اثنا میں ڈاکٹر خالد ایگزام پیپر واپس لینے اس تک پہنچ چکے تھے، انہوں نے اس کا پیپر اٹھایا تو انہیں حیرت ہوئی، اس سے پہلے جتنے طالب علموں کا ورق انہوں نے دیکھا تھا، ان کے جوابات سو فیصد درست تھے،
انھوں نے ’’رینک سکس‘‘ کی جوابی کاپی کو ایک مرتبہ پھر حیرت سے دیکھا، وہ میڈیکل کالج کی ہونہار طالبہ تھی، میرٹ کے لحاظ سے چھٹے نمبر پر! بےاختیار ہی ان کے منہ سے نکلا: ’’تم نے اتنے غلط جواب کیوں لکھے ہیں؟‘‘۔
’’سر مجھے ان کے جواب معلوم نہیں‘‘۔
’’لیکن ۔۔‘‘،
سر خالد اس سے آگے بولتے ہوئے دانستہ رک گئے، وہ جانتے تھے کہ باقی طالب علموں نے اپنی ذہانت کی بنا پر درست جواب نہیں لکھے،
طالب علموں کے مستقبل کی فکر میں غلطاں بعض اساتذہ کی کارروائیوں کو وہ جانتے تھے، یہ الگ بات ہے کہ وہ ان معاملات میں کبھی شریک نہ ہوئے تھے، لیکن کمرہ امتحان کے باہر طالب علموں کی مدد کے بارے میں سبھی واقف تھے۔
’’سر یہ نقل نہیں کرتی، اس لیے ۔۔‘‘، ان کے ادھورے جملے کا جواب سارہ نے دیا تھا۔
ڈاکٹر خالد نے رافعہ کی جانب استعجاب سے دیکھا، اور ان کے کسی سوال سے پہلے ہی وہ بول اٹھی:
’’سر! چند نمبروں کی خاطر میں اپنے روزگار اور کمائی میں تمام عمر کے لیے حرام شامل نہیں کر سکتی‘‘۔
وہ جو چند لمحے پہلے تک فیل ہونے سے گھبرا رہی تھی، نجانے اس میں اتنی جرأت کہاں سے آگئی تھی۔
ارد گرد کے کئی طلبہ نے اس جملے کو حیرت سے سنا، ڈاکٹر خالد کو بڑے عرصے بعد ایسے الفاظ سننے کو ملے تھے، وہ چند لمحے حیران کھڑے رہے، رافعہ ہولے سے بولی:
’’سر اگر میں پاس نہ ہوئی تو دوبارہ امتحان دے کر پاس ہو جاؤں گی، لیکن دھوکہ دے کر پاس ہوگئی تو اسے کبھی ریورس نہیں کر سکوں گی، اور بد دیانتی تمام عمر میرے ساتھ رہے گی‘‘۔
ڈاکٹر خالد کو اپنے کانوں کی سماعت پر یقین نہ آیا تھا، پانچ فٹ قد کی یہ طالبہ جو اکثر سرگرمیوں میں چند قدم پیچھے ہی رہتی تھی، اتنی گہری سوچ رکھتی ہے،
اس کا اعتقاد اتنا مضبوط ہے، اپنے ہر عمل کے بارے میں اتنی حساس! وہ دنگ رہ گئے، کچھ لمحے توقف کیا، اس کا پرچہ اٹھایا اور باقی پرچوں کے بنڈل میں ڈالتے ہوئے کہنے لگے: ’’جاتے ہوئے مجھے آٹو گراف دے کر جائیے گا‘‘۔
اتنی بڑی حوصلہ افزائی پر رافعہ مسکرا دی، اس کی دیانت داری اور حرام حلال کی تمیز نے اپنا وجود منوا لیا تھا۔
امتحان کے دوسرے مرحلے میں وائیوا لینے والے تمام اساتذہ کانفرنس روم میں بیٹھے تھے، ہیڈ آف دی ڈیپارٹ منٹ خود امتحان کی نگرانی کر رہے تھے، باہر نکلنے والے کئی طلبہ کے چہرے لٹکے ہوئے تھے، شاید سوال کچھ مشکل تھے،
رافعہ کی باری آئی تو وہ قدرے گھبراہٹ کا شکار تھی، اور مسلسل اﷲ سے مدد کی خواستگار تھی۔ اس نے ہر سوال کا دھیمے مگر پر اعتماد انداز میں ایک آدھ سوال کے علاوہ سب سوالات کے درست جواب دیے، اور باہر نکل آئی۔
کمرہ امتحان میں اساتذہ کے سامنے رافعہ کا پرچہ تھا، اتنا اچھا زبانی امتحان دینے والی طالبہ آسپی والے حصّے میں کسی صورت پاس نہ ہو رہی تھی، اور پرچے کے دونوں حصّوں میں الگ الگ پاس ہونا لازمی تھا، ممتحن اسے فیل کی کیٹیگری میں ڈالنے ہی والے تھے، جب ڈاکٹر خالد نے مداخلت کی:
’’میرا خیال ہے سٹوڈنٹ کو پاس کر دیا جائے‘‘،
بورڈ میں بیٹھے دیگر اساتذہ نے انہیں حیران نگاہوں سے دیکھا، ہیڈ آف دی ڈیپارٹ منٹ بول اٹھے: ’’ڈاکٹر خالد، آپ اور سفارش؟؟‘‘۔
’’آپ جانتے ہیں میں ان معاملات سے کتنا دور رہتا ہوں، لیکن آج میری بات مان لیں، اسے پاس ہونے کے لیے صرف دو اضافی نمبر درکار ہیں‘‘۔
ڈاکٹر خالد نے مختصر الفاظ میں رافعہ سے ہونے والی بات کی روداد سنائی، اور دو ٹوک انداز میں بولے:
’’ہم سب جانتے ہیں، کہ باقی طلبہ نے بھی نقل کر کے درست جواب لکھے ہیں، اب یا تو اس امتحان کو کینسل کر دیں، یا پھر اس طالبہ کو بھی گریس مارکس دے کر پاس کر دیں، صرف پاسنگ مارکس! وہ نالائق طالبہ نہیں ہے، ابھی وائیوا میں آپ نے اس کی کارکردگی دیکھ لی ہے، یہ کسی طالب علم کے لیے میری پہلی سفارش ہے، اور شاید آخری ہی ہو‘‘۔
’’میں بھی پہلی مرتبہ اپنا اصول توڑ رہا ہوں‘‘۔ ہیڈ آف دی ڈیپارٹ منٹ بولے۔
ان سب باتوں سے بے خبر رافعہ اپنے ففٹی ففٹی پریکٹیکل پر بھی وہ خوش تھی، نجانے کیوں؟
اگر اس کا نصف امتحان خراب ہوا تو نصف آخر بہت اچھا بھی ہو گیا تھا، اور جو حصّہ اچھا نہیں ہوا، اس کے بارے میں ڈاکٹر خالد کے الفاظ نے اسے اتنا مسرور کر دیا تھا کہ وہ کچھ اور سوچنا ہی نہ چاہ رہی تھی۔
رافعہ اپنا بیگ اٹھائے پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی کا انتظار کر رہی تھی، جب اچانک ڈاکٹر خالد اس کے پاس آگئے، وہ ابھی تک حیرت کے سمندر میں غوطے لگا رہے تھے، اتنی سی عمر میں کوئی اتنا میچور بھی ہو سکتا ہے، کہ عمر بھر کی کمائی کو بچانے کے لیے فکر مند ہو؟
ڈاکٹر خالد نے اس کی دیانت داری کے جذبے کو کھل کر سراہا اور جب وہ جانے لگی تو عقب سے آواز سنائی دی: ’’اللہ سے میری ہدایت کی دعا کیجیے‘‘۔ وہ باہر نکلتے ہوئے حیرت سے ان کے جملے پر غور کر رہی تھی، یہ واقعی ڈاکٹر خالد کہہ رہے تھے۔
رافعہ کو اس دن کا واقعہ پوری جزئیات سے یاد آگیا، کچھ دیر کے لیے اسے اپنا امتحان اور رزلٹ بھی بھول گیا تھا۔
ڈاکٹر خالد ایک دنیا دار قسم کے انسان تھے، کالج میں منعقدہ پارٹیوں، پکنک پروگراموں اور میوزیکل کنسرٹس کے روح رواں تھے، خوش اخلاق اور قصّہ گو۔ ڈاکٹر خالد نجی محفلوں اور پارٹیز میں ہلا گلا کرنے میں پیش پیش ہوتے،
ہاں کمرہ جماعت میں وہ صرف اور صرف استاد تھے، اور وہاں ہلکی سی مداخلت یا ڈسٹربنس انھیں گوارا نہ ہوتی، اس روز بھی وہ ایوننگ میں اضافی کلاس لے رہے تھے، جب اذان کی آواز سنائی دی،
وہ لیکچر میں محو رہے، اور جب کسی طالب علم نے انھیں اذان سننے کے لیے وقفہ کرنے کا کہا تو ان کا موڈ آف ہو گیا، وہ خاموش ہو رہے، مگر چہرے پر کدورت کا احساس تھا، اذان ختم ہوتے ہی ایک طالبہ کھڑی ہوگئی: ’’سر میں نماز کے لئے باہر جانا چاہتی ہوں‘‘۔
’’جائیے ۔۔ جس طرح نماز فرض ہے، ایسے ہی علم کا حصول بھی ۔۔ ‘‘۔ اس خلل اندازی نے ان کا مزا غارت کر دیا تھا۔
وہ طالبہ تو گویا بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی تھی، اس کے پیچھے تین اور طالبات بھی اٹھ کھڑی ہوئیں اور کئی طالب علم بھی، انھوں نے گردن موڑ کر جاتے طلبہ کو دیکھا اور بورڈ کی جانب متوجہ ہو گئے۔
واپس آنے والی پہلی طالبہ اپنے نشست پر بیٹھنے کو تھی جب انھوں نے اچانک سوال داغا: ‘‘پڑھ آئیں نماز؟‘‘ اور اس کے اقرار پر اگلا سوال بالکل ہی غیر متوقع تھا: ’’میرے لیے دعا کی آپ نے؟‘‘۔
’’نہیں ۔۔ ‘‘۔ طالبہ گڑبڑائی مگر اس نے سچ بول دیا، حالانکہ بعد میں ساتھی طالبات نے اسے کافی لتاڑا: ’’اتنا سچ بولنے کی کیا ضرورت تھی‘‘۔
ڈاکٹر خالد کی شخصیت کے یہ دونوں رخ رافعہ کو سوچنے پر مجبور کر دیتے، وہ دنیا کے معاملے میں فرض شناس تھے تو رب کے معاملے میں محض دعا کروانے پر انحصار کرنے والے، کتنا اچھا ہو اگر ان کی زندگی کا دوسرا رخ بھی مثبت ہو جائے۔
ڈاکٹر خالد لیکچر لینے کے بعد اپنے کمرے میں بیٹھے تھے، جب قاصد نے انھیں ایک پارسل لا کر دیا، خوبصورت کور میں لپٹا ہوا تحفہ! انہوں نے اسے کھولا تو وہ قرآن مجید کا باترجمہ نسخہ تھا، اس کے ساتھ ایک رقعہ بھی تھا:
محترم ڈاکٹر خالد
السلام علیکم!
آپ نے اس روز مجھے اپنی ہدایت کی دعا کے لیے کہا تھا، میں بہت دعا کے ساتھ ’’جواب ِ دعا‘‘ کا تحفہ بھیج رہی ہوں، یہی ہے کتاب ہدایت!
اللہ کی جانب سے تمام انسانوں کی ہدایت کا نسخہ!
منجانب
رافعہ
ایکس سٹوڈنٹ