زبیر احمد بی بی سی، سری نگر۔۔۔۔۔
“جب میں نے یہ خبر سنی تو مجھے دو بار ٹوائلٹ جانا پڑا”
یہ کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک مسلم رہنما کا ردعمل تھا، جو آرٹیکل 370 کے بارے میں انڈین حکومت کے فیصلے کے اعلان سے قبل کافی گھبرائے ہوئے تھے۔
بی بی سی سے خصوصی بات چیت میں، انھوں نے کہا، ‘میں ابھی مکمل صدمے میں ہوں۔ تمام کشمیری ایسے صدمے میں ہیں کہ وہ یہ سمجھنے کے قابل ہی نہیں ہیں کہ یہ کیسے ہو گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ کچھ عرصے بعد لاوا پھٹنے والا ہے۔’
پیر کو پارلیمان میں وزیر داخلہ امیت شاہ کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے اعلان سے چند روز قبل وادی کشمیر میں کافی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں اور ریاست کی تقسیم اور دفعہ 35 اے کے خاتمے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے۔
لیکن جموں و کشمیر کو خصوصی حقوق دینے والے آرٹیکل 370 کی تمام شقوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا، لوگوں کو اس کا خدشہ کم تھا۔
کشمیری عوام انڈین حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے فیصلے کو تسلیم کرنے پر تیار نظر نہیں آتے لیکن علاقے میں سکیورٹی لاک ڈاؤن کی وجہ سے تاحال یہ ردعمل سامنے نہیں آ سکا ہے۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے اعلان کے تین دن بعد بھی کشمیر میں عوام کی زیادہ تر تعداد اپنے گھروں میں بند ہے اور کچھ ہڑتال کا سا سماں ہے۔
ایک سینیئر پولیس افسر کا کہنا ہے کہ تشدد کے چند واقعات کو چھوڑ کر ہر جگہ امن ہے تاہم پولیس اہلکار یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ لوگوں کا غصہ کسی بھی وقت پرتشدد شکل اختیار کرسکتا ہے۔
میں نے جتنے بھی عام لوگوں سے بات کی وہ فیصلے کے مخالف ہی نظر آئے اور ان کا کہنا تھا کہ اگر انڈین حکومت ریاست کی آبادیاتی شکل تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
ایسے ہی ایک کشمیری نوجوان نے بلاخوف و خطر کہا کہ وہ اس فیصلے کو قبول نہیں کرتا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’عسکریت پسندی کے پیش نظر، لوگ یہاں آنے، جائیداد خریدنے اور انھیں آباد کرنے کی ہمت نہیں کریں گے۔
ایسے خیالات کا اظہار کرنے والوں کی تعداد کم نہیں تاہم چونکہ حکام نے وادی میں مرکزی سیاسی اور علیحدگی پسند قیادت کو حراست میں لیا ہوا ہے اور یا وہ نظربند ہیں، سو عوام ان کی رہائی کے منتظر ہیں تاکہ وہ مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں ان کی رہنمائی کر سکیں۔
راشد علی دوائیوں کی دکان چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’پوری وادی کو کھلی جیل بنا دیا گیا ہے۔ رہنماؤں کو نظربند رکھا گیا ہے۔ پولیس اور سکیورٹی فورسز کو ہر جگہ تعینات کردیا گیا ہے۔ ابھی ہر جگہ کرفیو نافذ ہے لہٰذا لوگوں کے لیے گھر چھوڑنا مشکل ہے۔ جب یہ سب ختم ہو جائے گا، لوگ سڑکوں پر آئیں گے۔‘
جموں و کشمیر کو مرکزی علاقہ بنانے کے فیصلے پر عوام کا کہنا ہے کہ ایک طرف تو انڈیا میں تلنگانہ جیسی نئی ریاستیں تشکیل دی جارہی ہیں تو دوسری جانب ریاست جموں وکشمیر کی حیثیت چھین لی گئی ہے۔
آج کا سری نگر کسی بھی جنگی علاقے سے مختلف نظر نہیں آتا۔ دکانیں اور بازار بند ہیں، سکول اور کالج بھی بند ہیں۔ لوگوں نے اپنے گھروں میں راشن اور دیگر اشیائے ضروریہ کا ذخیرہ تو کیا ہے لیکن اگر مزید کچھ دن دکانیں نہ کھلیں تو شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
وادی میں ٹیلیفون لائنز، موبائل کنکشن اور انٹرنیٹ براڈ بینڈ کی سہولیات بند کر دی گئی ہیں۔ ایک سینیئر پولیس افسر نے ہمیں بتایا کہ کچھ دن تک نہ تو کرفیو نرم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فون لائنوں اور موبائل فون کی سہولیات کو بحال کیا جا سکتا ہے۔
اس صورتحال میں لوگوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد ایسی بھی ہے جو کشمیر سے نکلنا چاہتی ہے لیکن نقل و حمل کے مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے وہاں پھنسی ہوئی ہے۔
سری نگر کے بس سٹینڈ۔ پولیس ان کو کنٹرول کر رہی تھی لیکن بسوں کی شدید کمی کے باعث وہ پریشانی کا شکار تھے۔
اسی ہجوم میں ریاست بہار سے تعلق رکھنے والے مزدور نے مجھے بتایا کہ وہ دو دن سے وادی سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن تاحال یہاں پھنسے ہوئے ہیں۔
ایک اور مسافر نے کہا ‘ہم نے دو دن سے کھانا نہیں کھایا۔ گھر پر فون نہیں مل سکا کیونکہ موبائل فون نہیں چل رہے ہیں۔ ہم بہت پریشان ہیں۔’
(بشکریہ بی بی سی اردو)