بیسویں صدی کے عظیم سوڈانی ادیب طیب صالح کی شہرہ آفاق کہانی
ترجمہ: زبیدہ رئوف۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طیب صالح سوڈان میں پیدا ہوئے، ان کی عربی میں لکھی ہوئی کہانی ”مٹھی بھر کھجوریں“ بین الاقو امی شہرت کی حامل ہے۔ اس مختصر کہانی میں انھوں نے نہایت خوبصورتی سے لالچ، سادگی، اندرونی خوبصورتی، بظاہر اچھے نظر آنے کا اور اچھے ہونے کا ، دین دار ہونے کا اور دین کو سمجھنے کا فرق بیان کیا ہے۔
اس کے علاوہ انھوں نے ایک بچے کے ذہن کی بھی تصویر کشی کی ہے کہ بچہ صرف ظاہر سے ہی نہیں متاثر ہوتا بلکہ وہ لوگوں کے اندر کو بھی پہچان لیتا ہے خواہ وہ اس کا اظہار کرسکے یا نہ۔ اس کہانی کا انگریزی میں ترجمہ Denys Johnson-Davies نے کیا جو متعدد ممالک کے ہائی سکول کے سلیبس میں شامل ہے۔
٭٭٭
”میں بہت چھوٹا تھا۔ اس وقت، مجھے ٹھیک طرح سے یاد نہیں کہ میری کیا عمر ہوگی۔ بس! مجھے اتنا یاد ہے کہ جب لوگ مجھے میرے دادا کے ساتھ دیکھتے تو میرے سر پر ہاتھ پھیرتے یا میرے گال پر نرمی سے چٹکی لیتے، جو وہ میرے دادا کے ساتھ نہیں کرتے تھے۔عجیب بات یہ تھی کہ میں کبھی اپنے والد کے ساتھ باہر نہیں گیا تھا بلکہ یہ میرے دادا تھے جو جہاں بھی جاتے مجھے ساتھ لے کر جاتے سوائے صبح مسجد جانے کے ،جہاں میں قرآن پڑھنے کے لئے جایا کرتا تھا۔
مسجد،ندی اور کھیت ہما ری زندگی کی خاص پہچان تھے۔ میری عمر کے زیادہ تر بچے قرآن پڑھنے کے لئے بڑبڑاتے ہوئے جاتے، جب کہ مجھے قرآن پڑھنا بہت اچھا لگتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں قرآن حفظ کرنے میں بہت تیز تھا اور جب مسجد میں کوئی لوگ ملنے آتے تو مولانا صاحب ہمیشہ مجھے کھڑا کرکے سورہ الرحمن تلاوت کرنے کو کہتے، تو وہ بھی میرے سر اور گال پر ایسے ہی پیار کرتے جیسے لوگ مجھے میرے دادا کے ساتھ دیکھ کر کرتے تھے۔ ہاں! مجھے مسجد سے بہت محبت تھی،اور مجھے دریا سے بھی محبت تھی۔
جونہی ہمارا صبح کا قرآن پڑھنا ختم ہوتا میں اپنی لکڑی کی رحل رکھ کر میری ماں کے بقول کسی جن کی طرح غائب ہوجاتا ،جلدی جلدی ناشتہ نگلتا اور دریا میں ڈبکی لگانے بھاگ جاتا۔ جب میں تیراکی سے تھک جاتا تو کنارے پر بیٹھ کر پانی کی اس پٹی کو غور سے دیکھتا جو گھومتی ہوئی مشرق کی جانب ببول کے گھنے درختوں کے پیچھے غائب ہوجاتی۔
مجھے تخیل کی باگیں کھلی چھوڑنا اچھا لگتا۔ میں خود کو تصور میں ان درختوں کے پیچھے ایک ایسے دیو قامت قبیلے کا باسی تصور کرتا جو دبلے لیکن بہت قد آور ہوتے، سفید داڑھیوں والے اور تیکھی ناکوں والے بالکل میرے دادا کی طرح۔ میرے لا متناہی سوالوں کا جواب دینے سے پہلے میرے دادا ہمیشہ اپنی ناک کے پھندنے کو رگڑتے،پھر داڑھی کو کھجاتے جو نرم ،گھنی اور سفید تھی بالکل روئی کے گالے کی طرح۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنی خالص سفید اور خوبصورت چیز نہیں دیکھی تھی۔
میرے دادا یقیناً بہت قد آور انسان تھے۔ میں نے پورے علاقے میں کبھی نہیں دیکھا کہ کسی کو میرے دادا سے بات کرنے کے لئے سر اوپر اٹھا کر نہ بات کرنا پڑی ہو یا کوئی ایسا گھر نہیں دیکھا جس سے گزرنے کے لئے میرے دادا کو بہت جھکنا نہ پڑا ہو۔ اسی طرح میرے تخیل میں دریا کا پانی جھکتا، بل کھاتا درختوں کے پیچھے چلا جاتا۔
میں ان سے بہت محبت کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ جب میں بڑ ا ہوجائوں تو ان کی طرح لمبا پتلا آدمی بنوں اور ان کی طرح لمبے لمبے قدم اٹھا کر چلوں۔ مجھے یقین ہے کہ میں ان کا چہیتا پوتا تھا، اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کیونکہ میرے کزنز بس بیوقوفوں کا ٹولا تھے۔
دادا کے بقول میں ایک ذہین بچہ تھا۔ مجھے پتا ہوتا تھا کہ کب دادا چاہتے ہیں کہ میں ہنسوں، کب خاموش رہوں، مجھے ان کی نمازوں کا وقت بھی یاد ہوتا تھا۔ ان کے لئے ان کا جائے نماز لانا اور بغیر ان کے کہے ان کے وضو کے لیے صراحی میں پانی بھرنا۔ جب ان کو کوئی اور کام نہ ہوتا تو وہ مجھ سے میری مترنم آواز میں قرآن کی تلاوت سننا پسند کرتے اور میں ان کے چہرے سے جان جاتا کہ وہ مسحور ہورہے ہیں۔
ایک دن میں نے ان سے اپنے ہمسائے مسعود کے بارے میں پوچھا:
”میرا خیال ہے کہ آپ ہمارے ہمسائے مسعود کو پسند نہیں کرتے؟“
اس کا جواب انہوں نے ناک کے پھندنے کو رگڑتے ہوئے دیا:
”وہ ایک نکما آدمی ہے اور میں ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔“
میں نے پوچھا کہ نکما آدمی کیا؟ میرے دادا نے ایک لمحے کے لئے اپنا سر نیچے جھکایا، پھر چاروں طرف پھیلے وسیع کھیتوں کو دیکھا،اور کہنے لگے:
”کیا تم دیکھ رہے ہو یہ کھیت جو صحرا کے کنارے سے نیل کے کنارے تک پھیلے ہوئے ہیں؟ 1.038ایکڑ زمین۔ تم وہ سارے کجھوروں کے جھنڈ دیکھ رہے ہو؟ اور وہ سارے درخت کیکر،ببول اور سیال کے یہ سب مسعود کی جھولی میں گر گئے تھے، کیونکہ یہ علاقہ اسے اس کے باپ سے وراثت میں ملا تھا“۔
دادا پر جو خاموشی چھا گئی تھی، میں اس کا فائدہ اٹھا کر اس کی طرف سے نظر ہٹا کر اس کے بتائے ہوئے وسیع وعریض علاقے کو دیکھنے لگا۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہے، میں نے خود سے کہا کہ وہ کھجور کے جھنڈ ،وہ درخت، اور یہ سیاہ، دراڑوں والی زمین کس کی ملکیت ہے، مجھے تو بس اتنا علم تھا کہ یہ جگہ میری پسندیدہ ہے اور میرے کھیلنے کا میدان ہے۔
پھر گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے دادا بولے:
”ہاں میرے بچے، چالیس سال پہلے یہ زمین مسعود کی تھی۔ اب اس کا دو تہائی حصہ میرا ہے“۔
میرے لیے یہ ایک خبر تھی، کیونکہ میرا خیال تھا کہ جب سے خدا کی دنیا بنی ہے یہ زمین میرے دادا ہی کی ملکیت تھی۔
”میرے پاس ایک ایکڑ زمین بھی نہیں تھی جب میں نے اس گائوں میں قدم رکھا تھا۔ مسعود اس وقت اس سب کا مالک تھا۔ تاہم اب حیثیت بدل چکی ہے، اور میرا خیال ہے کہ اس سے پہلے کہ اللہ مجھے اپنے پاس بلائے میں اس سے باقی کا تیسرا حصہ بھی خرید لوں گا۔“
پتا نہیں کیوں میں نے اپنے دادا کے الفاظ سے خوف اور اپنے ہمسائے مسعود کے لئے ترس محسوس کیا۔ میرے دل میں خواہش آئی کہ میرے دادا نے جو کہا ہے وہ نہ کریں۔ مجھے مسعود کا گانا یاد آگیا، اس کی خوبصورت آواز اور جان دار ہنسی جیسے گرتے ہوئے پانی کی آواز۔ میرے دادا کبھی نہیں ہنسے تھے۔ میں نے اپنے دادا سے پوچھا کہ مسعود نے کیوں اپنی زمین بیچ دی؟
”عورتیں!“ اور جس طرح میرے دادا نے یہ لفظ ادا کیا مجھے محسوس ہوا کہ عورتیں کوئی خوفناک مخلوق ہیں۔
“میرے بچے! مسعود، کئی شادیاں کر چکا ہے۔ ہر دفعہ جب وہ شادی کرتا وہ مجھے ایک یا دو ایکڑ زمین بیچ دیتا۔“
میں نے فوراً حساب لگایا تو میرے اندازے کے مطابق مسعود نے کوئی نوے شادیاں کی ہوں گی۔ پھر میرے ذہن میں اس کی تین بیویاں آئیں، اس کے پھٹے پرانے کپڑے، خستہ حال کاٹھی والا لنگڑاگدھا، اور اس کی پھٹی ہوئی آستینوں والا جبہ آیا۔ میرے ذہن میں یہ سب چل رہا تھا اور میرا دماغ ان گتھم گتھا سوچوں سے اس وقت باہر آیا جب ایک آدمی کو اپنی طرف آتے دیکھا، میں نے اور دادا جان نے ایک دوسرے سے نظروں کا تبادلہ کیا۔
”آج ہم کھجور کی فصل اتار رہے ہیں۔ آپ آنا پسند کریں گے؟“ مسعود نے کہا۔
اگرچہ میں نے محسوس کیا کہ درحقیقت وہ یہ نہیں چاہتا کہ میرے دادا وہاں آئیں۔ تاہم، میرے دادا تیزی سے کھڑے ہوگئے اور میں نے ایک لمحے کے لئے ان کی آنکھوں میں چمک دیکھی کسی گہرے خیال کی چمک۔ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم مسعود کی کجھوروں کی کٹائی کے لیے چل دئیے۔
کوئی میرے دادا کے لئے بیل کی کھال منڈھا سٹول لے آیا ،جبکہ میں کھڑا رہا۔ وہاں کافی تعداد میں لوگ موجود تھے۔ میں چونکہ ان سب کو جانتا تھا ، میں نے محسوس کیا کہ میری نگاہوں کا مرکز صرف مسعود تھا جو اس بڑے ہجوم میں یوں الگ تھلگ کھڑا تھا جیسے اس کا اس سب سے کوئی تعلق نہ ہو، اس حقیقت کے باوجود کہ اکٹھی کی جانے والی کھجوروں کی فصل اس کی تھی۔
کبھی کبھی کھجوروں کا بڑا گچھا نیچے گرنے کی آواز پر وہ ادھر متوجہ ہوتا۔ ایک دفعہ وہ زور سے چلایا جب اس نے دیکھا کہ ایک لڑکا کھجور کی بہت اونچی شاخ پر بیٹھ کر تیز اور لمبی درانتی سختی سے چلا رہا ہے:
”احتیاط سے تم درخت کے دل کو نہ کاٹ دینا“۔ کسی نے اس پر کو ئی توجہ نہ دی کہ اس نے کیا کہا ہے اور لڑکا درخت کی اونچائی پربیٹھا رہا، بہت تیزی سے اور قوت سے درخت پر درانتی چلاتا رہا یہاں تک کہ کھجوروں کے گچھے نیچے گرنا شروع ہوگئے جیسے کہ جنت سے کچھ نیچے اتر رہا ہو۔ تاہم، میں نے مسعود کے جملے پر غور کیا ”درخت کا دل“۔ میں نے کھجور کے درخت کا تصور کیا جیسے کسی کے محسوسات ہوں،کسی کا ایک دل ہو جو دھڑکتا ہو۔
مجھے یاد ہے کہ مسعود کے الفاظ ، ایک دفعہ اس نے مجھے چھوٹے پام کے پودے کے ساتھ کھیلتے دیکھا تھا ،
”پام کے پودے، میرے بچے، انسانوں کی طرح ہوتے ہیں خوشی اور تکلیف کو محسوس کرتے ہیں“
میں نے اپنے اندر ایک بغیر وجہ کی شرمندگی محسوس کی تھی۔ جب میں نے دوبارہ اپنے سامنے پھیلی ہوئی زمین پر نظر ڈالی تو میں نے دیکھا کہ میرے ساتھی کھجور کے درختوں کی طرف ایسے بڑھ رہے تھے جیسے چیونٹیاں درخت کے تنے کے گرد لپٹی ہوتی ہیں۔
وہ کھجوریں اکٹھی کر رہے تھے اور ان میں سے زیادہ تر وہ کھا رہے تھے۔ کھجوریں اونچی ڈھیڑھیوں کی صورت میں اکٹھی کی گئی تھیں، میں نے دیکھا کہ لوگ آ رہے تھے اور ان کو ناپنے والے برتنوں میں ڈال کر اپنی بوریوں میں ڈالتے جا رہے تھے جو میں نے گنی تو تیس تھیں۔
لوگوں کا ہجوم ختم ہو چکا تھا۔ سوائے تاجر حسین کے ،موسیٰ کے جو ہمارے مشرق کی طرف کے کھیت کے ساتھ والے کھیت کا مالک تھا، اور دو اور آدمی جنہیں میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ تب میں نے ہلکی سیٹی کی آواز سنی اور دیکھا تو میرے دادا سو رہے تھے۔ پھر میں نے نوٹ کیا کہ مسعود اپنی جگہ پر ویسے ہی تھا سوائے اس کے کہ اس کے منہ میں ایک ڈنٹھل سا تھا جسے وہ اس طرح چبا رہا تھا کہ جیسے جی بھر جائے اور سمجھ نہ آئے کہ منہ میں موجود کھانے سے کیا کیا جائے۔
اچانک میرے دادا جاگ گئے اور اچھل کر اپنے قدموں پر کھڑے ہوگئے،اور کھجوروں کی بوریوں کی طرف بڑھنے لگے۔ تاجر حسین اور موسیٰ جس کا کھیت ہمارے کھیت کے ساتھ تھا ، اور دو اجنبی لوگ اس کے پیچھے چل رہے تھے۔ میں نے ایک نظر مسعود کو دیکھا تو انتہائی سست روی سے ہماری طرف آرہا تھا،
ایسے آدمی کی طرح جو پسپا ہونا چاہتا ہو لیکن اس کے قدم آگے بڑھنے پر مصر ہوں۔ وہ دائرے کی شکل میں کھجوروں کی بوریوں کے گرد کھڑے ہوکر کھجوروں کا معائنہ کرنے لگے،کچھ نے ایک دو کھجوریں اٹھا کر کھانا شروع کردیں۔ میرے دادا نے مٹھی بھر کر مجھے دیں اور میں بھی کھانے لگا۔
میں نے دیکھا کہ مسعود دونوں ہاتھوں سے مٹھیاں بھر کر کھجوریں ناک کے قریب لاتا اور سونگھ کر واپس بوریوں میں ڈال دیتا۔ پھر میں نے دیکھا کہ انہوں نے کھجوروں کی بوریاں آپس میں بانٹنا شروع کردیں۔ تاجر حسین نے دس بوریاں لیں،دونوں اجنبیوں نے پانچ پانچ بوریاں لیں ، موسیٰ جس کا کھیت ہمارے کھیت کے ساتھ مشرق کی جانب ہے، اس نے پانچ بوریاں لیں اور پانچ بوریاں میرے دادا نے لیں۔
کچھ نہ سمجھتے ہوئے میں نے مسعود کی طرف دیکھا اس کی آنکھیں دو چوہوں کی طرح تیزی سے دائیں بائیں گھوم رہی تھیں جو راستہ بھول گئے ہوں۔
”تم ابھی بھی میرے پچاس پائونڈ کے مقروض ہو“، میرے دادا نے مسعود سے کہا۔ ”ھم اس بارے میں بعد میں بات کریں گے“۔
حسین نے اپنے ماتحتوں کو بلایا جو اپنے ساتھ گدھے لے کر آئے۔ دو اجنبی لوگ اونٹ لیکر آگئے اور کھجوروں کے تھیلے ان پر رکھنے لگے، گدھوں میں سے ایک نے رینگنا شروع کر دیا جس پر اونٹوں نے منہ سے جھاگ نکالتے ہوئے باآواز بلند احتجاج کیا۔
میں نے خود کو مسعود کی طرف بڑھتے پایا،اور میں نے محسوس کیا کہ میرا ہاتھ اس کے لباس کا کنارہ چھونا چاہتا ہے۔ میں نے اس کے گلے سے ایک بیٹھی ھوئی آواز نکلتی سنی جیسے بھیڑ ذبح ہوتے وقت نکالتی ہے۔
کسی نامعلوم وجہ سے میں نے اپنے سینے میں درد کی ایک لہر اٹھتی محسوس کی۔ میں کچھ فاصلے پر بھاگ گیا۔ میرے پیچھے دادا کے پکارنے کی آواز آ رہی تھی، میں کچھ ہچکچایا، لیکن پھر بھاگنے لگا، اس لمحے میں نے محسوس کیا کہ میں ان سے نفرت کرتا ہوں۔ تیز قدموں سے چلتے ہوئے ،ایسے تھا کہ جیسے میں اپنے ساتھ ایک راز لے کر جا رہا ہوں جس سے میں نجات پانا چاہتا ہوں۔
میں دریا کے کنارے پہنچا، ببول کے درختوں کی پٹی کے پاس۔ پھر یہ جانے بغیر کہ کیوں میں نے انگلی اپنے گلے میں ڈال دی اور وہ کھجوریں اگل دیں جو میں نے کھائی تھیں۔