مزمل سہروردی۔۔۔۔۔۔
چیئرمین سینیٹ کی عدم اعتماد کی تحریک میں جو ہوا اس پر سب بات کر چکے ہیں۔کچھ کو اس کی توقع تھی کچھ کے لیے یہ حیران کن ہے۔ دونوں بڑی جماعتوں نے اپنے اندر بیٹھی کالی بھیڑوں کی تلاش کے لیے کمیٹیاں بنا دی ہیں۔
حکمران اتحاد کا موقف ہے کہ سینیٹرز نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا۔ لیکن میں اب سمجھتا ہوں کہ اگر یہی ہونا تھا تو سراج الحق نے ٹھیک فیصلہ کیا۔ اگر کھیل کا یہی انجام ہونا تھا تو جماعت اسلامی نے اس گندے کھیل سے دور رہ کر ٹھیک کیا ہے۔
ابتدائی طور پر اس دلیل میں وزن تھا کہ غیر جانبدار رہ کر جماعت اسلامی بالواسطہ طور پر صادق سنجرانی کی حمایت کر رہی ہے۔ لیکن ان سب سے میرا سوال ہے کہ اگر یہی ہونا تھا تو کیا غیر جانبداری ٹھیک فیصلہ نہیں تھا۔
جماعت اسلامی ایک مرتبہ پھر اس وقت مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ دوسرے دور امارت میں سراج الحق نے اپنی ٹیم بھی تبدیل کرلی ہے۔ اور اب وہ نئی ٹیم کے ساتھ نئی پالیسی کے ساتھ میدان میں ہیں۔ امیر العظیم پہلے دن سے اس بات کے قائل تھے کہ جماعت اسلامی کو اپنی شناخت ختم نہیں کرنی چاہیے۔
بلکہ اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے سیاست کرنی چاہیے تھی۔ اس لیے اب سراج الحق اور امیر العظیم مل کر جماعت اسلامی کی کھوئی ہوئی انفرادیت زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کی عدم اعتماد تحریک ان کے لیے بہترین موقع ثابت ہوا ہے۔ جماعت اسلامی نے دونوں فریقین سے دور رہ کر ثابت کیا ہے کہ وہ ان دونوں سے مختلف ہے۔
دوست جماعت اسلامی کے غیر جانبداری کے موقف پر تنقید کر رہے تھے۔ لیکن اب میرا سوال ہے کہ وہ جماعت اسلامی کے دو ووٹ ڈال بھی لیں تب بھی عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہی نظر آئے گی۔ البتہ اگر جماعت اسلامی اپوزیشن کو ووٹ دے دیتی ۔ تو آج جماعت اسلامی بھی مشکوک افراد اور جماعتوں کی لسٹ میں کھڑی ہوتی۔
اپوزیشن اور حکومت کے درمیان جو دنگل جاری ہے جماعت اسلامی خود کو اس سے دور رکھ کرٹھیک کر رہی ہے۔ شاید ایک وقت آئے جب لوگ جماعت اسلامی کی طرف متوجہ ہوجائیں اور سمجھیں اس وقت کی اپوزیشن سے تو جماعت اسلامی ہی بہتر ہے۔
لوگ سوال کر رہے تھے کہ ایک طرف تو جماعت اسلامی حکومت کے خلاف میدان میں ہے تو پھر اپوزیشن کے ساتھ کیوں نہیں مل جاتی۔ اگر جماعت اسلامی اپنی قوت بھی اپوزیشن کے پلڑے میں ڈال دے تو حکومت کے خلاف تحریک کو فائدہ ہو گا۔
الگ الگ تحریک چلانے سے کیا فائدہ ہوگا۔ ایک رائے یہ بھی تھی جو میں نے لکھی بھی جماعت اسلامی نے اپنی الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے۔ لیکن سینیٹ میں عدم اعتماد کی تحریک میں جو کچھ ہوا ہے اس نے ثابت کیا ہے کہ موجود صورتحال میں ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد ہی بہترین پالیسی ہے۔ اگر جماعت اسلامی بھی اس اپوزیشن کے ساتھ کھڑی ہوجائے گی تو وہ بھی آلودہ ہو جائے گی۔ جس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
جماعت اسلامی ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھی جاتی رہی ہے۔ لیکن سید منور حسن کے دور امارت میں یہ شراکت داری ٹوٹ گئی۔ بلکہ بات محاذ آرائی تک پہنچ گئی۔ جس کا جماعت اسلامی کو فائدہ تو نہیں بلکہ نقصان ہی نقصان ہوا۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اب صورتحال بدل رہی ہے۔
خود کو اپوزیشن سے الگ رکھ کر جماعت اسلامی اپوزیشن کا بہتر کردار ادا کر سکتی ہے۔ اور شاید وہ احتجاج جو باقی اپوزیشن کو کرنے کی اجازت نہیں مل رہی، جماعت اسلامی کر سکے گی۔ ویسے بھی باقی اپوزیشن نے اپنے اپنے ادوار میں جماعت اسلامی کے ساتھ کونسا اچھا سلوک کیا ہے جو آج اس کے عوض اچھے سلوک کا تقاضا کیا جا رہا ہے۔
سب نے جماعت اسلامی کو مٹانے کی بھر پور کوشش کی۔ اب اگر ایک کمزور سی جماعت اسلامی بچ گئی ہے تو یہ خدا کی قدرت ہی ہے۔ اس لیے میری رائے میں سینیٹ میں چیئرمین سینیٹ کے عدم اعتماد میں سیاسی صورتحال کو سمجھتے ہوئے بہترین فیصلہ کیا گیا۔ ایسی صورتحال میں غیرجانبداری ہی بہترین فیصلہ تھا۔
اس لیے ویلڈن جماعت اسلامی۔ ویلڈن سراج الحق۔