ابنِ فاضل۔۔۔۔۔۔۔
انیسویں صدی کی آخری سے پہلی دہائی کا وسط، امریکہ میں ایک دلیا بنانے والی صنعت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ کمپنی جئی (oat) سے دلیا تیار کرتی، جئی بہت زیادہ فوائد کی حامل غذا ہے. جس میں انسانی صحت کے لیے انتہائی ضروری نشاستہ، چکنائی، لحمیات، وٹامنز، نمکیات اور فائبر پایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہی جئی ہے جو ہمارے ہاں جانوروں بطور خاص گھوڑوں کی خوراک کےلیے مختص ہے۔ جئی کے دانوں پر چاول کی طرح مضبوط چھلکا ہوتا ہے جسے(oat hulls) کہا جاتا ہے۔
دلیا بہت بکا، اور جلد ہی کمپنی کے پاس بہت بڑی مقدار میں چھلکا اکٹھا ہو گیا۔ کمپنی کے ذمہ داران نے اس وقت کچھ سائنسدانوں سے مناسب مشاہرہ پر معاہدہ کیا اور یہ ہدف دیا کہ وہ دریافت کریں کہ اس چھلکے میں کیمیائی طور پر کوئی کارآمد شے ہے یا یہ صرف بطور ایندھن ہی استعمال ہوسکتا ہے۔ چند ماہ میں سائنسدانوں نے یہ پتہ چلا لیا کہ ایک ذرا سے کیمیائی عمل سے ان چھلکوں سے فرفیورال کشید کیا جاسکتا ہے۔
اگلے مرحلہ پر پھر اس کمپنی نے نیا ہدف مقرر کیا کہ اس فرفیورال سے کون کون سی مفید اشیاء بنائی جاسکتی ہیں۔ پھر کچھ ہی عرصہ میں سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے اس کیمیائی مرکب سے درجنوں کارآمد اشیاء بناڈالیں جن میں کاغذی ٹیپ کا گلو ،ڈھلائی سے لوہے کے پرزے بنانے میں استعمال کیا جانے والا ایک مرکب، رنگ سازی اور تعمیرات میں استعمال ہونے والے کیمیکلز شامل ہیں۔ غرض بہت جلد وہ کمپنی فرفیورال سے بنی اشیاء بنانے والی ایک بڑی کمپنی بن گئی جو آج بھی قائم ہے۔
عصر حاضر میں یہ فرفیورال اور بھی زیادہ کارآمد ثابت ہورہا ہے۔ موجودہ دور میں مندرجہ بالا اشیاء کے علاوہ پولی یوریتھین اور نائلون جیسی بیش قدر اور مفید اشیاء کے ساتھ ساتھ سینکڑوں قسم کی دیگر چیزیں بنتی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہی کیمیکل مکئی کے تُکوں، چاول کے چھلکوں، گنے کے پھوک اور کپاس کے ڈوڈھوں میں بھی موجود ہوتا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے ناتے لاکھوں ٹن یہ زرعی فضلہ پیدا کرتا ہے جس سے اربوں ڈالر مالیت کا ہزاروں ٹن سالانہ فرفیورال بنایا جاسکتا ہے۔
صرف رفحان میز ہی سینکڑوں ٹن مکئی کے تکے انتہائی سستے داموں بطور ایندھن فروخت کرتی ہے۔ اسی طرح درجنوں بڑی چھوٹی شوگر ملیں گنے کا پھوک اور چاول چھڑنے والے شیلر، چاولوں کی توہ فروخت کرتے ہیں لیکن افسوس اور حیرت کی بات یہ ہے۔
آج 2019 میں بھی کسی کے ذہن میں وہ بات نہیں آئی جو امریکیوں کے دماغ میں 1885 میں سمائی تھی۔ لگتا ہے یہی فرق ہے ہم میں اور باقی دنیا میں۔ نہ ہم غور کرتے ہیں نہ نئے رستے سوجھتے ہیں۔
اقبال نے قریب سو سال قبل یہ راہنمائی کی تھی:
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
یہ عین ممکن ہے کہ گنے کے پھوک سے فرفیورال کی کشید کے بعد چینی کا منافع ثانوی حیثیت اختیار کرے، بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ اگر ہم غور کرنا شروع کردیں اور ارد گرد موجود اشیاء کے متعلق علم حاصل کرنا شروع کردیں تو یقین کریں کہ ہم میں سے کوئی بھی بیکار نہ رہے۔
چاولوں کی پالش سے انتہائی کم لاگت کی دو چھوٹی مشینوں سے گھریلو سطح رائس بران آئل اور بران ویکس نکالی جاسکتی ہے۔ بران آئل بہت ہی عمدہ قسم کا کھانے کا تیل ہے جس کا پکنے کے دوران دھواں نہ ہونے کھ برابر ہوتا ہے۔ اس میں اومیگا 3 اور اومیگا 6 کی تعداد کسی بھی خوردنی تیل سے زیادہ ہے، اس کی مقامی منڈی میں قیمت 650 روپے کلو ہے جبکہ بران ویکس یا بران موم ، مہنگی درآمدہ کارنوبا موم کے نعم البدل کے طور پر پالشوں اور کاسمیٹکس میں استعمال کی جاسکتی ہے جس سے لاکھوں ڈالر کے زر مبادلہ کی بچت ہو گی۔
گذارش یہ ہے کہ مندرجہ بالا سب اشیاء کی پیداوار کے لئے کوئی بہت بڑے پلانٹس یا لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری درکار نہیں. ان سب کو ہمارے دیہات میں گھریلو صنعت کے طور پر اختیار کیا جاسکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پی سی ایس آئی آر یا پٹاک جیسے حکومت کے تحقیقاتی ادارے یا تو یہ مشینیں خود ڈیزائن کریں یا باہر سے منگوا کر ان کی ڈرائنگز بنا لیں یعنی ریورس انجینئرنگ اور مقامی قابل ہنر مند افراد میں تقسیم کریں تاکہ ملک میں بڑے پیمانے پر ایسی مشینوں کی تیاری شروع ہو جس سے ہزاروں لوگوں کو روزگار بھی ملے گا اور مقامی طور پر تیار ہونے کی وجہ سے مشین کی لاگت بھی کم ہوگی۔
پھر دیہات کے نوجوانوں کو ان کو استعمال کرنے کی تربیت دے کر انہیں کام پر لگا دیا جائے۔ حکومت نے نوجوانوں کے لئے کاروباری قرضوں کی سکیم کا پہلے سے اعلان کر رکھا ہے۔ ان قرضوں میں ان منصوبوں کو بھی شامل کیا جائے تاکہ ویلیو ایڈڈ نئی اشیاء کی پیداوار شروع ہو اور درآمدات میں کمی ہو.اور ملک اور ہم وطن خوشحال ہوں۔