بشریٰ نواز۔۔۔۔۔۔۔۔
اے سی کی ٹھنڈک بھی اسے سکون نہیں دے رہی تھی۔ وہ بے چینی سے بار بار موبائل کو اور ایک نظر ساتھ سو ئی ہوئی بیوی کو دیکھ رہا تھا ڈریم لائٹ کی روشنی میں۔ اس نے غور سے صبا کی طرف دیکھا اور آہستہ سے کمرے سے باہر نکلا۔ اس کے قدم سیڑھی کی طرف تھے۔ دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت نہیں پڑی، یہاں بھی ٹھنڈک تھی، ڈریم لائٹ تھی لیکن وہاں جو تھی اس کی بیوی نہیں تھی۔ صبا سوئی ہوئی نہیں تھی، جاگ رہی تھی۔
خرم اور اعظم دو ہی بھائی تھے، ماں باپ نے بہت شوق سے بیٹوں کی شادیاں کیں مگر ان کی مزید خوشیاں نہ دیکھ پائے۔ کار کے حادثے میں دونوں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ کاروبار تھا، گھر میں خوش حالی تھی۔ والد صاحب نے دونوں بھائیوں کو اپنی زندگی میں ذمہ داریاں تقسیم کر دی تھیں جنھیں ادا کرتے ہوئے وہ بزنس چلارہے تھے۔
اس بار اعظم کا کوئٹہ کا ٹور تھا، کام سے فراغت ہوئی تو سوچا بچوں کے لیے کچھ شاپنگ بھی کرلی جائے۔ وہ بازار میں داخل ہی ہوا کہ دھماکہ ہوا تھا، پھرایک خاک اور خون کا دریا تھا۔ کسی ظالم نے کتنے ہی گھر برباد کردیے، کتنے ہی بچے، کتنے شوہر موت کی آغوش میں چلے گے، خرم ٹی وی دیکھ رہا تھا جب اس نے یہ دل خراش خبرسنی۔
جلدی سے اعظم کا نمبر ملایا لیکن وہاں سے کوئی آواز نہ آئی، ہوٹل کال کی، وہاں سے جواب ملا۔ کہ اعظم صاحب اپنے کمرے میں نہیں ہیں۔ خرم،صبا، اعظم کی بیوی بانو بچے سب پریشان ہو گئے۔ خرم اسی وقت کوئٹہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ وہاں دل خراش مناظر کے سوا کچھ نہ تھا۔ دکھی و پریشان حال واپس آیا۔ بچوں، بانو اور خود پر ترس آرہا تھا، وہ کیسے ان سب کو تسلی دیتا، وہ تو خود غم سے چور چور تھا۔ کہاں سے ڈھونڈے ایسےبھائی کو، معصوم بچوں کے باپ کو۔
اس نے کوئٹہ مسلسل رابطہ رکھا ہوا تھا بالآخر ایک دن اس کی آخری امید بھی دم توڑ گئی۔ اسے کوئٹہ جانا پڑا، وہاں اعظم کی شہادت کا ثبوت مل گیا تھا، رشتے دار آئے، تعزیت کے بعد چلے گئے۔ بانو اور بچوں کو سنبھالنا بہت مشکل تھا، صبا بھی ان کا بہت خیال رکھ رہی تھی لیکن خرم جیسے ہی آفس سے آتا وہ بانو کو دلاسے تسلیاں دینا شروع کردیتا، یہ ہی دلاسے اور قربت ان کو بہت قریب لے آئے۔
خرم بانو اور اس کے بچوں کا خیال رکھتے رکھتے جیسے صبا اور اپنے بچوں کو بھولتا ہی جارہا تھا، صبا نے دبے دبے لفظوں میں احساس بھی دلایا لیکن جواب میں تھوڑی سی ڈانٹ اسے خاموش کردیتی، اسے مزید کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ ایسے میں تھوڑا سا اور گزر گیا، اب ان دونو ں کے ساتھ تیسرا شیطان بھی شامل ہوچکا تھا، رشتو ں کا تقدس پا مال ہورہا تھا۔
صبا بھی کوئی بچی نہیں تھی، سب سمجھ چکی تھی لیکن خود میں ہمت نہیں تھی کہ خرم سے کوئی سوال کرتی۔ دن رات جلتی کڑھتی، وہ چاہ کربھی بانو سے بات نہیں کرسکی۔ اس کا گھر خراب ہورہا تھا، اس کا شوہراس سے بہت دورجا چکا تھا۔ وہ سوچتی کہ ان دونوں کو اللہ سے بھی ڈر نہیں لگتا۔
وہ اللہ اور اس کے مجرم تھے لیکن وہ خود اللہ سے ڈر رہی تھی، خوف زدہ تھی، دل جیسے عجیب سی گھٹن کا شکار تھا، بہت کچھ کہنا چاہتی تھی، بلند آواز میں رونا چاہتی تھی مگر وہ ایسا کچھ نہیں کرسکتی تھی، بس جب وہ اسے سوتا سمجھ کے بانو کے کمرے کا رخ کرتا تو جیسے کوئی اس کے اندر بین کرتا، وہ تکیے میں منہ دے کے روتی اور خرم منہ اندھیرے واپس آ کے خاموشی سے سو جاتا، وہ یہی سمجھتا رہا کہ صبا بےخبر ہے۔
اب جیسے صبا کے اندر کا لاوا ابلنے لگا تھا، بس وہ ایک ان دیکھی آگ میں جل رہی تھی آج بھی۔ خرم بانو کے ساتھ ہی تھا، آج وہ بیٹھی ہوئی تھی، خرم جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا صبا پھٹ پڑی۔
آپ بہت بڑا گناہ کر رہے ہیں، اللہ سے نہیں ڈرتے، اس گناہ کی زد میں ہمارا گھر ہمارے بچے آ جائیں گے، خدا کے لیے اس شیطانی کھیل کو ختم کریں، اللہ سے معافی مانگیں۔ اللہ رحم۔ کرنے والا ہے وہ آپ کو معاف کر دے گا، اب جیسے وہ جیسے خرم سے بھیک مانگ رہی تھی لیکن آج اس کی برداشت کی آخری حد تھی ۔
"چھوڑ دیں بانو کو”،وہ ہکا بکا صبا کو دیکھ رہا تھا، بولا تو بس اتنا کہ "میں بانو کو نہیں چھوڑ سکتا” "نہیں چھوڑ سکتے؟” صبا بولی۔”نہیں” "تو پھر نکاح کرلو، خود کو اللہ کے عذاب سے بچا لو، اس کا عذاب سخت ہے” وہ بولی۔
” میں؟اور بانو سے نکاح کروں؟س دو ٹکے کی عورت سے؟ ایسی عورتیں نکاح کے لیے نہیں ہوتیں” "چلو! سو جائو، میں چھوڑ دوں گا” اور صبا سوچتی رہ گئی کہ بانو کو دو ٹکے کی عورت کس نے بنایا، وہ خود بنی یا ایک مرد نے!!!!
ایک تبصرہ برائے “دوٹکے کی عورت”
بہت زبردست لکھا .یہی مرد کا دوغلا پن ہے .