بھارتی آئین کی دفعہ35A کیا ہے؟ بی جے پی حکومت اسے کیوں ختم کرناچاہتی ہے؟ ختم ہوئی تو کیا ہوگا؟
دانش ارشاد۔۔۔۔۔۔
ریاست جموں وکشمیر میں اس وقت آئین کی دفعہ35A زیر بحث ہے۔ ہندوستان کے آئین میں موجود کشمیر سے متعلق اس آرٹیکل کو ختم کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ 15، اگست کے بعد ہندوستان میں حکمران جماعت بھاجپا (BJP) اس دفعہ کو ختم کرنے کیلئے لوک سبھا (پارلیمنٹ) میں بل پیش کرے گی یا جموں اور لداخ کو الگ ریاستوں کا درجہ دے کر براہ راست مرکز کے تحت لایا جائے گا جس سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہو جائے گی تب وہاں ہندوستان سے لوگوں کو لاکر فلسطین کی طرز پر بسایا جائے گا۔
بھارت کے ان ممکنہ فیصلوں پر وادی کشمیر میں متوقع مزاحمت اور احتجاج کو دبانے کیلئے پینتیس ہزار سے زائد نیم فوجی تعینات کیے گئے ہیں۔ ائیرفورس کو بھی الرٹ رہنے کا حکم نامہ سامنے آیا ہے اور وادی میں موجود مساجد کا ریکارڈ بھی جمع کیا گیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ محکمہ داخلہ کی جانب سے بیرون ریاست سے آئے سیاحوں اور یاتریوں کیلئے نوٹس جاری کیا گیا ہے کہ وہ جلد از جلد کشمیر سے واپس چلے جائیں۔ اس سے قبل کشمیر کی تحریک کود بانے کیلئے بھارت کی سات لاکھ سے زائد فوج کشمیر میں موجود ہے۔
سری نگر میں موجود صحافی طارق علی میر کے مطابق وادی کے ہر تھانے میں پولیس اور نیم فوجیوں (CRPF ) کی تعداد یکساں رکھی گئی ہے تاکہ ممکنہ مزاحمت روکنے کیلئے اقدامات کیے جا سکیں۔
دفعہ 35A ہے کیا؟
ہندوستان کے آئین کی دفعہ 370کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو آئین ہند میں خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے مطابق ریاست کا دفاع، امور خارجہ اور بیرون ملک سفر ہندوستان کے ذمہ ہے ۔ اس کے علاوہ ہندوستان ریاست جموں و کشمیر کے کسی آئینی معاملے کو چیلنج کرنے یا ریاست کے حوالے سے قانون سازی کا مجاز نہیں ہے۔
مذکورہ تین امور کے علاوہ آئین ہندوستان کے مطابق تمام دیگر امور دفعہ370کے تحت ہیں۔ اسی طرح دفعہ 35Aکے مطابق ریاست جموں کشمیر میں صرف ریاستی باشندے مستقل سکونت اختیار کرسکتے ہیں۔ غیر ریاستی باشندے جموں وکشمیر میں نہ تو جائیداد بنا سکتے ہیں ، نہ وہاں ووٹ دے سکتے ہیں اور نہ ہی روزگارحاصل کرسکتے ہیں۔ ووٹ ڈالنے، ریاست کے اندر روزگار حاصل کرنے اور مستقل سکونت کا حق صرف ریاست کے باشندوں کا ہے۔
دفعہ 35A در اصل اس قانون کی توثیق تھی جو ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے1927ءمیں کئی عوامل کی وجہ سے لاگوکیا تھا۔ جن میں ایک وجہ کشمیری پنڈتوں کا اس بات پر احتجاج تھا کہ سرکاری نوکریوں میں پنجابی اور دیگر غیر ریاستی باشندوں کا غلبہ ہوتا جارہا ہے جس سے پنڈتوں کی نمائندگی پر اثر پڑ رہا ہے۔
کشمیری مسلمان عموماً ان پڑھ اور سرکاری ملازمتوں میں برائے نام ہی تھے، اس لئے انھیںکوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ مشرقی پنجاب کے زمیندار، کشمیری لڑکیوں سے شادیاں کرکے زمینوں کے مالکانہ حقوق مانگتے تھے اور تیسری اہم وجہ مہاراجہ کا یہ خوف تھا کہ کہیں برطانوی افسران کشمیر میں مستقل رہائش اختیار نہ کر لیں، کیونکہ کشمیر اور انگلینڈ کا موسم خاصی حد تک مماثلت رکھتا تھا۔
یہ مقبوضہ کشمیر کی بھارتی آئین میں خصوصی حیثیت اور آئین کی دفعہ 35Aسے متعلق ہلکا سا تعارف ہے جس سے اصل صورت حال سمجھنے میں آسانی رہے گی۔
دفعہ 35A کے خلاف سازش کب کی گئی اور کیا موقف اختیارکیا گیا؟
تازہ ترین صورتحال کے مطابق 35A کو ختم کرنے کیلئے ہندوستان کی حکمران جماعت کی جانب سے پارلیمنٹ میں بل لا کر آئین میں ترمیم سے اس قانون کو ختم کرنے کی بازگشت ہے۔
اس سے قبل ہندوستان میں بھاجپا حکومت کے گزشتہ دور (2014-19) میں حکومت کے قیام کے دو ماہ بعد19اگست 2014ءکوہندو فرقہ پرست جماعت آر ایس ایس کے کشمیر کے حوالے سے بنائے گئے تھنک ٹینک ’جموں و کشمیر اسٹڈی سنٹر‘ دہلی نے ایک غیر سرکاری تنظیم "We the People” کو استعمال کرتے ہوئے ہندوستان کی سپریم کورٹ میں ریاست جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت اور شناخت (اسٹیٹ اسبجیکٹ رول)کو چیلنج کرنے کی لئے درخواست دائر کی تھی
جس میں تنظیم کی طرف سے موقف اپنایا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 35Aکی وجہ سے ہندوستان کے عوام کے حقوق غصب ہوتے ہیں۔ عوام میں غیر مساوی سلوک کیا گیا ، درخواست جمع کروانے والے جموں کشمیر اسٹڈی سنٹردہلی نے درخواست میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ اپنے سابق صدر کی غلطی کو سدھارنا چاہتے ہیں جو انہوں نے1954میں کی۔
درخواست گزار کے مطابق سابق صدر ہند نے ہندوستانی پارلیمنٹ کو اطلاع کیے بغیر ہی کشمیر کے متعلق تیار کیے گئے مسودے پر دستخط کر کے غلطی کی ہے ،اس لئے جموں کشمیر اسٹڈی سنٹر کی سفارش پر اس قانون 35Aکو کالعدم قرار دیا جائے۔ اس پر سپریم کورٹ نے ریاستی اور مرکزی حکومتوں کو نوٹسز بھی جاری کئے تھے ، جس پر ریاستی حکومت نے دفاع بھی کیا اور قانونی دلائل بھی دیے جبکہ دہلی نے نوٹس پر تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔
اس پر ہفت روزہ رہبر نے لکھا تھا کہ” مرکزی حکومت کے جواب نہ جمع کروانے سے محسوس ہوتا ہے کہ دہلی اس کیس میں پارٹی نہیں بننا چاہتی اور عدالت کو آزادی دی گئی کہ وہ یک طرفہ فیصلہ سنائے”۔ مذکورہ آئینی درخواست پر عدالت نے تاحال کوئی فیصلہ نہیں سنایا۔
اسی طرح 2015 ءمیں بی جے پی نے پی ڈی پی کی مدد سے جموں و کشمیر اسمبلی میں اتحادی بن کر خصوصی حیثیت کے خلاف سازشیں شروع کیں۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے کشمیر میں 2015ءمیں حکومت بنانے کیلئے بی جے پی سے اس شرط پر اتحاد ہوا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت آرٹیکل370 سے نہیں چھیڑے گی۔
تاہم در پردہ بی جے پی نے نہایت چالاکی سے اپنا کام کرتے ہوئے کشمیر اسمبلی سے جی ایس ٹی بل پاس کروایا جس سے کئی مقامی اور مالی اختیارات مرکز کو چلے گئے۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت کب اور کس طرح آئین ہند کا حصہ بنی؟
کشمیر کا آئین(آرٹیکل 370)14مئی 1954کو ہندوستان کے صدر کے آئین ہند پر دستخط سے بنا تھا۔1951ءکو بننے والی پہلی مقبوضہ کشمیر اسمبلی نے ہندوستان کے آئین کا کشمیر سے متعلق حصہ مرتب کیا تھا۔افتخار گیلانی لکھتے ہیں کہ”کشمیر کاآئین بھی ایک ایسی اسمبلی نے تیار کیا تھا جس کی حقیقت اور حیثیت کی قلعی خود اس وقت کے انٹیلی جنس سربراہ بی این ملک نے کھول دی۔
ان کے بقول ”ان امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کو مسترد کر دیا گیا جو حزب مخالف کا کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے تھے”۔ اس حقیقت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ الحاق کی دستاویز کی توثیق اور کشمیر کے آئین کی منظوری کو کوئی عوامی تائید حاصل نہیں تھی۔
پھر بھی جو قوانین بنے انھیں ختم کرنے کیلئے پچھلے69 برسوں میں بھارتی حکومتوں نے آرٹیکل 370 کو اس بری طرح سے مسخ کردیا کہ اس کا اصلی چہرہ اب نظر ہی نہیں آتا۔ کئی مواقع پر خود کشمیری لیڈروں نے اپنی عزت نفس کا خیال نہ کرتے ہوئے ان آئینی خلاف ورزیوں کے لئے راہ ہموار کی۔
افتخار گیلانی مزید لکھتے ہیں کہ”اگر ایک طرح سے کہا جائے کہ آئین کی اس شق نے کشمیریوں کو سیاسی گرداب سے بچنے کے لئے جوکپڑے فراہم کئے تھے، وہ سب اتر چکے ہیں اور اب صرف دفعہ35Aکی صورت میں ایک نیکر باقی ہے تو بے جا نہ ہو گا”۔اب فرقہ پرست عناصر اب اسی نیکر کو اتارنے، کشمیریوں کی عزت نیلام کرنے اور انھیں اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کروانے کے لئے ایک گھناﺅنا کھیل کھیل رہے ہیں، جس کے لئے پہلے عدالتی نظام کا سہارا لیا گیا اور اب پارلیمنٹ کا سہارا لیا جائے گا۔
اس دفعہ کو ختم کرنے کے کیا اثرات ہوں گے؟
جب یہ معاملہ عدالت گیا تو کانگریسی راہنما سیف الدین سوزنے کہا تھا کہ ”سپریم کورٹ کی طرف سے اس پٹیشن کو شنوائی کے لئے منظور کرنا ہی ان کے لئے باعث حیرت ہے اور آر ایس ایس کو بھی61 سال بعد یاد آئی کہ صدر ہندوستان سے غلطی ہوئی اور اس غلطی کو سدھارا جائے۔اگر یہ آرٹیکل ختم کردیا گیا تو اس کے نتائج دفعہ 370کے خاتمے سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے”۔
1948ءمیں جموں و کشمیر پر بھارتی حکومت نے ایک وائٹ پیپر جاری کیا تھا جس میں سردار پٹیل کا یہ بیان موجود ہے: ”الحاق کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت بھارت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اسے بالکل عارضی مانتی ہے جب تک کہ اس بارے میں ریاست کے لوگوں سے ان کی رائے نہیں معلوم کی جائے گی”۔
ایک بھارتی سیاستدان کے بقول جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکھرجی نے (جن کا نام آرٹیکل 370 کی مخالفت کرتے وقت بی جے پی اچھالتی ہے)نے اس کی مکمل حمایت کی تھی۔ کشمیر واحد ریاست تھی جس نے الحاق کے لئے اپنی شرائط پر حکومت سے مذاکرات کیے تھے۔ وہ بھارت میں ضم نہیں ہوئی تھی بلکہ اس نے الحاق کیا تھا، اس لیے ان کے مطابق آرٹیکل 370 دونوں کے درمیان ایک مقدس معاہدہ ہے جس کی کسی شق کو کوئی بھی فریق یک طرفہ ترمیم نہیں کر سکتا۔
ہفت روزہ رہبر اپنے مضمون میں دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے لکھتاتھا کہ ”اگرعدالت نے دفعہ 35A کو منسوخ کیاتو 50کے قریب دیگر صدارتی حکم نامے بھی جائیں گے جو غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر جاری کیے گئے اور اگر یہ سب گئے تو بات 1947کے الحاق تک پہنچ جائے گی جو دہلی کیلئے سنگین صورتحال ہو گی”۔
اس صورتحال کا ایک پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ اگر تقسیم کیے بغیر کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا جائے تو عارضی رشتہ ہونے کے باعث کشمیر کا ہندوستان سے تعلق ختم ہو جائے گا اور ہندوستان کو کشمیر چھوڑنا ہوگا۔
اب کیا ہونے جا رہا ہے؟
مقبوضہ کشمیر کے صحافی ریاض ملک کے مطابق چونکہ معاملہ عدالت میں ہے اس لئے صدارتی حکم نامہ لانا مشکل ہو گا۔جو معاملہ عدالت میں ہے وہ بھی ایک صدارتی حکم نامے کے خلاف ہے تو اس صدارتی حکم نامے کو ختم کرنے کیلئے ایک اور صدارتی حکم نامہ نہیں لایا جا سکتا بلکہ اس دفعہ کو ختم کرنے کیلئے راتوں رات عدالت سے فیصلہ کروایا جائے گا یا پھر پارلیمنٹ میں بل لا کر اس دفعہ میں ترمیم کی جائے گی یا ختم کیا جائے گا۔
کشمیر کے صحافیوں کے مطابق ہندوستان اس وقت تقسیم کشمیر کی راہ پر گامزن ہے ۔ وہ لداخ اور جموں کو الگ الگ ریاستوں کا درجہ دیکر براہ راست دہلی کے تحت کر دے گا اس طرح کشمیر کی خصوصی حیثیت خود بخود ختم ہو جائے گی اور پھر وادی میں ہندوستان سے لوگوں کو لا کر بسایا جائے گا اور کشمیر ایک اور فلسطین بن جائے گا۔
اس صورتحال پر ممکنہ مزاحمت کے حوالے سے افتخار گیلانی کا کہنا ہے کہ ہندوستان کشمیر کو مسلسل خوف کی حالت میں رکھنا چاہتا ہے۔ کسی بھی صورتحال میں کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا جائے گا اور کچھ لاشیں گریں گی اور پھر کچھ دن بعد سب بھول جائیں گے ۔
ایک بڑے حلقے میں یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ یہ سب کچھ مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف لے جا رہا ہے اور امریکی ثالثی سے اسے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔
موجودہ صورتحال اور سیاسی جماعتیں
موجودہ صورتحال میں کشمیر کی ہند نواز سیاسی جماعتوں کی جانب سے کافی ردعمل دیکھنے کو ملا اور فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی بات بھی کی تاہم دو روز قبل فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کی مودی سے ملاقات کے بعد خاموشی سامنے آئی ہے۔
حریت کانفرنس بالکل خاموش ہے، اس کی بڑی وجہ این آئی اے کا کریک ڈاﺅن اور یاسین ملک کی گرفتاری بتایا جا رہا ہے۔آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت تاحال اس معاملے پر مکمل خاموشی پائی جاتی ہے اس خاموشی کی کوئی بھی وجہ نظرنہیں آ رہی ہے۔ ابھی تک پاکستان کی جانب سے کچھ بیانات سامنے آئے ہیں تاہم پاکستان کی جانب سے یہ معاملہ عالمی سطح پر اٹھانے کی ضرورت ہے۔