پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی نے امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کو اسامہ بن لادن کی مخبری کی تھی۔
یادرہے کہ پاکستان سرکاری طور پر اب تک اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کی خبر سے انکار کرتارہاہے۔ عمران خان پاکستان کے وزیراعظم بننے کے بعد ان دنوں امریکا کے پہلے سرکاری دورے پر ہیں۔
عمران خان نے یہ انکشاف امریکی ٹی وی چینل ‘فاکس نیوز’ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ ’اگر آپ سی آئی اے سے پوچھیں تو آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ آئی ایس آئی نے ابتدا میں اسامہ کی موجودگی کا ٹیلی فونک لنک امریکہ کو فراہم کیا تھا۔‘
عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہم امریکہ کو اپنا اتحادی سمجھتے تھے اور یہ چاہتے تھے کہ ہم خود اسامہ بن لادن کو پکڑتے لیکن امریکہ نے ہماری سرزمین میں گھس کر ایک آدمی کو ہلاک کردیا۔‘
میزبان کے اس تبصرے پر کہ اسامہ کوئی عام آدمی نہیں تھے بلکہ لگ بھگ تین ہزار امریکی باشندوں کے قتل کے ذمہ دار تھے، عمران خان نے کہا کہ ’ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان کو اس جنگ کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
’ساتھ ہی آپ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ اس وقت پاکستان امریکہ کی جنگ لڑ رہا تھا اور اس واقعے کے بعد پاکستان کو شدید شرمندگی اٹھانی پڑی تھی۔‘
عمران خان نے انٹرویو میں یہ عندیہ بھی دیا کہ اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی میں امریکہ کی مبینہ طور پر مدد کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے رہائی کے بدلے امریکہ میں قید پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی پر بات ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ سے ان کی بات چیت میں تو ڈاکٹر شکیل آفریدی کا معاملہ زیرِ بحث نہیں آیا تاہم ’مستقبل قریب میں اس بارے میں مذاکرات ہو سکتے ہیں‘۔
عمران خان نے پروگرام ’سپیشل رپورٹ‘ کے اینکر بریٹ بیئر کو بتایا کہ ’یہ پاکستان میں یہ ایک بہت جذباتی مسئلہ ہے کیونکہ وہاں شکیل آفریدی کو امریکہ کا جاسوس سمجھتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو سنہ 2011 میں پشاور کی کارخانو مارکیٹ سے گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد انھیں شدت پسند تنظیم کے ساتھ تعلق رکھنے کے الزام میں اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ خیبر ایجنسی کی عدالت نے تین مقدمات میں 20 برس سے زیادہ قید کی سزا سنائی تھی۔
وہ اس وقت پنجاب کے شہر ساہیوال کی انتہائی سخت حفاظتی انتظامات والی جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں۔
ان کا تبادلہ جن خاتون یعنی عافیہ صدیقی سے کرنے کی بات کی جا رہی ہے انھیں سنہ 2008 میں امریکی فوج اور حکومت کے اہلکاروں پر افغانستان میں مبینہ طور قاتلانہ حملہ کرنے کے الزام میں امریکی عدالت نے 86 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان میں یرغمال بنائے گئے دو یا تین امریکی اور آسٹریلوی باشندوں کی بازیابی کے لیے بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں یقین ہے کہ ہم اس حوالے سے اگلے 48 گھنٹوں میں کوئی خوشخبری سنائیں گے۔‘
جوہری ہتھیاروں کی تخفیف
اس سوال پر کہ اگر انڈیا اپنے جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کی ہامی بھرتا ہے تو کیا پاکستان بھی تخفیف پر رضامند ہو جائے گا، عمران خان نے کہا: ’ہاں! جوہری جنگ کسی تنازع کا حل نہیں ہے بلکہ یہ تو اپنے آپ کو تباہ کرنے کے مترادف ہے کیونکہ انڈیا کے ساتھ ہماری ڈھائی ہزار کلومیٹر کی سرحد ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک اعشاریہ تین ارب لوگوں کے سلامتی اور امن کا سوال ہے۔‘
یاد رہے کے پاکستان اور انڈیا کے درمیان فروری میں کشیدگی کے باعث دونوں ممالک کے جوہری پروگراموں پر اقوامِ عالم نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔
اینکر نے جب عمران خان سے پوچھا کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار کتنے محفوظ ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ "کسی کو بھی پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے”۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس دنیا کی سب سے بہترین پیشہ وارانہ فوج ہے اور ان جوہری ہتھیاروں کا کمانڈ اور کنٹرول بھی جامع اور جدید ہے اور امریکہ کو یہ سب معلوم ہے۔‘
’ایران میں امن کے قیام کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے‘
ایران میں حالیہ کشیدگی اور مبینہ جوہری خلاف ورزیوں کے بارے میں عمران خان نے کہا کہ وہ ایران کے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتے البتہ ’ایران کے ہمسائے کی حیثیت سے ہم چاہیں گے کہ یہ تنازع ایک جنگ کی شکل اختیار نہ کرے۔‘
انھوں نے کہا کہ ہم اپنے تجربے کی بدولت یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’ایران میں جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہے کیونکہ نہ صرف ہمسائے کی حیثیت سے ہم اس سے متاثر ہوں گے بلکہ تیل کی قیمتوں پر بھی اس کا برا اثر پڑے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم ایران میں امن کے قیام کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے۔‘
’افغان امن عمل‘
عمران خان کا حالیہ افغان امن مذاکرات کے بارے میں کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات اب تک سب سے زیادہ مفید رہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ امریکہ کو طالبان سے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا کیونکہ افغان طالبان ایک مقامی گروہ ہے جو افغانستان سے باہر کوئی حملہ نہیں کرنا چاہیں گے اور ’میرے خیال میں افغان حکومت کا طالبان کے ساتھ مشترکہ حکومت کا قیام امریکہ اور پورے خطے کی سلامتی کے لیے اچھا رہے گا۔‘
ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اس حوالے سے خطرہ یہ ہے کہ اگر ہم کوئی امن معاہدہ نہیں کر پاتے تو دولتِ اسلامیہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے مسئلہ بن سکتی ہے۔‘