فاطمہ قمر۔۔۔۔۔۔
وقت بھی کیا ظالم چیز ہے, جب گزرتا ہے تو احساس تک نہیں ہوتا، پر لگا کر اڑتا چلا جاتا ہے۔ دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدل جاتے ہیں۔ یونیورسٹی کا سمسٹر ختم ہوئے تقریباً ڈیڑھ ماہ سے زائد ہو گیا ہے اور ابھی تک کچھ خاص نہ کرسکی۔ چھٹیوں کی پلاننگ دھری کی دھری رہ گئی۔ سوچا تھا کہ پڑھائی اور امتحانات سے ذرا فراغت ملے گی تو کچھ اچھا اچھا مطالعہ کرکے اپنی تحریر کو پختہ کرنے کی کوشش کروں گی لیکن پہلےمرحلے پر ہی اس قادر مطلق کے آگے ہار گئی جب مقابلہ مضمون نویسی کے لیے مضمون لکھنے کی غرض سے قلم اٹھایا اور الفاظ نے میرا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔
اس قسم کی صورتحال سے میرا پہلی دفعہ واسطہ پڑا تھا۔ بارہا کوشش کی لکھنے کی لیکن بے سود۔ کچھ غور و فکر کرنے پر جو بات سمجھ میں آئی اسے ذہن نے تسلیم کرنے سے انکار دیا۔ رائٹرز بلاک!!!
یہ ناممکن ہے، میں کون سا بہت بڑی رائٹر ہوں جو اس طرح رائٹر بلاک کا شکار ہو سکتی ہوں۔ دور کہیں اندر سے آواز آئی لیکن رائٹر تو ہو ناں۔ اس لمحے شدت سے رب تعالیٰ کی عطا کردہ اس صلاحیت کا احساس ہوا۔ اپنی فیس بک پروفائل پر افشاں نوید کو پڑھنا اور پڑھتے رہنا، مخلتف کالمز اور کتابیں پڑھنا، کچھ بھی فائدہ مند ثابت نہ ہوا۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ اس کیفیت کا شکار رہنے کے بعد آج جب قلم اٹھایا تو الحمد للہ روانی سے لکھتی چلی گئی۔
اب احساس ہو رہا ہے کہ اس قادر مطلق کی رضا کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے اور ‘رائٹرز بلاک’ کے دوران متضاد کیفیات کا شکار رہنے کے بعد مجھ پر آشکار ہوا کہ یہ صلاحیت اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔
جب ہم کسی نعمت کی قدر نہیں کرتے تو اس سے محروم کردئیے جاتے ہیں۔ ‘رائٹرز بلاک’ میں بھی اللہ تعالیٰ اس نعمت کو عارضی طور پر چھین کر ہمیں یہ احساس دلانا چاہتے ہیں کہ لَإِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيْدَنَّكُمْ……
خیر! آج اپنی استاد تیمیہ صبیحہ, افشاں نوید اور نصرت یوسف کی تحاریر نے میرے اندر بجلی سی بھر دی ۔ میں نے اپنی ہر مصروفیت کو پس پشت ڈال کر اپنے رائٹرز بلاک کا امتحان لینا چاہا کہ آیا ختم ہوا یا نہیں۔ جب یہ تحریر تخلیق کر چکی تو جو خوشی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔
اب اگلی تحریر کے لیے ایک پلاٹ ذہن میں آیا ہے جو کہ فکشن پر مبنی ہے۔ آج کل فکشن پڑھ پڑھ کر ذہن ویسے بھی فکشن لکھنے کی طرف مائل ہو رہا ہے۔ اس لئے انتظار کیجئے اور دیکھئے کہ ایک نان فکشن رائٹر کی فکشن پر مبنی تحریر کیسی ہوگی؟؟؟